فسانۂ عجائب کا مختصر خلاصہ اور پس منظر: مرزا رجب علی بیگ سرور کی تصنیف “فسانۂ عجائب” اردو نثر کی ایک نمائندہ اور مقبول ترین داستان ہے، جو مختصر داستانوں کے سلسلے میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس داستان کو دبستانِ لکھنؤ کی ترجمان تصنیف مانا جاتا ہے، اور انیسویں صدی کی ان نادر کتابوں میں شمار کیا جاتا ہے جنہوں نے اپنے دور کے ادبی ذوق اور اسلوب پر گہرے اثرات مرتب کیے۔
فسانۂ عجائب محض ایک تخیلاتی داستان نہیں بلکہ اس میں اپنے عہد کی روح بولتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی خوبی اس کا ہندوستانی مزاج ہے جو اس داستان کو مقامی تہذیب و معاشرت سے جوڑتا ہے۔ اس کتاب کے دیباچے میں سرور نے میر امن اور دہلی کے طرز تحریر پر جو تبصرہ کیا، وہ محض تنقید نہیں بلکہ ایک ادبی معرکہ آرائی کا اعلان تھا۔
جب میر امن کی “باغ و بہار” کے سادہ اور عام فہم اسلوب پر اعتراضات ہونے لگے، تو سرور نے “فسانۂ عجائب” کے ذریعے مرصع، پر تصنع اور گراں طرزِ بیان کو اختیار کرتے ہوئے ایک نیا انداز پیش کیا، جو بلاشبہ “باغ و بہار” کی ضد تھا، اور اسی بناء پر اسے بھرپور داد ملی۔
جیسا کہ شمس الدین احمد رقم طراز ہیں:
“فسانۂ عجائب لکھنؤ میں گھر گھر پڑھا جاتا تھا۔ عورتیں بچوں کو کہانی کے طور پر سنایا کرتی تھیں اور بار بار پڑھنے سے اس کے جملے زبانوں پر چڑھ جاتے تھے۔”
یہ کتاب نہ صرف ادبی شاہکار ہے بلکہ قدیم طرزِ انشاء کا بہترین نمونہ بھی ہے۔ اس کی عبارت مقفٰی، مسجع، رنگین اور دلکش ہے، جس میں ادبی مرصع کاری، فنی نزاکت اور علمی لطافت بخوبی نمایاں ہے۔ اس اہم نسخے کو سید محمود رضوی اور مخمور اکبر آبادی نے نہایت سلیقے سے مرتب کیا ہے۔
فسانۂ عجائب کا مختصر خلاصہ
“فسانۂ عجائب“ ایک طلسماتی اور رومانوی داستان ہے جسے رجب علی بیگ سرور نے تخلیق کیا۔ اس داستان کا مرکزی کردار شہزادہ جانِ عالم ہے، جو ملک جتن کے بادشاہ فیروز بخت کا اکلوتا بیٹا ہے۔ بادشاہ کو برسوں بعد دعا و منت کے نتیجے میں اولاد حاصل ہوتی ہے۔ شہزادے کی پیدائش پر نجومیوں نے پیش گوئی کی کہ وہ ایک طویل عمر پائے گا، لیکن ایک خوبرو عورت کے عشق میں گرفتار ہو کر دربدر کی ٹھوکریں کھائے گا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ وہ تین شادیاں کرے گا اور دو سلطنتوں کا حکمران بنے گا، تاہم اس کی جان کو کوئی خطرہ نہ ہوگا۔

جب جانِ عالم جوان ہوتا ہے تو شادی کے بعد باپ کی سلطنت کا وارث بنتا ہے۔ ایک دن وہ ایک طوطے کی زبانی ملکِ زرنگار کی شہزادی انجمن آرا کے حسن و جمال کے قصے سنتا ہے اور بن دیکھے اس کا اسیر ہو جاتا ہے۔ وہ شہزادی کی تلاش میں گھر بار چھوڑ کر نکل کھڑا ہوتا ہے۔
سفر کے دوران اس کی ملاقات ملکہ مہر نگار سے ہوتی ہے، جو اس پر دل و جان سے فریفتہ ہو جاتی ہے، مگر شہزادہ اپنا اصل مقصد یاد رکھتے ہوئے اسے واپسی کا وعدہ دے کر آگے روانہ ہو جاتا ہے۔
📑
اہم روابط
ملک زرنگار پہنچنے پر وہ دیکھتا ہے کہ تمام لوگ سیاہ لباس میں ملبوس ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ شہزادی انجمن آرا کو ایک جن اغوا کر کے لے گیا ہے اور سارا ملک غم میں ڈوبا ہوا ہے۔ جانِ عالم دلیرانہ لڑائی کے بعد اس جن کو شکست دے کر شہزادی کو آزاد کرا لیتا ہے اور اس سے شادی کر لیتا ہے۔
واپسی کے سفر میں وہ کئی طرح کے مصائب اور مہمات سے گزرتا ہے اور بالآخر اپنے وطن ملک جتن واپس پہنچتا ہے۔ بوڑھا بادشاہ فیروز بخت سلطنت شہزادے کے سپرد کر کے گوشہ نشین ہو جاتا ہے۔
داستان فسانۂ عجائب کا پس منظر

اودھ، برصغیر کا ایک معروف اور اہم صوبہ تھا، جو اپنے سیاسی، تہذیبی اور ادبی ورثے کی بنا پر ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ 1732ء میں سعادت خان کو دربار دہلی کی جانب سے صوبہ اودھ کا صوبہ دار مقرر کیا گیا۔ ان کے بعد نواب ابوالمنصور خان جنگ نے 1739ء تا 1754ء، نواب شجاع الدولہ نے 1754ء تا 1775ء، اور پھر نواب آصف الدولہ نے 1775ء تا 1797ء تک حکومت کی۔ اسی دور میں، 1775ء میں رجب علی بیگ سرور کی پیدائش ہوئی۔
نواب آصف الدولہ کے بعد نواب وزیر علی خان نے مختصر عرصے (صرف چار ماہ) تک حکمرانی کی، اور پھر نواب سعادت علی خان نے 1797ء سے 1814ء تک اودھ کا نظم و نسق سنبھالا۔
1814ء کا سال اودھ کی سیاسی و ادبی تاریخ میں نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اسی سال انگریزوں نے سیاسی مصلحت کے تحت نواب غازی الدین حیدر کو “بادشاہ” کے منصب پر فائز کیا۔ یہ ایک علامتی تبدیلی نہ تھی بلکہ اس کے اثرات دور رس ثابت ہوئے۔ اودھ نے دہلی سے فکری اور تہذیبی طور پر الگ راستہ اختیار کیا۔ اہل علم و ہنر نے نئی راہیں تلاش کیں اور اپنی علیحدہ شناخت قائم کرنے کی کوشش کی۔
یوں دبستان دہلی سے الگ دبستان لکھنؤ کی بنیاد پڑی۔ شاعری میں امام بخش ناسخ اور نثر میں رجب علی بیگ سرور اس دبستان کے بانی تسلیم کیے گئے۔
رجب علی بیگ سرور نے “باغ و بہار” کے مقابلے میں “فسانۂ عجائب” کے عنوان سے 1824ء میں ایک طلسماتی داستان تحریر کی، جو 1843ء میں پہلی بار شائع ہوئی۔ اس داستان کی تخلیق کے پیچھے ایک جذبہِ مسابقت بھی کارفرما تھا۔ درحقیقت، میر امن دہلوی کی “باغ و بہار” اور تحسین کی “نوطرز مرصع” کو سامنے رکھ کر سرور نے نہایت پرکار، پرتصنع اور رنگین نثر میں یہ داستان لکھی۔
میر امن نے دہلی کی زبان پر فخر کرتے ہوئے “باغ و بہار” کے دیباچے میں لکھا:
“جو لوگ دس پانچ سال دہلی میں رہے، وہ اردو لکھیں گے تو لامحالہ کہیں نہ کہیں چوک جائیں گے۔”
یہ فخر و مباہات اہل لکھنؤ کے لیے ناقابل برداشت تھے۔ چنانچہ رجب علی بیگ سرور نے فسانۂ عجائب کے دیباچے میں اس کا برملا جواب دیا۔ انہوں نے تصنع، قافیہ پیمائی، استعارہ و تشبیہ سے مزین نثر لکھ کر میر امن کی سادہ زبان کے مقابلے میں لکھنؤ کی زبان و ادب کی برتری ثابت کرنے کی کوشش کی۔
یہ معرکہ صرف فسانۂ عجائب اور باغ و بہار تک محدود نہ رہا۔ بلکہ فخرالدین حسین نے دہلی سے “سرور سخن” لکھی۔ اس کے جواب میں منشی جعفر علی شیبون کاکوروی نے “طلسمِ حیرت” کے عنوان سے ایک داستان تحریر کی۔ یوں یہ ادبی معرکہ تین داستانوں کے تبادلے کے بعد اپنے انجام کو پہنچا۔
