ہند یورپی زبانوں کے 12 اہم گروہ: زبانیں محض ابلاغ کا ذریعہ نہیں بلکہ انسانی تہذیب، تاریخ اور ثقافت کے گہرے سمندر ہیں۔ یہ صدیوں کے ارتقا، ہجرتوں اور تہذیبی میل جول کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ دنیا بھر میں بولی جانے والی زبانوں کا مطالعہ ہمیں ان کے باہمی رشتوں کو سمجھنے اور انسانی تاریخ کے انمول خزانوں تک رسائی دیتا ہے۔ لسانی خاندانوں میں ہند یورپی (Indo-European) خاندان سب سے وسیع، قدیم اور متنوع حیثیت رکھتا ہے، جس نے یورپ کے مغربی سرے سے لے کر ایشیا کے دور دراز علاقوں تک اپنا اثر و رسوخ قائم کیا۔
معروف ماہرِ لسانیات گریے (Gray) نے اس عظیم الشان خاندان کو جدید لسانیات کے تناظر میں بارہ بڑے گروہوں میں تقسیم کر کے ایک ایسا نقشہ کھینچا ہے جو لسانی ارتقا، جغرافیائی پھیلاؤ اور تہذیبی تعلقات کو ایک جامع فریم ورک میں بیان کرتا ہے۔ گریے کی یہ تقسیم ہر شاخ کی لسانی خصوصیات، تاریخی پس منظر اور ان زبانوں کے بولنے والوں کی ثقافتی شناخت کو نمایاں کرتی ہے۔
ہند یورپی زبانوں کے 12 اہم گروہ | ہند یورپی خاندان
گریے کا لسانی خاکہ ہمیں زبانوں کے اس طویل اور پیچیدہ سفر پر لے جاتا ہے، جہاں ہر شاخ اپنی الگ کہانی بیان کرتی ہے:

- ہند ایرانی (Indo-Iranian)
- طخاری (Tocharian)
- آرمینیائی (Armenian)
- تھریسکو فریجین (Thraco-Phrygian)
- یونانی (Greek)
- البانوی (Albanian)
- ایرین (Illyrian)
- اطالوی (Italic)
- کیلٹک (Celtic)
- ٹیوٹانک/جرمن (Teutonic/Germanic)
- بالٹو سلافی (Balto-Slavic)
- حتی (Hittite)
ہند ایرانی (Indo-Iranian)
ہند یورپی خاندان کی یہ مشرقی ترین اور سب سے وسیع شاخ ہے، جو لسانی و ثقافتی اعتبار سے انتہائی گہری جڑوں کی حامل ہے۔ یہ شاخ دو بڑی ذیلی شاخوں، ہند آریائی اور ایرانی، میں منقسم ہے۔ اس گروہ میں جنوبی ایشیا (جیسے پاکستان، بھارت)، ایران، افغانستان، وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے وسیع خطوں میں بولی جانے والی زبانیں شامل ہیں۔ اردو، ہندی، سنسکرت، بنگالی، پنجابی، گجراتی، مراٹھی، سندھی جیسی ہند آریائی زبانیں اور فارسی، پشتو، بلوچی، کردی، اوستا (قدیم ایرانی مذہبی زبان) جیسی ایرانی زبانیں اس شاخ کی نمائندہ ہیں۔ یہ لسانی گروہ دنیا کی ایک بہت بڑی آبادی کا ذریعہ ابلاغ ہے، اور اردو زبان بھی اسی معزز شاخ سے تعلق رکھتی ہے۔
طخاری (Tocharian)
یہ وسطی ایشیا کے علاقے سنکیانگ (موجودہ چین) میں بولی جانے والی قدیم زبانیں تھیں جو آج ناپید ہو چکی ہیں۔ ان کی باقیات قدیم تحریروں اور مخطوطات کی صورت میں دریافت ہوئی ہیں، جن میں طخاری A اور طخاری B نمایاں ہیں۔ ان زبانوں کا پھیلاؤ بدھ مت کے ساتھ ہوا اور یہ کبھی ترکستان کے علاقوں میں رائج تھیں۔ طخاری زبانوں کی دریافت نے ہند یورپی خاندان کی جغرافیائی حدود کو مشرقی سمت میں غیر متوقع طور پر وسعت دی، جو اس خاندان کے ابتدائی پھیلاؤ کے بارے میں نئی بصیرت فراہم کرتی ہے۔
آرمینیائی (Armenian)
موجودہ آرمینیا اور اس کے گرد و نواح میں بولی جانے والی یہ زبان ہند یورپی خاندان کی منفرد شاخوں میں سے ایک ہے۔ اس کا اپنا ایک جداگانہ رسم الخط ہے اور اس نے اپنی قدیم لسانی شکل کو برقرار رکھتے ہوئے کئی قدیم زبانوں، جیسے یونانی، سریانی اور فارسی، سے اثرات قبول کیے۔ آرمینیائی زبان میں ایک بھرپور مذہبی اور ادبی ورثہ محفوظ ہے۔
تھریسکو فریجین (Thraco-Phrygian)
یہ شاخ قدیم بلقان کے علاقے میں بولی جاتی تھی اور اب ناپید ہو چکی ہے۔ اس کی اہم زبانیں تھریسیائی اور فریجین کہلاتی تھیں۔ اگرچہ موجودہ زبانوں پر اس کا براہ راست اثر بہت کم ہے، تاہم تاریخی اور لسانی تحقیق کے اعتبار سے یہ شاخ اہم ہے۔ ان زبانوں کے آثار قدیم کتبوں اور کھدائی میں ملنے والے نوادرات کی صورت میں دریافت ہوئے ہیں، جو ان کے وجود کی گواہی دیتے ہیں۔
یونانی (Greek)
یونانی زبان قدیم ترین کلاسیکی زبانوں میں شامل ہے اور اس کا تعلق ہند یورپی خاندان سے ہے۔ قدیم یونانی زبان میں علمی، فلسفیانہ، سائنسی اور ادبی خزانے محفوظ ہیں۔ ہومر کی رزمیہ نظمیں، افلاطون اور ارسطو کے فلسفے، اور سقراط کی مکالمات، سب اسی زبان میں ہیں۔ جدید یونانی آج بھی یونان اور قبرص میں بولی جاتی ہے اور اس نے یورپ کے فکری، سائنسی، ادبی اور لسانی میدانوں میں گہرا اور دیرپا اثر چھوڑا ہے۔
البانوی (Albanian)
یہ زبان البانیہ اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں بولی جاتی ہے۔ البانوی زبان کا رسم الخط لاطینی حروف پر مبنی ہے اور اسے ہند یورپی خاندان کی ایک الگ اور منفرد شاخ کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ اگرچہ اس نے عبرانی اور سلافی زبانوں سے بھی کچھ اثرات قبول کیے ہیں، مگر اس نے اپنی بنیادی ساخت اور خصوصیات کو برقرار رکھا ہے۔ یہ زبان البانوی قوم کی زندہ شناخت کا حصہ ہے۔
ایرین (Illyrian)
یہ شاخ قدیم بلقان کے قبائل کی زبانوں پر مشتمل تھی، جو اب ناپید ہو چکی ہیں۔ اس زبان کے بارے میں معلومات بہت محدود ہیں اور اس کے براہ راست لسانی شواہد نایاب ہیں۔ تاہم، بعض ماہرینِ لسانیات کا خیال ہے کہ البانوی زبان ایرین زبانوں کی ہی ترقی یافتہ اور بچ جانے والی شکل ہو سکتی ہے، جو ان کے درمیان ایک ممکنہ تاریخی تعلق کو ظاہر کرتا ہے۔
اطالوی (Italic)
یہ شاخ لاطینی زبان اور اس سے پیدا ہونے والی تمام رومانس زبانوں (Romance Languages) پر مشتمل ہے۔ لاطینی رومن سلطنت کی سرکاری زبان تھی، جس نے یورپ کے بڑے حصے میں اپنے نقوش چھوڑے۔ آج کی اہم رومانس زبانوں میں اطالوی، ہسپانوی، فرانسیسی، پرتگالی، اور رومینین شامل ہیں۔ رومن سلطنت کے پھیلاؤ کے ساتھ ہی یہ زبانیں یورپ اور بعد میں لاطینی امریکہ تک پھیل گئیں، اور آج بھی دنیا کی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں شمار ہوتی ہیں۔
کیلٹک (Celtic)
یہ زبانیں قدیم زمانے میں برطانیہ (ویلز، سکاٹ لینڈ)، آئرلینڈ، فرانس (خاص کر بریٹنی) اور اسپین کے بعض علاقوں میں بولی جاتی تھیں۔ اس شاخ کی اہم زندہ زبانوں میں آئرش (گیلک)، ویلش، اور بریٹن شامل ہیں۔ اگرچہ ان کی تعداد اور بولنے والے افراد اب نسبتاً کم ہیں، لیکن یہ زبانیں آج بھی بعض علاقوں میں بولی اور سکھائی جاتی ہیں، اور اپنی ایک قدیم لسانی اور ثقافتی شناخت کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
ٹیوٹانک / جرمنک (Teutonic / Germanic)
یہ شاخ ہند یورپی خاندان کی سب سے اہم اور دنیا بھر میں سب سے زیادہ اثر و رسوخ رکھنے والی شاخوں میں سے ایک ہے، جس میں انگریزی جیسی عالمی زبان بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ جرمن، ڈچ، سویڈش، نارویجین، ڈینش، اور آئس لینڈک جیسی زبانیں بھی اسی شاخ سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان زبانوں میں سائنسی، ادبی، سیاسی اور معاشی مواد کا وسیع ترین ذخیرہ موجود ہے۔ انگریزی زبان کی عالمی حیثیت اور اس کے علوم و فنون میں پھیلاؤ نے اس شاخ کو عالمی سطح پر لسانی، ثقافتی اور معاشی لحاظ سے نہایت اہم بنا دیا ہے۔
اہم روابط
بالٹو سلافی (Balto-Slavic)
یہ شاخ مشرقی اور شمالی یورپ میں بولی جانے والی زبانوں پر مشتمل ہے اور اسے دو بڑے ذیلی گروہوں میں تقسیم کیا جاتا ہے:
- بالٹک زبانیں: جیسے لیتھوینی اور لیٹوین، جو بالٹک خطے میں بولی جاتی ہیں۔
- سلافی زبانیں: یہ تعداد میں زیادہ وسیع ہیں اور ان میں روسی، چیک، سلوواک، پولش، بلغاری، کروشین، سربیئن، اور یوکرینی شامل ہیں۔ یہ زبانیں مشرقی یورپ اور وسطی ایشیا میں ثقافتی، سیاسی اور تاریخی حوالے سے بڑی اہمیت رکھتی ہیں اور ان کا ادب و فنون میں بھی گہرا مقام ہے۔
حتی (Hittite)
یہ زبان قدیم اناطولیہ (موجودہ ترکی) میں بولی جاتی تھی اور ہند یورپی خاندان کی سب سے قدیم معلوم تحریری زبانوں میں سے ایک ہے۔ یہ زبان اب معدوم ہو چکی ہے، لیکن اس کے نوادرات، خاص طور پر مٹی کی تختیوں پر کندہ کتبے، آج بھی ماہرینِ لسانیات کے لیے ایک اہم ذریعہ ہیں۔ حتی زبان کا مطالعہ ہند یورپی زبانوں کے ابتدائی ارتقائی مراحل اور ان کی مشترکہ جڑوں کو سمجھنے میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔
ہند ایرانی شاخ
ہند یورپی خاندان کی سب سے مشرقی اور نہ صرف جغرافیائی بلکہ لسانی اور تہذیبی اعتبار سے بھی سب سے اہم شاخ ہند ایرانی (Indo-Iranian) کہلاتی ہے۔ یہ شاخ صرف لسانی بنیادوں پر ہی نہیں، بلکہ ثقافتی، تاریخی اور تہذیبی ارتقا کے حوالے سے بھی ایک قدیم اور نہایت بااثر مقام رکھتی ہے۔ اس میں شامل زبانیں جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے ایک بہت بڑے خطے میں پھیلی ہوئی ہیں، جو ایک مشترکہ آریائی ورثے کی گواہی دیتی ہیں۔
تاریخی پس منظر
اس شاخ کی لسانی جڑیں تقریباً 1600 قبل مسیح تک جاتی ہیں، جب آریا قبائل نے اپنی آبائی سرزمین سے ہجرت کر کے برصغیر اور ایران کے وسیع خطے کا رخ کیا۔ یہ ہجرت انسانی تاریخ کا ایک اہم موڑ ثابت ہوئی، جس کے لسانی اور ثقافتی اثرات آج بھی مشاہدہ کیے جا سکتے ہیں۔ ان آریاؤں میں سے کچھ قبائل ایران کے علاقے میں آباد ہو گئے، جبکہ باقی ہندوستان کی طرف بڑھتے رہے۔
ان دونوں گروہوں کی زبانوں میں جو گہری مماثلت پائی جاتی ہے، اس کا سب سے بڑا اور واضح ثبوت اوستا (Avesta)، جو قدیم ایرانی زرتشتی مذہب کی مقدس کتاب ہے، اور رگ وید (Rig Veda)، جو ہند آریائی (ویدک سنسکرت) مذہبی کتاب ہے، کے لسانی تقابلی مطالعے سے ملتا ہے۔ ان دونوں کتابوں کی زبانوں میں صوتیاتی، صرفی اور نحوی سطح پر حیرت انگیز مماثلتیں پائی جاتی ہیں، جو ان کے مشترکہ ماخذ اور لسانی ورثے کی ناقابلِ تردید گواہی ہیں۔ یہ لسانی مماثلت ہزاروں سال پر محیط ایک ثقافتی اور تہذیبی تسلسل کو ظاہر کرتی ہے۔
جارج گریرسن کی ہند ایرانی شاخ کی تفصیلی تقسیم
مشہور برطانوی ماہرِ لسانیات جارج گریرسن (George Grierson)، جنھوں نے برصغیر کی لسانی صورتحال پر وسیع پیمانے پر کام کیا، نے ہند ایرانی زبانوں کو مزید تین اہم ذیلی شاخوں میں تقسیم کیا ہے۔ یہ تقسیم ان زبانوں کے جغرافیائی پھیلاؤ، صوتیاتی خصوصیات اور تاریخی ارتقاء کی بنیاد پر کی گئی ہے:
1. ایرانی زبانیں
یہ زبانیں جغرافیائی طور پر ایران، افغانستان، پاکستان کے صوبہ بلوچستان، وسطی ایشیا (خاص طور پر تاجکستان کے علاقے) اور مشرق وسطیٰ کے بعض حصوں میں بولی جاتی ہیں۔ ان زبانوں کا ارتقائی سفر کئی ادوار پر محیط ہے، جن میں قدیم، وسطی اور جدید ادوار شامل ہیں:
- قدیم دور کی ایرانی زبانیں: اس دور کی سب سے اہم زبان فرسِ قدیم (Old Persian) تھی، جو ہخامنشی سلطنت کے کتبوں میں استعمال ہوئی۔ ایک اور اہم زبان اوستا (Avestan) تھی، جو زرتشتی مذہب کی مقدس کتاب ‘اوستا’ کی زبان ہے اور لسانی و مذہبی اعتبار سے اس کی اہمیت غیر معمولی ہے۔
- وسطی دور کی ایرانی زبانیں: اس دور کی نمایاں زبان پہلوی (Pahlavi) تھی، جسے فارسی میانہ بھی کہا جاتا ہے اور یہ ساسانی سلطنت کی سرکاری و ادبی زبان تھی۔ سغدی (Sogdian) وسطی ایشیا میں رائج ایک اہم قدیم زبان تھی جو تجارت اور بدھ مت کی تبلیغ میں استعمال ہوتی تھی لیکن اب ناپید ہو چکی ہے۔
- جدید دور کی ایرانی زبانیں: اس دور میں کئی اہم زبانیں وجود میں آئیں جو آج بھی فعال ہیں۔ ان میں فارسی (Persian) یا زبانِ دری سرفہرست ہے، جو ایران، افغانستان اور تاجکستان کی اہم زبان ہے۔ یہ اپنے بھرپور ادبی ورثے، خاص طور پر شاعری، کے لیے عالمی سطح پر جانی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ پشتو (Pashto) جو افغانستان کی قومی زبان اور پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کی اہم زبان ہے؛ بلوچی (Balochi) جو پاکستان (بلوچستان)، ایران اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں بولی جاتی ہے؛ اور کردی (Kurdish) جو ترکی، عراق، ایران اور شام کے علاقوں میں پھیلی ہوئی ہے، شامل ہیں۔
2. دردی یا پشاچی زبانیں
یہ زبانیں پاکستان کے شمالی علاقوں جیسے کشمیر، گلگت بلتستان، چترال، ہندوکش، پامیر اور نورستان (کافرستان) کے دشوار گزار اور بلند پہاڑی علاقوں میں بولی جاتی ہیں۔ ان زبانوں کو ہند آریائی اور ایرانی زبانوں کے درمیان ایک پل کی حیثیت حاصل ہے، کیونکہ ان میں سنسکرت اور ایرانی زبانوں دونوں کے قدیم لسانی اثرات واضح طور پر پائے جاتے ہیں۔ جغرافیائی تنہائی کی وجہ سے ان زبانوں نے اپنی کئی قدیم صوتیاتی اور صرفی خصوصیات کو برقرار رکھا ہے۔ اہم دردی بولیاں درج ذیل ہیں:
- کُھوار (Khowar/Chitrali): یہ زبان چترال کی سب سے بڑی اور اہم زبان ہے۔
- نورستانی (Nuristani/Kafiri): یہ زبان نورستان کے علاقوں میں بولی جاتی ہے۔
- شِنا (Shina): شینا گلگت، دیامر، استور اور گرد و نواح میں رائج ہے۔
- کوہستانی (Kohistani): ہزارہ اور سوات کے پہاڑی علاقوں میں بولی جانے والی مختلف بولیاں۔
- کشمیری (Kashmiri): وادیٔ کشمیر کی بڑی زبان، جس کا اپنا ایک ادبی ورثہ ہے۔
- بروششکی (Burushaski): ہنزہ اور نگر کی وادیوں میں بولی جانے والی یہ زبان اگرچہ لسانی طور پر کسی بھی ہند یورپی خاندان سے تعلق نہیں رکھتی (اسے ایک الگ تھلگ زبان سمجھا جاتا ہے)، لیکن یہ اپنے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے پشاچی زبانوں کے ساتھ مشترک خصوصیات اور اثرات رکھتی ہے۔
3. ہند آریائی زبانیں
یہ ہند ایرانی شاخ کا سب سے بڑا اور دنیا میں سب سے زیادہ آبادی کے لحاظ سے وسیع حصہ ہے۔ یہ زبانیں برصغیر پاک و ہند کے ایک وسیع حصے میں بولی جاتی ہیں، جس میں پاکستان، بھارت، نیپال، بنگلہ دیش، اور سری لنکا شامل ہیں۔ ان تمام زبانوں کی بنیادی ماں سنسکرت (Sanskrit) کو سمجھا جاتا ہے، جو قدیم مذہبی، فلسفیانہ اور ادبی زبان تھی اور اس نے علوم و فنون میں بے پناہ خدمات انجام دیں۔ سنسکرت سے ہی مختلف پراکرتیں (Prakrits) (روزمرہ کی علاقائی بولیاں) اور پالی (Pali) (بدھ مت کی مذہبی زبان) نکلی ہیں، جن سے مزید ارتقائی مراحل طے کرتے ہوئے جدید ہند آریائی زبانیں وجود میں آئیں۔
اہم ہند آریائی زبانیں
- اردو: ہند آریائی زبانوں کا ایک خوبصورت امتزاج ہے، جو فارسی، عربی اور مقامی ہند آریائی زبانوں کے گہرے اثرات سے مالا مال ہے۔ یہ پاکستان کی قومی زبان اور جنوبی ایشیا کی ایک بڑی ادبی، علمی اور ثقافتی زبان ہے، جو اپنی لچک اور وسعت کی وجہ سے منفرد مقام رکھتی ہے۔
- ہندی: بھارت کی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان اور اس کی سرکاری زبانوں میں سے ایک، جس نے سنسکرت سے گہرے اثرات لیے ہیں۔
- پنجابی: پاکستان کے صوبہ پنجاب اور بھارت کی ریاست پنجاب میں بولی جاتی ہے، اور اس کا اپنا ایک بھرپور لوک ادب اور شاعری کا ورثہ ہے۔
- بنگالی: بنگلہ دیش کی قومی زبان اور بھارت کی ریاست مغربی بنگال کی اہم زبان، جو اپنی منفرد ادبی روایت رکھتی ہے۔
- گجراتی: بھارت کی ریاست گجرات میں بولی جاتی ہے اور تجارت کے حوالے سے اہم ہے۔
- مراٹھی: بھارت کی ریاست مہاراشٹر کی اہم زبان، جس کا اپنا ایک طویل ادبی پس منظر ہے۔
- سندھی: پاکستان کے صوبہ سندھ کی اہم زبان، جو صوفیانہ شاعری کے لیے مشہور ہے۔
- نیپالی: نیپال کی قومی زبان ہے۔
ان کے علاوہ آسامی، اوڑیا، راجستھانی، بہاری زبانیں (میتھلی، بھوجپوری) وغیرہ بھی اسی شاخ سے تعلق رکھتی ہیں، جو علاقائی تنوع کو ظاہر کرتی ہیں۔
ہند ایرانی شاخ صرف ایک لسانی درجہ بندی سے کہیں بڑھ کر ہے۔ یہ ہزاروں سال پر محیط ایک وسیع اور گہرے ثقافتی، تاریخی اور تہذیبی تسلسل کی کہانی بیان کرتی ہے۔ اس شاخ میں شامل زبانیں نہ صرف دنیا کی ایک بہت بڑی آبادی کی لسانی اور ثقافتی شناخت کا حصہ ہیں، بلکہ انہوں نے انسانیت کے لیے ایک بے پناہ ادبی، فلسفیانہ، سائنسی اور مذہبی ورثہ بھی تخلیق کیا ہے۔
اردو جیسی ترقی یافتہ اور عالمی سطح پر مقبول زبان کا تعلق اسی شاخ سے ہے، جو آج بھی ابلاغ، ادب، علم اور فنون کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔ یہ شاخ آج بھی زندہ ہے اور دنیا کی متنوع ثقافتوں کو ایک دوسرے سے جوڑنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کر رہی ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ زبانیں محض آوازوں کا مجموعہ نہیں بلکہ قوموں کی تاریخ، ان کی سوچ اور ان کے دلوں کی دھڑکن ہوتی ہیں۔
