علم لسانیات کی تعریف اور تاریخ | PDF: زبان انسانی تہذیب کا ایک اہم اور حیرت انگیز پہلو ہے، جو خیالات، احساسات اور علم کے تبادلے کا بنیادی ذریعہ ہے۔ یہ وہ وسیلہ ہے جس نے انسانی تجربات اور معلومات کو نسل در نسل منتقل کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ لیکن کیا آپ نے کبھی یہ سوچا ہے کہ زبان کی ابتدا کیسے ہوئی؟ مختلف قومیں مختلف زبانیں کیوں بولتی ہیں؟ اور علم لسانیات کی بنیاد کب اور کہاں رکھی گئی؟
- یہ بھی پڑھیں: اسلوب کی فنی خصوصیات | PDF
یہ مضمون آپ کو لسانیات کی دلچسپ تاریخ کا جائزہ فراہم کرے گا، جہاں بابل کی قدیم زبانوں سے لے کر ہندوستانی سنسکرت کے انقلابی اصولوں اور جدید دور کے ماہرین لسانیات کے شاندار کارناموں تک، ایک حیرت انگیز سفر کا آغاز ہوگا۔ آئیے، زبان کے اس دلچسپ جہان کو قریب سے سمجھنے کی کوشش کریں!
لسانیات کی تعریف
لسانیات عربی زبان کے لفظ لسان سے ماخوذ ہے۔ اس کا مطلب زبان کا علم ۔ اصطلاح میں لسانیات علم کی وہ قسم ہے جو زبان کی بنیاد، اصلیت اور اس کی ماہیت کا مطالعہ کرتی ہے ۔اس کی پیدائش ، دائرہ کار اور اس میں رد و بدل جیسے مسائل کو زیر بحث لاتی ہے، لا سانیات کہلاتی ہے۔

علم لسانیات کی تاریخ
- بابلی لسانیات کی ابتدائی کوششیں
- ہندوستانی قواعد نویسی اور سنسکرت کا عروج
- یونانی فلسفیوں کی لسانی تحقیقات
- رومی لسانیات اور عملی اصول
- یورپ میں ہندوستانی زبانوں کی دریافت
- جدید علم لسانیات کی بنیاد
- انیسویں صدی کی لسانی تحقیقات
علم زبان کا با قاعدہ آغاز اس وقت ہوا جب لوگوں نے ان تمام امور پر سوچنے کا کام شروع کیا کہ یہ کیا بات ہوئی که مختلف مقامات کے رہنے والے لوگ کیوں ایک ہی زبان نہیں بولتے ؟ الفاظ پہلے پہل کیسے وجود میں آئے ؟ کسی نام میں اور کسی چیز میں جس سے وہ نام منسوب ہے۔ کیا تعلق ہے ؟ کسی بھی شخص یا کسی بھی چیز کو کوئی ایک نام کیوں دیا جاتا ہے ؟ ان تمام سوالات کے جوابات ابتدا میں مذہبی امور کے تحت دیئے جانے لگے۔
بابلی لسانیات کی ابتدائی کوششیں
سئیس کے مطابق زبان کی نوعیت کو سمجھنے اور بیان کرنے کی سب سے پہلی کوشش بابل میں کی گئی۔ بابل کے بارے میں یہ روایت مشہور ہے کہ وہاں کے ایک معروف مندر، جسے “ٹاور آف بیبل” کہا جاتا ہے، مختلف نسلوں اور مختلف زبانوں کے بولنے والے لوگ جمع ہوتے تھے۔ اسی بنا پر یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ زبان کی ابتدا یہیں سے ہوئی۔
سئیس کا کہنا ہے:
“تقابلی لسانیات کی قسم کی سب سے پہلی تحریر بابل کے آثار میں ملتی ہے۔”(5)
بابل کے باشندے جو زبان بولتے تھے اسے “اکاڈین” کہا جاتا ہے۔ یہ زبان سترہویں صدی قبل مسیح میں متروک ہو گئی، جس کے بعد بابل کی سرزمین پر دوسری قوموں نے بسیرا کیا۔ ان نئی اقوام کو پہلی قوم کی زبان کو سمجھنے کے لیے لغات اور قواعد تحریر کرنے کی ضرورت پیش آئی۔
- یہ بھی پڑھیں: فرحت اللہ بیگ کا اسلوب اور مزاح نگاری | PDF
اس مقصد کے لیے اہل بابل نے مشترکہ مادوں کی چھان بین کا عمل شروع کیا۔ علماء کے نزدیک مادوں کی دریافت علم زبان کا بنیادی اصول ہے۔ اس لیے اہل بابل کی ان کاوشوں کو لسانیات کی اولین کوششوں کے طور پر جانا جاتا ہے۔
ہندوستانی قواعد نویسی اور سنسکرت کا عروج
اس کے بعد ہندوستانی قواعد نویسی کا دور شروع ہوتا ہے۔ جب ویدوں کی زبان متروک ہو گئی اور بدھ مت اور جین مت کے عروج کی وجہ سے پراکرت زبانوں کو تحریری اور علمی زبان کا درجہ ملنے لگا، تو ہندوؤں کو اپنی زبان کے ساتھ سنسکرت زبان کو پڑھنے اور بول چال کی زبان سے اس کا موازنہ کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔(4)
ہندوستان کے علماء، جیسے پانینی وغیرہ، نے زبان کے مطالعہ میں جو توضیحی اور تجزیاتی طریقہ اپنایا، وہ مغربی علماء کے لیے بہت بعد میں آشکار ہوا۔ سنسکرت زبان اور اس کے تجزیہ کے اصولوں سے واقف ہونے کے بعد مغربی علماء کی فکری سمت تبدیل ہو گئی اور جدید علمِ لسانیات کی بنیاد پڑی۔
یونانی فلسفیوں کی لسانی تحقیقات
یونانیوں نے علم زبان کے ارتقا میں ایک نئے رجحان کا آغاز کیا۔ ان کے ہاں خطابت کو خاص اہمیت حاصل تھی، اور اسی وجہ سے یونانی فلسفیوں نے لفظوں کے اثرات کو سمجھنے کے لیے خیال اور لفظ کے باہمی تعلق کی چھان بین شروع کی۔
یہ تحقیق لفظوں کی ماہیت اور ان کے اثرات کو سمجھنے پر مرکوز رہی، لیکن اس سے علم بیان کو اتنا فائدہ نہ پہنچا جتنا کہ منطق کو ہوا۔ اس تحقیق سے متعلقہ علم کو “علم اشتقاق” کا نام دیا گیا۔
رومی لسانیات اور عملی اصول
رومیوں نے علم زبان کے فروغ میں یونانیوں کے نقش قدم پر عمل کیا اور ان کے زبان کے بنیادی اصولوں کو تسلیم کیا۔ تاہم، ان کے نزدیک عملی گفتگو میں ہر اصول کے متعدد استثنیٰ ہو سکتے ہیں۔ ان کی اس توجہ کے نتیجے میں “انا لوگسٹ” (Analogist) اور “انا مولسٹ” (Anamolist) کے طویل جھگڑے ختم ہو گئے۔
چودھویں اور پندرہویں صدی عیسوی کے اہم واقعات میں رومی اقتدار کا خاتمہ اور عیسائیت کی ترقی تھی۔ جس کی بنا پر عیسائی علماء مذ ہبی صحائف کا مطالعہ کرنے لگے۔ ان کے اس مطالعہ سے یہ فائدہ ہوا کہ وہ ایک طرف یونانی اور لاطینی کے قریبی رشتہ کو سمجھنے کے قابل ہوئے۔ تو دوسری طرف انہیں عربی، سریانی اور عبرانی میں بھی گہرا تعلق دکھائی دینے لگا۔ نیز اٹھارویں صدی عیسوی سے ایرانی زبان کے مطالعہ کا بھی دلچسپی سلسلہ یورپ میں شروع ہوا۔
یورپ میں ہندوستانی زبانوں کی دریافت
واسکوڈی گاما نے جب ہندوستان کا راستہ دریافت کر لیا تو یورپی لوگوں کی آمد و رفت یہاں بھی شروع ہو گئی۔ جس کی وجہ سے وہ لوگ سنسکرت زبان سے دھیرے دھیرے واقف ہونے لگے۔ جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے کلکتہ میں فورٹ ولیم کالج کا قیام عمل میں لایا تو وہاں اردو ، بنگالی، مرہٹی اور سنسکرت کی تعلیم کا بھی انتظام کیا گیا۔
ان کاوشوں کے نتیجہ میں اہل یورپ ہندوستان کے ادبی کارناموں سے واقف ہونے لگے اور سنسکرت اور دیگر ترقی یافتہ زبانوں کے ترجمے یورپی زبانوں میں شائع ہونے لگے۔ جب ہندوستانی زبانوں بالخصوص سنسکرت کے کار ناموں کی اشاعت یورپ میں ہوئی تو یورپ میں لسانی مطالعہ کے لئے ایک نئے باب کا آغاز ہوا۔(8)
جدید علم لسانیات کی بنیاد
سرولیم جونز نے کلکتہ میں رائل ایشیاٹک سوسائٹی قائم کر کے جدید لسانیات کا سنگ بنیاد رکھا۔ اٹھارویں صدی کے علماء زبانوں کی ساخت کے فرق کا اندازہ نہیں لگا سکتے تھے۔ اس کے علاوہ اصوات کا بھی کوئی تصور ان کے پاس موجود نہیں تھا۔ جس کے نتیجے کے طور پر زبان کی تاریخ مسخ ہو جاتی تھی۔ لہذا ان تصورات میں سنسکرت زبان کے علم نے ایک انقلاب برپا کر دیا۔
ہندستانیوں کے مذہبی علوم کا ابتدائی سرمایہ سنسکرت زبان میں محفوظ ہے۔ مروجہ زمانہ کی بول چال کی زبانیں جب مقدس صحائف سے ممیز ہونے لگی تو ہندوستانی علماء کو ان مقدس کتابوں کے صحیح طور پر مطالعہ کرنے کے لئے تفصیلی اور توضیحی قواعد مرتب کرنے کی ضرورت پڑی۔ جس کی بنا پر سنسکرت کی قواعد کا تجزیہ شروع ہوا۔
- یہ بھی دیکھیں: مرزا محمود سرحدی کی شاعری کی خصوصیات | PDF
اصوات کے علم پر پہلی کتاب ” پرتی شاکھیا” لکھی گئی ۔ دوسرا اہم قدم “یا سک” نے اٹھایا جس نے اپنی کتاب “نی رُکت “ میں علم استقاق سے بحث کی۔
سنسکرت قواعد نویسی کے میدان میں پانینی (تقریباً 350 تا 250 قبل مسیح) کا نام سب سے نمایاں ہے۔ پانینی نہ صرف سنسکرت کا عظیم قواعد نویس ہے بلکہ دنیا بھر کے قواعد نویسوں میں بلند مقام رکھتا ہے۔ اس کا شاہکار کارنامہ “اشتھا دھیائے” ہے، جو زبان کے تجزیے اور توضیح کے اعتبار سے دنیا کا ایک بے مثال علمی شاہکار تسلیم کیا جاتا ہے۔
پانینی کے بعد دوسرے اہم قواعد نویس “پتنجلی” کا ذکر آتا ہے، جس کی تصنیف “مہا بھاشیہ” پانینی کے اصولوں کی تشریح اور توضیح پر مبنی ہے۔ اس کے بعد جینی عالم “ہیم چندر” کو بھی ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔
جب سنسکرت زبان کی قواعد یورپ پہنچی تو یورپی علماء کو زبان کے اصولوں اور اس کے تجزیے کے صحیح طریقے معلوم ہوئے۔ ان تجزیوں کی بنیاد کسی نظریے پر نہیں بلکہ گہرے مشاہدے پر تھی۔ تجزیے کی بدولت الفاظ اور تشکیلوں کے وہ روپ، جو پہلے مبہم نظر آتے تھے، اب زیادہ واضح، علمی، اور قطعی صورت میں سامنے آنے لگے۔
علم زبان کی اس توسیع سے زبانوں کے تاریخی اور تقابلی مطالعہ کومز ید ترقی ہونے لگی۔ تاریخی مطالعہ جیسے جیسے آگے بڑھتا گیا یہ بات بھی واضح ہوتی گئی کہ زبان تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔
انیسویں صدی کی لسانی تحقیقات
انیسویں صدی کے اواخر تک علم زبان کے مطالعہ اور تحقیقات کو بڑی ترقی حاصل ہوئی جس کے نتیجے میں ماہرین زبان کے کارنامے شاہکار کی حیثیت اختیار کرنے لگے۔ دیگر ماہرین زبان کے علاوہ امریکی ماہرین لسانیات آگے آنے لگے اور اپنی کاوشوں کی بدولت عالمی زبان کے فروغ میں اہم رول ادا کیا۔
ان میں پہلا نام ولیم وائٹ واہٹنی (1894ء۔ 1827ء) کا ہے۔ جس نے اپنی دو تصانیف یادگار چھوڑی ہیں۔ پہلی کتاب زبان اور مطالعہ زبان پر مبنی ہے جو 1867ء میں شائع ہوئی۔ دوسری کتاب زبان کی زندگی اور اس کی نشوونما کے موضوع پر 1874ء میں شائع ہوئی۔
مزید دیکھیں:
- فرحت اللہ بیگ کا اسلوب اور مزاح نگاری | PDF
- شکیب جلالی کی شاعری کی خصوصیات | PDF
- ناول کے اجزائے ترکیبی | PDF
- افسانہ کیا ہے | افسانے کے اجزائے ترکیبی | PDF
- فراق گورکھپوری کی شاعری کی خصوصیات | PDF
اضافی سوالات
سوال: لسانیات کیا ہے؟
جواب: لسانیات زبان کے مطالعہ کا علم ہے جو زبان کی بنیاد، اصلیت، ساخت اور ارتقا کا جائزہ لیتا ہے۔
سوال: لسانیات کی اہمیت کیا ہے؟
جواب: لسانیات زبان کو سمجھنے، نئی زبانیں سیکھنے، اور مختلف ثقافتوں کے درمیان رابطے میں مدد فراہم کرتی ہے۔
سوال: لسانیات کی ابتدا کب اور کہاں ہوئی؟
جواب: لسانیات کی ابتدا بابل کے دور میں ہوئی جہاں زبان کے اصولوں کو سمجھنے کے لیے کام کیا گیا۔
سوال: پانینی کون تھا اور اس کا کارنامہ کیا ہے؟
جواب: پانینی ایک سنسکرت قواعد نویس تھا جس نے “اشتھا دھیائے” لکھا، جو زبان کے تجزیے کا ایک عظیم شاہکار ہے۔
سوال: تقابلی لسانیات کیا ہے؟
جواب: تقابلی لسانیات مختلف زبانوں کے موازنہ اور ان کے مشترکہ اصولوں کی تلاش کو کہا جاتا ہے۔
سوال: لسانیات میں اصوات کا کیا کردار ہے؟
جواب: اصوات لسانیات میں بنیادی اہمیت رکھتی ہیں، کیونکہ زبان کی آوازیں اور ان کے فرق کو سمجھنے سے زبان کے قواعد اور معنی بہتر انداز میں واضح ہوتے ہیں۔
سوال: یورپ میں لسانیات کے مطالعہ کو فروغ کیسے ملا؟
جواب: یورپی علماء نے سنسکرت کے مطالعہ سے زبان کے تجزیاتی اصول سیکھے، جس سے لسانیات کے جدید نظریات کی بنیاد رکھی گئی۔
سوال: لسانیات اور زبان کی تاریخ میں کیا تعلق ہے؟
جواب: لسانیات زبان کی تاریخ کا مطالعہ کرتی ہے، جو زبان کی تبدیلیوں اور ارتقا کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔
سوال: لسانیات کے جدید دور میں اہم شخصیت کون سی ہیں؟
جواب: امریکی ماہر ولیم وائٹ واہٹنی ایک نمایاں شخصیت ہے، جنہوں نے زبان کی زندگی اور نشوونما پر اہم کتابیں لکھیں۔
سوال: لسانیات کس طرح نئی زبان سیکھنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے؟
جواب: لسانیات زبان کے اصول، تلفظ، اور گرامر کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے، جس سے نئی زبان سیکھنا آسان ہو جاتا ہے۔
Note:
