مجید امجد کی شاعری کی خصوصیات | PDF

مجید امجد کی شاعری کی خصوصیات: اردو نظم کا ارتقائی سفر نظیر اکبر آبادی سے شروع ہو کر حلقۂ اربابِ ذوق تک مختلف مراحل سے گزرا، مگر اس کو حقیقی عروج میرا جی، راشد اور مجید امجد جیسے شاعروں کی بدولت حاصل ہوا۔

ان شعرا نے نظم کو موضوعاتی اور ہیئتی سطح پر نئے تجربات سے روشناس کرایا اور یوں اردو نظم کے دامن کو وسعت دی۔ خصوصاً آزاد نظم کی جو ترقی یافتہ شکل ہمیں آج نظر آتی ہے، اس کی بنیاد رکھنے میں مجید امجد کا کردار نہایت اہم ہے۔

مجید امجد: مختصر تعارف

مجید امجد 29 جون 1914ء کو جھنگ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد میاں علی محمد کی دوسری شادی ان کے بچپن ہی میں ہو گئی تھی، جس کی وجہ سے ان کی والدہ انہیں ساتھ لے کر اپنے والد کے گھر آگئیں۔ یوں، بچپن ہی سے مجید امجد کی زندگی آزمائشوں اور محرومیوں کا شکار رہی۔ ابتدائی تعلیم ان کے نانا کے زیرِ سایہ ہوئی، جہاں انہوں نے عربی اور فارسی کی بنیادی تعلیم حاصل کی۔

والد کی دوسری شادی نے انہیں جذباتی طور پر سخت متاثر کیا اور وہ والد کی شفقت سے عملی طور پر محروم ہو گئے۔ اسی محرومی کے سائے میں جب ان کی کم عمری میں ہی ماموں کی بیٹی سے شادی کر دی گئی تو یہ رشتہ ناکام ثابت ہوا۔ بعد ازاں، انہوں نے بھی دوسری شادی کی، مگر زندگی کے تلخ حقائق نے ان کے دل میں ایک مستقل اداسی اور تنہائی کو جگہ دے دی۔

بعض ناقدین نے مجید امجد کو “اداسیوں کا شاعر” قرار دیا ہے، اور اس کی وجوہات ان کی ذاتی زندگی کے تلخ تجربات میں پوشیدہ ہیں۔ بچپن سے والد کی شفقت سے محرومی، پہلی شادی کی ناکامی، اولاد نہ ہونے کا دکھ، اور زندگی میں مسلسل آزمائشوں نے انہیں شدید مایوسی میں مبتلا رکھا۔ اس کے ساتھ ساتھ، دنیاوی تعلقات میں بے وفائی، انسانوں کے مکارانہ رویے اور معاشرتی تضادات نے بھی ان کے حساس دل کو زخمی کیا۔

ان کے کلام میں محرومی، تنہائی، اور غم کی گہری پرچھائیاں نمایاں نظر آتی ہیں۔ وہ نہ صرف اپنی ذات کے غم سے آشنا تھے بلکہ زمانے کے دکھوں کو بھی اپنی شاعری میں سمو دیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں “فکرِ خود سوز” کا ایک منفرد رنگ نمایاں ہے، جو قاری کو گہرے غور و فکر پر مجبور کر دیتا ہے۔

مجید امجد کی شاعری کی خصوصیات
مجید امجد کی نظم نگاری یا شاعری کی خصوصیات

مجید امجد کی شاعری کی خصوصیات

  • مجید امجد اداسیوں کاشاعر
  • مایوسی
  • تنہائی کا احساس
  • مجید امجد حیرت کا شاعر
  • تلاش و جستجو
  • مجید امجد ایک پرامید شاعر
  • موسیقیت
  • زندگی کے تجربات کی عکاسی
  • ہیئت کے تجربے

مجید امجد: اداسیوں کا شاعر

فرخ درانی کے بقول:

“مجید امجد انسان کے ازلی اور آفاقی دکھوں کا شاعر ہے۔ وہ بچھڑے دلوں، پرانی برساتوں اور تنہا چاندنیوں کا شاعر ہے۔ زوال اور تنہائی کا جان لیوا احساس مجید کی شاعری کا بنیادی اور مرکزی نقطہ ہے۔”

مجید امجد کی شاعری کا سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ وہ عام روزمرہ کی زندگی میں اپنی محرومیوں اور اداسیوں کا عکس تلاش کرتے ہیں۔ ان کی نظمیں جذبات کی گہرائی میں ڈوبی ہوئی ہیں، جو قاری کے دل پر براہِ راست اثر کرتی ہیں اور اسے اپنے ساتھ بہا لے جاتی ہیں۔ وہ احساسات اور جذبات کے شاعر ہیں، جن کی شاعری میں انسان کی تنہائی، اداسی، بے چارگی اور بے بسی کی تصویر بارہا ابھرتی ہے۔

ان کے اشعار میں ہر لمحہ ایک گہرے دکھ اور تنہائی کا شدید اظہار ملتا ہے۔ وہ اپنی ذات کے غموں کو کائنات کے وسیع تناظر میں دیکھتے ہیں اور انسانی زندگی کے المیے کو اپنی شاعری کا موضوع بناتے ہیں۔ ان کے اشعار محض ایک فرد کی اداسی کی کہانی نہیں سناتے، بلکہ وہ ایک اجتماعی دکھ اور ازلی محرومی کی ترجمانی کرتے ہیں، جو ہر حساس دل کو محسوس ہوتی ہے۔

یہ محلوں یہ تختوں یہ تاجوں کی دنیا
گناہوں میں لتھڑے رواجوں کی دنیا
محبت کے دشمن سماجوں کی دنیا
یہاں پر کلی دل کی کھلتی نہیں ہے
کوئی چِق دریچوں کی ہلتی نہیں ہے
میرے عشق کو بھیک ملتی نہیں ہے

مایوسی ہی مایوسی

مجید امجد کی شاعری کو پڑھ کر قاری کے دل میں یہ احساس بیدار ہوتا ہے کہ وہ اس دنیا اور اس کی محفلوں سے بالکل مایوس ہو چکے تھے۔ وہ انسانوں کی موجودہ زندگی اور اس کے تلخ حقائق کا سامنا نہیں کرنا چاہتے تھے۔ وہ دنیا کے رائج نظام سے مطمئن نہ تھے، بلکہ اس میں ایسی تبدیلی کے خواہاں تھے جہاں انسان کے دل کو حقیقی خوشی، سکون اور آرام میسر آ سکے۔

ان کے اشعار میں ایک گہری بے اطمینانی اور اضطراب نظر آتا ہے۔ وہ اس دنیا کو ایک ایسے زاویے سے دیکھتے ہیں جو عام نظروں سے اوجھل رہتا ہے۔ وہ ایک نئی دنیا کا خواب دیکھتے ہیں، ایک ایسا جہاں جہاں دکھ اور مایوسی کی جگہ روشنی اور امید ہو۔ ان کے خیالات کا عکس ان کے اشعار میں یوں جھلکتا ہے:

یہاں آپ کا مطلوبہ کوڈ ہے جس میں یہ شعر شامل کر دیا گیا ہے:

اگر میں خدا اس زمانے کا ہوتا
تو عنوان کچھ اور اس فسانے کا ہوتا
عجب لطف دنیا میں آنے کا ہوتا

یہ اشعار ان کی گہری فکری کشمکش اور دنیا کے نظام سے ان کے عدم اطمینان کی علامت ہیں۔ وہ نہ صرف اس دنیا کے حالات سے مایوس تھے، بلکہ وہ ایک بہتر، خوش حال اور متوازن دنیا کا خواب بھی دیکھتے تھے۔

تنہائی کا احساس

مجید امجد کی شاعری میں قدم قدم پر تنہائی کے گہرے نقوش نظر آتے ہیں۔ ان کی تنہائی محض ذاتی محرومیوں، ناکامیوں اور نامرادیوں کا شاخسانہ نہیں بلکہ یہ زندگی کی بے ثباتی، عالم اشیا کی بے یقینی اور انسانی وجود کی بے مصرفی کے احساس سے بھی جنم لیتی ہے۔

ان کے اشعار میں تنہائی کا یہ کرب کچھ یوں جھلکتا ہے:

دل نے ایک ایک دکھ سہا تنہا
انجمن انجمن رہا تنہا
ڈھلتے سایوں میں تیرے کوچے سے
کوئی گزرا ہے بارہا تنہا

جب انسان کے پاس کوئی ایسا ساتھی نہ ہو جو اس کے غموں کا مداوا کرے، کوئی ایسا غمگسار نہ ہو جو اس کے دکھوں میں شریک ہو، تو وہ ایک ایسے خلا میں کھو جاتا ہے جہاں تنہائی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ زندگی کی بے مروتی اور دوستوں کے بے وفا رویے انسان کو اس حال تک پہنچا دیتے ہیں کہ وہ اپنی ذات کے حصار میں قید ہو کر رہ جاتا ہے۔

مجید امجد کی زندگی بھی اسی احساس کا عکس تھی۔ وہ دنیا کی بھیڑ میں ہوتے ہوئے بھی ایک گہری تنہائی کا شکار رہے۔ زندگی کے بے مقصد سفر پر رواں دواں، اپنے اندر کے زخموں کو چھپائے، وہ خود بھی نہیں جانتے تھے کہ ان کا راستہ کہاں جا رہا ہے:

میں سینے میں داغوں کے دیپک جلائے
میں اشکوں کے تاروں کے پربت اٹھائے
خیالوں میں غموں کی دنیا بسائے
رہِ زیست میں بے خبر جا رہا ہوں
کہاں جا رہا ہوں، کدھر جا رہا ہوں
نہیں جانتا ہوں مگر جا رہا ہوں

یہ اشعار ان کے اندر کی بے قراری، ناآسودگی اور بے مقصدی کی کیفیت کو بھرپور انداز میں پیش کرتے ہیں۔ ان کے یہاں زندگی ایک ایسا سفر ہے جس کی کوئی منزل نہیں، بس ایک بے سمت راہ ہے جس پر وہ چلتے جا رہے ہیں، بے خبر، بے یقین، اور تنہا۔

مجید امجد: حیرت کا شاعر

مجید امجد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ حیرت کا شاعر ہیں۔ حیرت دراصل وہ کیفیت ہے جو انسان کو ٹھٹھکا دیتی ہے، اسے سوچنے، رکنے، اور پھر نئے زاویوں سے حقیقت کو دیکھنے پر مجبور کرتی ہے۔ بعض شعرا حیرت کو سکوت کا نام دیتے ہیں، جبکہ بعض اسے جستجو اور تلاش کے ذریعے توڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حیرت ایک ایسی کیفیت ہے جو شعور کو نئی دنیا میں داخل کرتی ہے اور انسان کو جذبہ و احساس کی نئی راہوں پر لے جاتی ہے۔

مجید امجد کے ہاں حیرت کی یہ کیفیت شدت سے محسوس کی جا سکتی ہے۔ وہ زندگی، وقت، اور وجود کے بنیادی سوالات پر گہرے تفکر کے ساتھ سوچتے ہیں۔ وہ حیرت کے عالم میں رکنے کے بجائے جستجو کا راستہ اپناتے ہیں اور اپنے اشعار میں اس کیفیت کو عمدگی سے پیش کرتے ہیں۔

اپنی کتاب حروف آغاز میں وہ لکھتے ہیں:

عمر اس الجھن میں گزری
کیا شے ہے یہ حرف و بیاں کا

یہ مصرع ان کے فکری کرب، تخلیقی جستجو اور زندگی کی گہرائیوں میں جھانکنے کی خواہش کو ظاہر کرتا ہے۔ ان کے لیے الفاظ اور اظہار کی حقیقت بھی ایک معمہ تھی، جسے وہ حل کرنے کی کوشش میں زندگی بسر کرتے رہے۔ مجید امجد کی شاعری حیرت، جستجو، اور گہرے فکری سوالات کا ایک منفرد امتزاج پیش کرتی ہے، جو قاری کو بھی سوچنے اور حقیقت کو نئے زاویوں سے دیکھنے پر مجبور کر دیتی ہے۔

تلاش و جستجو

مجید امجد کی شاعری میں تلاش و جستجو کا عنصر نہایت نمایاں ہے۔ وہ کائنات کے اسرار، حسن کے انجام، انسانی سعی کے مقصد، اور زندگی کے مختصر لمحوں کی معنویت پر غور و فکر کرتے ہیں۔ ان کی شاعری میں مسلسل ایک سوالیہ انداز پایا جاتا ہے، جو قاری کو بھی تفکر اور تلاش کی راہ پر ڈال دیتا ہے۔

ان کی مشہور نظم “راہ گیر” میں بھی یہی احساس جھلکتا ہے:

کوئی تو مجھ کو بتائے یہ رہگیر ہے کون
حسن انکھڑیوں میں حسنِ شش جہات لیے
لگی ہے اس کو لگ جانے کس ٹھکانے کی
بھٹک گئی ہو نہ ٹھوکر کوئی زمانے کی

یہ اشعار انسانی سرگردانی، مقصدِ حیات کی جستجو اور وقت کی بے ثباتی کے احساس کو نمایاں کرتے ہیں۔ مجید امجد کے ہاں زندگی ایک مسلسل تلاش ہے، جہاں انسان کسی نہ کسی حقیقت کی کھوج میں سرگرداں رہتا ہے، لیکن اکثر یہ تلاش بے نتیجہ رہتی ہے۔ یہی کیفیت ان کی مشہور نظم “دستک” میں اور زیادہ شدت کے ساتھ ابھرتی ہے:

تم کہاں ہو، کہاں، جواب تو دو
او میرے مہمان جواب تو دو
تم نے دروازہ کھٹکھٹایا تھا
کس کی دستک تھی، کون آیا تھا
کس نے نیندوں کو میری ٹوکا تھا
کوئی جھونکا تھا، کوئی دھوکا تھا

یہ اشعار نہ صرف ظاہری بلکہ باطنی تلاش کی بھی عکاسی کرتے ہیں۔ شاعر ایک ایسی ہستی، ایک ایسی حقیقت کی جستجو میں ہے جو سامنے آ کر پھر غائب ہو جاتی ہے، جو محسوس تو ہوتی ہے مگر ہاتھ نہیں آتی۔ مجید امجد کی شاعری اسی داخلی کشمکش اور جستجو کا خوبصورت اظہار ہے، جو قاری کے دل میں بھی سوالات کے دیپ جلا دیتی ہے۔

مجید امجد ایک پرامید شاعر

بعض نقادوں کے نزدیک مجید امجد کو محض اداسیوں اور ویران شاموں کا شاعر کہنا زیادتی ہوگی۔ اگرچہ ان کی شاعری میں تنہائی، محرومی اور زندگی کے تلخ تجربات کا گہرا عکس ملتا ہے، لیکن وہ زندگی سے مکمل طور پر مایوس شاعر نہیں ہیں۔ وہ نہ صرف نئی نسل کو امید اور روشنی کا استعارہ سمجھتے ہیں بلکہ آنے والے وقت سے پرامید بھی نظر آتے ہیں۔

یہ کہنا کہ مجید امجد صرف مایوسی اور ناامیدی کا اظہار کرتے ہیں، ان کی شاعری کے وسیع کینوس کو محدود کردینے کے مترادف ہے۔ ان کے ہاں ایک ایسا احساس بھی ملتا ہے جو زندگی کی نیرنگیوں کو تسلیم کرتا ہے اور نئے امکانات کی روشنی میں امید کی کرن دیکھتا ہے۔ اگر وہ مکمل طور پر مایوس ہوتے تو اپنی نظم “نژادِ نو” میں نئی نسل کو یوں محبت سے نہ نوازتے:

یہ اشعار مجید امجد کی شاعری میں امید اور تجدیدِ حیات کے عناصر کو واضح کرتے ہیں۔ نئی نسل کو “چٹکتی کلیاں” کہنا اور یہ تصور پیش کرنا کہ ان سے “بوڑھی، اداس کلیاں” بھی مہک اٹھتی ہیں، اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ زندگی میں ارتقا اور تسلسل کو تسلیم کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ہر زوال کے بعد نیا عروج آتا ہے اور ہر اداسی کے بعد خوشی کے امکانات بھی موجود رہتے ہیں۔

یوں مجید امجد کی شاعری محض مایوسی اور تنہائی کی شاعری نہیں بلکہ اس میں امید، حسن، تجدید، اور مستقبل کی روشنی بھی جھلکتی ہے۔

موسیقیت

مجید امجد کی شاعری نہ صرف فکری گہرائی رکھتی ہے بلکہ فنی لحاظ سے بھی ایک منفرد پہچان رکھتی ہے۔ ان کی شاعری میں الفاظ کے چناؤ اور ان کے مخصوص اندازِ استعمال نے ان کے کلام کو ایک انفرادی رنگ عطا کیا ہے۔ شاعری میں خوبصورتی صرف خیالات کی ندرت سے نہیں بلکہ الفاظ کے آہنگ اور ان کے ٹکراؤ سے پیدا ہونے والی موسیقیت سے بھی دوبالا ہو جاتی ہے۔

مجید امجد ان شعرا میں سے ہیں جنہوں نے اپنی شاعری میں الفاظ کی ترتیب اور صوتی اثرات کو خاص اہمیت دی ہے۔ ان کے ہاں الفاظ نہ صرف معانی کا اظہار کرتے ہیں بلکہ خود ایک صوتی تجربہ بھی پیدا کرتے ہیں، جو ان کی شاعری کو نغمگی اور موسیقیت عطا کرتا ہے۔ وہ الفاظ کے ٹکراؤ اور تکرار سے ایسی منظر کشی کرتے ہیں جس میں صوتی آہنگ اور معنوی تہہ داری ایک ساتھ نظر آتی ہے۔
مثلاً ان کے یہ اشعار دیکھیے:

عقدۂ مشکل
صورتِ معنی؟ معنیِ صورت؟
اکثر گردِ سخن سے نہ ابھرے
کتنی چھنا چھن ناچتی صدیاں
کتنے گھنا گھن گھومتے عالم
وادیٔ فکر کی لیلاؤں کے
جھومتے محمل
طے نہ ہوا ویرانۂ حیرت

یہ اشعار محض خیالات کا بیان نہیں بلکہ ان میں الفاظ کی ترتیب اور صوتی امتزاج ایسا ہے کہ وہ پڑھنے اور سننے والے کو ایک مخصوص ترنم اور ردھم کا احساس دلاتے ہیں۔ “چھنا چھن”، “گھنا گھن”، “جھومتے محمل” جیسے الفاظ نہ صرف موسیقیت کو جنم دیتے ہیں بلکہ ان کے ذریعے شاعر ایک بصری اور سمعی تجربہ تخلیق کرتا ہے جو قاری کو ایک نئی دنیا میں لے جاتا ہے۔

 

یہی وجہ ہے کہ مجید امجد کو ان شعرا میں شمار کیا جاتا ہے جن کی شاعری میں موسیقیت، منظر کشی اور معنوی تہہ داری ایک ساتھ جلوہ گر ہوتے ہیں۔

زندگی کے تجربات کی عکاسی

مجید امجد کی شاعری کا اصل کمال یہ ہے کہ وہ زندگی کے تجربات سے اخذ کیے گئے تاثرات کو اس انداز میں دوبارہ واقعات، کرداروں، علامتوں اور مکالموں کی شکل دیتے ہیں کہ پڑھنے والا براہِ راست اس کیفیت اور احساس تک پہنچ سکے جو شاعر کا مقصود ہے۔

ان کی تخلیقی بصیرت اس اعتبار سے منفرد ہے کہ وہ نہ صرف زندگی کے تجربات سے ایک خاص تاثر اور معنویت کشید کرتے ہیں بلکہ اس تاثر کو دوبارہ کسی واقعے یا کردار کی صورت میں ڈھال کر پیش کرتے ہیں۔ یہی تخلیقی طریقہ انہیں اخترالایمان، میرا جی اور ن۔م۔ راشد سے الگ کرتا ہے۔ ان کی نظم “طلوع فرض” کا ایک بند دیکھیے:

چمکتی کار فراٹے سے گزری
غبارِ رہ نے کروٹ بدلی، جاگا
اُٹھا، اک دو قدم تک ساتھ بھاگا
پیاپے ٹھوکروں کا یہ تسلسل
یہی پرواز بھی، افتادگی بھی،
متاعِ زیست اس کی بھی، مری بھی

یہ چند سطریں نہ صرف ایک عام زندگی کے منظر کو مجید امجد کی مخصوص داخلیت اور تنہائی کے احساس سے جوڑتی ہیں بلکہ ان میں شاعر کی حسّیت بھی نمایاں ہوتی ہے، جو چھوٹے چھوٹے واقعات میں گہری معنویت تلاش کر لیتی ہے۔

ہیئت کے تجربے

مجید امجد کی شاعری فنی طور پر بھی نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ انہوں نے شاعری میں کئی تجربے کیے، جن میں غزل، نظم، نظمِ معرا، نظمِ آزاد، نثر نظم اور پابند نظم سبھی شامل ہیں۔ ان کی شاعری میں ہیئت کے تجربات خاصے متنوع اور منفرد ہیں۔ وہ بنیادی طور پر نظم کے شاعر ہیں، لیکن کہیں کہیں انہوں نے غزل میں بھی اپنے فن کا شاندار مظاہرہ کیا ہے۔

ان کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ انہوں نے نہ صرف پابند نظم اور آزاد نظم میں جدت پیدا کی بلکہ نثری نظم کے میدان میں بھی قدم رکھا۔ ان کی نثری نظموں میں بعض مقامات پر ایک ایسا فطری آہنگ اور ردھم پیدا ہو جاتا ہے جو نثر اور شاعری کی سرحدوں کو دھندلا دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فرخ درانی نے انہیں اردو نثری نظم کا موجد قرار دیا ہے۔

بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں اردو شاعری کو نئی راہوں پر ڈالنے والے شعرا میں مجید امجد سب سے زیادہ منفرد نظر آتے ہیں۔ اس دور میں ترقی پسند تحریک اور حلقۂ اربابِ ذوق کی تحریک نے بیشتر شعرا کو متاثر کر رکھا تھا، لیکن مجید امجد نے ان دونوں دھاروں سے الگ رہ کر اپنا راستہ بنایا۔

وہ اپنی تخلیقی راہوں پر تنہا سفر کرتے رہے، نہ کوئی ان کی پیروی کر سکا اور نہ کوئی ان کے ساتھ چل سکا۔ ان کی شاعری میں جو خودداری، فنی انفرادیت اور تخلیقی جستجو کا عنصر ہے، اس نے انہیں ایک ایسا اکیلا مسافر بنا دیا جو اپنی راہ میں گم تھا، لیکن اس نے شاعری کو ایک نیا آہنگ، نئی بصیرت اور ایک منفرد اسلوب عطا کیا۔

Book Cover

مجید امجد کی شاعری کی نمایاں خصوصیات

Rating: ★★★★☆
  • Author: ravinotes.com

  • File Size: 1.43 MB

  • Format: PDF

  • Notes: Urdu

  • Price: Free

Leave a Comment