ناول اداس نسلیں کا فکری جائزہ | PDF: اداس نسلیں عبد اللہ حسین کا ایک تاریخی ناول ہے جو ۱۹۶۳ء میں شائع ہوا۔ اس ناول میں عبد اللہ حسین نے طبقاتی کشمکش ، دیہاتی زندگی، جاگیر دارانہ نظام، معاشرتی مسائل، جنگ عظیم کے حالات و واقعات اور ان کے اثرات اور زوال معاشرے کی عکاسی بہترین انداز میں کی ہے۔
ناول اداس نسلیں فکری لحاظ سے دیکھا جائے تو اس میں انتہائی فکر انگیز حالات و واقعات اور اثرات پیش کئے گئے ہیں۔ مندرجہ ذیل میں ناول اداس نسلیں کا فکری جائزہ پیش کیا گیا ہے :
- یہ بھی پڑھیں: ناول اداس نسلیں کا فنی جائزہ | PDF

ناول اداس نسلیں کا فکری جائزہ
عبداللہ حسین کا ناول اداس نسلیں بیک وقت ایک سیاسی، سماجی، معاشرتی، نفسیاتی اور تاریخی ناول ہے۔ اس میں معاشرتی اور انتہائی فکر انگیز حالات و واقعات کو بیان کیا گیا ہے۔ سماجی حقائق کے ساتھ ساتھ معاشرے اور سماج میں رہنے والی نسلوں کے جذبات اور نفسیات کو بھی بڑی گہرائی سے پیش کیا گیا ہے۔ ناول اداس نسلیں میں عبداللہ حسین نے جن موضوعات کو اجاگر کیا ہے، وہ درج ذیل ہیں:
- جنگ عظیم کے اثرات
- جاگیر دارانہ نظام
- طبقاتی کشمکش
- زوال پزیر معاشرے کی عکاسی
- معاشرتی مسائل
جنگ عظیم کے اثرات
اس ناول میں عبداللہ حسین نے دیہاتی زندگی اور جاگیردارانہ ماحول کو موضوع بنایا ہے۔ انہوں نے اس بات کو اجاگر کیا ہے کہ جنگ عظیم نے لوگوں کی زندگیوں پر گہرے اثرات ڈالے۔ ایک طرف یہ جنگ ہندوستان میں سیاسی بیداری کا سبب بنی، تو دوسری طرف ہزاروں ہندوستانی فوجی اس جنگ میں اپنی جانیں گنوا بیٹھے، اور ان کے پیچھے خاندان تباہی و بربادی کا شکار ہو گئے۔ عبداللہ حسین نے ان تمام واقعات کو نہایت مہارت سے اپنے ناول میں پیش کیا ہے، جو اس دور کے حالات کی عکاسی کرتے ہیں۔
جاگیرداری کا نظام
1857ء کے بعد ہندوستان میں مفاد پرست جاگیرداروں کا نظام وجود میں آیا۔ روشن علی آغا جیسے مفاد پرست لوگ انگریزوں کی جان بچا کر بدلے میں جاگیر لیتے ہیں اور عام کلرک سے جاگیر دار بن جاتے ہیں اور ملک و قوم کے ساتھ غداری کرتے ہیں۔
طبقاتی کشمکش
عبداللہ حسین نے اداس نسلیں میں طبقاتی ناہمواریوں کو نہایت گہرائی سے بیان کیا ہے۔ ایک طرف غریب کسان ہے جو ساری زندگی محنت و مشقت کرتا ہے، لیکن نہ اسے دن کا سکون نصیب ہوتا ہے اور نہ رات کا چین۔ دوسری طرف امیر اور جاگیردار طبقہ ہے جو غریبوں کو اپنی مرضی کے مطابق، بھیڑ بکریوں کی طرح، جدھر چاہے ہانک دیتا ہے۔
ناول میں ایک منظر پیش کیا گیا ہے جہاں انگریز ہندوستانی کسانوں کو فصل کٹائی کے دنوں میں زبردستی جانوروں کی طرح باندھ کر افریقہ اور فرانس کے محاذوں پر لے جاتے ہیں۔ ان کسانوں کے پیچھے ان کے بیوی بچے تباہ و برباد ہو جاتے ہیں۔ یہ منظر ناول میں طبقاتی ظلم و استحصال کی ایک زندہ تصویر پیش کرتا ہے۔
زوال پزیز معاشرے کی عکاسی
ناول نگار نے زوال پذیر معاشرے کی عکاسی روشن محل کے افراد کی صورت میں کی ہے جو انگریزوں کے انعامات کو نسل در نسل منتقل کرنے کے لیے محفلیں منعقد کرتے ہیں۔ اور یہی جاگیر دار کسانوں پر ٹیکس لگاتے ہیں۔ ان کا استحصال کرتے ہیں۔ محور آرام اور عیش و عشرت کی زندگی گزارتے ہیں ۔ان لوگوں کا ملک و قوم کے ساتھ کوئی لگاؤ نہیں ہوتا۔(4)
معاشرتی مسائل
اس ناول میں معاشرتی مسائل کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ اس ناول میں کارخانوں کی زندگی، صنعتی دنیا کے مسائل ، مزدوروں کی مشکلات، ہڑتالوں وغیر ہ کو علی کے کردار کے ذریعے اجاگر کیا گیا ہے۔

ناول کا موضوع
اداس نسلیں کا موضوع برطانوی ہندوستان ہے۔ یہ ناول اپنے اندر ایک پورے عہد کی تاریخ کو سموئے ہوئے ہے۔ ناول کے واقعات کا آغاز 1857ء کی جنگ آزادی سے ہوتا ہے اور اس کا اختتام قیام پاکستان پر ہوتا ہے۔
اس ناول میں 1857ء کی جنگ آزادی، جاگیردارانہ ذہنیت کا پھیلاؤ، کانگریس کی سیاست، آل انڈیا مسلم لیگ کی جدوجہد، قتل عام، مسلم تشخص کا احساس، دوسری جنگ عظیم اور اس کے ہندوستان پر اثرات، ہندوستان میں آزادی کی جدوجہد، تقسیم ہند کے فسادات، اور قیام پاکستان کے واقعات کو خاص طور پر اجاگر کیا گیا ہے۔ یہ ناول ان تمام تاریخی حقائق اور حالات کی ایک جامع اور دلکش عکاسی پیش کرتا ہے۔(2)
یہ ایک تاریخی ناول تھا جو آج بھی زندہ ہے اور کتنی ہی نسلیں اس کو پڑھ چکی ہیں۔ بقول عبد اللہ حسین کے ، کہ جب سے اداس نسلیں، لکھی گئی اس وقت سے اس کتاب کی خوش قسمتی اور ہماری بد قسمتی ہے کہ ہر نسل اداس سے اداس تر ہوتی جا رہی ہے۔
جب یہ ناول لکھا گیا تو اس کے مصنف دور داؤد خیل کی ایک سیمنٹ فیکٹری میں بطور کیمسٹ کام کرتے تھے۔ نام ابھی عبداللہ حسین نہیں ہوا تھا بلکہ محمد خان تھا۔ آٹھ گھنٹے کام کرتے تھے اور آٹھ گھنٹے سوتے تھے ، باقی کے آٹھ گھنٹوں میں وہاں کچھ کرنے کو نہیں تھا تو سوچا کہ محبت کی ایک کہانی لکھتے ہیں۔ عبد اللہ حسین اس دور کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک دن تنگ آکر میں نے قلم اٹھایا اور ایک لوسٹوری لکھنا شروع کر دی۔
اس کے بعد آگے چل کے اس کی شکل ہی بدل گئی۔ پھر میں نے یہ سوچا کہ اب اس کا کچھ نہ کچھ کرنا چاہیے کیونکہ یہ تو مصیبت ہی پڑ گئی ہے۔ اس کا تو کینوس بہت پھیل گیا ہے اور یہ میرے ہاتھ سے ہی نکل گئی ہے۔ میرا خیال تھا چھوٹا سا کینوس ہو گا ،دو تین سو صفحے کی کتاب بن جائے گی۔ پھر میں نے فیصلہ کیا کہ اب چونکہ اس کو شروع کر دیا ہے تو اسے چلتے رہنا چاہیے۔
عبد اللہ حسین نے بتایا کہ اس وقت میرے ذہن میں ایک لوسٹوری تھی، جس میں ایک نواب کی بیٹی ہوتی ہے، اسے کسان کے بیٹے سے محبت ہو جاتی ہے۔ وہ پورے خاندان کے ساتھ جنگ کرتی ہے۔
ان دنوں ایسا نہیں ہوتا تھا کہ کسی کسان کے بیٹے سے نواب کی بیٹی کی شادی ہو سکے ۔ ایک بڑی جنگ ہوتی ہے اور بالآخر شادی ہو جاتی ہے۔ میرا خیال تھا کہ اس سے بڑی محبت کی کہانی نہیں ہو سکتی۔ “عبداللہ حسین کے مطابق وہ آگے لکھتے گئے اور اس کی شکل کچھ اور بنتی گئی۔ ایک مقام پر وہ آکر رک گئے اور سوچا کہ یہ بلا تو ان کے گلے پڑ گئی ہے ، وہ تو ایک چھوٹی کہانی لکھنے والے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں سوچتا ر ہا بالآخر اس نتیجے پر پہنچا کہ اب اس کو انجام تک پہنچانا ان کا فرض بنتا ہے۔
عبداللہ حسین کہتے ہیں کہ جیسے کہانی آگے بڑھتی گئی اس میں تاریخ آگئی اور مجھے بر صغیر سے انگریزوں سے چھٹکارے کی تاریخ میں جانا پڑا۔
- یہ بھی پڑھیں: شکیب جلالی کی شاعری کی خصوصیات | PDF
جب کہانی میں پہلی جنگ عظیم کا تذکرہ آیا تو عبداللہ حسین کو بھارت کا سفر کرنا پڑا۔ عبداللہ حسین نے اعتراف کیا کہ وہ انگریزی پڑھتے تھے اور اردو زبان سے ناواقف تھے۔ ان کے والد نے ایک مرتبہ کہا کہ اگر تم انگریزی نہیں پڑھو گے تو ریلوے اسٹیشن پر جو لمبی نیکر پہن کر چائے بیچتے ہیں، تم بھی وہی کام کرو گے۔ عبداللہ حسین نے کہا کہ انہیں چائے بیچنے میں کوئی مسئلہ نہیں تھا، لیکن میلی کچیلی نیکر پہننے کا خوف انہیں ہمیشہ ستاتا تھا۔ اسی خوف کے تحت وہ انگریزی پڑھتے رہے۔(1)
پہلی جنگ عظیم کی کہانی، آزادی کے خواب دیکھنے والوں کے قصے، بٹوارے کی المناک داستان، اور سب سے بڑھ کر محبت کی داستان پر مبنی اداس نسلیں کے بارے میں پاکستان کے مقبول ترین مصنف مستنصر حسین تارڑ کا کہنا ہے کہ یہ پہلا پاکستانی ناول ہے۔
“میں نے اداس نسلیں اس وقت پڑھنا شروع کیا جب میں نے لکھنا شروع نہیں کیا تھا۔ کیونکہ میں اس وقت قاری تھا۔ تب بھی مجھے یہ محسوس ہوا کہ شاید اسے پہلا پاکستانی ناول کہنا چاہیے۔ حالانکہ اس سے پیشتر آگ کا دریا لکھا جا چکا تھا، عزیز احمد کے ناول تھے ، بیدی صاحب وغیرہ وغیرہ ۔لیکن ان میں زیادہ تر ہماری مشتر کہ وراثت تھی اور ان میں بر صغیر کی جھلکیاں تھیں۔ ”(6)
اس کے دوسری طرف مستنصر حسین تارڑ کے مطابق اداس نسلیں میں سارے کا سارا پس منظر پنجاب کا ہے۔ یہ پہلا ناول تھا جو اپنے ماحول کے حوالے سے تھا۔
مزید پڑھیں:
Notes: The password is hidden within this article. Read the entire article thoroughly, find the password, and enter it in the password field.
