داستان فسانۂ عجائب کا فکری جائزہ

داستان فسانۂ عجائب کا فکری جائزہ: رجب علی بیگ سرور کی مشہور داستان فسانۂ عجائب نہ صرف ایک تخیلاتی داستان ہے بلکہ اس میں اُس دور کے مسلم معاشرے اور لکھنوی تہذیب کی خوبصورت اور حقیقت پسندانہ عکاسی بھی کی گئی ہے۔ سرور نے اس داستان میں اپنے گرد و پیش کے ماحول، خاص طور پر لکھنو کی معاشرت، رسم و رواج، رہن سہن اور طرز گفتگو کو اس خوبی سے پیش کیا ہے کہ وہ قاری کے ذہن میں ایک مکمل سماجی نقشہ بنا دیتا ہے۔

داستان فسانۂ عجائب کی فکری خصوصیات
داستان فسانۂ عجائب کی فکری خصوصیات

داستان فسانۂ عجائب کا فکری جائزہ

  • لکھنوی معاشرت کی جھلک
  • رسوم و رواج
  • توہم پرستی
  • شادی بیاہ
  • مشرقیت

لکھنوی معاشرت کی جھلک

فسانۂ عجائب کے دیباچے میں جس طرح لکھنو کی مرقع نگاری کی گئی ہے، وہ اُسی زمانے کے تمدن، محفلوں، بازاروں، پیشہ وروں، اور طرزِ زندگی کی حقیقی اور دلکش تصویر بن کر سامنے آتی ہے۔ مشہور نقاد رام بابو سکسینہ لکھتے ہیں:

“فسانۂ عجائب کا دیباچہ اس لئے اور بھی دلچسپ ہے کہ اس میں اُس زمانے کے شہر لکھنو کی سوسائٹی، وہاں کی طرزِ معاشرت، امراء و روسا کی وضع داریوں، ان کے پر تکلف جلسوں، رسوم و رواج، کھیل تماشوں، مناظر اور بازاروں کی جیتی جاگتی تصویر موجود ہے۔”

اگرچہ فسانۂ عجائب کے کردار مافوق الفطرت اور غیر ملکی ہیں، لیکن سرور نے ان کرداروں کے ذریعے جو ماحول اور معاشرت پیش کی ہے، وہ ہندوستانی، خصوصاً لکھنوی تہذیب پر مبنی ہے۔ انہیں اپنے شہر لکھنو سے بے حد محبت ہے اور وہ اسے جنت کا نمونہ سمجھتے ہیں۔ سرور کے نزدیک:

“لکھنو ایسا گلزار شہر ہے، جہاں ہر گلی باغ و بہار ہے، ہر شخص خوش لباس، خوش گفتار اور خوش ذوق ہے۔”

وہ لکھنو کے کھانے، بازار، گلی کوچے، کھیل، موسم، اور عوامی سرگرمیوں کا ایسا جاندار تذکرہ کرتے ہیں کہ قاری خود کو اس ماحول کا حصہ محسوس کرتا ہے۔ مثلاً نانبائیوں کی مہارت، شیرمال و کباب کی خوشبو، اور بازاروں کی رونق ایسے انداز میں بیان ہوئی ہے کہ زندگی کی مکمل تصویر بن جاتی ہے۔

فسانۂ عجائب صرف ایک داستان نہیں، بلکہ لکھنوی معاشرت اور تہذیب کی آئینہ دار کتاب ہے۔ اس میں سرور نے خیالی کرداروں کے ذریعے اپنے زمانے کی سوسائٹی، طرزِ زندگی، اور اقدار کو اس خوبی سے بیان کیا ہے کہ یہ داستان معاشرتی تاریخ کا ایک اہم حوالہ بن گئی ہے۔ ان کا اندازِ تحریر، منظر نگاری، اور تہذیبی شعور اردو ادب کے لیے ایک قیمتی سرمایہ ہے۔

رسوم و رواج

مرزا رجب علی بیگ سرور  نے فسانۂ عجائب میں جس معاشرتی پس منظر کو پیش کیا ہے، اس میں لکھنوی معاشرے کے رسوم و رواج کی عکاسی نہایت باریکی سے کی گئی ہے۔ اگرچہ داستان کی فضا خیالی اور مافوق الفطرت ہے، تاہم اس کے کرداروں کی معاشرت اور رسمیات مکمل طور پر اُس وقت کے مسلم ہندوستان، خاص طور پر لکھنو کی روایات پر مبنی ہے۔

سرور نے معاشرتی رسوم جیسے مشکل کشا کا کھڑا دانا دینا، امام جعفر صادق کے کونڈے بھرنا، سہ ماہی کے روزے رکھنا، سقائے سکینہ کا علم چڑھانا، چہل منبری کرنا وغیرہ کو نہایت حقیقت پسندانہ انداز میں پیش کیا ہے۔ یہ تمام رسوم و عبادات اس وقت کے مذہبی اور سماجی رجحانات کی نمائندگی کرتے ہیں۔

مثال کے طور پر، جب جان عالم کا لشکر جادو کے باعث آفت کا شکار ہوتا ہے، تو خواتین منتیں ماننے لگتی ہیں:

“کوئی کہتی ہمارا لشکر اس بلا سے نکلے تو مشکل کشا کا کھڑا دونا دوں گی، کوئی بولی سہ ماہی کے روزے رکھوں گی، کسی نے کہا سقائے سکینہ کا علم چڑھاؤں گی، چہل منبری کر کے نذرِ حسین پلاؤں گی۔”

یہ اقتباس اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اس دور کے افراد مذہبی اعتقادات اور عوامی رسوم کو بلاؤں سے نجات کے لیے موثر ذریعہ سمجھتے تھے۔

توہم پرستی

فسانۂ عجائب کا مطالعہ کرنے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اُس زمانے کا لکھنوی مسلم معاشرہ بھی ہندو معاشرت کی طرح توہمات کا شکار تھا۔ پیدائش، شادی بیاہ، سفر، جنگ، اور دیگر اہم مواقع پر پنڈتوں، جوتشیوں اور نجومیوں سے سعد و نحس لمحات کی تعیین کرائی جاتی تھی۔

سرور نے نہایت ہنر مندی سے درباری زندگی میں ان خرافات کی موجودگی کو بیان کیا ہے۔ مثلاً، جان عالم کی پیدائش پر جو جوتشی دربار میں آ کر پیشن گوئیاں کرتے ہیں، وہ ہندو معتقدات اور اسلوبِ گفتار کا عکس پیش کرتے ہیں:

“ہماری پوتھی کہتی ہے کہ بگو ان کی دیا ہے، چندرماں بلی ہے، چھٹا سورج ہے، جو گرہ ہے وہ بھلی ہے۔ دیگ تیغ کا مالک رہے، دھرم مورت یہ بالک رہے۔ جلد راج پر براجے، پرتھوی میں دھوم مچائے۔”

یہ نہ صرف اس وقت کے توہم پرستانہ ماحول کو ظاہر کرتا ہے بلکہ یہ بھی دکھاتا ہے کہ ثقافتی اثر پذیری کے باعث ہندو اور مسلم رسوم میں مماثلت پیدا ہو چکی تھی۔ ایسے توہمات کے بیان سے سرور نے اپنے عہد کے ذہنی رجحانات اور معاشرتی حقیقتوں کو کامیابی سے اجاگر کیا ہے۔

مرزا رجب علی بیگ سرور  نے فسانۂ عجائب میں لکھنوی معاشرت کے رسوم و رواج اور توہم پرستی کو نہایت دلنشین اور حقیقت پسند انداز میں پیش کیا ہے۔ انہوں نے اپنے وقت کے سماجی رویّوں، مذہبی رسومات، اور عوامی عقائد کو داستان کے تناظر میں اس خوبی سے سمویا ہے کہ وہ قاری کے سامنے ایک زندہ، متحرک، اور رنگین معاشرتی تصویر بن کر اُبھرتے ہیں۔ اس پہلو سے دیکھا جائے تو فسانۂ عجائب محض ایک خیالی داستان نہیں، بلکہ اپنے دور کی معاشرت کا آئینہ بھی ہے۔

شادی بیاہ

مرزا رجب علی بیگ سرور نے فسانۂ عجائب میں شادی بیاہ کی رسومات کی ایسی دلکش اور حقیقت سے قریب تصویریں پیش کی ہیں جو اس وقت کے ہندی مسلمانوں، خصوصاً لکھنوی معاشرے کی تہذیبی جھلکیاں لیے ہوئے ہیں۔ یہ رسومات صرف مذہبی عقیدت پر مبنی نہیں بلکہ ثقافتی ورثے کی بھی نمائندگی کرتی ہیں۔

مثلاً مہندی کی رسم، جو آج بھی شادی بیاہ کی تقریبات کا لازمی حصہ سمجھی جاتی ہے، سرور نے نہایت رنگین اور ادبی انداز میں بیان کی ہے:

“نارنوں کی مہندی، ہزار من بو باس میں الہین بین رنگین، جس کی دید سے ہاتھ مثل پنجہ مرجان رشکِ عمیق یمن اور لعل بدخشاں ہو جائے۔”

یہ بیان نہ صرف مہندی کی رسم کی خوبصورتی کو اجاگر کرتا ہے بلکہ لکھنو کے ذوقِ جمال، تزئین و آرائش اور شاعرانہ طرزِ معاشرت کا بھی عکاس ہے۔

اسی طرح دلہن کی رخصتی کے وقت بکرا ذبح کرنا، انگوٹھے میں خون لگانا اور کھیر کھلانا جیسی رسومات مذہبی اور ثقافتی عقائد کا امتزاج ہیں، جو اُس دور کے لوگوں کی زندگی میں رسومات کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہیں۔

مشرقیت

فسانۂ عجائب میں “مشرقیت” کے رنگ ہر مقام پر جھلکتے ہیں، خاص طور پر شرم و حیا، بڑوں کا احترام، اور والدین کی اطاعت جیسے عناصر مصنف نے نہایت خوبی سے سمیٹے ہیں۔ یہ اقدار مشرقی تہذیب کی بنیاد سمجھی جاتی ہیں۔

مثال کے طور پر جب انجمن آرا سے اس کی ماں اس کی مرضی پوچھتی ہے تو وہ مشرقی روایت کے مطابق خاموشی اختیار کرتی ہے۔ سرور نے اس موقع کو نہایت شگفتہ پیرائے میں بیان کیا ہے:

“صاحبو! دلہن سے صاف صاف کہلوایا چاہتے ہو؟ دنیا کی شرم و حیا نگوڑی کیا اڑ گئی؟ اتنا تو سمجھو بھلا ماں باپ کا فرمان کسی نے ٹالا ہے جو یہ نہ مانیں گی۔ الخاموشی نیم رضا۔”

یہ اقتباس مشرقی معاشرت کی اُس حساسیت کو ظاہر کرتا ہے جہاں لڑکیوں کی حیا اور والدین کی رضا کو فوقیت حاصل ہے۔ یہاں شرم، خاموشی اور بڑوں کے فیصلوں پر اعتماد کو عورت کی فطری نزاکت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔

فسانۂ عجائب میں مرزا رجب علی بیگ سرور  نے لکھنوی معاشرت، شادی بیاہ کی رسومات، اور مشرقی اقدار کو اس انداز سے بیان کیا ہے کہ وہ محض خیالی داستان کے اجزاء محسوس نہیں ہوتے، بلکہ اس وقت کے سماجی و ثقافتی رویوں کا جیتا جاگتا عکس بن جاتے ہیں۔ ان کی تحریر سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ اپنے عہد کے رسم و رواج، تہذیبی شعور اور معاشرتی اقدار سے بخوبی واقف تھے اور انہیں داستان کے قالب میں پیش کرنے کا کامل ہنر رکھتے تھے۔

Book Cover

فسانہ عجائب کا فکری جائزہ

Rating: ★★★★☆
  • Author: ravinotes.com

  • File Size: 762.1 KB

  • Format: PDF

  • Notes: Urdu

  • Price: Free

Leave a Comment