افسانہ کیا ہے؟ افسانے کا آغاز و ارتقا: افسانہ اردو ادب کی ایک اہم اور مقبول صنف ہے، جو انسانی جذبات، سماجی مسائل اور تہذیبی حقیقتوں کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ مختصر کہانی ایک نشست میں مکمل ہو سکتی ہے اور اپنے اندر زندگی کے کسی ایک پہلو کو گہرائی سے پیش کرتی ہے۔ اردو افسانے کی ابتدا اور ارتقاء کے ساتھ ساتھ اس کے اجزائے ترکیبی، رجحانات اور نمایاں افسانہ نگاروں پر یہ مضمون ایک جامع جائزہ پیش کرتا ہے۔
- یہ بھی پڑھیں: ڈرامہ کی تعریف، لوازمات اور اقسام | PDF
مضمون میں اردو افسانے کی تاریخ سے لے کر اس کی موجودہ شکل تک کے تمام اہم مراحل کو عمدگی سے بیان کیا گیا ہے، جس سے قارئین کو افسانے کی اہمیت، اس کے فنی پہلوؤں اور اس کے تہذیبی پس منظر کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ یہ تعارف ان افراد کے لیے خاص طور پر مفید ہے جو اردو افسانے کی گہرائیوں میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اس کی تخلیقی وسعت کو دریافت کرنا چاہتے ہیں۔
افسانہ کیا ہے؟
افسانہ کی عمر تقریباً ایک صدی پر محیط ہے۔ اس مختصر عرصے میں افسانے نے اتنی ترقی کی منازل طے کی ہیں کہ آج اس کا مطالعہ محض ایک صنف ادب کا مطالعہ نہیں بلکہ پوری تہذیب کی عکاسی کا مطالعہ بن چکا ہے۔ افسانہ مغرب سے اردو ادب میں آیا اور اس سے پہلے مغربی اور روسی ادب میں اپنا مکمل دور متعین کر چکا تھا۔ (3)
انگریزی، روسی اور اردو ادب میں افسانے کی مختلف تعریفیں پیش کی گئی ہیں۔ ان تعریفوں کے مطابق، افسانہ ایک مختصر کہانی ہے جو ایک نشست، یعنی ایک یا دو گھنٹوں میں پڑھی جا سکتی ہے۔ افسانے میں زندگی کے کسی ایک پہلو کو بیان کیا جاتا ہے اور اس کا بنیادی نقطہ “وحدتِ تاثر” ہوتا ہے۔ ایجاز و اختصار اور حسنِ انتخاب افسانے کی نمایاں خصوصیات ہیں۔
تاہم، یہ کہنا غلط ہوگا کہ ناول اور افسانے کے درمیان فرق صرف اختصار ہے۔ دراصل، دونوں میں فرق ان کی تکنیک کا ہے، نہ کہ محض طوالت یا اختصار کا۔
داستان اور ناول کی طرح افسانے کے بھی اپنے اجزائے ترکیبی ہیں۔ ناول اور افسانے کے اجزا میں مشابہت موجود ہے، جیسے کہ قصہ، کہانی، پلاٹ، کردار، ماحول، فلسفہ حیات، زبان و اسلوب وغیرہ۔ کیونکہ دونوں کا مرکز حقیقی کہانی ہے۔ البتہ، ان عناصر کی تکنیک میں فرق وہی ہے جو پوری زندگی اور زندگی کے ایک جز یا اثر کے فرق کے باعث پیدا ہوتا ہے۔

افسانے کا آغاز و ارتقاء
افسانے کی ابتدا کے حوالے سے کسی زمانے میں اختلاف پایا جاتا تھا۔ بعض ناقدین پریم چند کو اردو کا پہلا افسانہ نگار تسلیم کرتے تھے، جبکہ دیگر سجاد حیدر یلدرم کو یہ مقام دیتے تھے۔ خاص طور پر ڈاکٹر معین الرحمن کی تحقیق کے مطابق، سجاد حیدر یلدرم کو پہلا افسانہ نگار مانا گیا۔
تاہم، جدید تحقیق نے اس بات کو مزید پیچھے لے جا کر راشد الخیری کو پہلا اردو افسانہ نگار قرار دیا ہے۔ ان کا پہلا افسانہ “نصیر اور خدیجہ” دسمبر 1903ء میں شائع ہوا۔ اگرچہ یہ افسانہ فنی اعتبار سے مکمل نہیں تھا، مگر ابتدا کا سہرا راشد الخیری کے سر بندھتا ہے۔
اس کے باوجود، اردو کے اہم ترین ابتدائی افسانہ نگار سجاد حیدر یلدرم اور پریم چند ہی ہیں۔ سجاد حیدر یلدرم کا افسانوی مجموعہ “خیالستان” کے نام سے منظر عام پر آیا۔ ان کے افسانے رومانیت سے بھرپور ہیں۔ انہوں نے محبت، عورت، اور انسانی جذبات کو اپنے افسانوں کا مرکزی موضوع بنایا۔ یلدرم نے عورت کی اہمیت اور سماج میں اس کی ضرورت پر زور دیا۔ ان کے مشہور افسانے “خارستان و گلستان” اور “حضرت دل کی سوانح عمری” ہیں۔
- یہ بھی پڑھیں: داستان کے اجزائے ترکیبی | PDF
یلدرم کے افسانوں کا اسلوب نہایت دلکش اور رومانوی ہے، جو خوبصورت جملوں اور پراثر بیان سے مزین ہوتا ہے۔ ان کے افسانوں نے اردو ادب میں ایک نئی جہت کا اضافہ کیا اور افسانے کو ایک منفرد شناخت بخشی۔
پریم چند کے افسانوی مجموعوں میں “سوزِ وطن”، “پریم پچیسی”، “پریم بتیسی”، “پریم چالیسی” اور دیگر کئی اہم مجموعے شامل ہیں۔ پریم چند نے اپنی تخلیقات میں زندگی کی خارجی اور داخلی حقیقتوں کو افسانوی روپ دیا۔ ان کے افسانوں میں پنجاب کے دیہاتوں کی زندگی کی حقیقی عکاسی ملتی ہے۔
جاگیردارانہ ظلم و ستم، اس نظام کی قباحتیں، اور کسانوں کی حالت زار ان کے اہم موضوعات رہے ہیں۔ پریم چند کے افسانوں میں ترقی پسند تحریک کے اثرات نمایاں طور پر محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ ان کا شاہکار افسانہ “کفن” ان کے فن کی معراج کو ظاہر کرتا ہے۔ (2)
اردو افسانے کے ابتدائی دور میں دو مختلف رجحانات دیکھے گئے: ایک رومانیت اور دوسرا ترقی پسندی۔ سجاد حیدر یلدرم رومانیت کے علمبردار تھے، جبکہ پریم چند سماجی حقیقت نگاری کے نمائندہ تھے۔ یلدرم کے مکتبہ فکر سے متاثر افسانہ نگاروں میں نیاز فتح پوری، حجاب امتیاز علی، مجنوں گورکھپوری، اور سلطان حیدر جوش شامل ہیں۔ دوسری طرف، پریم چند کے مکتبہ فکر سے وابستہ افسانہ نگاروں میں سدرشن، اعظم کریوی، اور علی حسینی کے نام آتے ہیں۔
- یہ بھی پڑھیں: ناول امراؤ جان ادا کا فنی جائزہ | PDF
افسانہ تقریباً اپنے آغاز ہی سے سماجی حقیقتوں سے مملو نظر آتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ ہندوستانی معاشرے کو درپیش مسائل اور سماجی حالات تھے۔ پریم چند کے بعد سماجی حقیقت نگاری کو مزید تقویت احمد علی، رشید جہاں، اور دیگر افسانہ نگاروں کی تخلیقات نے بخشی۔ ان کے افسانے معاشرتی ناانصافیوں کے خلاف بھرپور احتجاجی آواز بنے۔
1936ء میں ترقی پسند تحریک کا آغاز ہوا، جس نے افسانے کو سماجی حقیقت نگاری اور اجتماعی مسائل کی وضاحت کے لیے ایک واضح سمت دی۔ اس تحریک نے افسانے کا ایک وسیع اور متنوع طبقہ پیدا کیا۔ کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، سعادت حسن منٹو (کسی حد تک)، حیات اللہ انصاری، احمد ندیم قاسمی، اور غلام عباس ترقی پسند تحریک کے وہ اہم افسانہ نگار ہیں جنہوں نے اردو افسانے کو نئی بلندیوں تک پہنچایا۔ ان افسانہ نگاروں کا کردار اردو ادب میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
غلام عباس اردو افسانے کے ایک اہم نام ہیں۔ وہ نیچرلزم کے رجحان سے وابستہ افسانہ نگار ہیں، جن کے افسانوں میں خارجی حقیقت نگاری کے پہلو نمایاں ہیں۔ ان کی سب سے بڑی خوبی ان کا کہانی پن ہے۔ کہانی بیان کرنے کا جو انداز غلام عباس کے ہاں ملتا ہے، وہ بہت کم افسانہ نگاروں کے ہاں دکھائی دیتا ہے۔
ان کے ہاں کہانی اور کہانی کار کے درمیان تعلق بہت کم ظاہر ہوتا ہے۔ غلام عباس کہانی لکھتے جاتے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے کوئی شخص کہانی سن رہا ہو۔ ان کے ہاں نہ تو کہانی کو جلدی ختم کرنے کی خواہش دکھائی دیتی ہے، اور نہ ہی کسی پرکشش انجام کی جستجو۔ جب ان کے پاس کہنے کو کچھ باقی نہیں رہتا، تو وہ کہانی ختم کر دیتے ہیں۔
- یہ بھی دیکھیں: ناول اداس نسلیں کا فنی جائزہ | PDF
غلام عباس نے اردو افسانے کو “اوور کوٹ”، “کتبہ”، “آئندہ” اور “فینسی ہیئر کٹنگ سیلون” جیسے شاہکار افسانے دیے۔ ترقی پسند تحریک کے رجحان کے ساتھ ساتھ اردو افسانے میں جنسی اور نفسیاتی رجحانات کے نمایاں افسانہ نگار بھی ملتے ہیں۔ ممتاز مفتی اور قدرت اللہ شہاب ان رجحانات کے نمائندہ ہیں۔
اردو افسانے کا ایک مرکزی موضوع 1947ء کے فسادات بھی رہے ہیں۔ ان فسادات کو موضوع بنانے والے افسانہ نگاروں میں احمد ندیم قاسمی، کرشن چندر، حیات اللہ انصاری، اور عصمت چغتائی کے نام شامل ہیں۔ آزادی کے بعد اردو افسانے میں ترقی پسند رجحانات کے ساتھ ساتھ نفسیاتی و جنسی رجحانات بھی دیکھنے کو ملے۔ ان رجحانات کے حامل افسانہ نگاروں میں ممتاز مفتی، قدرت اللہ شہاب، اور عرش صدیقی کے نام قابل ذکر ہیں۔ (1)
محبت کے وسیع اور متنوع تصور کو بیان کرنے کے حوالے سے اشفاق احمد کا نام اہم ہے۔ آزادی کے بعد اردو افسانے میں ایک اور اہم رجحان اساطیری، تاریخی، دیومالائی، اور خاص طور پر علامتی و تجریدی افسانے کا ہے۔ اساطیری اور تاریخی رجحان کے نمایاں نمائندے انتظار حسین ہیں، جبکہ علامتی اور تجریدی افسانے کے حوالے سے انور سجاد، رشید امجد، اعجاز راہی، اور مرزا حامد بیگ کے نام اہم ہیں۔
اردو افسانہ ان تمام رجحانات کے ساتھ ساتھ اپنی زمین، مٹی اور علاقائی روایات کی خوشبو سے بھی مہکتا رہا ہے، جو اسے ایک منفرد اور دلکش پہچان عطا کرتی ہے۔
اردو افسانے میں فہمیدہ اختر کا شمار ان افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے جنہوں نے خیبر پختونخوا کی تہذیب و ثقافت، پشتون رویوں، اور علاقائی روایات کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا۔ ان کے افسانوں میں مٹی کی خوشبو اور زمین سے جڑا ہوا ایک خاص رنگ نمایاں نظر آتا ہے۔ ان کے بہترین افسانوں میں “نیا سورج” اور “جب دنیا مسکرا اٹھی” جیسے شاہکار شامل ہیں، جو ان کے تخلیقی وفور اور گہرے مشاہدے کے عکاس ہیں۔
افسانے کے رجحانات اور رویوں کی فہرست بہت طویل ہے، اور اس میں بے شمار اہم نام آتے ہیں جن کا ذکر مختصر مضمون میں ممکن نہیں۔ تاہم، یہ کہنا بجا ہوگا کہ اردو افسانہ اپنے تخلیقی سفر میں مستقل ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور ہر دور کے نت نئے رجحانات کو اپنی آغوش میں سمیٹ رہا ہے۔
مزید دیکھیں
- داستان کی تعریف، معانی اور تاریخ | PDF
- تحقیق کی اہمیت، ضرورت اور افادیت | PDF
- افسانہ کیا ہے | افسانے کے اجزائے ترکیبی | PDF
- ڈرامہ کی تعریف، لوازمات اور اقسام | PDF
افسانے سے متعلق اضافی معلومات
سوال: افسانے سے کیا مراد ہے؟
جواب: افسانہ ایک مختصر کہانی ہے جو زندگی کے کسی ایک پہلو، واقعے، یا مسئلے کو مختصر اور جامع انداز میں بیان کرتی ہے۔ یہ انسانی جذبات، حالات، اور واقعات کو مختصر مگر مؤثر انداز میں پیش کرتا ہے۔
سوال: ناول اور افسانے میں بنیادی فرق کیا ہے؟
جواب: ناول ایک طویل کہانی ہے جو زندگی کے مختلف پہلوؤں کو تفصیل سے بیان کرتی ہے۔ اس میں کرداروں، پلاٹ، اور واقعات کو گہرائی کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ جبکہ افسانہ ایک مختصر کہانی ہے جو کسی ایک موضوع یا واقعے کو اختصار کے ساتھ پیش کرتی ہے۔
سوال: اردو کا پہلا افسانہ کیا ہے؟
جواب: اردو ادب کا پہلا افسانہ “نصیر اور خدیجہ ” ہے جو 1903 میں راشد الخیری نے لکھا۔ یہ کہانی افسانوی صنف کے ابتدائی نقوش میں سے ایک ہے۔
سوال: افسانے کے کتنے ادوار ہیں؟
جواب: اردو افسانے کو عمومی طور پر چار ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے:
1. ابتدائی دور (1901-1930)
2. ترقی پسند دور (1930-1947)
3. تقسیم کے بعد کا دور (1947-1970)
4. جدید اور معاصر دور (1970 تا حال)
سوال: افسانہ کا معنی کیا ہے؟
جواب: افسانہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب “خیالی کہانی” یا “قصہ” ہے۔ اردو ادب میں افسانہ ایک مختصر اور جامع کہانی کو کہا جاتا ہے جو کسی خاص موضوع یا واقعے کو بیان کرتی ہے۔
سوال: افسانے کے کتنی اقسام ہیں؟
جواب: افسانے کی درج ذیل اقسام ہیں:
1. اصلاحی افسانہ: سماجی مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے۔
2. نفسیاتی افسانہ: انسانی جذبات اور نفسیات پر مبنی۔
3. رومانوی افسانہ: عشق و محبت کے موضوعات پر۔
4. تاریخی افسانہ: تاریخ کے کسی واقعے کو بنیاد بنا کر۔
5. خیالی افسانہ: تخیل اور غیر حقیقی واقعات پر مبنی۔
Notes:
