پطرس بخاری کا اسلوب: مشہور مزاح نگار پطرس بخاری کے اسلوب کی سب سے بڑی خوبی اس کی بظاہر سادگی ہے۔ ان کی تحریر پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کوئی دوست آپ سے بات کر رہا ہو، لیکن اس سادگی کے پیچھے ایک گہری چمک اور توانائی پنہاں ہے۔ ان کی تحریر میں لفظوں کا چناؤ کمال کا ہوتا ہے، مزاح نگاری میں بھی وہ شگفتگی اور لطافت کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ ان کا اسلوب انہیں اردو ادب کے چند گنے چنے مزاح نگاروں میں ایک منفرد مقام عطا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریر آج بھی قارئین کو مسحور کرتی ہے۔
اسلوب کی تعریف اور اہمیت
اسلوب ایک تحریر کا ایسا انداز ہوتا ہے جو کسی بھی لکھنے والے کی شخصیت، سوچ اور اس کے اظہار کا عکس پیش کرتا ہے۔ اگر ہم اس کے لغوی معنی دیکھیں تو یہ ‘وضع’، ‘ڈھنگ’، ‘طرز’، ‘روش’، ‘اندازِ بیاں’ اور ‘حسنِ ترتیب’ جیسے مفہوم رکھتا ہے۔ لیکن ادبی اصطلاح میں، اسلوب سے مراد وہ مخصوص پیرایۂ اظہار ہے جو مصنف کے ذہنی اور شخصی امتیاز کو نمایاں کرتا ہے۔ یہ ایک ایسی پہچان ہے جو ایک ادیب کو دوسرے ادیب سے ممتاز کرتی ہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ جیسے ہر انسان کی اپنی ایک منفرد آواز ہوتی ہے، بالکل اسی طرح ہر مصنف کی تحریر کا ایک اپنا خاص اسلوب ہوتا ہے۔
پطرس بخاری کا اسلوب اور فن کی انفرادیت

پطرس بخاری اردو ادب میں مزاح نگاری کا ایک درخشاں ستارہ ہیں۔ ان کا فن اور اسلوب اس قدر منفرد ہے کہ وہ آج بھی قارئین کے ذہنوں پر گہرے نقوش چھوڑتا ہے۔ ان کے مزاح کی جڑیں گہری اور ان کا اسلوب پرکشش ہے۔ آئیے ان کے فن کی چند اہم خصوصیات پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہیں۔
- سادہ زبان
- موضوع کا انتخاب
- واقعاتی مزاح
- تفکر
- ندرت خیال
- رمزوایمائیت
- زبان کا استعمال
- افسانوی انداز
- صاف ستھری ظرافت
- لوازمات مزاح سے آگاہی
۱۔ سادہ زبان
پطرس بخاری کی سب سے نمایاں خصوصیت ان کی سادہ اور عام فہم زبان ہے۔ وہ مشکل الفاظ اور گنجلک تراکیب سے پرہیز کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کا مزاح ہر خاص و عام کو یکساں لطف دیتا ہے۔ ایک معمولی پڑھا لکھا شخص بھی ان کی تحریر سے اتنا ہی محظوظ ہوتا ہے جتنا کوئی اردو ادب کا ماہر۔
یہ کمال پطرس کی مشاہدے کی بے پناہ قوت کا نتیجہ ہے کہ وہ انسانوں اور عام چیزوں میں موجود مزاحیہ پہلوؤں کو اپنے مخصوص رنگ میں اس طرح ڈھالتے ہیں کہ وہ مزید نمایاں ہو جاتے ہیں۔ جیسا کہ ڈاکٹر احمد حسن فاروقی نے پطرس کے بارے میں درست کہا ہے: “پطرس پکا ہیومرسٹ تھا بلکہ وحدہ لا شریک ہیومرسٹ تھا۔”
۲۔ موضوع کا وسیع انتخاب اور عمومیت
پطرس بخاری کے مضامین کے موضوعات عام زندگی سے چنے جاتے ہیں۔ وہ اپنے گرد و پیش کے ماحول، روزمرہ کے مشاہدات اور انسان کے عام تجربات سے مواد حاصل کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے مضامین میں عمومیت کا عنصر بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔ یہ عمومیت ہی انہیں دیگر ہم عصر مزاح نگاروں، مثلاً رشید احمد صدیقی اور فرحت اللہ بیگ سے ممتاز کرتی ہے۔
رشید احمد صدیقی زیادہ تر علی گڑھ کی فضا اور ماحول تک محدود رہے، جبکہ فرحت اللہ بیگ دہلی اور حیدر آباد کے دائرے سے باہر نہیں نکل پاتے۔ اس کے برعکس، پطرس کی تحریریں کسی خاص جغرافیائی یا سماجی دائرے کی قید نہیں، بلکہ ان کا مواد آفاقی نوعیت کا ہے جو ہر دور کے قاری کے لیے دلچسپی کا باعث بنتا ہے۔
۳۔ واقعاتی مزاح کا کمال
پطرس بخاری مزاح پیدا کرنے کے لیے واقعات اور طرزِ ادا سے بھرپور کام لیتے ہیں۔ ان کا مقصد زندگی کی تلخ حقیقتوں کو آشکار کرنا ہوتا ہے، لیکن وہ ان کو نہایت خوشگوار اور مزاحیہ انداز میں پیش کرتے ہیں۔ اس کی ایک بہترین مثال ان کا مشہور مضمون “مرید پور کا پیر” ہے۔ اس مضمون میں وہ واقعات کے بیان پر اتنی مضبوط گرفت رکھتے ہیں کہ شروع میں اپنے ہیرو کی بے شمار خوبیاں بیان کرکے اسے ایک کامیاب شخص دکھاتے ہیں، لیکن آخر میں اسے ناکام دکھا کر قارئین کے لیے قہقہوں کا سامان پیدا کرتے ہیں۔
یہی تخلیقی انداز ہمیں ان کے ایک اور لازوال مضمون “مرحوم کی یاد میں” میں بھی نظر آتا ہے۔ یہاں وہ سائیکل کی حالتِ زار ایک مستری کی زبانی اس خوبصورتی سے بیان کرتے ہیں کہ قاری ہنسی روک نہیں پاتا، اور آخر میں سائیکل کو دریا برد کر کے اسے “مرحوم” کا لقب دیتے ہیں۔ پطرس کے موضوعات عارضی نوعیت کے نہیں، بلکہ ان میں آفاقی قدریں پنہاں ہیں۔
اسی لیے ان کی تحریریں ہر زمانے میں لازوال حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کی ظرافت میں واقعات اور الفاظ کا ساتھ ساتھ چلنا ایک خاص آہنگ پیدا کرتا ہے۔ بعض اوقات تو وہ صرف الفاظ کی جادوگری سے خشک موضوع کو بھی مزاحیہ بنا دیتے ہیں، جس کی بہترین مثالیں “مرید پور کا پیر” اور “سویرے جو کل آنکھ میری کھلی” ہیں۔
۴۔ تفکر اور بصیرت افروز مزاح
پطرس بخاری کو ان کے ہم عصر مزاح نگاروں سے جو چیز ممتاز کرتی ہے، وہ ان کی تحریر میں پایا جانے والا تفکر اور گہری سوچ ہے۔ کامیاب ظرافت صرف ہنسانے کا نام نہیں، بلکہ وہ ہنسی کے ساتھ ساتھ ذہن کو بیدار بھی کرتی ہے اور سوچنے پر بھی مجبور کرتی ہے۔ پطرس کی ظرافت کی یہی خوبی ہے کہ وہ قاری کو قہقہے لگانے پر مجبور کرنے کے ساتھ ساتھ اسے دعوتِ فکر بھی دیتی ہے۔
اہم روابط
ایک ماہر مزاح نگار کا کمال یہ ہوتا ہے کہ وہ بظاہر عام اور معمولی موضوعات و واقعات کے اندر سے ایسے پہلو تلاش کر لیتا ہے جو لوگوں کے لیے ہنسی کا باعث بھی بنیں اور انہیں کچھ دیر رک کر سوچنے پر بھی آمادہ کریں۔ پطرس بخاری کی یہ صلاحیت ان کے شاہکار مضمون “مرحوم کی یاد میں” میں کھل کر سامنے آتی ہے۔
اس مضمون سے ایک اقتباس ملاحظہ کریں:
“رفتہ رفتہ میں اس چیز کے قریب آیا جس کو میرا نوکر بائیسکل بتا رہا تھا۔ اس کے مختلف پرزوں پر غور کیا اتنا تو ثابت ہوگیا کہ یہ بائیسکل ہے لیکن مجموعی ہیئت سے یہ ظاہر تھا کہ بل اور رہٹ اور چرخہ اور اس طرح کی ایجادات سے پہلے کی بنی ہوئی ہے، پہیے کو گھما گھما کر وہ سوراخ تلاش کیا جہاں کسی زمانے میں تیل دیا جاتا تھا۔ لیکن اب اس سوراخ میں سے آمدورفت کا سلسلہ بند تھا۔ چنانچہ نوکر بولا: “حضور وہ تیل تو سب ادھر ادھر بہہ جاتا ہے۔ بیچ میں تو جاتا ہی نہیں۔” میں نے کہا: “اچھا اوپر اوپر ہی ڈال دو یہ بھی مفید ہوتا ہے۔”
اس اقتباس میں پطرس محض ایک پرانی سائیکل کی خستہ حالی بیان نہیں کر رہے۔ وہ طنزیہ انداز میں اس کی قدامت، مکینیکل مسائل اور انسانی عقل کی مجبوری کو بھی نمایاں کر رہے ہیں۔ نوکر کا معصومانہ تبصرہ اور پطرس کا برجستہ جواب نہ صرف مزاح پیدا کرتا ہے بلکہ اس کے پیچھے ایک گہرا طنز بھی پوشیدہ ہے جو ہمیں عام زندگی کی بے ضابطگیوں اور بظاہر لا یعنی کوششوں پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ یہ پطرس کی مزاح نگاری کی خوبی ہے کہ وہ ہنسی کے پردے میں زندگی کے فلسفیانہ اور تنقیدی پہلوؤں کو بھی اجاگر کر جاتے ہیں۔
۵۔ ندرتِ خیال اور انوکھا مزاح
ندرتِ خیال (یعنی خیالات کی جدت اور انفرادیت) ایک کامیاب مزاح نگار کی پہچان ہوتی ہے۔ یہ خصوصیت گہرے تفکر اور مضبوط ذہانت کا نتیجہ ہوتی ہے۔ پطرس بخاری کے مزاح میں ندرتِ خیال اس قدر نمایاں ہے کہ انہیں لفظی ہیر پھیر، محض تفریحی موضوعات، یا رٹے رٹائے فقروں کے استعمال کی ضرورت نہیں پڑتی۔ وہ ہر بات میں خوش دلی اور زندہ دلی کا پہلو تلاش کر لیتے ہیں، اور اسی سے ایک ایسا مزاح پیدا کرتے ہیں جو بالکل منفرد اور دل کو چھو لینے والا ہوتا ہے۔
پطرس بخاری کی یہ خاصیت ہے کہ وہ چھوٹی چھوٹی، بظاہر معمولی باتوں سے بھی ایسا شگفتہ مزاح پیدا کرتے ہیں جو قاری کے دل میں گھر کر جاتا ہے۔ ان کا فن ایسا ہے کہ وہ “ہنسی ہنسی میں کسی کو مار ڈالنے” کا ملکہ رکھتے ہیں، یعنی وہ اپنے لطیف طنز سے قاری کو اس طرح ہنساتے ہیں کہ اسے اپنی غلطی یا حقیقت کا احساس بھی ہو جاتا ہے، اور یہ ظرافت نگاری کا ایک بلند ترین درجہ ہے۔ عام اور خاص، دونوں طبقوں کے لوگوں کو اپنی تحریر سے خوش رکھنے کا سلیقہ اور فن جتنا پطرس جانتے ہیں، شاید ہی کوئی دوسرا جانتا ہو۔
ان کے اسلوب کی ندرت کا بہترین اظہار ان کے مشہور مضمون “کتے” میں دیکھا جا سکتا ہے، جہاں وہ لکھتے ہیں:
“بھونکتے ہوئے کتے کاٹا نہیں کرتے یہ بجا سہی لیکن کون جانتا ہے کہ ایک بھونکتا ہوا کتا کب بھونکنا بند کرے اور کاٹنا شروع کر دے۔”
یہاں پطرس نے ایک عام محاورے کو اپنی ذہانت اور ندرتِ خیال سے ایک نیا، مزاحیہ اور فکر انگیز پہلو دیا ہے۔ یہ جملہ نہ صرف ایک دلچسپ کیفیت پیدا کرتا ہے بلکہ اس میں ایک لطیف طنز اور حقیقت پسندی بھی پنہاں ہے جو ہمیں زندگی کے غیر یقینی پہلوؤں پر غور کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ یہی ندرتِ خیال پطرس کو اردو مزاح نگاری میں ایک بے مثال مقام عطا کرتی ہے۔
۶۔ رمزوایمائیت اور علامتی انداز
رمزوایمائیت، یعنی اشاروں اور کنایوں میں بات کہنے کا فن، پطرس بخاری کے اسلوب کی ایک نہایت اہم خصوصیت ہے۔ وہ اپنی تحریروں میں بعض اوقات اپنی ذاتی کمزوریوں یا عام انسانی فطرت کی خامیوں کو براہِ راست بیان کرنے کے بجائے، انہیں چھپانے کی کوشش کرتے دکھاتے ہیں، اور اسی عمل میں سب کچھ کہہ بھی جاتے ہیں۔ یہ ان کا ہنرمندانہ اندازِ بیاں ہے جو ان کے مزاح کو مزید گہرائی بخشتا ہے۔
مثال کے طور پر، ان کے شہرہ آفاق مضمون “کتے” میں پطرس ایک ایسے شخص کا ذکر کرتے ہیں جو کتوں سے غیر معمولی حد تک خوفزدہ ہوتا ہے۔ یہ شخص کتوں سے بچنے کے لیے لمبے اور متبادل راستے اختیار کرتا ہے، اور خواب میں بھی اسے کتے ہی نظر آتے ہیں۔ بظاہر تو وہ اس خوف کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے، لیکن باتوں باتوں میں وہ اپنی تمام تر کیفیت اور خوف کی شدت کو قاری کے سامنے آشکار کر دیتا ہے۔
یہاں پطرس نے اپنے آپ کو اس شخص کے روپ میں پیش کر کے ایک عام انسانی نفسیات کو رمزوایمائیت کے پردے میں بیان کیا ہے، جو نہ صرف مزاحیہ ہے بلکہ قاری کو ہنسی کے ساتھ ساتھ اپنے اردگرد ایسے کرداروں یا اپنی ہی ایسی کمزوریوں کا ادراک بھی کراتی ہے۔
پطرس بخاری الفاظ کے انتخاب میں انتہائی محتاط اور فکرمند رہتے ہیں۔ ان کی تحریر میں کنایتِ لفظی ایک نمایاں وصف ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہر لفظ نگینے کی طرح جڑا ہوا ہو اور اپنی جگہ پر مکمل طور پر فٹ ہو۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی تحریر کو بار بار پڑھتے تھے اور اس پر گہری نظرثانی کرتے تھے۔
یہی محنت اور احتیاط ان کے اسلوب کو ایک منفرد شان عطا کرتی ہے، جس سے ان کا مزاح سطحی ہونے کے بجائے ایک خاص عمق اور پختگی کا حامل ہو جاتا ہے۔ ان کی رمزوایمائیت قاری کو زیرِ سطح معانی تک پہنچنے کی دعوت دیتی ہے اور یہی چیز ان کے مزاح کو لازوال بناتی ہے۔
۷۔ زبان کا تخلیقی استعمال
اعلیٰ مزاح کی تخلیق خیال اور لفظ کے حسین امتزاج سے ہوتی ہے، اور پطرس بخاری اس فن کے استاد ہیں۔ وہ زبان و بیان کی تمام باریکیوں سے بخوبی واقف تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جو بات وہ قاری کے دل تک پہنچانا چاہتے ہیں، اسے کمال آسانی اور بے تکلفی سے کہہ جاتے ہیں۔ پطرس کے پاس الفاظ کا ایک وسیع ذخیرہ موجود تھا، اور وہ الفاظ کے انتخاب میں انتہائی احتیاط سے کام لیتے تھے۔
کفایتِ لفظی یعنی کم سے کم الفاظ میں بڑی بات کہہ دینا ان کے فن کا ایک نمایاں وصف ہے۔ ان کی تحریر میں کوئی لفظ بے کار نہیں ہوتا، بلکہ ہر لفظ اپنی جگہ نگینے کی طرح جڑا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا مزاح سطحی ہونے کے بجائے گہرائی اور فکر انگیزی کا حامل ہوتا ہے۔
۸۔ افسانوی و انشائی اندازِ بیاں
پطرس بخاری کے اسلوب کی ایک اور اہم خصوصیت ان کا افسانوی انداز ہے۔ ان کے مضامین کا آغاز اکثر چونکا دینے والا ہوتا ہے، اور واقعات کا بیان اس طرح کیا جاتا ہے کہ قاری کو ایک کہانی پڑھنے کا سا لطف آتا ہے۔ وہ واقعات کو اس طرح پروتے ہیں کہ مضمون کا اختتام اکثر خلافِ توقع اور حیران کن ہوتا ہے۔ یہی چیز ان کے مضامین کو افسانے کے قریب لے آتی ہے۔
اس کے علاوہ، پطرس انشائیہ نگاری کے اسلوب سے بھی بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ان کی تحریروں میں کہیں کہیں یہ فن بھی نظر آتا ہے کہ وہ کس طرح ایک معمولی بات کو غیر معمولی انداز میں پیش کر کے اسے دلچسپ بنا دیتے ہیں، یا پھر ایک غیر معمولی بات کو اس قدر سادہ اور عام فہم انداز میں بیان کرتے ہیں کہ وہ معمولی محسوس ہونے لگتی ہے۔
افسانے کی طرح وہ اپنے مضامین کا آغاز نہایت خوبصورتی اور دلکشی سے کرتے ہیں، جو قاری میں فوراً تجسس پیدا کرتا ہے اور اسے آخر تک باندھے رکھتا ہے۔ یہ افسانوی اور انشائیہ اسلوب ہی پطرس کے مزاح کو مزید پرلطف اور یادگار بناتا ہے۔
۹۔ صاف ستھری اور لازوال ظرافت
پطرس بخاری کی مزاح نگاری کی ایک نمایاں خصوصیت ان کی صاف ستھری ظرافت ہے۔ ان کے فن میں کسی قسم کی ابتذال، فحاشی یا بازاری پن کی آمیزش نہیں ملتی۔ اگرچہ پطرس نے اردو ادب کو مقدار کے لحاظ سے بہت کم ادبی ورثہ دیا ہے، لیکن جو کچھ بھی دیا ہے وہ اس قدر قیمتی اور نایاب ہے کہ اس نے پطرس کے نام کو اردو ادب کی تاریخ میں ہمیشہ کے لیے زندہ کر دیا۔
پطرس کی ظرافت اور مزاح کو کسی قسم کی بناوٹی یا عارضی سہارے کی ضرورت نہیں۔ ان کی نگاہ بڑی دور رس ہے اور وہ زندگی کے باریک سے باریک معاملات اور پہلوؤں کو بھی بآسانی دیکھ لیتے ہیں۔ پطرس کے مزاح کی ایک اہم خوبی یہ بھی ہے کہ وہ نہایت سنجیدہ اور گہری باتوں کو بھی مذاق کے پردے میں اس خوبصورتی سے بیان کر جاتے ہیں کہ قاری ہنستے ہنستے بہت کچھ سیکھ جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ان کے فن کی پختگی اور انفرادیت کو سراہتے ہوئے یہ کہنا بالکل درست ہے کہ اگر ہندوستان کی تمام مزاحیہ کتب ایک پلڑے میں رکھی جائیں اور پطرس کے چند مضامین دوسرے پلڑے میں، تو یقیناً پطرس کا پلڑا بھاری رہے گا۔ ان کی یہ صاف ستھری، فکر انگیز اور لازوال ظرافت ہی انہیں اردو ادب کے بڑے مزاح نگاروں میں ایک منفرد اور اعلیٰ مقام عطا کرتی ہے۔
۱۰۔ لوازماتِ مزاح پر مکمل عبور
پطرس بخاری کی مزاح نگاری کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ انہیں مزاح کے تمام لوازمات اور فنّی باریکیوں پر مکمل عبور حاصل تھا۔ وہ نہ صرف یہ جانتے تھے کہ مزاح کیسے پیدا کیا جاتا ہے، بلکہ اس کے صحیح استعمال کا گر بھی جانتے تھے۔ مزاح کی کوئی بھی قسم ہو، خواہ وہ لفظی ہو یا معنوی، صورتِ حال سے پیدا ہونے والا ہو یا کردار نگاری سے، پطرس کی دسترس سے باہر نہیں تھی۔ ان کی تحریر میں مزاح کی ہر شاخ کی جھلک نظر آتی ہے۔
پطرس نے اپنی مزاح کی تاثیر کو بڑھانے کے لیے ایک منفرد طریقہ اختیار کیا: انہوں نے اپنی ذات کو ہی ہدفِ مزاح بنا لیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے مضامین میں کہیں تو وہ صیغہ واحد غائب (جیسے ‘وہ’، ‘ان کا’) کا استعمال کرتے ہوئے ایک کردار کے طور پر سامنے آتے ہیں، اور کہیں صیغہ واحد متکلم (جیسے ‘میں’، ‘میرا’) کے ذریعے اپنے ذاتی تجربات اور مشاہدات کو براہِ راست بیان کرتے ہیں۔ مزاح کی یہ صفت، یعنی مزاح پیدا کرنے کے لیے اپنی ذات کو اس قدر بے تکلفی سے استعمال کرنا، اردو ادب میں شاید صرف انہی کے ہاں ملتی ہے۔
یہ تکنیک قاری کو ان کے قریب لے آتی ہے اور ایک ایسا دوستانہ ماحول پیدا کرتی ہے جس میں مزاح کی چبھن بھی گوارا گزرتی ہے۔ پطرس کی یہ مہارت انہیں ایک سچے اور پختہ مزاح نگار کے طور پر پیش کرتی ہے، جو محض ہنسانے کے لیے نہیں بلکہ قاری کو ایک فکری سطح پر بھی متوجہ کرنے کے لیے مزاح کا استعمال کرتے ہیں۔
