فسانۂ آزاد کا تعارف اور تنقیدی جائزہ: اردو نثر کی تاریخ میں پنڈت رتن ناتھ سرشار ایک اہم اور نمایاں مقام رکھتے ہیں، اور ان کا سب سے مشہور اور نمایندہ کارنامہ “فسانۂ آزاد” ہے۔ یہ ایک ضخیم داستان ہے جو چار جلدوں پر مشتمل ہے۔ اس کی ابتدا 1878ء میں ہوئی، جب سرشار اودھ اخبار کے ایڈیٹر تھے۔ ابتدا میں یہ قصہ قسط وار شائع ہوتا رہا اور بعد ازاں 1880ء میں اسے کتابی صورت میں پیش کیا گیا۔
فنی اعتبار سے اگرچہ “فسانۂ آزاد” کو مکمل ناول نہیں کہا جا سکتا، کیونکہ اس میں ربط و تسلسل کا فقدان ہے، تاہم اس کی دلچسپی، منظر نگاری، تہذیبی و معاشرتی عکاسی، انسانی نفسیات کے مطالعے، شگفتہ زبان، محاورہ بندی، شوخی و ظرافت نے اسے اردو ادب میں ایک بلند مقام عطا کیا ہے۔ خاص طور پر میاں آزاد اور ان کے دوست خوجی کے کردار اس داستان کو ناقابلِ فراموش بنا دیتے ہیں۔
فسانۂ آزاد کا مختصر خلاصہ
“فسانۂ آزاد” کی کہانی ایک دولت مند اور نوجوان کردار میاں آزاد کے گرد گھومتی ہے جو ایک حسین اور باوقار خاتون حسن آرا پر دل و جان سے فریفتہ ہو جاتے ہیں۔ حسن آرا ان سے اس شرط پر نکاح کے لیے آمادہ ہوتی ہیں کہ میاں آزاد پہلے ترکی کا سفر کریں، وہاں لشکرِ اسلام میں شامل ہو کر روسیوں کے خلاف جہاد کریں اور کامیاب ہو کر واپس آئیں۔
میاں آزاد اس شرط کو بخوشی قبول کرتے ہیں، ترکی کا طویل اور پُرخطر سفر اختیار کرتے ہیں، میدانِ جنگ میں کامیابیاں سمیٹتے ہیں اور بالآخر سرخرو ہو کر وطن واپس لوٹتے ہیں۔
پنڈت رتن ناتھ سرشار کی ادبی زندگی اور فسانۂ آزاد کا تعارف
پنڈت رتن ناتھ سرشار کی ادبی زندگی کی باقاعدہ ابتدا اودھ اخبار سے وابستگی کے بعد ہوئی۔ اسی اخبار کے صفحات پر ان کی شہرۂ آفاق تصنیف فسانۂ آزاد کی اقساط شائع ہونا شروع ہوئیں، جنہوں نے دنیائے اردو ادب میں ایک نئی تحریک اور ولولہ پیدا کر دیا۔ قارئین کو اس قدر اشتیاق ہوتا کہ وہ ہر نئی قسط کے انتظار میں بےتاب نظر آتے۔ سرشار نے اس قصے کی ابتدا 1878ء میں کی، اور یہ 1880ء میں ایک علیحدہ کتابی شکل میں منظرِ عام پر آیا۔

فسانۂ آزاد نہ صرف سرشار کا سب سے اہم کارنامہ ہے بلکہ اردو نثر کے ارتقا میں بھی اسے ایک سنگِ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ اگرچہ فنی اعتبار سے اس میں مکمل ناول کی صفات جیسے ربط و تسلسل کی کمی محسوس ہوتی ہے، تاہم اس کی دلچسپ طرزِ بیان، شگفتہ مکالمات، زندہ کردار نگاری، اور تہذیبی منظر نگاری نے اسے اردو ادب کے کلاسیکی ذخیرے میں شامل کر دیا ہے۔
پنڈت بشن نرائن فسانۂ آزاد کی ادبی قدر و قیمت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
“قصے کا پلاٹ تو بہت سادہ، حد درجہ بے مزہ ہے، لیکن ڈھائی ہزار گنجان صفحات پڑھتے جائیے، ذرا بھی بدمزہ نہ ہوں گے۔ بلکہ ہر سطر پر اشتیاق بڑھتا جائے گا۔ محض اس لیے کہ عبارت آرائی غضب کی ہے، طرزِ ادا نہایت بےتکلف، آسان، اور اس کے ساتھ پرلطف ظرافت، شوخ فقرے، ترکی بہ ترکی جوابات، اور ایسی حماقت آمیز باتیں کہ پڑھ کر ہنسی روکی نہ جائے۔”
واقعی یہی ہے کہ فسانۂ آزاد کی منظر نگاری، معاشرتی اور تہذیبی عکاسی، انسانی نفسیات کا مشاہدہ، محاوروں کی صفائی، شوخی و ظرافت، کردار نگاری، طرزِ تحریر اور مکالمہ نگاری نے مل کر اسے اردو ادب کا یادگار سرمایہ بنا دیا ہے۔
فسانۂ آزاد کا تنقیدی جائزہ
- شوخی و ظرافت
- سرشار کا اسلوب نگارش
- مصلحانہ انداز فکر
- طنزومزاح
- روزمرہ مکالمہ نگاری
- عامیانہ عبارتیں
- مرقع نگاری
- سادہ اور عام فہم نثر
- لکھنوی تہذیب کی عکاسی
شوخی و ظرافت
پنڈت رتن ناتھ سرشار کے مزاج میں اگرچہ ایک دھیما پن ہے، لیکن ان کی تحریروں میں شگفتگی اور لطافت کا عنصر جا بہ جا نظر آتا ہے۔ ان کا مزاح نہ صرف واقعات سے پیدا ہوتا ہے بلکہ الفاظ، جملوں اور مکالمات کے انتخاب سے بھی جنم لیتا ہے۔ وہ تحریر میں روانی اور شگفتگی دونوں کو برقرار رکھتے ہیں۔ ان کے فن کو اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو یہ مضحک لفاظی کا فن ہے۔
فسانۂ آزاد ایک سطح پر مٹتی ہوئی تہذیب اور زوال پذیر جاگیردارانہ نظام پر بھرپور طنز ہے۔ نوابوں کی عیاشی، ہوس پرستی اور خوجی جیسے کرداروں کی بے جا چاپلوسی اس کا زندہ و جاوید استعارہ ہیں۔ لیکن سرشار جب طنز کرتے ہیں تو کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے کے بجائے، گویا ایک گوشے میں کھڑے مسکراتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی یہی تبسم آمیز بےنیازی قاری کو بسا اوقات چبھتی ہوئی ہنسی پر مجبور کر دیتی ہے۔
سرشار کی ظرافت میں طنز کی مقدار کم اور مزاح کا رنگ غالب ہے۔ ان کے مزاح میں اگرچہ غالب کی ظرافت جیسی لطیف معنویت اور جذباتی گہرائی موجود نہیں، تاہم یہ بلند آہنگ اور براہِ راست ہے۔ ان کی ظرافت ایک تندرست ذہن اور روشن دل کی پیداوار ہے، جو کسی خاص مقصد کے تابع نہیں، بلکہ زندگی کے تمام پہلوؤں پر یکساں قہقہہ بلند کرتا ہے — حتیٰ کہ وہ خود اپنی ذات کو بھی اس ہنسی کا نشانہ بنانے سے نہیں چوکتے۔
جب سرشار لکھنؤ کے زوال پذیر معاشرے کی پرچھائیاں اور خاکے کھینچتے ہیں تو ان کی ظرافت کا طنزیہ پہلو مزید نمایاں ہو جاتا ہے، اور قاری ان کے مخصوص اسلوب کو فوراً محسوس کر لیتا ہے۔
سرشار کا اسلوبِ نگارش
سرشار کو زبان و بیان پر غیر معمولی قدرت حاصل تھی۔ ان کا اسلوب نگارش نہایت منفرد اور پراثر ہے۔ اردو کے متعدد نقادوں کا خیال ہے کہ ان کی نثر میں رجب علی بیگ سرور کے طرزِ تحریر کی جھلک یا اثر ملتا ہے، اگرچہ اسے تقلید کہنا مناسب نہ ہوگا۔ سرشار کا اسلوب سہل، بے تکلف، شگفتہ اور جاذبِ نظر ہے، جو قاری کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے۔
مصلحانہ اندازِ فکر
سرشار صرف ایک ناول نگار ہی نہیں بلکہ ایک باشعور صحافی اور سماجی مصلح بھی تھے۔ ان کی تحریروں میں وقتاً فوقتاً مصلحانہ رنگ نمایاں ہو جاتا ہے۔ ان کے ناولوں میں طویل تقاریر اور تنقیدی بیانات شامل ہیں جو معاشرت، مذہب، تعلیم نسواں، مغربی اقدار، اور شراب نوشی جیسے موضوعات پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ان تحریروں میں سر سید احمد خان کے افکار و اسلوب کا اثر نمایاں ہے۔
تاہم، سر سید کی مصلحانہ تحریروں میں ادبی لطافت، باوقار سادگی اور فکری گہرائی ملتی ہے، جب کہ سرشار کی تحریریں بعض اوقات خشک اور بے کیف محسوس ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ناولوں میں جب یہ مصلحانہ بیانات آتے ہیں، تو وہ افسانوی تسلسل سے کٹ کر ایک علیحدہ بوجھ محسوس ہوتے ہیں۔ اگر سرشار فقط ایک مصلح ہوتے اور ناول نگاری کا سہارا نہ لیتے، تو ممکن ہے ان کی تحریریں قارئین پر اتنا اثر نہ ڈال پاتیں۔
طنز و مزاح
پنڈت رتن ناتھ سرشار کا تعلق اودھ کے پنج سے تھا، جہاں کی تہذیب، زبان اور معاشرت خود ایک خاص ذوقِ لطیف کی حامل تھی۔ سرشار، بحیثیت ایک عوامی حقیقت پسند ادیب، طنز و مزاح کو صرف ہنسی کا ذریعہ نہیں سمجھتے، بلکہ معاشرتی خامیوں کی پردہ دری کا ہنر بھی ان کی مزاح نگاری میں پنہاں ہے۔
ان کے یہاں طنز و مزاح کے تمام رنگ اور تمام درجے موجود ہیں۔ کہیں پست سے پست مزاح ہے جو عوام الناس کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے، تو کہیں بلند تخیلی شگفتگی جو ذہن کو لطافت عطا کرتی ہے۔ ان کے مزاح میں قہقہوں کی گونج، تلخی کی جھلک، طنز کی چبھن اور ہنگامہ خیزی کا شور بھی سنائی دیتا ہے، لیکن ان سب کا مجموعی تاثر ایک پائیدار شگفتگی ہے، جو قاری کو مسلسل مسکراہٹ سے ہمکنار رکھتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ بعض نقادوں کی اس رائے سے اختلاف کیا جا سکتا ہے کہ “سرشار کا مزاح محض ہنگامی نوعیت کا ہے۔” ان کے مزاح میں وقتی چٹکلوں سے ہٹ کر گہری معاشرتی بصیرت اور تہذیبی مشاہدہ جھلکتا ہے۔
ایک ناقد لکھتے ہیں:
“مزاح کے لیے ادبی طرزِ نگارش ضروری ہے۔ سرشار کے مزاح میں وہ جھلک نہیں جو نواب آزاد کے اسلوب کا طرّۂ امتیاز ہے۔ سرشار کا اسلوب نواب آزاد کے ادبی خاکوں کی نسبت سطحی ہے۔”
اگرچہ یہ تنقید کسی حد تک درست معلوم ہوتی ہے، لیکن اس کے باوجود سرشار کی تحریروں میں اعلیٰ طنز و مزاح کے کئی ایسے مقام موجود ہیں جن میں اسلوب بیان کی چابک دستی، فکری چابکدستی اور ظرافت کا حسن نمایاں ہے۔ بحیثیت مجموعی، سرشار نے طنز و تعریض، مزاح اور مذاق کے پیرایے میں لکھنؤ کی زوال پذیر سماجی زندگی کی تلخ حقیقتوں کو بے نقاب کیا ہے اور قاری کو ذہنی مسرت، خوش طبعی اور دیرپا شگفتگی سے ہمکنار کیا ہے۔
روز مرہ اور مکالمہ نگاری
سرشار کی نثر کی سب سے نمایاں خصوصیت ان کے مکالمے ہیں۔ ان کی اکثر تصانیف مکالماتی طرز پر مشتمل ہیں، جن میں سماج کے مختلف طبقات اور کرداروں کی زبان و بیان کو نہایت فطری انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ ان کے مکالمے حقیقت کا عکس ہیں، جو ان کی غیر معمولی مشاہدہ نگاری اور سماجی شعور کا بین ثبوت ہیں۔
📑
اہم روابط
سرشار کے مکالموں میں ایک طرف طنز و مزاح، فحاشی اور پھکڑ پن ہے، تو دوسری طرف ادبیت، ذہانت اور شائستگی بھی ملتی ہے۔ جس طرح سماجی طبقات کی گفتگو مختلف نوعیت کی ہوتی ہے، اسی طرح سرشار نے بھی اپنے کرداروں کی گفتگو میں معیاری فرق کا بھرپور خیال رکھا ہے۔
- مولوی صاحب کی زبان میں عربی و فارسی کے بھاری الفاظ اور مذہبی اصطلاحات کی گونج ہے۔
- چانڈو باز کی گفتگو ابتذال سے بھرپور ہے، جو اس کے کردار کا عکس بن جاتی ہے۔
- بیگمات کی زبان میں فصاحت، محاورہ بندی اور تہذیبی چاشنی ہے۔
- ایک ہی پیشے سے وابستہ مختلف کرداروں کی زبان میں بھی فرق رکھا گیا ہے، جو مصنف کی فنکارانہ باریکیوں پر دسترس کا مظہر ہے۔
سرشار نے مکالمہ نگاری میں کبھی حقیقت پسندی کا دامن نہیں چھوڑا۔ ان کے مکالمے نہ صرف کرداروں کی پہچان بن جاتے ہیں بلکہ قاری کو اس زمانے کے معاشرتی حالات اور تہذیبی پس منظر میں لے جاتے ہیں۔
عامیانہ عبارتیں
پنڈت رتن ناتھ سرشار کا شمار اُن مصنّفین میں ہوتا ہے جنہوں نے عوامی ذوق، عام فہم زبان اور سادہ بیانیہ کو ادبی اظہار کا وسیلہ بنایا۔ وہ خود عوامی صحافی، عوامی مصنف اور عوامی نقاد تھے، اس لیے ان کی تحریروں میں سلیس اور عامیانہ انداز جا بجا نظر آتا ہے۔
سرشار نے سماج، فرد اور کائنات کے مختلف پہلوؤں کو ایسی سادگی اور سچائی سے بیان کیا ہے کہ قاری کو وہ سب کچھ زندگی کی اصل تصویر معلوم ہوتا ہے۔ ان کی یہی سادگی بسا اوقات ادبی لطافت سے عاری دکھائی دیتی ہے۔ معروف محقق ڈاکٹر محی الدین قادری زور اس حوالے سے لکھتے ہیں:
“سرشار کی نگاہ کائنات کے بعض امور پر بہت گہری پڑتی ہے، لیکن ان کا بیان اس قدر عامیانہ ہوتا ہے کہ پڑھنے والے پر ان کی اہمیت کا کوئی خاص اثر نہیں بیٹھتا۔”
یہ بات بجا ہے کہ سرشار زندگی کے عمیق مشاہدات کو سادہ ترین انداز میں بیان کرتے ہیں، مگر یہ سادگی ان کے اسلوب کی طاقت بھی ہے اور کمزوری بھی۔ ایک طرف یہی انداز انہیں عوام میں مقبول بناتا ہے، تو دوسری طرف نقادوں کے لیے اعتراض کا جواز بھی فراہم کرتا ہے۔
مرقع نگاری
سرشار کو اردو نثر میں مرقع نگاری کا امام قرار دیا جائے تو مبالغہ نہ ہو گا۔ ان کی تحریروں میں نہ صرف کرداروں کے نفسیاتی پہلو اجاگر ہوتے ہیں بلکہ مناظر، رسوم و رواج، ماحول اور تہذیبی کیفیات کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ قاری خود کو اس منظر کا حصہ محسوس کرتا ہے۔
سرشار نہ صرف مرقع نگار ہیں بلکہ وہ جزئیات نگاری کے کمال پر بھی فائز ہیں۔ ان کی باریک بینی اور مشاہداتی وسعت کا اندازہ اس اقتباس سے لگایا جا سکتا ہے جو انہوں نے فسانہ آزاد میں جھاڑ پھونک اور جن اتارنے کے ایک منظر کی منظر نگاری کرتے ہوئے لکھا ہے:
“حسن آرا نے سر نیچا کر کے ذرا دو منٹ سکوت اختیار کیا۔ محمدی خانم آ کر بیٹھیں۔ ایک ٹوکری میں مٹھائی رکھی گئی۔ پنج میل، کوری رکابی میں، اکیس پان اور ساروی تاکید کر دی تھی کہ تنبولی نے قینچی نہ لگائی ہو۔ پانوں پر چنبیلی کے پھول رکھے گئے اور پھولوں پر دو سکیں عطر کی۔ محمدی خانم نے چھوٹی مٹی سے زمین کو لیپا تھا۔ اس پر لوبان جلایا۔ ایک طرف عطر عروس کی شیشی اور دوسری طرف حنا کے تیل کی کپی، صفائی کے ساتھ پنی سے منڈھی ہوئی۔ گوٹے سے منہ اور پھندنا سرخا سرخ لٹکا ہوا تھا۔ ایک سمت کلاؤں کی لچھی، دو کوری کلھیاں، اس پر دو سکورے رکھے ہوئے۔”
یہ اقتباس صرف ایک منظر کی تفصیل نہیں، بلکہ ایک زوال پذیر معاشرت، مٹتی ہوئی تہذیب اور رسوم کی نفسیاتی گہرائی کا عکاس ہے۔ سرشار نے نہ صرف اشیاء کی ترتیب، رنگ، خوشبو اور ساخت کو بیان کیا بلکہ کرداروں کی ذہنی فضا اور ماحول کی تہذیبی کشش کو بھی انتہائی باریکی سے پیش کیا ہے۔
سادہ اور عام فہم نثر
پنڈت رتن ناتھ سرشار کی نثر کی سب سے بڑی خوبی اس کی سادگی، روانی، اور دلکشی ہے۔ وہ مشکل اور گنجلک اسلوب سے اجتناب کرتے ہیں اور قاری کے ذوق و فہم کو ملحوظ رکھتے ہیں۔ ان کی نثر میں ایک قدرتی بہاؤ ہے جو تحریر کو دلچسپ اور آسان بنا دیتا ہے۔
پروفیسر آل احمد سرور اپنے تنقیدی مجموعے تنقیدی اشارے میں سرشار کی نثر کے بارے میں لکھتے ہیں:
“ان کی طرزِ نثر اردو کے ارتقاء کے لحاظ سے نذیر احمد سے زیادہ قدیم ہے۔ یہ فسانہ آزاد کی ترقی یافتہ صورت ہے۔ سرشار کی نثر میں رجب علی بیگ سرور کی تقلید اس حد تک نہیں پائی جاتی کہ وہ ان کی تمام تصانیف پر حاوی ہو۔ فسانہ آزاد کے علاوہ سرشار کی کسی اور تصنیف میں سرور کے طرز پر لکھا ہوا ایک صفحہ بھی مشکل سے ملتا ہے۔ حتیٰ کہ ان کے ترجمہ شدہ الف لیلہ میں، جس میں تخیل کی وسعت کے لیے مشرق یا مغرب کی کوئی قید نہیں، وہاں بھی وہ فسانہ آزاد سے بھی زیادہ سادہ اسلوب اختیار کرتے ہیں۔”
سرشار کی نثر میں اگرچہ بعض مقامات پر لفظوں کی آرائش اور تصنع کا گمان ہوتا ہے، لیکن ان کا مجموعی انداز دلچسپ اور شگفتہ ہے۔ فسانہ آزاد کی پہلی جلد کی تمہید کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
“سحرِ کاذب کے وقت مرغِ بے ہنگام نے گربۂ مسکین کی آہٹ پاتے ہی گھبرا کر ککڑوں کوں کی بانگ لگائی اور ہمارے حبیبِ لبیب، دقیقہ رسِ صبح نفس، جو سرِ شام سے لمبی تان کر میٹھی نیند سو رہے تھے، یہ آواز خوش آئند سنتے ہی کلبلا کر اٹھ بیٹھے۔ ادھر آنکھ کھلی، ادھر باچھیں کھل گئیں۔ دیکھتے کیا ہیں کہ ابرِ نوبہار اور نسیمِ مشکبار نے تمام شہر کو گلزارِ ارم کا نمونہ بنا دیا ہے۔”
یہ اقتباس سرشار کی ادبی شوخی، منظر نگاری اور زبان پر قدرت کا منہ بولتا ثبوت ہے، اگرچہ اس میں کہیں کہیں تصنع (آورد) کی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے۔
عبدالباری آسی اس پہلو پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
“سرشار کی نثر میں آورد کا عیب موجود ہے۔ وہ رسوم و رواج کے نقشے کھینچ کر، محاکات پیدا کرکے، محاورے، اصطلاحات اور ضرب الامثال لا کر کلام کو طول دیتے ہیں، اور اکثر اشعار کی پیوندکاری سے عبارت میں رنگینی پیدا کرتے ہیں۔”
اگرچہ آورد (مصنوعی پن) کو عیب شمار کیا جاتا ہے، مگر سرشار نے اسی فنی اسلوب کو اپنی طاقت بنا لیا۔ یہی فن کی مہارت ان کی تخلیقات کو دوام بخشتی ہے۔ حاجی بغلول کا کردار اگر خوجی سے متاثر ہو کر سامنے آیا ہے، تو اس سے ان کے ادبی اثرات کی وسعت کا اندازہ ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ سرشار کی نثر پڑھتے ہوئے ہم نہ صرف محظوظ ہوتے ہیں بلکہ بعض مواقع پر سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے کہ اردو ادب کو ایک ایسا مصنف ملا جس نے عوامی ذوق اور ادبی معیار کے درمیان ایک خوبصورت توازن قائم رکھا۔
فسانۂ آزاد میں لکھنوی تہذیب کی عکاسی
لکھنوی تہذیب درحقیقت ایک ارضی اور لذت پرست تہذیب تھی، جس میں جسمانی تسکین کو زندگی کا فلسفہ بنا لیا گیا تھا۔ اس تہذیب کا اثر زندگی کے ہر گوشے پر نمایاں تھا۔مذہب، رسومات میں ڈھل گیا،زبان، محاورے بازی اور شوخیٔ بیان میں،عشق، شہوت پرستی کی شکل اختیار کر گیا اور جمالیاتی ذوق، پست لذت پسندی میں تبدیل ہو گیا۔
اس ماحول نے کئی قبیح رسوم اور محدود اقدار کو جنم دیا، جس کے نتیجے میں معاشرہ ایک تنگ دائرے میں سمٹ کر رہ گیا۔
سرشار کے عہد میں یہ تہذیب ابھی اپنے رنگ و روپ میں موجود تھی۔ فسانہ آزاد میں وہ اس تہذیب کی جو زندہ تصویر پیش کرتے ہیں، اس میں بانکے، پہلوان، پتنگ باز، نواب و رئیس، بٹیر باز، مشاعرہ باز، بیگمات اور ان کے خادم، طوائفیں، ساقنیں، ڈومنیاں اور بھٹیارنیں یہ سب کردار لکھنوی معاشرت اور تہذیبی تنوع کے نمائندے ہیں۔ محرم، ہولی، بسنت، مشاعرے، بٹیر بازی، میلوں ٹھیلوں، بازارِ حسن اور بیٹھکیں اس معاشرے کے اہم مظاہر تھے۔مگر اسی تہذیب میں نئے زمانے کی آہٹ بھی سنائی دینے لگی تھی۔
فوٹوگرافر،کانسٹیبل،اسکول کے طلبہ،بیرسٹر اوردیگر نئے کردار بھی منظرِ عام پر آنے لگے۔یہ کردار اگرچہ ابھی اقلیت میں تھے، مگر ان کی موجودگی نئے رجحانات اور سماجی تبدیلیوں کی نشان دہی کرتی ہے۔ گنگا جمنی تہذیب کی اس آمیزش کو سرشار نے نہایت باریکی سے محسوس کیا اور اپنے ناول میں اس کا آئینہ دار بنایا۔
سرشار کا لکھنؤ گویا پانی کا ایک ایسا مرتبان ہے جس میں کروڑوں جرثومے ایک عجیب سی کلبلاہٹ میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں۔
اس مرتبان میں ایک طرف “آزاد” جیسا کردار ہے جو اس گندے پانی سے نکلنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن اس حد تک پابہ زنجیر ہے کہ جب باہر نکلتا ہے تو پورا مرتبان ساتھ اٹھا لاتا ہے۔ دوسری طرف “خوجی” ہے جو اسی مرتبان کا پالتو کیڑا ہے اور اسے باہر نکلنے کی کوئی خواہش نہیں۔یہ دونوں کردار لکھنوی تہذیب کے دو متضاد رجحانات کی علامت ہیں:
- آزاد: نئی سوچ، بغاوت، تبدیلی کا خواب
- خوجی: قدامت، سادگی، روایت پسندی
خورشید الاسلام کا خیال ہے کہ سرشار نے ان دونوں رجحانات کو طنز کا نشانہ بنانے کے لیے دو طرح کے آئینے استعمال کیے:
- ایک آئینہ وہ ہے جس میں ہر شے مضحکہ خیز حد تک چھوٹی نظر آتی ہے – یہ خوجی کے ذریعے دکھایا گیا۔
- دوسرا وہ ہے جس میں ہر شے مضحکہ خیز حد تک بڑی دکھائی دیتی ہے – یہ آزاد کی علامت میں ظاہر ہوا۔
سرشار نے ان دونوں آئینوں کی مدد سے ماضی و مستقبل، مشرق و مغرب، روایت و جدت کو نہ صرف علیحدہ علیحدہ بلکہ متصادم انداز میں بھی پیش کیا۔ ان کے بیانیے میں طنز، تفریح اور تنقید کی ایک منفرد آمیزش پائی جاتی ہے۔
ایک نقاد کے بقول:
“ایک نے فضا میں پرواز کرکے لکھنوی معاشرت کے نقوش اجاگر کیے، تو دوسرے نے اس شہر کے کوچہ و بازار میں چل کر، اور وہاں کے لوگوں سے گھل مل کر، اس معاشرے کی بھرپور عکاسی کی ہے۔”
پنڈت بشن نارائن کے مطابق:
“سرشار کی نسبت سرور کے یہاں لکھنؤ کا بیان زیادہ مکمل، موزوں اور دلکش ہے۔ مگر سرور صرف اشیاء کے مرقع کھینچتے ہیں، آدمیوں کی داخلی کیفیات اور کردار کی پیچیدگیوں کو نہیں چھیڑتے۔”
اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ سرشار نے لکھنوی تہذیب کو صرف دکھایا نہیں بلکہ جیا بھی ہے۔ ان کا ناول فسانہ آزاد، صرف ایک تخیلاتی بیانیہ نہیں، بلکہ زوال پذیر تہذیب کی نبض پر ہاتھ رکھنے والی تخلیق ہے جس میں ہنسی، طنز، حقیقت نگاری اور انسانی نفسیات سب کچھ موجود ہے۔
