ڈرامہ کا آغاز و ارتقاء اور فنی لوازمات

ڈرامہ کا آغاز و ارتقاء، فنی لوازمات اور جدید اقسام: ڈرامہ، ادب کی وہ لازوال صنف ہے جس کی جڑیں انسانی فطرت میں گہرائی تک پیوست ہیں۔ یونانی لفظ “ڈراؤ” (یعنی “کر کے دکھانا”) سے ماخوذ یہ صنف، محض الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ “عمل” اور “پیشکش” کی روح ہے۔ انسان کی نقل اتارنے، اداکاری کرنے، اور جذبات کو جسمانی حرکات کے ذریعے بیان کرنے کی فطری جبلت نے ڈرامے کو جنم دیا اور اسے انسان کے قدیم ترین فنون میں سے ایک بنا دیا۔

یہ مضمون ڈرامے کی جامع تعریف، اس کے انسانی فطرت سے گہرے رشتے، اور دیگر ادبی اصناف سے اس کے فرق کو واضح کرے گا۔ مزید برآں، ہم ڈرامے کے فنی لوازمات، اس کی جدید اقسام (تھیٹر، ریڈیو، ٹیلی ویژن)، اور اردو ڈرامے کے تاریخی سفر کا جائزہ لیں گے، جس میں آغا حشر کاشمیری سے لے کر امتیاز علی تاج کے لازوال شاہکار “انارکلی” تک اہم سنگ میل شامل ہیں۔ یہ مطالعہ ڈرامے کی وراثت اور اس کی مسلسل ارتقائی شکلوں کو نمایاں کرے گا۔

ڈرامہ کیا ہے؟ معنی، تعریف اور اہمیت

ڈرامہ ایک ایسی صنفِ ادب ہے جس کی جڑیں انسانی فطرت میں بہت گہری ہیں۔ لفظ “ڈرامہ” یونانی زبان کے لفظ “ڈراؤ” (Drao) سے نکلا ہے، جس کا مطلب ہے “کر کے دکھانا”۔ اس تعریف کو مدِنظر رکھیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ڈرامے کی بنیادی اور لازمی خصوصیت “عمل” ہے۔

ڈرامہ محض پڑھنے یا لکھنے کی چیز نہیں، بلکہ یہ بنیادی طور پر کر کے دکھانے (Performance) کے لیے تخلیق کیا جاتا ہے۔ اسی لیے اسے پیش کرنے کے لیے اسٹیج، اداکار اور دیگر متعلقہ عناصر کا سہارا لینا پڑتا ہے۔

ڈرامہ کیا ہے؟ ڈرامہ کے فنی عناصر
ڈرامہ کیا ہے؟ ڈرامہ کے فنی عناصر

نقادوں اور مفکرین نے ڈرامے کی ابتداء انسان کی ابتدائی حرکات و سکنات میں تلاش کی ہے۔ ان کے خیال میں ڈرامہ انسانی فطرت سے انتہائی قریب ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انسان کی فطرت میں ہی اداکاری اور نقل اتارنے کی خصوصیات موجود ہیں۔ مثال کے طور پر، جب انسان کسی خوشی کے جذبے سے مغلوب ہوتا ہے تو بے ساختہ رقص کرنے لگتا ہے۔ رقص کی یہ بنیادی اور ابتدائی حرکت ڈرامے میں ایک اہم عنصر کی حیثیت رکھتی ہے۔

مشہور عالمی ادیب شیکسپیر نے تو یہاں تک کہا ہے:

“دنیا ایک اسٹیج ہے، جہاں ہر شخص اپنے حصے کی اداکاری کر کے رخصت ہو جاتا ہے۔”

یہ تمام فطری عناصر، یعنی انسان کی اداکاری کی خصلت، نقل اتارنے کی صلاحیت، اور جذبات کے اظہار کے لیے جسمانی حرکات، ڈرامے کے ساتھ انسان کے قدیم رشتے کو واضح کرتے ہیں۔ ڈرامہ اسی انسانی جبلت کی عکاسی ہے جو ہر شخص میں کسی نہ کسی صورت میں پائی جاتی ہے۔

داستان، ناول، افسانہ اور ڈرامہ؛ یہ تمام اصنافِ ادب اپنی بنیاد میں “کہانی” رکھتی ہیں۔ ہر صنف میں ایک قصہ بیان کیا جاتا ہے، لیکن ان کی پیشکش کا انداز ہی انہیں ایک دوسرے سے ممتاز کرتا ہے۔

ڈرامہ اپنی کہانی کی وسعت اور زندگی کے وسیع تر پہلوؤں کو سمیٹنے کی وجہ سے ناول کے کافی قریب آ جاتا ہے۔ دونوں ہی انسانی زندگی کے مختلف رنگوں، کرداروں اور تجربات کو پیش کرتے ہیں۔ تاہم، ان کی پیشکش کا طریقہ ہی انہیں جدا کرتا ہے۔

ناول لکھنا ایک خالص تخلیقی عمل ہے جہاں مصنف اپنے جذبات، احساسات، سوچ اور تجربات کی مکمل آزادی کے ساتھ اظہار کرتا ہے۔ اسے اپنی مرضی کے مطابق کرداروں کو پروان چڑھانے، منظر نگاری کرنے اور پلاٹ کو آگے بڑھانے کی مکمل چھوٹ ہوتی ہے۔ اس کی تخلیق کا محور صرف اور صرف اس کا اپنا فن اور فکری دنیا ہوتی ہے۔

اس کے برعکس، ڈرامہ میں مصنف (ڈرامہ نگار) کو دوسروں کے تعاون اور ان کی سمجھ بوجھ کا محتاج ہونا پڑتا ہے۔ اسے صرف کہانی کہنے پر ہی اکتفا نہیں کرنا پڑتا بلکہ اسے ہدایت کار، اداکاروں، ساز و سامان مہیا کرنے والوں، اور یہاں تک کہ تماشائیوں (قارئین) کی ضروریات اور ردِ عمل کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے۔ وہ اسٹیج، روشنی، آواز اور اداکاروں کی حرکات و سکنات کے بغیر اپنی کہانی کو مکمل طور پر پیش نہیں کر سکتا۔

جیسا کہ عابد علی عابد نے بالکل درست کہا ہے:

“ڈرامہ نگار محض اپنی فنکاری، اپنی بصیرت اور اپنی ادبی سوجھ بوجھ پر بھروسہ نہیں کر سکتا۔ اسے جبراً کرہاً دوسروں کا محتاج ہونا پڑتا ہے۔ ڈرامہ تو دراصل ایک خاکہ سا ہوتا ہے۔ اداکار، مغنی، ساز و سامان مہیا کرنے والے اس خاکے میں رنگ بھرتے ہیں۔ سب سے زیادہ اہم حصہ اداکار یا ایکٹر ہی کو ادا کرنا پڑتا ہے۔”

یہی وابستگی اور دوسروں پر انحصار بعض اوقات ڈرامے کی تخلیقی شان میں کمی لاتے ہیں، کیونکہ مصنف کو اپنی تخلیقی آزادی پر سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے تاکہ اسے عملی شکل دی جا سکے۔ اسی وجہ سے، تخلیقی ادب میں ڈرامے کی اہمیت عموماً داستان، ناول اور افسانے کے بعد تسلیم کی جاتی ہے اور اسی ترتیب سے اس کا ذکر بھی بعد میں کیا جاتا ہے۔ حالانکہ تاریخی طور پر، ڈرامہ نہ صرف مغرب میں بلکہ ہمارے برصغیر میں بھی ناول اور افسانے سے کہیں پہلے کی صنف ہے۔ اس کی قدیم جڑیں انسان کی اجتماعی تفریح اور کہانی سنانے کی فطری خواہش سے جڑی ہیں۔

ڈرامہ اور ناول، دونوں میں بنیادی طور پر کہانی بیان کی جاتی ہے اور اسی وجہ سے ان کے بہت سے لوازمات ملتے جلتے ہیں۔ جیسے کہانی (قصہ)، پلاٹ، کردار، اور مکالمے، یہ سب دونوں اصناف کے لیے ضروری ہیں۔ تاہم، انہیں جدا کرنے والی اہم چیز ان کی پیشکش کا انداز ہے۔ ناول کو پڑھا جاتا ہے جبکہ ڈرامے کو کر کے دکھایا جاتا ہے (Performance)۔ اس پیشکش کے فرق کی وجہ سے ہی ڈرامے کے فنی عناصر پر خصوصی توجہ دینا لازم ہو جاتا ہے۔

ڈرامے کے بنیادی فنی لوازمات

ڈرامے میں کہانی یا موضوع کی کوئی خاص قید نہیں ہوتی۔ یہ کسی بھی موضوع پر مبنی ہو سکتا ہے۔ ڈرامے کا بنیادی مقصد تفریح فراہم کرنا اور کسی پیغام کو پیش کرنا ہوتا ہے۔ یہ پیغام کرداروں کے الفاظ، ان کے اعمال اور افعال کے ذریعے سامعین تک پہنچایا جاتا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے فنی تکمیل بہت ضروری ہے۔ ڈرامے کے اہم فنی لوازمات مندرجہ ذیل ہیں:

پلاٹ

ڈرامے کے فنی عناصر میں سب سے اہم پلاٹ ہے۔ پلاٹ دراصل کہانی کے مختلف واقعات کو ایک زنجیر کی کڑیوں کی طرح آپس میں جوڑنے کا نام ہے۔ یہ واقعات اس طرح سے ترتیب دیے جانے چاہییں کہ ان میں ایک قدرتی ربط اور تسلسل ہو۔ ایک اچھا پلاٹ لاشعوری طور پر قاری یا ناظر کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ پلاٹ کے ارتقاء میں تین وحدتوں کا خاص خیال رکھنا ضروری ہے:

  1. ابتدا: کہانی کا آغاز، جہاں بنیادی کردار اور صورتحال متعارف کرائی جاتی ہے۔
  2. عروج: کہانی میں تناؤ کا بڑھنا اور واقعات کا پیچیدہ ہونا۔
  3. اختتام: کہانی کا حل اور تناؤ کا خاتمہ۔

کردار اور مکالمے

ڈرامے کے اہم ترین اجزاء میں کردار اور ان کے مکالمے شامل ہیں۔ ڈرامے کی کامیابی یا ناکامی کا دارومدار بڑی حد تک انہی دو عناصر پر ہوتا ہے۔ کرداروں کی شخصیت ان کے مکالموں اور اعمال سے واضح ہونی چاہیے۔ مکالمے نہ صرف کہانی کو آگے بڑھائیں بلکہ کرداروں کی نفسیات اور ان کے باہمی تعلقات کو بھی اجاگر کریں۔

تین وحدتیں (وحدتِ زماں، وحدتِ مکاں، وحدتِ تاثر)

ڈرامے کی تاثیر اور ہم آہنگی کے لیے تین وحدتوں کو بھی ضروری سمجھا جاتا ہے۔

  1. وحدتِ زماں (Unity of Time): کہانی کا ایک ہی دن یا قلیل وقت میں مکمل ہونا۔
  2. وحدتِ مکاں (Unity of Place): واقعات کا ایک ہی مقام پر رونما ہونا۔
  3. وحدتِ تاثر (Unity of Impression): ڈرامے کا ایک ہی مرکزی خیال یا تاثر دینا تاکہ ناظر کا ذہن بھٹکے نہیں۔

تصادم اور کشمکش

ڈرامے میں جس عنصر کی اہمیت سب سے زیادہ ہے، وہ تصادم (Conflict) اور کشمکش (Struggle) ہے۔ یہ عنصر ہی ڈرامے میں دلچسپی اور جاذبیت پیدا کرتا ہے۔ یہ کشمکش کرداروں کے درمیان ہو سکتی ہے، یا پھر کردار کی اپنی ذات کے اندرونی تضادات کی صورت میں، یا پھر کردار اور خارجی حالات کے درمیان بھی ہو سکتی ہے۔ اسی کشمکش سے کہانی میں تناؤ پیدا ہوتا ہے اور ناظر کی توجہ ڈرامے پر مرکوز رہتی ہے۔

جدید دور میں ڈرامے کی اقسام اور ان کی پیشکش

اس جدید دور میں، جب کہ ذرائع ابلاغ میں بے پناہ ترقی ہوئی ہے، ڈرامے کی پیشکش کے انداز میں بھی خاصی وسعت آئی ہے۔ اب ڈرامے کی بنیادی طور پر تین اقسام سامنے آتی ہیں، جو اپنی مخصوص پیشکش کی نوعیت کی بدولت ایک دوسرے سے ممتاز ہیں:

تھیٹریکل ڈرامہ

یہ ڈرامے کی سب سے قدیم اور روایتی شکل ہے۔ اسے اسٹیج پر براہِ راست پیش کیا جاتا ہے، جہاں اداکار ناظرین کے سامنے اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس میں مکالمے، اداکاری، اسٹیج کا ماحول، روشنی اور آواز کے اثرات سب مل کر ایک تجربہ تخلیق کرتے ہیں۔

ریڈیو ڈرامہ

یہ ایک سمعی ڈرامہ ہے۔ اس میں کہانی صرف آواز (مکالمے، صوتی اثرات، اور موسیقی) کے ذریعے پیش کی جاتی ہے۔ ناظرین کو صرف سن کر کہانی کو سمجھنا اور کرداروں کو تصور میں لانا ہوتا ہے۔ اس میں منظر کشی اور اداکاروں کے جذبات کو آواز کے اتار چڑھاؤ سے ظاہر کیا جاتا ہے۔

ٹیلی ویژن ڈرامہ

یہ جدید ترین شکل ہے جو سمعی اور بصری دونوں عناصر کو بیک وقت اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ ناظرین کرداروں کو دیکھ سکتے ہیں، ان کے تاثرات اور حرکات کو سمجھ سکتے ہیں، اور ساتھ ہی مکالمے بھی سنتے ہیں۔ ٹیلی ویژن ڈرامہ کہانی کو زیادہ حقیقت پسندانہ اور تفصیلی انداز میں پیش کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

ڈرامے کا آغاز و ارتقاء: ایک جائزہ

ڈرامہ، خواہ وہ اسٹیج کے لیے ہو، ٹیلی ویژن کے لیے یا ریڈیو کے لیے، اس کے کچھ بنیادی لوازمات ہر شکل میں ضروری ہوتے ہیں۔ ڈرامے کی روایت دنیا کی کئی قدیم تہذیبوں میں ملتی ہے، جن میں مصری، چینی، یونانی اور ہندوستانی نمایاں ہیں۔ تاہم، یونان اس حوالے سے خاص طور پر قابلِ ذکر ہے کہ ڈرامے کی تشکیل سے متعلق نظریات اور قواعد ہمیں سب سے پہلے وہاں ایک متعین شکل میں ملتے ہیں۔

ڈرامہ کا آغاز و ارتقاء
ڈرامہ کا آغاز و ارتقاء

ہندوستان میں ڈرامے کی روایت بہت قدیم ہے۔ محققین نے اس کے ابتدائی نقوش رگ وید کے زمانے اور پھر سنسکرت اور پراکرت زبانوں کے دور میں تلاش کیے ہیں۔ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ برصغیر میں صدیوں سے ڈرامائی پیشکش کی روایت موجود تھی۔

اردو ڈرامے کا سفر

اردو میں ڈرامے کا سفر نسبتاً بعد میں شروع ہوا۔ اردو کا پہلا ڈرامہ بی اشرف اور واجد علی شاہ کا لکھا ہوا “رہس رادھا کنہیا” کو قرار دیا جاتا ہے۔ اگرچہ اس کی شکل و صورت رقص (ناچ) سے زیادہ قریب تھی، تاہم اس میں ڈرامے کے کچھ بنیادی عناصر موجود تھے۔

تاہم، اردو کا پہلا باقاعدہ ڈرامہ امانت لکھنوی کا “اندر سبھا” ہے۔ ڈاکٹر اسلم قریشی کے مطابق، اس کی پہلی نمائش 14 جنوری 1854 کو ہوئی۔ یہ ڈرامہ اپنی مخصوص اندازِ پیشکش اور مقبولیت کی وجہ سے اردو ڈرامے کی تاریخ میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔

برصغیر میں قدیم تھیٹر کی تعمیر کا سلسلہ بھی اس دور میں شروع ہوا۔ بمبئی میں پہلا قدیم تھیٹر 1770 میں تعمیر ہوا، جسے 10 جنوری 1864 کو دوبارہ تعمیر کیا گیا اور اسی سال اس کا افتتاح بھی ہوا۔ اس کے بعد، بہت سی ڈرامیٹک انجمنیں وجود میں آئیں۔ 1861 تک تقریباً 19 ناٹک کمپنیاں موجود تھیں، جو بعد میں تجارتی قسم کی تھیٹریکل کمپنیوں کی صورت اختیار کر گئیں۔ ان کمپنیوں نے پورے برصغیر میں ڈرامے پیش کرنا شروع کیے اور ڈرامے لکھوانے کے لیے باقاعدہ ڈرامہ نگاروں کو ملازمت پر رکھا۔

ابتدائی دور کے اہم ڈرامہ نگاروں میں رونق بنارسی، طالب بنارسی، حافظ محمد عبداللہ احسن لکھنوی اور بیتاب لکھنوی کے نام نمایاں ہیں۔ یہ ڈرامہ نگار، جو زیادہ تر پارسی تھے، اردو ڈرامے کی بنیاد رکھنے اور اسے مقبول بنانے میں پیش پیش رہے۔

اردو ڈرامے کا جدید دور اور اہم شخصیات

ابتدائی دور کے بعد اردو ڈرامے نے ایک نیا موڑ لیا جہاں کئی قد آور شخصیات نے اس صنف کو نئی جہتیں بخشیں۔

ڈرامے کی دنیا میں ایک بہت اہم نام آغا حشر کاشمیری کا ہے، جنہوں نے تقریباً 1897 سے 1935 تک اردو تھیٹر پر اپنی حکمرانی قائم رکھی۔ انہیں اردو ڈرامے کا شیکسپیر بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ ان کے ڈراموں میں شیکسپیر کے ڈراموں کی سی شان و شوکت، جذباتی گہرائی اور کرداروں کی پیچیدگی نظر آتی ہے۔ ان کے بعد، کئی ادبی شخصیات نے اس میدان میں قدم رکھا، جن میں مولانا ظفر علی خان، عبد الماجد دریابادی اور مرزا رسوا کے نام قابلِ ذکر ہیں۔

جدید دور میں اردو ڈرامے کو بے شمار نئے لکھنے والے میسر آئے، جنہوں نے اس صنف کو مزید وسعت دی۔ ان میں ڈاکٹر سید عابد حسین، ڈاکٹر اشتیاق قریشی، پروفیسر محمد مجید اور فضل الرحمان جیسے نام شامل ہیں۔

اس دور کا ایک عظیم نام امتیاز علی تاج کا ہے، اور ان کا شہرہ آفاق ڈرامہ “انارکلی” اردو ادب کی تاریخ میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگرچہ یہ ڈرامہ کبھی اسٹیج پر پیش نہ کیا جا سکا، تاہم اس کے ادبی قد و قامت کی وجہ سے اسے جدید اردو ڈرامے میں ایک بڑا مقام حاصل ہے۔

انارکلی” کا بنیادی قصہ شہزادہ سلیم اور انارکلی کی محبت کے گرد گھومتا ہے۔ خود امتیاز علی تاج نے اگرچہ اسے ایک فرضی قصہ کہا ہے، لیکن جس تخیلاتی پیرائے میں انہوں نے اس میں حقیقت کا رنگ بھرا ہے اور مغلیہ دربار کی بھرپور زندگی کو پیش کیا ہے، وہ پڑھنے والے کو یہ گمان دلاتا ہے کہ جیسے وہ کوئی حقیقی واقعہ پڑھ رہا ہو۔

اس ڈرامے کی نمایاں خوبیاں اس کے خوبصورت مناظر، دلکش منظر کشی، پر اثر مکالمے، جذباتی کیفیات اور خاص کر باپ بیٹے (اکبر و سلیم) کے درمیان کی کشمکش اور تصادم ہیں، جو ڈرامے میں غیر معمولی دلچسپی اور گہرائی پیدا کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پطرس بخاری نے اس کی اہمیت کو سراہتے ہوئے کہا تھا:

“انارکلی ڈرامے کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔”

انارکلی” کے علاوہ بھی کئی اہم ڈرامہ نگار سامنے آئے، جن میں حکیم احمد شجاع، قمر سرحدی اور خواجہ معین الدین وغیرہ شامل ہیں۔ اس دور کا ایک اور اہم نام مرزا ادیب کا ہے، جنہوں نے کثیر تعداد میں ڈرامے لکھے۔ انہوں نے طویل ڈرامے بھی تحریر کیے اور ایک ایکٹ والے ڈرامے (یک بابی) بھی۔ مرزا ادیب نے اپنے ڈراموں میں کشمکش اور تصادم کے مرکزی جز کا خاص خیال رکھا ہے۔ ان کے اکثر ڈرامے سماجی موضوعات سے تعلق رکھتے ہیں اور معاشرتی مسائل کی عکاسی کرتے ہیں۔

Book Cover

ڈرامہ کیا ہے؟ فنی عناصر، جدید اقسام اور آغاز و ارتقاء

Rating: ★★★★☆
  • Author: ravinotes.com

  • File Size: 1.09 MB

  • Format: PDF

  • Notes: Urdu

  • Price: Free

Leave a Comment