فراق گورکھپوری کی شاعرانہ خصوصیات

فراق گورکھپوری کی شاعرانہ خصوصیات: فراق جدید اردو غزل میں ایک رجحان ساز غزل گو کی حیثیت سے بے حد اہمیت کے حامل ہیں۔ انہوں نے اپنی انفرادیت کے باعث معاصرین میں ممتاز مقام حاصل کیا۔ اور آئندہ غزل پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ فراق سے متاثر ہونے والے شعراء میں بیسویں صدی کے نصف آخر کے جدید غزل گویوں کی ایک پوری نسل شامل ہے۔

فراق گورکھپوری کی شاعری کی خصوصیات | PDF
فراق گورکھپوری کی شاعری کی خصوصیات | PDF

فراق گورکھپوری کی غزل گوئی

فراق نے پہلی بار اردو غزل میں ان موضوعات ، ڈکشن اور کسی حد تک علائم در موز کا اضافہ کیا ہے جو ان سے پہلے غزل میں نظر نہیں آتے۔ خصوصاً فراق کے لہجے کی نرم روی، حسن کیفیات ، جھٹپٹا سا انداز وصال میں دوری کی کسک، انقلابات زمانہ اور سب سے بڑھ کر بدلی ہوئی نفسیات وہ موضوعات ہیں جو فراق کے ہاں ایک رجحان بن کر ابھرتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ جدید غزل اپنے لہجے کی لطافتوں ، منفر د کیفیتوں اور جذبوں کے تنوع کے باعث فراق کی پروردہ نظر آتی ہے۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی فراق کی غزل کے محاسن پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں:

“فراق جدید دور کے تمام غزل گو شعراء سے مختلف ہیں۔ انہوں نے غزل میں اہم تجربات کیے جس سے ان کی غزل میں وسعت پیدا ہو گئی ہے۔ انہوں نے غزل کے دائرے کو نہ صرف مضامین کے اعتبار سے وسیع کیا بلکہ اظہار و بیان کے نئے پیکر تراشے۔”

فراق گورکھپوری کی شاعرانہ خصوصیات

فراق گورکھپوری اردو جدید غزل میں بے حد اہمیت کے حامل ہیں۔ انہوں نے اپنی شاعرانہ خصوصیات کی بنا پر اپنے ہم عصر شعراء میں ایک خاص مقام حاصل کیا ہے۔ فراق گورکھپوری کی غزل گوئی میں حسن و عشق کا تصور ، عصری شعور ، الفاظ کا چناؤ، محبوب کا تصور ، فطرت پرستی وغیرہ جیسی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ فراق گو گھپوری کی شاعری کی خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں :

  • تصور حسن و عشق
  • فراق کا عصری شعور
  • لبرل شاعر
  • الفاظ کا چناؤ
  • تصور محبوب و محب
  • فراق کے کلام میں لطافت
  • منفر د لسانی اور فکری انداز
  • تكرار الفاظ
  • فراق کی فطرت پرستی
  • فراق کی تشبیہات

تصور حسن و عشق

بقول گوبی چند نارنگ :

” فراق کی شاعری حسن و عشق کی بھر پور کیفیتوں کی شاعری ہے “۔

فراق نے اردو کی عشقیہ شاعری کو آفاقی گونج عطا کی ہے۔ فراق عشق سے زیادہ حسن کے شاعر ہیں۔ ان کی پوری شاعری حسن کے گرد ایک والہانہ رقص کی حیثیت رکھتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ انہیں شاعر حسن کہا جاتا ہے۔ فراق کی غزل کی غذا خالصتاً انسانی ہے۔ اور ان کے ہاں عشق کالمسیاتی تصور جتنی خوبصورتی سے ابھرا ہے ان سے پہلے غزل میں موجود نہ تھا۔ اس میں نہ سطحیت ہے اور نہ ماورائیت ۔ بلکہ نہایت متوازن اور فطری انداز ملتا ہے۔ اسی انداز کو عبادت بریلوی نے “صحت مندانہ کیفیت ” کا نام دیا ہے۔


بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں
تجھے اے زندگی ہم دور سے پہچان لیتے ہیں
ہم دیکھ کر بھی دیکھ سکیں حسن یار کو
اتنی طویل فرصت نظار گی نہیں

فراق کا عصری شعور

ہر بڑے شاعر اور فنکار کا اپنا عہد خود اس کے اندر سانس لے رہا ہوتا ہے۔ شاعر کا تخلیقی شعور اپنے عہد کی خارجی زندگی کے واقعات و حادثات سے غذا حاصل کرتا ہے۔ اور اس حاصل کردہ غذا کو اپنی شخصیت کے باطنی رویوں سے ہم آمیز کر کے اپنے شعری تجربے میں ڈھالتا ہے۔ فراق کے چند منتخب اشعار میں عصری شعور کی جھلک دیکھی جاسکتی ہے۔


اس دور میں زندگی بشر کی
بیمار کی رات ہو گئی ہے

عصرحاضر میں انسانی زندگی کواس کی تلخیوں کے باعث بہار کی رات کہنا ایک بہت اہم اور بلیغ اشارہ ہے۔ جس سے شعر کا مفہوم بھی واضح ہو جاتا ہے اور زندگی کی تمام تر بے چارگی نمایاں ہو جاتی ہے۔


دیکھ رفتار انقلاب فراق
کتنی آہستہ اور کتنی تیز

انقلابات کے رونما ہونے اور ہوتے رہنے کے مسلسل عمل کی طرف فراق نے بڑی توجہ سے دیکھا ہے اور دوسروں کو بھی غور کرنے کی دعوت دی ہے۔


پہلو میں شب تار کے ہے کون سی دنیا
جس کے لیے آغوش سحر کھول رہی ہے

اس شعر میں بھی لمحہ موجود کی ناروائی سے ہی ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہوا۔ محسوس ہوتا ہے کہ رات کتنی ہی تاریک ہو اپنے پہلو میں نئی دنیا لے کر آتی ہے ۔جس کے استقبال کے لیے طلوع سحر مانند آغوش ہے۔

لبرل شاعر

فراق گورکھپوری سیاسی شاعر تو نہیں ہے البتہ ہم انہیں آزاد خیال اور لبرل کہہ سکتے ہیں۔ وہ انسانی دوستی کا گہرا احساس رکھتے ہیں۔ جہاں ان کی شاعری میں جمالیاتی کیفیات کا اظہار موجود ہے وہاں دکھ کی ایک دھیمی لہر بھی ان کی شاعری میں رقص کنا ں ہے۔ آہنگ ہے۔ یہ لہر آج کی زندگی کی پیچیدگیو ں اور آج کے انسان کے درد وکرب سے ہم آہنگ ہے۔


ابھی کچھ اور ہو انسان کا لہو پانی
ابھی حیات کے چہرے پہ آب و تاب نہیں
فراق دوڑ گئی روح سی زمانے میں
کہاں کا درد بھرا تھا تیرے افسانے میں

الفاظ کا چناؤ

فراق معمولی سے معمولی الفاظ کی اہمیت کا بہت گہر اشعور رکھتے ہیں۔ انہیں اس بات کا غیر معمولی احساس تھا کہ معمولی الفاظ شاعری میں کیا قیامت ڈھا سکتے ہیں۔ روز مرہ بول چال کے عام الفاظ کو اتنا خوبصورت معنوی حسن جو فراق نے دیا ان سے پہلے اردو غزل میں نظر نہیں آتا۔

بقول نیاز فتح پوری:

” شاعر کے لیے الفاظ کا انتخاب اور طر زو ادا نہایت ضروری چیزیں ہیں۔ اگر اس کے ساتھ خیال بھی پاکیزہ ہو تو کیا کہنا۔ اس کو دو آتشہ ، سہ آتشہ جو کچھ کہیے کم ہے۔ پھر چونکہ فراق کے کلام میں ان تینوں کا اجتماع ہے اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ اسے قدر اول کا مر تبہ نہ دیا جائے۔”


نیا زمانہ، نئی زندگی، نئی دنیا
نئے سرے سے بُہنیں عشق کے آئیں

تصور محبوب و محب

تصور محبوب ان کے ہاں اتنا منفرد ہے کہ ہمیں ان سے پہلے یہ انداز اردو غزل میں نہیں ملتا۔۔۔۔ حسرت موہانی کے تصور محبوب میں جدت ضرور تھی۔ لیکن اس درجہ انوکھا پن نہیں تھا جو محبوب کو انسانی اور زمینی خصائص سے متصف دیکھتے ہوئے اس کے خیال میں ہم سطح ہونے کے رنگ بھر دیتا ہے۔

فراق کو محبوب کا وقار اس قدر عزیز ہے کہ وہ اسے اس کے حسن میں اضافے کا باعث سمجھتے ہیں۔ کیونکہ یہ وقار صرف عاشق کا عطا کردہ نہیں محبوب کو بھی اس کا احساس ہے کہ وہ اپنی انا اور غرور کو صرف عاشقی پر رعب ڈالنے کے لئے نہیں،عزت نفس کے تحفظ کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ فراق کے عاشق و معشوق محض جذبات کی زبان میں بات نہیں کرتے۔ ان کے ہاں فکری اور ذہنی کاوشیں بھی ملتی ہیں۔

فراق کے ہاں عشق میں ایک طاقت اور وقار ہے۔ ان کے ہاں رقیب کے حائل ہونے کا رونا نہیں ملتا اور نہ ہی محبوب کی بے وفائی اور کج ادائی کا ماتم۔


>تجاہل ہے ہے کشاکش ہے تکلف ہے
ادائے نو بہ نو سے وہ ہمارے ہوتے رہتے ہیں
دلوں کا سوز تیرے روئے بے نقاب کے آنچ
تمام گرمی محفل تیرے شباب کی آنچ

فراق کے کلام میں لطافت

فراق کا کلام لطافت سے مالا مال ہے یہ لطافت امیر مینائی اور میر کے اثرات اور انگریزی ادب کے گہرے مطالعے کے ثمرات ہیں۔ جس میں انہوں نے ایک نیا طر ز سخن نکالا۔ بقول نیاز فتح پوری :

” فراق نے اس صنف سخن میں لطیف ترین گری سے کام لیا ہے ۔ان کی شاعری خاص طور پر رباعیات میں مغربی کلچر بھی ہے اور ایرانی کلچر بھی، یونانیوں کا جمالیاتی نظریہ بھی اور قدیم ہندو اور بدھ آرٹ کار قص و نغمہ بھی۔”


شب وصال کے بعد آئینہ تو دیکھ اے دوست
تیرے جمال کی دوشیزگی نکھر آئی

منفر د لسانی اور فکری انداز

فراق کا لسانی و فکری اند از ایک منفرد اور قابل قدر انداز سخن ہے۔ ان کا تہذیبی وشعری تشخص نہ صرف یہ کہ قابل تقلید ہے بلکہ قابل فخر بھی ہے۔ جیلانی کامران کا خیال ہے کہ فراق صاحب نے لسانی اور فکری اعتبار سے بدلی ہوئی دنیا میں جس تہذیبی اور شعری تشخص کی نمائندگی کی ہے وہ ہم سب کے لیے قابل فخر ہے۔

تکرار الفاظ

فراق نے تکرار لفظی کی صنف کو بڑی خوبی سے برتا ہے۔ جس سے ان کی غزلوں میں نغمگی و موسیقیت کا وہ لطف پیدا ہو گیا ہے جو کسی دوسرے شاعر کے ہاں نہیں ملتا۔


دریا دریا گریه عشق
صحرا صحرا عشق کی آگ
بازی عشق کی پوچھ نہ بات
جیت کی جیت ہے بات کی مات

فراق کی فطرت پرستی

فراق کو فطرت سے گہر الگاؤ تھا۔ اس لگاؤ کے سلسلہ میں فراق کی ذہنی تربیت و تہذیب میں ہند و کلچر کی روایات کو بہت دخل رہا ہے۔ اور انگریزی ادب کے مطالعے نے ان کی فطرت پر ستی کو جلا بخشی۔ اس لیے ان کی شاعری میں فطر ت سے متعلق طہارت و پاکیزگی کا احساس ملتا ہے۔


اس سکوت فضا میں کھو جائیں
آسمانوں کے راز ہو جائیں
یہ رات آگ لگادے کہیں نہ دنیا میں
یہ چاندنی، یہ ہوائیں یہ ماہتاب کی آنچ

فراق کی تشبیہات

فراق کی تشبیہات اردو غزل کی روایت میں ایک نئی چیز ہیں۔ یہ بڑی اچھوتی، فکر انگیز ، اور جاندار ہیں۔ انہوں نے ایسی تشبیہات کو چنا ہے جن سے ان کے ذوق جمال کی گہرائی اور رچاؤ کا پتا چلتا ہے۔ بقول اسلوب احمد انصاری:

” فراق کی تشبیہوں کی دلکشی کار از چند عناصر کا جمع ہو جانے میں ہے۔ اول ان کی جمالیاتی حس، دوسرا ان کا شاداب تخیل، تیسری ان کی زمین سے محبت ، چوتھے ان کے تصورِ عشق، پانچویں ان کا ہندی اور سنسکرت کا فیضان اور چھٹے تجربے اور مشاہدے کی باریک بینی اور صحت۔ “


خیال گیسوئے جاناں کی وسعتیں مت پوچھ
کہ جیسے پھیلتا جاتا ہو شام کا سایہ
دلوں کو تیرے تبسم کی یاد یوں آئی
کہ جگ مگاا ٹھیں جس طرح مندروں میں چراغ

 

Book Cover

فراق گورکھپوری کی شاعری کی خصوصیات

Rating: ★★★★☆
  • Author: ravinotes.com

  • File Size: 4mb

  • Format: PDF

  • Notes: Urdu

  • Price: Free
فراق گورکھپوری کی شاعرانہ خصوصیات
فراق گورکھپوری کی شاعرانہ خصوصیات
فراق گورکھپوری کی شاعرانہ خصوصیات

Leave a Comment