فرحت اللہ بیگ کا اسلوب اور مزاح نگاری | PDF

فرحت اللہ بیگ کا اسلوب اور مزاح نگاری | PDF: مرزا فرحت اللہ بیگ اردو کے صاحب طرز ادیب اور منفرد مزاح نگار ہیں۔ ان کی تحریروں کی دلکشی اور ظرافت کی انفرادیت نے انہیں اردو ادیبوں، بالخصوص مزاح نگاروں میں ایک نمایاں مقام عطا کیا ہے۔ ادب کے بیشتر موضوعات پر انہوں نے قلم اٹھایا ہے، جیسے سوانح حیات، قصہ، کہانی، ادبی تنقید، سماجی اصلاح، رسوم و روایات، سفر و سیاحت اور سیاسی نظریات وغیرہ۔

مرزا فرحت اللہ بیگ نے ہر موضوع کو اپنے مخصوص اسلوب اور طرز ادا کے ذریعے سنوار کر، نکھار کر، اور دلکشی کے ساتھ پیش کیا ہے، جو ان کی ادبی مہارت اور فنی بلندی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

فرحت اللہ بیگ کا اسلوب اور مزاح نگاری | PDF
فرحت اللہ بیگ کا اسلوب اور مزاح نگاری

مرزا فرحت اللہ بیگ کا اسلوب اور مزاح نگاری

مرزا فرحت اللہ بیگ کے اسلوب کے امتیازی خصوصات یا مزاح نگاری کے امتیازی خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں۔

  • زبان کی لطافت اور چاشنی
  • بے تکلفی اور روانی
  • شگفتگی و ظرافت
  • محاورات کا استعمال
  • لطیف طنز
  • منظر نگاری
  • قدامت پسندی
  • جزئیات نگاری
  • معاشرت نگاری

زبان کی لطافت اور چاشنی

مرزا فرحت اللہ بیگ کی زبان دلی کی ٹکسالی زبان ہے، جو روزمرہ کے صحیح نمونے کی عکاسی کرتی ہے۔ ان کے اسلوب میں ایک مخصوص چٹخارہ اور چاشنی پائی جاتی ہے، جس کی بدولت ان کے ہر مضمون کے مطالعے سے قاری کو ایک خاص مسرت محسوس ہوتی ہے۔

عام گفتگو کے دوران قصے اور خوشی کے جذبات جس انداز میں ادا کیے جاتے ہیں، ان کی زندہ مثالیں مرزا فرحت اللہ بیگ کی تحریروں میں ملتی ہیں۔ ان کے طنز و مزاح کی وجہ سے قاری زیر لب تبسم پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ سنجیدگی اور مزاح کو ایک ساتھ لے کر چلتے ہیں۔

عبدالقادر سروری کے مطابق، مرزا فرحت اللہ بیگ کی کامیابی کی سب سے بڑی ضامن ان کی دلکش زبان ہے، جو ان کے فن کی انفرادیت اور مقبولیت کی بنیاد ہے۔

بے تکلفی اور روانی

مرزا فرحت اللہ بیگ کے اسلوب کا خاصہ یہ ہے کہ اس میں بے تکلفی اور روانی وافر مقدار میں پائی جاتی ہے، اور اس طرزِ نگارش میں وہ کسی بھی صاحبِ طرز ادیب سے پیچھے نہیں ہیں۔ ناقدین نے ان کی نثری عبارت کو ایک صاف و شفاف پہاڑی ندی کے پانی سے تشبیہ دی ہے، کیونکہ ندی کا پانی بلا کی روانی رکھتا ہے اور اس میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ہوتی۔ اسی طرح مرزا فرحت اللہ بیگ کے الفاظ کا بہاؤ بھی اس قدر تندی اور تیزی رکھتا ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے الفاظ اپنے مطلب و معنی سے بہت آگے نکلتے جا رہے ہیں۔

ان کی طبیعت میں ایک خاص جولانی پائی جاتی ہے، اور ان کی ہر بات میں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ اس میں مکمل طور پر جذب ہو گئے ہیں، جس کا اندازہ لگانا آسان نہیں۔ علاوہ ازیں، ان کی نثر میں ظرافت بھی اپنی پوری آن بان کے ساتھ موجود ہے، جو ان کی تحریر کو مزید دلچسپ اور دلکش بناتی ہے۔

شگفتگی و ظرافت

مرزا فرحت اللہ بیگ کے اسلوب کی سب سے نمایاں خوبی شگفتگی اور دلکشی ہے، جسے نقادوں نے سنجیدگی اور ظرافت کا خوشگوار امتزاج قرار دیا ہے۔ مرزا صاحب خوش مزاج “مولوی نذیر احمد” کے شاگرد تھے، اور یہ بات صاف ظاہر ہے کہ بات بات پر مزاح پیدا کرنا اور شگفتگی کے پھول کھلانا انہوں نے اپنے استاد ہی سے سیکھا تھا۔

ان کی تحریروں میں ایک ایسی شگفتگی ملتی ہے جو ان کے استاد کے اثرات اور ان کی اپنی طبیعت کے خوشگوار میل سے جنم لیتی ہے۔ ان کا بے ساختہ اور بے ارادہ ظریفانہ انداز ان کی تحریروں کو ایک خاص دلکشی بخشتا ہے، جو قاری کے دل میں مسکراہٹ بکھیر دیتا ہے۔ یہاں تک کہ مرزا فرحت اللہ بیگ کی تنقیدی تحریریں بھی اپنی مخصوص شگفتگی سے خالی نہیں، اور یہی خوبی ان کے انداز کو نہایت منفرد اور دلچسپ بناتی ہے۔

محاورات کا استعمال

مرزا فرحت اللہ بیگ دلی کی ٹکسالی زبان لکھتے ہیں۔ وہ دلی کی بول چال کی زبان کو نہایت بے تکلفی سے تحریر میں لاتے ہیں۔ جس میں محاورت ، ضرب الامثال اور کہاوتیں بھی ہوتی ہیں۔ اپنی نگارشات میں محاورات کو بڑی خوبصورتی سے سجاتے ہیں۔ کیونکہ کوئی ایسی ٹھونس ٹھانس نظر نہیں آتی۔ جو نذیر احمد کی خامی ہے۔

فرحت اللہ بیگ برمحل محاورے استعمال کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں نئی نئی تراکیب خود ایجاد کرتے ہیں اور استعمال کرتے ہیں۔ بعض لفظوں کو اس طرح برتا ہے کہ خود بخود ظرافت پیدا ہو گئی ہے۔

محاورات کا استعمال دیکھئے۔

  • حکیم صاحب بیٹھے کچھ لکھ رہے تھے۔ دیکھ کر بولے اجی مولوی صاحب میں نے آپ کا کام کر دیا۔
  • شہزادوں کا سلسلے سے بٹھا ناذرا ٹیڑھی کھیر ہے۔

لطیف طنز

فرحت اللہ بیگ کے مزاج میں شگفتگی ہے۔ خوش مذاقی کا عنصر نمایاں ہے۔ مگر ان کی نثر میں عام طور پر ہلکا ہلکا اور خوش طنز پایا جاتا ہے۔ بعض مواقع پر وہ ظریف بھی بن جاتے ہیں۔ لیکن اس حالت میں وہ تبسم زیر لب پیدا کرنے ہی کی حد تک اپنا کام دکھاتے ہیں۔ طنز کے استعمال میں ان کا نقطہ نظر ہمیشہ اصلاحی ہوتا ہے اس لیے ان کی طنز میں بھی لطافت آجاتی ہے۔

منظر نگاری

فرحت اللہ بیگ الفاظ کے ذریعے منظر نگاری بھی کرتے ہیں۔ جس چیز کا ذکر کرتے ہیں اس کی تصویر آنکھوں کے آگے چلتی محسوس ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ دوسری بڑی خوبی حقیقت نگاری ہے۔ وہ جس چیز کو بیان کرتے ہیں اس کے اچھے اور برے پہلو بڑی شگفتگی کے ساتھ بیان کرتے چلے جاتے ہیں۔

مثلاً اپنے استاد نذیر احمد کی کہانی لکھتے ہوئے جہاں ان خصوصیات اور کمالات کا ذکر کیا ہے وہاں ان کے عیب بھی ظاہر کر دیے ہیں۔ حتی کہ سود کھانے کی بری عادت کا بیان بھی مزاح انداز میں بیان کیا ہے۔

کہتے ہیں سود لینا وہ جائز سمجھتے تھے۔ اگر کوئی حجت کرتا تو مارے تاویلوں کے ناطقہ بند کر دیتے اور تو اور خود مجھ سے سود لینے کو تیار ہو گئے۔

قدامت پسندی

ویسے تو مرزا فرحت اللہ بیگ قدامت پسند تھے ۔مگر انہیں قدیم افراد مقامات اور چیزوں سے بڑی محبت تھی۔ انہیں ماضی کے تمدن اور شخصیات سے خاص قسم کا لگاؤ تھا۔ اس لیے جب بھی وہ ماضی کی کسی بات یا شخصیت کا تذکرہ کرتے ہیں تو قلم جو بن پر ہوتا ہے۔ آج ان کے جن چند مضامین پر شہرت کا دار و مدار ہے، وہی ہیں جن میں ماضی کے کسی تمدن کلچر یا شخصیت کا ذکر ہے۔

مرزا فرحت اللہ بیگ نے اپنے مضامین میں ڈپٹی نذیر احمد ، مولانا وحیدالدین سلیم اور عظمت اللہ خان وغیرہ کے شخصی خاکے نیز “یاد گار مشاعرہ اور پھول والوں کی سیر” وغیرہ میں انہوں نے قدامت پسندی بلکہ قدامت پرستی کا ثبوت دیا ہے۔ وہ قدیم چیزوں سے محبت کرتے ہیں۔ اس کے برعکس انہوں نے ” صاحب بہادر میں” جدید تہذیب کا مذاق اڑایا ہے۔

جزئیات نگاری

مرزا فرحت اللہ بیگ نے جزئیات نگاری میں ایک منفرد مقام حاصل کیا ہے۔ ان کی اس خصوصیت نے ان کے ہر مضمون کو ارفع و اعلیٰ سطح پر پہنچا دیا۔ ان کی مشہور تحریریں جیسے “دلی کا ایک یادگار مشاعرہ”، “پھول والوں کی سیر”، اور “نذیر احمد کی کہانی کچھ میری کچھ ان کی زبانی” اس ضمن میں خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

مرزا فرحت کو قدرت کی طرف سے قدرتِ بیان کا انمول تحفہ ملا تھا۔ اپنے استاد ڈپٹی نذیر احمد کی طرح ان کی تحریروں میں قوتِ بیان کی بھرپور فراوانی اور شگفتہ مزاجی کا رنگ نمایاں ہے، جس نے انہیں اعلیٰ پائے کے ادیب اور مزاح نگار کے طور پر روشناس کروایا۔

مرزا فرحت اللہ بیگ نے ڈپٹی نذیر احمد کی قربت میں کئی برس گزارے اور ان کے اسلوب سے متاثر ہو کر قدرے تقلید بھی کی، لیکن اپنے منفرد انداز کو ہمیشہ برقرار رکھا، جو ان کے ادبی کمالات کا روشن ثبوت ہے۔

معاشرت نگاری

مرزا فرحت اللہ بیگ کی تحریروں میں دہلوی تہذیب و معاشرت کی بھرپور جھلک دکھائی دیتی ہے۔ وہ مشرقی روایات کے پرستار اور دہلی کی ثقافت کے دل و جان سے عاشق تھے، یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریروں میں مشرقیت اور دہلویت کا گہرا اثر نمایاں ہے۔ ان کی خوش مذاقی اور شائستگی کا انداز بھی دہلی کی پرورش کا نتیجہ ہے۔

مرزا فرحت نے اپنی تحریروں میں دہلی کی مجلسی اور تمدنی زندگی کو نہایت خوبصورتی سے مصور کیا ہے۔ ان کے قلم نے اہل دہلی کے طور طریقوں، تہذیب و تمدن، اور معاشرتی زندگی کے تمام پہلوؤں کو اس طرح اجاگر کیا ہے کہ وہ ایک زندہ تصویر بن کر قاری کے سامنے آ جاتی ہیں۔ ان کی تحریریں دہلی کی عظمت اور شائستگی کی گواہ ہیں، جو ان کے فن کا ایک منفرد پہلو ہے۔

 

مزید دیکھیں

Note: The password is hidden within this article. Read the entire article thoroughly, find the password, and enter it in the password field.

Book Cover

فرحت اللہ بیگ کا اسلوب اور مزاح نگاری کی خصوصیات

Rating: ★★★★☆
  • Author: ravinotes.com

  • File Size: 824 KB

  • Format: PDF

  • Notes: Urdu

  • Price: Free

Leave a Comment