تحقیق کی اہمیت، ضرورت اور افادیت | PDF

تحقیق کی اہمیت، ضرورت اور افادیت | PDF: تحقیق ایک مسلسل عمل ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ نئے حقائق سامنے لاتی ہے۔ تحقیق کی بدولت انسان ترقی کی منازل طے کر رہا ہے اور زندگی کے ہر میدان میں نئے افق تلاش کر رہا ہے۔ تحقیق کا مقصد حقائق کی بازیافت اور ان سے نتائج اخذ کرنا ہے۔ تحقیق زندگی کے ہر شعبے میں ضروری ہے، چاہے وہ دینی علوم ہوں، صنعت، زراعت، تعلیم، ادب، یا سائنس کے میدان۔ تحقیق ہی وہ عمل ہے جو ترقی کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔

تحقیق کی تعریف

تحقیق ایک ایسا منظم عمل ہے جس کے ذریعے حقائق کو جانچنے، پرکھنے اور دریافت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ علم اور تجربے کے ذریعے حقیقت تک پہنچنے کا ایک ذریعہ ہے جو انسانی زندگی کے ہر پہلو میں استعمال ہوتا ہے۔

تحقیق کا لغوی اور اصطلاحی معنی

  • لغوی معنی: تحقیق عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مادہ ح ، ق ، ق ، حقق ہے۔ جس کے لغوی معنی کھرے کھوٹے کی پہچان یا چھان بین کے ہیں۔
  • اصطلاحی معنی: اصطلاحاً یہ ایک ایسے طرز مطالعہ کا نام ہے جس میں موجودہ مواد کے صحیح یا غلط کو بعض اصولوں کی روشنی میں لکھا جاتا ہے۔
تحقیق کی اہمیت pdf
تحقیق کی اہمیت pdf

تحقیق کی اہمیت

تحقیق کو کسی مخصوص شعبے یا میدان میں محدود نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام نے تحقیق کی اہمیت پر بے حد زور دیا ہے۔ غور و فکر، تحقیق اور جستجو کو اسلام میں ایک اہم مقام حاصل ہے۔ قرآن پاک میں متعدد آیات ہمیں تدبر اور سوچنے سمجھنے کی ترغیب دیتی ہیں۔ چند آیات کے تراجم ملاحظہ ہوں:

“کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر قفل لگ گئے ہیں؟” سورہ محمد (آیت 24)

“اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو خوب تحقیق کر لیا کرو، مبادا کسی قوم کو نادانی میں نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کیے پر پشیمانی اٹھاؤ۔” سورہ الحجرات (آیت 6):

“بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کے بدلنے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔” سورہ آل عمران (آیت 190)

مندرجہ بالا آیات تحقیق کی اہمیت، ضرورت اور افادیت کو واضح کرتی ہیں۔ اسلام نے علم کی بنیاد پر تحقیق کو فروغ دیا تاکہ انسان اپنے علم کو مزید بہتر کر سکے اور حقائق کی تلاش کرے۔

گلزار احمد لکھتے ہیں:

“مسلمانوں کے لیے تحقیق کا میدان کوئی نیا میدان نہیں ہے۔ اگر تاریخ کے تناظر میں دیکھا جائے تو ہم فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ مسلمانوں نے تحقیق کے جو اصول وضع کیے ہیں، وہ کسی دوسری قوم میں نظر نہیں آتے۔ چاہے وہ ترقی یافتہ ممالک ہی کیوں نہ ہوں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے تحقیقی اصولوں کو دوبارہ اپنی زندگی میں رائج کریں۔”

تحقیق کا دائرہ صرف واقعات تک محدود نہیں بلکہ یہ حقائق کی تلاش اور ان کی بازیافت کا نام ہے۔ تحقیق کسی چیز کو اس کی اصل شکل میں سمجھنے اور دیکھنے کی کوشش ہے، جو اس کے مقام و اہمیت کو دوچند کر دیتی ہے۔

اعجاز راہی اپنی کتاب “اصولِ تحقیق” میں لکھتے ہیں:

“اسلام تحقیق پر اپنے انداز میں زور دیتا ہے اور اس کی ابتدا ہی تحقیق سے ہوتی ہے۔”

ڈاکٹر جمیل جالبی کے مطابق:

“ہر بڑا شاعر، ناول نگار، افسانہ نویس، نقاد، فلسفی، یا سائنسدان تحقیق کے بغیر کوئی بڑا کارنامہ سر انجام نہیں دے سکتا۔ بڑی تخلیق کے لیے تحقیق اتنی ہی ضروری ہے جتنا پانی زندگی کے لیے۔”

ایڈم کے بقول:

“تحقیق سچائی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔”

رشید حسن خان اپنی کتاب “ادبی تحقیق: مسائل اور تجزیہ” میں تحقیق کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں:

“تحقیق حقائق کی بازیافت کا نام ہے۔”

لہٰذا، تحقیق ایک لازمی عنصر ہے جو نہ صرف علمی ترقی کا ذریعہ ہے بلکہ حقائق کی دریافت اور نئی راہوں کی تلاش میں انسانیت کی مدد بھی کرتا ہے۔

تحقیق کی ضرورت اور آفادیت
تحقیق کی ضرورت اور آفادیت

تحقیق کی ضرورت اور آفادیت

تحقیق انسانی زندگی کا ایک لازمی جزو ہے جو مذہب،علم، سائنس، ادب، صنعت، زراعت، طب، اور دیگر شعبوں میں ترقی کا ذریعہ بنتی ہے۔ تحقیق کے بغیر ترقی کا تصور ممکن نہیں۔ اسلام میں تحقیق کی روایت نہایت قدیم اور مضبوط بنیادوں پر قائم ہے۔

دینی اعتبار سے قرآن مجید اور احادیث کی جمع و تدوین کے سلسلے میں علماء اور محدثین نے حد درجہ تحقیق اور محنت سے کام لیا۔ یہ تحقیق حضور اکرم ﷺ کی وفات کے بعد تقریباً ایک صدی کے دوران اپنی انتہا کو پہنچی، جب محدثین نے حضور ﷺ کے ارشادات اور احادیث کی جمع آوری کا کام شروع کیا۔

انہوں نے احادیث کو نہ صرف تحقیق کی کسوٹی پر پرکھا بلکہ ان احادیث کے راویوں کے افعال و کردار کے بارے میں مکمل تحقیق کی۔ ہر راوی کی زندگی اور سیرت کا بغور جائزہ لیا گیا تاکہ ان کی سچائی، دیانت داری اور علمیت کی تصدیق ہو سکے۔ اگر کسی راوی کے بارے میں ذرا بھی شبہ ہوا تو اس کی روایت کو مسترد کر دیا گیا۔

اعجاز راہی اپنی کتاب “اصول تحقیق” میں لکھتے ہیں:

“احادیث کی جمع آوری میں تحقیق اور جستجو کے علاوہ بھی مسلمانوں نے گزشتہ تیرہ چودہ سو سال میں تمام مروجہ علوم میں تحقیق کا حق ادا کیا۔ ان کے تحقیقی شاہکار آج ہمارے لیے ایک بیش بہا سرمایہ ہیں۔”

تحقیق کی یہ روایت نہ صرف مذہب تک محدود ہے بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں اہمیت رکھتی ہے۔ زندگی اب ایک وسیع سمندر کی مانند ہے، جس میں تحقیق کے میدان ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں۔ چاہے وہ مذہب ہو، صنعت، زراعت، تعلیم، ادب، تجارت، نفسیات، سیاست یا حکومت، ہر جگہ تحقیق کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ تحقیق ہی وہ عمل ہے جس کے ذریعے ہر شعبے کو بہتر بنایا جا سکتا ہے اور ترقی کے نئے راستے کھولے جا سکتے ہیں۔

طب کے شعبے کی مثال لیں تو اگر تحقیق نہ کی جاتی تو انسان آج بھی صرف جڑی بوٹیوں پر ہی انحصار کر رہا ہوتا۔ یہ تحقیق ہی کی بدولت ہے کہ آج خطرناک بیماریوں کے علاج ممکن ہو چکے ہیں۔

صنعت کے میدان میں اگر سائیکل کی ایجاد پر ہی اکتفا کر لیا جاتا تو ہوائی جہاز، کاریں، بسیں اور جدید مشینری کبھی وجود میں نہ آتی۔ یہ سب تحقیق کی کارفرمائی ہے جو انسان کو ترقی کی طرف گامزن رکھتی ہے۔

ادب اور تحقیق کا تعلق بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ شاعری، افسانہ، ناول، ڈرامہ، غزل، نظم اور دیگر اصنافِ ادب میں تحقیق بنیادی ضرورت ہے۔ نہ صرف ان اصناف کو لکھنے کے لیے بلکہ انہیں سمجھنے اور ان کی تشریح کے لیے بھی تحقیق لازم ہے۔ تحقیق ہی کے ذریعے ادب اور زبان ترقی کرتے ہیں۔

تحقیق کے بغیر روایتوں، حکایتوں اور داستانوں کا سفر آگے نہیں بڑھ سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ تحقیق کو زندگی کے ہر پہلو میں ترقی کی بنیاد تصور کیا جاتا ہے۔

ادب میں وقت کے تقاضوں کے مطابق جو تبدیلیاں آتی ہیں، وہ تحقیق کی بدولت ہی ممکن ہوتی ہیں۔ ادیب، شاعر اور نقاد کے لیے تحقیق ایک بنیادی اور ناگزیر ضرورت ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کے بقول:

“وہ ادیب، شاعر اور نقاد جو تحقیق سے گریز کرتے ہیں، اسے غیر اہم یا غیر ضروری سمجھتے ہیں، یا اپنی تخلیقات اور تحریروں سے سطحی طور پر گزرنا چاہتے ہیں، وہ ہرگز علم و ادب کی دنیا میں وہ مقام حاصل نہیں کر سکتے، جس کی انہیں آرزو ہوتی ہے۔”

اقبال کی شاعری کی عظمت کا راز بھی ان کے تحقیقی مزاج میں پنہاں ہے۔ ان کی تخلیقی قوت نے تحقیق کے ذریعے زندگی کے وسیع مسائل اور حقائق کو اپنی شاعری کا حصہ بنایا، جس کے نتیجے میں ان کی شاعری کو عظمت حاصل ہوئی۔

ادب کی تاریخ میں اکثر ایسے مفروضے اور نظریات پیدا ہوتے ہیں جو مکمل طور پر غلط یا ادھورے ہوتے ہیں۔ ان نظریات کی درستگی اور تکمیل کے لیے تحقیق ایک لازمی عمل ہے۔ ادبی تحقیق کا مقصد ان غلط فہمیوں کو دور کرنا اور حقائق کو سامنے لانا ہے، جو ادب کی تاریخ میں غلط روایتوں یا نظریات کی بنیاد پر رائج ہو چکی ہیں۔

مثال کے طور پر، اردو زبان کے ارتقاء کے حوالے سے مختلف نظریات ملتے ہیں۔ کچھ ناقدین نے سندھ کو اردو کا آغاز قرار دیا، کچھ نے پنجاب کو، جبکہ کچھ نے دکن یا گجرات کو اردو کی جنم بھومی کہا۔ یہ تحقیق ہی کا نتیجہ ہے کہ اردو زبان کے آغاز کے بارے میں مختلف خیالات اور دلائل سامنے آئے اور آج تک اس پر تحقیق جاری ہے۔

اسی طرح ادبی تحقیق کا ایک اہم مقصد یہ بھی ہے کہ فنکاروں کی زندگی کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کیا جائے۔ یہ غلط فہمیاں چاہے خود فنکار کی پیدا کردہ ہوں یا دوسروں کی، تحقیق ان کی چھان بین کر کے حقیقت کو واضح کرتی ہے۔

مثال کے طور پر، میر تقی میر کے والد کو وہ جتنا بڑا درویش بتاتے ہیں یا جوش ملیح آبادی اپنے آباء و اجداد کے بارے میں جتنا کچھ دعویٰ کرتے ہیں، تحقیق ان دعوؤں کی حقیقت کو واضح کرتی ہے۔

ایک اور مثال وہ مشہور شعر ہے:

شکست و فتح نصیبوں پہ ہے ولے اے میر

مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب لیا

یہ شعر اکثر میر تقی میر سے منسوب کیا جاتا ہے، لیکن تحقیق ثابت کرتی ہے کہ یہ میر کا شعر نہیں بلکہ قائم کے شاگرد میر کا ہے۔

تحقیق کا بنیادی مقصد حقائق کی تلاش، ان کا تجزیہ اور درست نتائج کا اخراج ہے۔ لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب تحقیق کے طریقۂ کار کو واضح طور پر سمجھا جائے اور اس پر عمل کیا جائے۔ تحقیق نہ صرف ادب کی بنیاد کو مستحکم کرتی ہے بلکہ ادبی روایتوں، زبان اور فنکاروں کی سچائیوں کو بھی آشکار کرتی ہے، جس سے ادب کی دنیا مزید روشن ہوتی ہے۔

تحقیق کی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے یہ کہنا کافی ہے کہ صداقت کی تلاش اور حقیقت کا تعین انسان کی فطری جبلت ہے۔ جہاں مابعد الطبیعات روحانی عمل کے ذریعے حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کرتی ہے، وہیں تحقیق کا عمل منطقی اور معروضی ذرائع سے حقائق کی تلاش کرتا ہے۔

تخلیق، تنقید، ادبی تاریخ اور علم و ادب کی تمام شاخوں کی تکمیل کے لیے تحقیق کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ قدیم ادوار میں تحقیق کی بدولت یہ ثابت ہوا کہ اردو ادب کا پہلا شاعر مسعود سعد سلمان ہے، جس کے تین دواوین کا ذکر ملتا ہے۔ تحقیق اس بات کی تصدیق کے ساتھ ساتھ ان دلائل کی بنیاد بھی فراہم کرتی ہے، جو کسی مفروضے کو حقیقت میں بدلنے کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔

تحقیق کے دو بنیادی ذرائع ہیں:

  1. بنیادی ماخذ: اگر تحقیق کا موضوع کسی زندہ شخصیت پر ہو تو وہ خود بنیادی ماخذ ہوگی۔ اگر شخصیت زندہ نہ ہو تو اس کی تصانیف اور قریبی ذرائع اہم ماخذ ہوں گے۔
  2. ثانوی ماخذ: وہ کتابیں اور مقالات جو اس شخصیت، تحریک، یا رجحان پر لکھی جائیں، ثانوی ماخذ کہلاتی ہیں۔

تحقیق کے عمل میں محقق کی سوچ یا ذاتی نظریات حقائق پر اثر انداز نہیں ہو سکتے۔ حقائق کو اس وقت تک مفروضہ ہی سمجھا جاتا ہے، جب تک وہ خود اپنی سچائی کو ثابت نہ کریں۔ یہی وجہ ہے کہ تحقیق ایک مسلسل عمل ہے، جو وقت کے ساتھ ساتھ نئے انکشافات اور معلومات کو اپنانے پر زور دیتی ہے۔

ڈاکٹر ایم سلطانہ بخش کے بقول:

“تحقیق میں کوئی نتیجہ حرف آخر نہیں ہوتا۔ سالہا سال کی محنت سے بنائی گئی عمارت ایک معمولی انکشاف سے گر سکتی ہے۔”

تحقیق میں دیے گئے دعوے تبھی قابل قبول ہوتے ہیں، جب ان کی سند معتبر ہو۔ غیر معتبر حوالوں پر بھروسہ کرنے سے نتائج مشکوک ہو جاتے ہیں۔ حافظ محمود شیرانی کی ولی کے دہلی آنے کے بارے میں دی گئی سند کو مثال کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، جہاں مولانا آزاد کے غیر معتبر حوالے کو بنیاد بنایا گیا، حالانکہ یہ حوالہ درست ثابت نہیں ہوا۔

تحقیق اور تنقید کا گہرا تعلق ہے۔ بقول کلیم الدین احمد:

“بغیر تحقیق کے تنقید کی حالت ایسی ہو گی جیسے کوئی شخص صحرا میں بھٹک رہا ہو اور اسے علم نہ ہو کہ وہ بھٹک رہا ہے۔”

تحقیق، تنقید کو وہ مواد فراہم کرتی ہے، جس سے ادیب یا شاعر کی شخصیت اور اس کے فن پر روشنی ڈالی جا سکے۔ اردو ادب میں تحقیق کے اولین نقوش میر کے تذکرہ نکات الشعرا، سودا کے اعتراضات اور غالب کے خطوط میں نظر آتے ہیں۔ بعد ازاں، محمد حسین آزاد نے “آب حیات” اور مولوی عبدالحق نے ادبی تحقیق میں اہم کردار ادا کیا۔

موجودہ دور میں تحقیق کے میدان میں جمیل جالبی، قاضی عبدالودود، رشید حسن خان، گوہر نوشاہی، ڈاکٹر ایم سلطانہ بخش، ڈاکٹر زکریا اور دیگر کے نام نمایاں ہیں۔

تحقیق کے بغیر تخلیق کا عمل نامکمل اور غیر مستند ہو گا۔ تحقیق کا اصل مقصد نامعلوم حقائق کی دریافت اور معلوم حقائق کی توسیع و تصحیح ہے۔ تحقیق کے ذریعے ہی ہم درست اور ٹھوس نتائج حاصل کر سکتے ہیں، جو زندگی اور ادب کے ہر شعبے میں رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔

مزید دیکھیں

اضافی سوالات

سوال: تحقیق کی کتنی اقسام ہیں؟
جواب: تحقیق کی دو بڑی اقسام ہیں: بنیادی تحقیق اور اطلاقی تحقیق۔ بنیادی تحقیق علم میں اضافہ کے لیے کی جاتی ہے، جبکہ اطلاقی تحقیق مسائل کے عملی حل کے لیے کی جاتی ہے۔

سوال: تحقیق کے مآخذ کیا ہیں؟
جواب: تحقیق کے مآخذ میں کتابیں، مقالے، انٹرنیٹ، تجربات، انٹرویوز، اور مشاہدات شامل ہیں۔

سوال: تحقیق کے مراحل کون سے ہیں؟
جواب: تحقیق کے مراحل میں موضوع کا انتخاب، مواد جمع کرنا، تجزیہ، نتائج نکالنا، اور رپورٹ کی تدوین شامل ہیں۔

سوال: تحقیق کی تاریخ کیا ہے؟
جواب: تحقیق کی تاریخ قدیم دور سے شروع ہوتی ہے، جب انسان نے اپنے ماحول کو سمجھنے اور مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی۔ سائنسی تحقیق کا آغاز سولہویں صدی میں ہوا۔

سوال: کسی بھی معاشرے میں تحقیق کی کیا اہمیت ہے؟
جواب: تحقیق معاشرتی ترقی، مسائل کے حل، اور علم میں اضافے کے لیے ناگزیر ہے۔ یہ معیشت، تعلیم، اور صحت جیسے شعبوں میں بہتری لاتی ہے۔

سوال: تحقیق کیوں ضروری ہے؟
جواب: تحقیق نئے علم کی دریافت، مسائل کا حل، اور بہتر فیصلہ سازی کے لیے ضروری ہے۔

سوال: تحقیق کا مقصد کیا ہے؟
جواب: تحقیق کا مقصد حقائق کی تلاش، مسائل کا تجزیہ، اور قابلِ عمل حل فراہم کرنا ہے۔

سوال: تحقیق میں موضوع کا انتخاب کیسے کیا جاتا ہے؟
جواب: موضوع کا انتخاب دلچسپی، موجودہ مسائل، اور مواد کی دستیابی کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔

Note:

Book Cover

تحقیق کی تعریف، اہمیت، ضرورت اور افادیت

Rating: ★★★★☆
  • Author: ravinotes.com

  • File Size: 1 MB

  • Format: PDF

  • Notes: Urdu

  • Price: Free

Leave a Comment