شکیب جلالی کی شاعری کی خصوصیات: شکیب جلالی اردو کے ان منفرد شعرا میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے اپنے کلام میں جدت اور انفرادیت کے ایسے عناصر شامل کیے جو انہیں اپنے ہم عصر شعرا سے ممتاز بناتے ہیں۔ ان کی شاعری مختلف خصوصیات کا مرقع ہے، جو ان کی تخلیقی بصیرت، گہرے جذبات، اور منفرد طرزِ اظہار کی عکاس ہیں۔ ہر خصوصیت کو تفصیل سے بیان کیا جا رہا ہے۔ (6)
- یہ بھی پڑھیں: مرزا محمود سرحدی کی شاعری کی خصوصیات | PDF
شکیب جلالی کی شاعری کی خصوصیات
شکیب جلالی کی شاعری کی خصوصیات مندردجہ ذیل ہیں:
- اسلوب
- علامتوں کا استعمال
- تشبیہات و استعارات کا استعمال
- پیکر تراشی
- فطرت کی عکاسی
- درد اور المیہ کا گہرا اظہار
- سادگی اور روانی
- جمالیاتی حُسن
- انسانی جذبات اور نفسیات
- غزل کی روایت میں جدت
اسلوب
شکیب جلالی اپنی انفرادی اسلوب سے اشعار میں وہ صداقت کی چاشنی بھر دیتے ہیں اور نئی نئی فکروں سے اتنے احساس قاری کے ذہن میں جگاتے ہیں کہ ان کے نت نئے خیالات کی گہرائی میں قاری ڈوب جاتا ہے اور ان کے فن کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ جو قاری کو یہ احساس دلاتا ہے کہ اس کی زندگی کے ہر زاویے کو باطن میں جھانک کر، کرید کر، اسی کے سامنے با تصویر پیش کیا گیا ہے۔ (4)
مشعل غم نہ بجھاؤ کہ شکیب اس کے بغیر
راستہ گھر کا بلا دیتی ہے اکثر یادیں
علامتوں کا استعمال
اردو غزل میں علامت نگاری کی جدید روایت کو اگے بڑھانے والوں میں شکیب جلالی کو سر فہرست رکھا ہے۔ شکیب جلالی نے اپنے کلام میں کافی علامتوں کا استعمال کیا ہے اور انہیں اس طرح اپنے کلام میں سمویا ہے کہ معنوں کو سمجھنے میں ذرا بھی وقت کا سامنا نہیں ہوتا، حقیقت سے پر نظر آتی ہیں۔
ان کی علامتی شاعری سوچ و افکار کا دائرہ وسیع کرتی ہیں۔ پانی، صحرا،جنگل، ہوا، دریا، پتھر، پرندوں، ہرنوں۔ چاند وغیرہ علامتوں کا استعمال انہوں نے اپنے شاعری میں کیا ہے۔ اس میں ہرنوں اور پرندوں کی علامات مہاجرین کے لیے استعمال کی ہیں۔ احمد ہمدانی نے شکیب جلالی کو علامتی شاعری کا بانی کہا ہے
یادیں ہیں اپنے شہر کی اہل سفر کے ساتھ
صحرا میں لوگ آئے ہیں دیوار و در کے ساتھ
تشبیہات و استعارات کا استعمال
شکیب جلالی کی شاعری کی ایک اہم خصوصیت تشبیہات و استعارات کا استعمال ہے۔ زبان کو شعر کی زبان بنانے کے لیے شعری وسائل سے کام لینا پڑتا ہے۔ مطلب یہ کہ شاعر کہیں استعار و تشبیہ کا سہارا لیتا ہے تو کہیں رمز و کنایہ کا، کہیں صنعت سے کام لیتا ہے تو کہیں پیکر تراشی سے۔ (5)
شکیب جلالی کے اشعار پڑھنے کے بعد یہ احساس ہوتا ہے کہ شکیب کے ہاں تشبیہ نہ صرف شعر کے حسن کو نکھارتی ہے بلکہ اس کے معنی میں بے وسعت پیدا کرتی ہے۔ یہ کمال شاید شکیب کے ہم عصروں کو نصیب نہیں ملا۔ مثلاً:
ستارے سسکیاں بھرتے تھے رات روتی تھی
فسانۂ جگر لخت لخت ایسا تھا
شکیب جلالی کی یہاں ستارے، شمع، صبح، پھول،چاند، جیسی پرانی تشبیہات بھی پائی جاتی ہیں اور سایہ، موم، عکس بدن، آسمان، ڈال، ابر، کہسار، پیڑ، روشنی وغیرہ جیسی نئی تشبیہات بھی پائی جاتی ہیں، جو وسیع معنوں میں استعمال ہوتی ہیں۔ یعنی شکیب جلالی نے روایتی تشبیہات کے علاوہ نئی تشبیہات بھی وضع کی ہیں لیکن ان تشبیہات سے اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا اور ہمارے روایت کا حصہ معلوم ہوتی ہیں۔
- یہ بھی دیکھیں: ناول کے اجزائے ترکیبی | PDF
اس کے علاوہ شکیب جلالی کے استعارے بھی منفرد ہیں۔ کبھی کبھی تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے اشعار میں لفظ نہیں بلکہ پورا شعر استعارے کا کام کر رہا ہے۔ شکیب نے اپنے استعاروں کے بارے میں خود کہا ہے کہ:
شکیب اپنے تعارف کے لیے یہ بات کافی ہے
ہم اس سے بچ کے چلتے ہیں جو رستہ عام ہو جائے
پیکر تراشی
شکیب جلالی نے حسی تجربات کا ایک الگ جہان آباد کیا ہے جہاں انہیں خاموشی سنائی دیتی ہے۔ تنہائی کے قدموں کی چھاپ سنائی دیتی ہے۔ بدن کی پکار سنائی دیتی ہے۔ خاموشی کے انگلیاں چٹخانے کی آواز آتی ہے تو کہیں سناٹا کہرام میں تبدیل ہوتا محسوس ہوتا ہے۔ یہ تمام چیزیں حسی تجربات کی انفرادیت قائم کرتی ہیں۔
اس طرح شکیب جلالی کی شاعری میں سمعی پیکر، بصری پیکر اور مخلوط پیکر تراشی نظر آتی ہے۔ شکیب کی پیکر سازی کے متعلق شمس الرحمن فاروقی کا خیال ہے کہ:
“ایسے پیکروں کے وہ بادشاہ ہیں جو انکھ اور سامعہ کو متاثر کریں۔ کبھی یہ پیکر دونوں حصوں کو بیک وقت بھی متاثر اور محرک کرتے ہیں”
چھپ چھپ کے سدا جھانکتی ہے خلوت گل سے
مہتاب کی کرنوں کو حیا تک نہیں آتی
فطرت کی عکاسی
شکیب جلالی کی شاعری کا ایک نمایاں پہلو فطرت کی دلکش اور جاندار عکاسی ہے۔ ان کے اشعار میں قدرتی مناظر، موسموں کے رنگ، اور ہوا، پانی، اور زمین کے عناصر اس قدر خوبصورتی سے پیش کیے گئے ہیں کہ قاری ان مناظر کو اپنی آنکھوں کے سامنے محسوس کرنے لگتا ہے۔ شکیب فطرت کو نہ صرف پس منظر کے طور پر استعمال کرتے ہیں بلکہ اسے انسانی جذبات کی ترجمانی کے لیے بھی بخوبی استعمال کرتے ہیں۔ (4)
یہ ایک ابر کا ٹکڑا کہاں کہاں برسے
تمام دشت ہی پیاسا دکھائی دیتا ہے
درد اور المیہ کا گہرا اظہار
شکیب جلالی کی زندگی کے کٹھن حالات ان کی شاعری میں ایک گہرے درد کی صورت میں جھلکتے ہیں۔ ان کے اشعار میں ذاتی کرب اور معاشرتی المیے کی عکاسی نہایت شدت اور گہرائی کے ساتھ کی گئی ہے۔ شکیب نے اپنے جذبات کو بڑے تخلیقی انداز میں اشعار کے قالب میں ڈھالا۔ ان کے کلام کا درد قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے:
بد قسمتی کو یہ بھی گوارا نہ ہو سکا
ہم جس پہ مر مٹے وہ ہمارا نہ ہو سکا
سادگی اور روانی
شکیب جلالی کے اشعار کی زبان نہایت سادہ اور روان ہے۔ ان کے کلام میں گہرے خیالات کو آسان الفاظ میں پیش کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے ان کی شاعری ہر طبقے کے قارئین کو متاثر کرتی ہے۔ ان کے اشعار کی یہ سادگی اور روانی ان کے کلام کو مزید دلکش اور پراثر بناتی ہے:
کوئی بھولا ہوا چہرہ نظر آئے شاید
آئینہ غور سے تو نے کبھی دیکھا ہی نہیں
جمالیاتی حُسن
شکیب جلالی کی شاعری میں جمالیاتی حسن اور تخلیقی خوبصورتی کا امتزاج پایا جاتا ہے۔ ان کے اشعار ایک تصویری کیفیت پیدا کرتے ہیں، جہاں قاری ان کی شاعری کو پڑھتے ہوئے مناظر کو اپنی آنکھوں کے سامنے محسوس کر سکتا ہے۔ ان کا یہ شعر جمالیاتی حسن کی عمدہ مثال ہے:
جاتی ہے دھوپ اجلے پروں کو سمیٹ کے
زخموں کو اب گنوں گا میں بستر پہ لیٹ کے
انسانی جذبات اور نفسیات
شکیب جلالی کی شاعری انسانی جذبات کی ایک زندہ تصویر پیش کرتی ہے۔ محبت، جدائی، امید، اور ناامیدی جیسے جذبات ان کے اشعار میں نہایت خوبصورتی سے عکاسی کرتے ہیں۔ ان کی یہ خوبی انہیں قاری کے دل کے قریب لے جاتی ہے:
پہلے تو میری یاد سے آئی حیا انہیں
پھر آئنے میں چوم لیا اپنے آپ کو
غزل کی روایت میں جدت
شکیب جلالی نے غزل کی روایت کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ اسے نئے خیالات اور جدت سے بھی روشناس کرایا۔ ان کی غزلوں میں روایتی موضوعات کے ساتھ جدید افکار اور اظہار کی تازگی پائی جاتی ہے:
آ کے پتھر تو مرے صحن میں دو چار گرے
جتنے اس پیڑ کے پھل تھے پس دیوار گرے
شکیب جلالی کی شاعری اردو ادب کا ایک قیمتی سرمایہ ہے، جس میں گہرائی، سادگی، اور جمالیاتی حسن کے تمام عناصر موجود ہیں۔ ان کی تخلیقات قاری کو فطرت، انسانی جذبات، اور زندگی کی تلخیوں سے روشناس کراتی ہیں۔ شکیب جلالی کا کلام اردو شاعری کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔
مزید پڑھیں:
Note: The password is hidden within this article. Read the entire article thoroughly, find the password, and enter it in the password field.