داستان باغ و بہار کے اسلوب کی خصوصیات: میر امن دہلوی فورٹ ولیم کالج کے اُن منشیوں میں شامل تھے، جنہوں نے کالج کے متعین مقاصد کے تحت اردو نثر کو ایک نئے قالب میں ڈھالا۔ ان کی شہرۂ آفاق تصنیف “باغ و بہار” اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے۔ فورٹ ولیم کالج کی تصانیف میں عمومی طور پر اس بات کا خاص خیال رکھا گیا کہ زبان سادہ، سلیس اور رواں ہو، تاکہ نوآموز انگریز افسران کو مقامی زبان، محاورات، روزمرہ، اور تہذیب و معاشرت سے روشناس کرایا جا سکے۔
چونکہ فورٹ ولیم کالج میں لکھی جانے والی کتابوں کا بنیادی مقصد زبان سکھانا اور تہذیبی فہم پیدا کرنا تھا، اس لیے ان کتابوں میں اسلوب اور زبان و بیان پر خاص محنت کی گئی۔ تاہم، ان تمام تصانیف میں باغ و بہار کو زبان و بیان کی خوبیوں کے لحاظ سے نمایاں اور بلند مقام حاصل ہے۔
جیسا کہ سید وقار عظیم لکھتے ہیں:
“داستانوں میں جو قبولِ عام باغ و بہار کے حصے میں آیا ہے، وہ اردو کی کسی اور داستان کو نصیب نہیں ہوا۔ اس کی غیر معمولی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ اس کا دلکش اور دلنشین اندازِ بیان ہے، جو اسے اردو زبان میں ممتاز مقام عطا کرتا ہے۔”
بلا شبہ، باغ و بہار اردو نثر میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کی مقبولیت صرف اُس دور تک محدود نہیں رہی بلکہ آج بھی اسے اسی ذوق و شوق سے پڑھا جاتا ہے، جس طرح ڈیڑھ صدی قبل پڑھا جاتا تھا۔
ڈاکٹر سید عبداللہ کے بقول:
“میر امن دہلوی کی باغ و بہار زندہ نثر ہے، جو ہمیشہ پڑھی جائے گی۔”
میر امن کا اسلوب نہایت سادہ، سلیس، پر اثر، دلچسپ اور دلآویز ہے۔ انہوں نے خود اعتراف کیا کہ:
“میں نے یہ قصہ اس محاورے میں لکھنا شروع کیا، جو ہماری ٹھیٹھ ہندوستانی گفتگو ہے – جس میں ہندو، مسلمان، عورت، مرد، لڑکے، بوڑھے، خاص و عام سب ایک دوسرے سے بات کرتے ہیں۔”
یہی وہ زندہ اور عام فہم انداز ہے، جو “باغ و بہار” کو اردو نثر کی تاریخ میں یادگار مقام عطا کرتا ہے۔ میر امن نے نہ صرف زبان کو عام فہم بنایا بلکہ اس میں تہذیب، تمدن اور فصاحت کو بھی اس خوبی سے سمویا کہ “باغ و بہار” ایک طرف نثری جمالیات کی مظہر ہے اور دوسری جانب زبان و بیان کی تدریس کا ذریعہ۔
باغ و بہار کے اسلوب کی خصوصیات
- سادگی اور فصاحت
- فصیح و سلیس زبان
- قدرت زبان
- اعتدال کی روش
- بول چال کی زبان
سادگی اور فصاحت
باغ و بہار سے قبل اردو نثر کا مزاج فارسی طرزِ نگارش سے بہت زیادہ متاثر تھا۔ عبارتیں مرکب، بوجھل اور پیچیدہ تھیں، جس کے باعث قاری زبان کے پیچ و خم میں الجھ جاتا اور قصے کا لطف پس منظر میں چلا جاتا۔ میر امن دہلوی نے اس روایت سے انحراف کرتے ہوئے اردو نثر کو ایک نئے سادہ اور دلنشین اسلوب سے آشنا کیا۔ ان کی تصنیف “باغ و بہار” کا سب سے نمایاں وصف سادگی ہے، جو آغاز سے اختتام تک مسلسل قاری کا ساتھ نبھاتی ہے۔

“باغ و بہار” کا اسلوب قصے کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ اس میں قدیم طرزِ تحریر کی وقار آمیز سنجیدگی اور جدید طرزِ بیان کی روانی و دلکشی کا ایک خوبصورت امتزاج موجود ہے۔ عبارت میں سادگی کے ساتھ روانی، ہمواری اور سلاست ایسی ہے کہ پڑھنے والا اکتاہٹ کا شکار نہیں ہوتا بلکہ دلچسپی سے ہم آہنگ رہتا ہے۔
میر امن نے بول چال کی زبان اور روزمرہ محاورات کی پابندی کے باوجود ایسی ادبی لطافت پیدا کی ہے جو اس دور کی نثری روایت میں کم ہی دکھائی دیتی ہے۔ اس انداز نے اردو نثر کو ایک ایسا ادبی معیار عطا کیا جو آنے والی کئی نسلوں کے لیے کسوٹی کی حیثیت اختیار کر گیا۔
جیسا کہ کلیم الدین احمد رقم طراز ہیں:
“باغ و بہار کی سادگی سپاٹ نہیں، اس میں ناگوار نیرنگی نہیں۔ یہاں سادگی و پرکاری بیک وقت جمع ہیں۔”
یہ سادگی ایک طرف فصاحت، لطافت اور سلاست کی آئینہ دار ہے اور دوسری طرف عام قاری کے لیے قابلِ فہم اور دلنشین بھی۔ پوری کتاب میں کوئی لفظ ایسا نہیں جو عامیانہ محسوس ہو، نہ ہی کوئی فقرہ ایسا ہے جو زبان کے معیار سے گرا ہوا ہو۔ میر امن کے ہاں جملوں کی ساخت اور الفاظ کے انتخاب میں ایک متوازن حسن پایا جاتا ہے۔
ان کے اندازِ بیان کا ایک عمدہ نمونہ ملاحظہ ہو:
“اس کے وقت میں رعیت آباد، خزانہ معمور، لشکر مرفہ، غریب و گربا آسودہ، ایسے چین سے گزران کرتے اور خوشی سے رہتے کہ ہر ایک گھر میں دن عید اور رات شب برات تھی۔”
یہ اقتباس سادگی اور شستگی کا دلکش نمونہ ہے۔ اس میں قدم قدم پر محاورہ اور روزمرہ کی شگفتگی موجود ہے، جو زبان کو نہ صرف رواں بلکہ دل کو بھانے والی بنا دیتی ہے۔
فصیح و سلیس زبان: بیان کی لطافت
سادہ زبان میں ادبی حسن پیدا کرنا ایک مشکل فن ہے۔ سادگی اکثر عامیانہ پن یا بے لطفی کا شکار ہو جاتی ہے، لیکن میر امن نے سادگی کو فصاحت اور لطافت کے ساتھ یوں آمیختہ کیا کہ ان کا اسلوب اردو نثر میں نادر مثال بن گیا۔
جیسا کہ مولوی عبدالحق بجا طور پر لکھتے ہیں:
“یہ کتاب اپنے وقت کی فصیح و سلیس زبان میں لکھی گئی ہے۔ اس کی فصاحت و سلاست سے عبارت میں ایسی روانی پیدا ہو گئی کہ پڑھنے والا اس کی دلچسپی سے قطع نظر، اس کی روانی میں کھو کر رہ جاتا ہے۔”
باغ و بہار زبان و بیان کے اعتبار سے ایک یادگار دستاویز ہے۔ اس کی سادگی میں ادبیت، محاکات، نکتہ سنجی اور بیان کی جاذبیت اس درجہ موجود ہے کہ اردو نثر کی شاید ہی کوئی اور داستان اس کے مقابل آسکے۔
اسلوب کی سادگی اور بیانیہ کی فصاحت کا ایک اور نمونہ دیکھیے:
“فرزند زندگی کا پھل ہے، اس کی قسمت کے باغ میں نہ تھا۔”
یہ مختصر جملہ گہری معنویت، تشبیہ اور فصاحت کا حسین امتزاج ہے۔ نہایت سادہ زبان میں ایک بڑی بات کہی گئی ہے جو میر امن کی لسانی مہارت کا ثبوت ہے۔
قدرتِ زبان
میر امن دہلوی کو اردو نثر میں جو مقام حاصل ہے، اس کی ایک بڑی وجہ ان کی زبان پر غیر معمولی قدرت اور بیان کی دلنشینی ہے۔ “باغ و بہار” میں ان کا طرزِ تحریر ایسا ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے الفاظ ان کی نوکِ قلم پر رقصاں ہیں۔ وہ جس مضمون کو جس پیرائے میں پیش کرنا چاہیں، اس کے لیے موزوں ترین الفاظ نہایت فطری انداز میں چن لیتے ہیں۔
لفظوں کے استعمال میں ایسی مہارت اور موقع و محل کی مطابقت کم ہی نثر نگاروں میں دکھائی دیتی ہے۔ ان کے ہاں الفاظ کا چناؤ نہ صرف برمحل ہے بلکہ مفہوم کے عین مطابق بھی۔ یہی وصف ان کی انشاء پردازی کا جوہر بن جاتا ہے۔
ان کی زبان کی قدرت کا اندازہ اس اقتباس سے لگایا جا سکتا ہے:
“اس در خرچی کے آگے اگر گنجِ قارون کا ہوتا تو کبھی وفا نہ کرتا۔ کئی برس کے عرصے میں ایک بارگی یہ حالت ہوئی کہ فقط ٹوپی اور لنگوٹی باقی رہی۔ دوست آشنا، جو دانت کائی روٹی کھاتے تھے اور کچھ بھرخون اپنا ہر بات میں نثار کرتے تھے، کافور ہوئے۔”
یہ بیان اپنی سادگی کے باوجود نہایت موثر، عبرت انگیز اور پر تاثیر ہے۔ بغیر کسی لفاظی یا تصنع کے مصنف نے فضول خرچی کے انجام کو اس طرح بیان کیا ہے کہ قاری نہ صرف متاثر ہوتا ہے بلکہ سبق بھی حاصل کرتا ہے۔
اہم روابط
میر امن کے اسلوب کا ایک اور نمایاں پہلو یہ ہے کہ وہ لفظوں کے ذریعے تصویریں بناتے ہیں۔ ان کے قلم سے محل و بازار، باغ و مکان، کرداروں کے مزاج، لباس، ذہن اور سماجی فضا ایسی نمایاں ہو کر ابھرتی ہے جیسے قاری آنکھوں سے سب کچھ دیکھ رہا ہو۔ ان کے بیان میں ایک ایسا تخیلی پیکر موجود ہے جو نثر کو دیکھنے کے قابل بنا دیتا ہے۔
جیسا کہ ڈاکٹر اعجاز حسین نے بجا طور پر کہا:
“ایک نکتہ رس ادیب کی طرح میر امن کی زبان موقع محل کے لحاظ سے بدلتی رہتی ہے۔ قصہ گوئی اور داستان سرائی کے لیے بہت ضروری ہے کہ مصنف کو زبان پر مکمل عبور اور قدرت حاصل ہو۔”
اعتدال کی روش: زبان میں توازن و شائستگی
اردو زبان کی ساخت و تشکیل میں فارسی اور عربی کے اثرات نمایاں ہیں، اور بیشتر نثرنگار ان اثرات کو نمایاں اور غالب کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ لیکن میر امن نے اس روایت سے اعتدال کا راستہ چنا۔ انھوں نے فارسی و عربی الفاظ کو بے جا برتنے سے اجتناب کیا اور اپنی نثر میں ٹھیٹھ اردو، ہندی الاصل الفاظ، دیسی محاورات اور مقامی لب و لہجے کو شامل رکھا۔
ان کے اسلوب کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ نہ تو فارسی پسندی میں افراط کے قائل ہیں، نہ ہی ہندی و دیسی الفاظ کے استعمال میں ابتذال کا شکار ہوتے ہیں۔ ان کے ہاں ایک موزوں امتزاج پایا جاتا ہے جس میں زبان نہ تو ثقیل ہے اور نہ ہی سطحی۔
سید وقار عظیم اس وصف پر یوں روشنی ڈالتے ہیں:
“میر امن کو لفظوں کے صرف پر قدرت ہے۔ وہ آسان ہندی لفظوں سے مرکبات بنا کر اور ہندی کے معمولی الفاظ استعمال کر کے اپنی بات کا وزن اتنا بڑھا دیتے ہیں کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔”
میر امن کی نثر میں مقامی رنگ، لطیف مزاح، فطری استعارے، اور نرم تشبیہیں اس طرح پیوست ہیں کہ پڑھنے والا خود کو اس فضا کا حصہ محسوس کرتا ہے۔ وہ روزمرہ کی زبان میں غیرمعمولی اثر پیدا کرنے کا فن بخوبی جانتے ہیں۔
ان کا بیان نہ صرف مقامی سماج کی ترجمانی کرتا ہے بلکہ اس میں ادبی چمک دمک اور زبان کا وقار بھی محفوظ رہتا ہے۔
بول چال کی زبان
باغ و بہار کی سب سے بڑی خصوصیت اس کی زبان کا فطری پن، سادگی، اور عام فہم انداز ہے۔ میر امن دہلوی نے اس قصے کو اس زبان میں تحریر کیا جو جولاہے، دھوبی، میر و پیر، نواب و رعایا سب بولتے اور سمجھتے تھے۔ وہ خود دعویٰ کرتے ہیں کہ:
“جس محاورے سے لوگ بول چال کرتے ہیں اسی سے لکھنا شروع کیا۔”
یہی انداز تحریر ان کی نثر کو نہ صرف زندگی آمیز بناتا ہے بلکہ دل آویز بھی کر دیتا ہے۔ آئیے ان کے اسلوب کی خصوصیات کا جائزہ لیتے ہیں:
i. کہاوتوں کا برمحل استعمال
میر امن کی نثر کی دلکشی اور اثر انگیزی میں کہاوتوں کا بڑا دخل ہے۔ وہ دیسی کہاوتوں کو برجستہ استعمال کرتے ہیں، جو قصے میں فطری روانی، زبان کی چمک، اور عوامی مزاج کی ترجمانی کرتے ہیں۔مثلاً:
“اونٹ چڑھے، کتا کاٹے، ادھر چوکی ڈومنی گائے، تالب تال۔”
ii. محاورات کی فطری روانی
باغ و بہار کی زبان کی ایک اور بڑی خوبی محاوراتی اسلوب ہے۔ میر امن نے ٹھیٹھ اور چبھتے ہوئے محاورات کو ایسے انداز سے استعمال کیا ہے کہ نثر میں تخیل اور حقیقت بیک وقت جلوہ گر ہو جاتے ہیں۔مثلاً:
“راہی مسافر جنگل میں داؤں میں سونا اچھالتے جاتے، کوئی نہ پوچھتا کہ ہمارے منہ میں دانت ہیں اور کہاں جاتے ہو۔”
جیسا کہ پروفیسر حمید احمد خان لکھتے ہیں:
“اردو نثر میں روزمرّہ کی روانی اور ٹھیٹھ محاورے کے لطف سے پہلی بار باغ و بہار میں آشنائی ہوئی۔”
iii. اضافی و توصیفی تراکیب کا استعمال
میر امن نے اضافی تراکیب کو فارسی طرز کے بجائے سہل اردو انداز میں استعمال کیا۔ وہ “حاکم کا حکم” جیسے مرکبات کو ترجیح دیتے ہیں، بجائے “حکمِ حاکم” کے۔ اس سے نثر زیادہ فطری اور مانوس ہو جاتی ہے۔
iv. لفظی تکرار کا فنکارانہ استعمال
لفظوں کی تکرار جیسے “گھر گھر، محلے محلے، روتا دھوتا” نہ صرف آہنگ پیدا کرتی ہے بلکہ نثر کو موسیقیت اور جاذبیت عطا کرتی ہے۔مثلاً:
“چھوٹے بڑے، لڑکے بالے، امرا، بادشاہ، عورت مرد ایک میدان میں جمع ہوئے۔”
v. ہندی الفاظ کا روا اور بے تکلف استعمال
میر امن نے ہندی نژاد الفاظ مثلاً “جنم بھومی، سنگت، گیان، راہ بانٹ” کو بغیر کسی جھجک کے استعمال کیا۔ ان الفاظ سے نثر میں دیسی خوشبو اور مقامی ذائقہ پیدا ہوا جو اردو کے عوامی کردار کے عین مطابق ہے۔
vi. متروک الفاظ کی شمولیت
ایسے الفاظ جیسے “کجھو، کدھو، جاوے، ایدھر” جو اب مروج نہیں، اس وقت کی بول چال کا عکاس تھے۔ یہ میر امن کی لسانی حساسیت اور عہد کی نمائندگی کو ظاہر کرتا ہے۔
vii. سادہ و عام فہم استعارات
میر امن نے نثر میں روزمرّہ زندگی سے ماخوذ استعارات استعمال کیے جو عام فہم اور پر اثر ہیں۔ جیسے:
“فرزند کہ زندگانی کا پھل ہے، اس کی قسمت کے باغ میں نہ تھا۔”
یہ استعارات تصویری انداز میں بات سمجھاتے ہیں۔
viii. تشبیہات کا بر محل استعمال
ان کے تشبیہیں نہایت سادہ، مگر مؤثر ہیں۔ وہ خیالات کو روشن اور واضح کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔مثلاً:
“پھول سا بدن سوکھ کر کانٹا ہو گیا۔”
ix. قافیہ بندی و مجمع کاری
اگرچہ میر امن نے تصنّع اور مبالغے سے پرہیز کیا، تاہم کہیں کہیں قافیہ بندی اور لفظی ہم آہنگی سے نثر کو لطافت بخشی ہے:
“اگرچہ ہر طرح کا آرام تھا، پر دن رات چلنے سے کام تھا۔”
x. تکلم اور تخاطب کا انداز
باغ و بہار کے اسلوب میں براہِ راست بات چیت، قصہ گو کا انداز، اور گفتگو کی شیرینی نمایاں ہے۔ قاری کو یوں لگتا ہے جیسے کوئی بزرگ سامنے بیٹھ کر کہانی سنا رہا ہو:
“اب خدا کے کارخانے کا تماشا سنو… ارے ظالم! یہ تو نے کیا بات کہی؟”
یہی انداز باغ و بہار کو دیگر داستانوں سے ممتاز کرتا ہے۔
داستان باغ و بہار کا مجموعی جائزہ
اگر مجموعی طور پر باغ و بہار کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ یہ کتاب اردو نثر کی تاریخ میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کی مقبولیت، تاثیر، اور ادبی اہمیت کا راز اس کے طرزِ بیان اور زبان میں مضمر ہے۔ واقعہ کی سادگی اور پلاٹ کی روایت کے باوجود، یہ کتاب اپنے اسلوبِ نگارش کی بدولت ایک زندہ جاوید ادبی شہ پارہ بن گئی ہے۔
باغ و بہار کی زبان نہ صرف اس دور کی عوامی زبان کی نمائندہ ہے بلکہ یہ ایک ایسی ادبی کسوٹی بن چکی ہے جس پر آنے والی نسلوں نے اپنی نثر کو پرکھا اور سنوارا۔ اس کی زبان میں سادگی، شگفتگی، فصاحت، محاوراتی روانی، اور فطری اندازِ گفتگو اس قدر خوش اسلوبی سے یکجا ہو گئے ہیں کہ اردو نثر میں اس کی نظیر کم ہی ملتی ہے۔
بلا شبہ، یہ وہ کتاب ہے جس کی زبان اس کے موضوع سے بھی زیادہ اہم اور دلکش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلوب نگاری میں اس کی تقلید کی کوشش تو کی گئی، مگر اس جیسا کمال کسی کے حصے میں نہ آیا۔ باغ و بہار کی مقبولیت آج بھی زندہ ہے اور آنے والے وقت میں بھی اس پر “بہار” قائم رہے گی۔
جیسا کہ پروفیسر حمید احمد خان نہایت خوبصورتی سے لکھتے ہیں:
“میر امن کی باغ و بہار پاکیزہ اور شفاف اردو کا ابلتا ہوا چشمہ ہے۔”
یہ چشمہ آج بھی اردو زبان کے پیاسوں کو فصاحت، سادگی، اور زبان کی حلاوت سے سیراب کرتا ہے۔
