محمد حسن عسکری کی تنقید نگاری: محمد حسن عسکری کا شمار ان چند منتخب نقادوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اردو تنقید کو محض الفاظ کے تجزیے یا موضوعات کے انتخاب تک محدود نہیں رکھا، بلکہ اسے تہذیبی شعور، فکری بالیدگی، روحانی تجربے اور انسانی شعور کی گہرائیوں سے جوڑ کر دیکھا۔ وہ ادب کو کسی مخصوص نظریے، تحریک یا مکتبِ فکر کا نمائندہ نہیں مانتے تھے، بلکہ ان کے نزدیک ادب ایک زندہ، بامعنی، اور روح میں اتر جانے والا تجربہ ہے۔
عسکری کی تنقید کی بنیاد روحانی جمالیات اور تہذیبی شعور پر استوار ہے۔ وہ ایسے ادب کو معتبر سمجھتے ہیں جو انسانی باطن کی کیفیات، روح کی لطافت، اور فطرت کی خوبصورتی کو منعکس کرے۔ ان کے نزدیک ادب کا مقصد صرف کسی سماجی یا سیاسی مسئلے کی نمائندگی نہیں بلکہ باطنی صداقت، تخلیقی کشف، اور جمالیاتی ارتعاش کا اظہار ہونا چاہیے۔
عسکری نے ترقی پسند تحریک کے بعض انتہاپسند رجحانات پر تنقید کرتے ہوئے واضح کیا کہ ادب کو صرف معاشی، طبقاتی یا سیاسی دائروں میں مقید کرنا اس کی فکری وسعت اور فنّی نزاکت کو مجروح کرتا ہے۔ وہ ادب کو نظریے کے تابع کرنے کے بجائے یہ رائے دیتے ہیں کہ نظریے کو ادب کی تخلیقی زبان میں ڈھلنا چاہیے۔
ان کے نزدیک ادب، فن اور زندگی ایک دوسرے سے الگ نہیں بلکہ ایک باہم مربوط وحدت ہیں۔ ایک سچا فن پارہ وہی ہوتا ہے جو زندگی کے بڑے سوالات، انسانی تجربے کی گہرائی، اور تہذیبی اقدار کو نرمی، متانت اور فکری وقار کے ساتھ پیش کرے۔
محمد حسن عسکری کی یہ فکر اردو تنقید میں نئی معنویت، فکری وقار اور روحانی سمت کی نشان دہی کرتی ہے۔ ان کا اسلوب اور نظریہ نہ صرف اردو ادب کو مغربی فکر سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش ہے بلکہ اپنی تہذیبی شناخت اور روحانی اساس کو بھی اجاگر کرتا ہے۔
محمد حسن عسکری کی تنقید نگاری | تنقیدی بصیرت
محمد حسن عسکری اردو ادب کے اُن جید نقادوں میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے نہ صرف ادب کی تنقید کو فکری گہرائی عطا کی بلکہ اس کے نظریاتی پہلوؤں کو بھی نئے زاویے فراہم کیے۔ ابتدا میں وہ ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے اور جب تنقید نگاری کا آغاز کیا تو ترقی پسند ادیبوں کے حق میں قلم اٹھایا۔ مگر جلد ہی اس رجحان سے ان کی طبیعت سیر ہو گئی اور انہوں نے ترقی پسند تحریک اور اس کے نمائندہ افکار پر شدید تنقید شروع کر دی۔

عسکری کے دو اہم تنقیدی مجموعے “انسان اور آدمی” اور “ستارہ یا بادبان” اردو تنقید کے افق پر نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ ان مجموعوں میں عسکری نے ادب کے مختلف پہلوؤں پر نہایت سنجیدہ اور گہرے مباحث پیش کیے ہیں۔
محمد حسن عسکری نے فن کو نہ آرنلڈ کی طرح مذہب کا قائم مقام بنایا، نہ والٹ وٹمین کی طرح زندگی کا ماحصل سمجھا، اور نہ ہی اشتراکیوں کی مانند اسے سیاست کا آلہ کار قرار دیا۔ ان کے نزدیک ادب، مذہب، سیاست یا زندگی میں سے کسی ایک کا نعم البدل نہیں ہو سکتا، کیونکہ کوئی ایک عمل دوسرے کی مکمل جگہ نہیں لے سکتا۔ وہ ادب کو خود ایک آزاد، خودمختار اور تخلیقی عمل مانتے ہیں، جو اپنی جگہ پر ایک مکمل اور بامقصد سرگرمی ہے۔
وہ لکھتے ہیں:
“جس روایت کی ابتدا فن برائے فن کے نظریے سے ہوئی، اس سے تعلق رکھنے والے فنکاروں کے ہاں اگرچہ کہیں کہیں غیر صحت مند عناصر بھی موجود ہیں، مگر مجھے ان سے انکار نہیں۔ البتہ اس سے ضرور انکار ہے کہ یہ روایت مجموعی طور پر عوام یا زندگی کی دشمن ہے یا انسانیت کو زوال اور موت کی طرف لے جاتی ہے۔ اس کے برعکس یہ روایت ایک عظیم الشان تحقیقی مہم کی حیثیت رکھتی ہے جو زندگی اور اس کے بنیادی لوازمات کو کھوجنے نکلی ہے۔”
عسکری کے فکری ارتقاء کی سب سے نمایاں بات یہ ہے کہ وہ مسلسل خود احتسابی اور تبدیلی کے قائل تھے۔ ابتدا میں وہ “ادب برائے زندگی” کے حامی رہے، مگر بعد میں فن کو خود ایک مقصد اور اقدار کا حامل عمل تصور کرنے لگے۔
اہم روابط
وقت کے ساتھ ان کی فکری جہت اسلامی روایت کی طرف مائل ہوئی اور انہوں نے “پاکستانی ادب” اور “اسلامی ادب” کے نظریات کو فروغ دینے کی کوشش کی۔ اس مرحلے پر انہوں نے ترقی پسند تحریک کے اکثر افکار سے اختلاف کیا اور روایت پسندی کو ایک بامعنی فکری بنیاد قرار دیا۔
محمد حسن عسکری کی تحریریں اردو تنقید کے سرمائے میں فکری تنوع، جدتِ نظر اور گہرائی کی بہترین مثال ہیں۔ وہ ایک ایسے نقاد تھے جو لمحہ بہ لمحہ سوچتے، بدلتے اور نیا زاویہ اختیار کرتے تھے — اور یہی ان کی شخصیت کی سب سے بڑی خوبی ہے۔
نظریۂ فن -محمد حسن عسکری کا جمالیاتی شعور
محمد حسن عسکری کا نظریہ فن، اردو ادب میں ایک منفرد اور فکری طور پر بالغ نقطہ نظر پیش کرتا ہے۔ ان کے نزدیک فن کار کی اولین توجہ جمالیاتی احساس (aesthetic sense) پر مرکوز ہوتی ہے، تاہم اس کے لاشعور میں مادی زندگی کی ضروریات بھی پیوستہ رہتی ہیں۔ عسکری نے فن کے سلسلے میں جو افکار پیش کیے، وہ محض سطحی جمالیات تک محدود نہیں، بلکہ ان میں فن اور زندگی کے باہمی تعلقات پر بھی سنجیدہ غور و فکر کیا گیا ہے۔

عسکری کا ماننا ہے کہ فن برائے فن (Art for Art’s Sake) کے حقیقی مفہوم کو محض 17ویں اور 18ویں صدی کے اہلِ فکر ہی بہتر طور پر سمجھتے تھے۔ ان کا نقطہ نظر واضح کرتا ہے کہ فن کو نہ تو آرنلڈ کی طرح مذہب کا قائم مقام بنایا جا سکتا ہے، نہ والٹ وٹمین کی طرح زندگی کا کل حاصل، اور نہ ہی اشتراکیوں کی طرح سیاست کا خادم۔ عسکری کے بقول:
’’چونکہ ایک عمل دوسرے عمل کی مکمل جگہ نہیں لے سکتا، اس لیے فن نہ مذہب، نہ زندگی، اور نہ سیاست کی جگہ لے سکتا ہے۔‘‘
وہ اس تصور کی نفی کرتے ہیں کہ فن کوئی خود ساختہ متبادل یا نعم البدل بن سکتا ہے۔ ان کے نزدیک خالص فن کا مکمل اور مکمل طور پر آزاد نمونہ ادب میں دستیاب نہیں ہو سکتا، کیونکہ ادب بھی ایک وسیع تر معاشرتی، تہذیبی اور نفسیاتی نظام سے جڑا ہوتا ہے۔
عسکری لکھتے ہیں:
“جس روایت کی ابتدا فن برائے فن کے نظریے سے ہوئی، اس سے تعلق رکھنے والے فنکاروں کے ہاں اگرچہ کہیں کہیں غیر صحت مند عناصر بھی پائے جاتے ہیں، لیکن میں ان سے انکار نہیں کرتا۔ البتہ یہ کہنا کہ یہ روایت مجموعی طور پر عوام، بہتر زندگی یا حیاتِ انسانی کی دشمن ہے، سراسر غلط ہے۔ اس کے برعکس، یہ روایت ایک عظیم الشان تحقیقی مہم ہے جو زندگی اور اس کے بنیادی لوازمات کو تلاش کرنے کے لیے وجود میں آئی ہے۔”(7)
عسکری کے اس نظریے پر معروف محقق پرنسپل عبدالشکور نے تنقیدی نقطہ نظر پیش کیا ہے۔ ان کے مطابق عسکری نے “تحقیقی مہم” کا تصور غالباً فرانسیسی ادب کے مطالعے سے اخذ کیا۔ عبدالشکور لکھتے ہیں:
“اردو شاعری کا وہ حصہ جو ‘فن برائے فن’ کے دائرے میں آتا ہے، اسے تحقیقی مہم کہنا شاید درست نہیں، کیونکہ اس شاعری کو پڑھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ وہ زندگی یا اس کے بنیادی تقاضوں کی تلاش میں سرگرم ہے۔ عسکری نے مغربی اور بالخصوص فرانسیسی ادب کے اثرات کے تحت جو نتائج اخذ کیے، وہ اردو ادب پر بعید از قیاس معلوم ہوتے ہیں۔”
عبدالشکور مزید یہ بھی رائے رکھتے ہیں کہ عسکری نے عربی اور فارسی ادب کا گہرا مطالعہ نہیں کیا، اس لیے وہ اس بات کا ادراک نہیں کر سکے کہ ہمارے قدیم ادبی سرمائے اور تہذیبی احساس میں وقت کے ساتھ کوئی جوہری تبدیلی واقع ہوئی یا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عسکری نے مغربی ادب کو زیادہ بنیاد بنایا اور اردو ادب کی روایت سے قدرے فاصلہ اختیار کیا۔
انقلاب ادب – محمد حسن عسکری کا نظریہ
محمد حسن عسکری کے مطابق ادب بذاتِ خود ایک نئے توازن کی تلاش کا نام ہے۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ادب کی فطرت میں تخلیق، تعمیریت اور توازن کی جستجو شامل ہے، جب کہ انقلاب خاص طور پر سیاسی انقلاب بنیادی طور پر تخریب کا علمبردار ہوتا ہے۔
اس لیے عسکری کا ماننا ہے کہ انقلابی ادب اگرچہ جوش و خروش سے بھرپور اور ہنگامہ خیز ہو سکتا ہے، مگر وہ “عظیم ادب” نہیں بن سکتا، کیونکہ بڑا ادب محض جذباتی ہیجان سے نہیں بلکہ فکری توازن اور تخلیقی بلوغت سے جنم لیتا ہے۔
عسکری انقلاب کو صرف سیاسی یا معاشی مظہر نہیں سمجھتے، بلکہ وہ اسے ایک نفسیاتی اور اخلاقی کیفیت قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک حقیقی جدلیاتی عمل (Dialectical Process) انسانی لاشعور، داخلی کشمکش اور روحانی اضطراب میں بھی بروئے کار آ سکتا ہے۔ اس کی مثال کے طور پر وہ میر تقی میر کے اشعار پیش کرتے ہیں:
میاں خوش رہو، ہم دعا کر چلے
وجہ بیگانگی نہیں معلوم
تم جہاں کے ہو، واں کے ہم بھی ہیں
عسکری ان اشعار کو صرف جذباتی اظہار نہیں بلکہ جدلیاتی شعور کی علامت سمجھتے ہیں۔ ان کے مطابق ان اشعار میں ایک ایسی اخلاقی اور نفسیاتی تابندگی موجود ہے جو مارکس کے کسی بھی سیاسی انقلابی نظریے سے کہیں زیادہ گہرائی اور اثر رکھتی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ میر کی شاعری میں جو داخلی کرب، خاموش احتجاج اور جذباتی توازن موجود ہے، وہ دراصل انسان کی اعلیٰ زندگی اور عامیانہ زندگی کے درمیان کی خلیج کو پاٹنے کی کوشش ہے۔(6)
عسکری کا ایک اور اہم خیال یہ ہے کہ اردو غزل پر اب غالب کے بجائے میر کے اثرات زیادہ گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کے نزدیک غالب کا لب و لہجہ فکری پیچیدگی، فلسفیانہ ابہام اور انا پرستی سے مزین ہے، جب کہ میر کا اسلوب سادگی، دردِ دل، خلوص اور انسانی سطح پر رچی بسی زندگی کی عکاسی کرتا ہے۔
عسکری کے مطابق میر کی شاعری میں ایک ایسا توازن اور انسانی سچائی موجود ہے جو ادب کو محض خیالی پرواز سے نکال کر زندگی کی اصل نبض سے جوڑ دیتا ہے۔
مغربی اثرات اور محمد حسن عسکری کی تنقید
محمد حسن عسکری کی تنقیدی بصیرت پر مغربی فکر و فلسفہ کا نمایاں اثر دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کے بیشتر تنقیدی مضامین میں مغربی مفکرین کے نظریات کی جھلک نمایاں ہے۔ وہ اردو ادب کا موازنہ مغربی ادب سے کرتے ہیں اور اسی کی روشنی میں نتائج اخذ کرتے ہیں۔
تاہم، ان کا یہ انداز بعض اوقات یک طرفہ اور غیر متوازن محسوس ہوتا ہے۔ وہ خود بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ انہوں نے مغرب سے بعض فکری امتیازات اخذ کیے اور انہی کی بنیاد پر اردو ادب کو جانچنے کی کوشش کی۔
زبان کا استعمال
عسکری کی نثر کا ایک خاص پہلو ان کی غیر روایتی اور بعض اوقات غیر سنجیدہ زبان ہے۔ وہ تنقیدی گفتگو میں بھی عام محاورے، بول چال کے انداز اور طنزیہ فقروں سے کام لیتے ہیں۔ ان کے چند جملے ملاحظہ ہوں:
- رات گئی، بات گئی، اب دوسرے ذہن ہیں اور ان کی دوسری ضرورتیں۔
- بس پھر کیا تھا، جنگ زرگری شروع ہو گئی۔
- ممکن ہے کہ فن برائے فن کا نظریہ بڑا مسلک ہو، مگر میں نے تو اپنی سی لیپ پوت کر ہی دی۔
- جی ہاں! خوشگوار تجربے کو قبول کرنے کی بھی ہمت چاہیے۔
اس کے علاوہ کچھ مقامات پر عسکری ایسی زبان استعمال کرتے ہیں جو علمی سنجیدگی سے خالی دکھائی دیتی ہے، مثلاً:
- اپنی شخصیت کو تکا بوٹی کرنا شروع کر دیا۔
- ادب تو بے چارہ رائڈ کا جوائی ہے، اس کو تو چاہے گت بنائے۔
یہی وجہ ہے کہ بعض ناقدین نے ان کے اس انداز کو تنقید کے معیار کے خلاف سمجھا۔ عسکری کو بھی اس بات کا شعور تھا، چنانچہ وہ خود لکھتے ہیں:
“بعض حضرات کو مجھ سے شکایت ہے کہ میں اچھے خاصے علمی مضمون کو کرخنداروں کی زبان میں ادا کر کے مبدل کر دیتا ہوں۔”
نقادانہ حیثیت
ڈاکٹر سید عبد اللہ نے محمد حسن عسکری کی تنقیدی خدمات پر رائے دیتے ہوئے لکھا:
“تنقید میں عسکری کے امتیازی کام دو ہیں: اول، ترقی پسند نظریے کے خلاف مسلسل جدوجہد؛ دوم، اردو میں خالص قومی ادب کی تشکیل و تعمیر کی دعوت۔”(6)
ان دونوں نکات کی پیروی میں عسکری کو نہ صرف اردو ادبی دنیا سے شدید اختلافات کا سامنا کرنا پڑا بلکہ انہیں تنقید کے نئے دریچے وا کرنے کا بھی موقع ملا۔ ڈاکٹر سید عبد اللہ کے مطابق، عسکری نے اردو ادب کو دوبارہ فرد کی داخلی کیفیات سے جوڑنے کی کوشش کی اور اجتماعیت کے غلبے سے بچا کر ادب میں انفرادی احساسات و جذبات کے لیے بھی جگہ نکالی۔
اردو ادب سے ناپسندیدگی اور مستقبل کی توقعات
عسکری نے اپنے زمانے میں اردو ادب کی حالت زار سے نالاں ہو کر ایک موقع پر اس کی موت کا اعلان بھی کر دیا تھا۔ تاہم وہ اس موت کے بعد احیائے ثانی (Revival) کے لیے کوئی واضح راہ متعین نہ کر سکے۔ ان کی تحریروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اردو ادب میں قدیم تہذیبی و ادبی روایات سے ربط پیدا کرنے کے خواہاں تھے، لیکن یہ تحریک بھی مکمل طور پر منظم صورت میں نہ اُبھری۔
مصنف کے اس فکری انتشار کے بارے میں لکھا گیا:
“عین ممکن ہے کہ کسی دن خضرِ طریقت بن کر اردو ادب کی رہنمائی کے لیے کوئی ہنگامہ خیز قدم اٹھائیں، مگر سردست وہ روحانی حقیقتوں کے دریاؤں میں غواصی کر رہے ہیں۔”
