سب رس کا تعارف، اسلوب اور خلاصہ: سب رس اردو نثر کا اولین ادبی شاہکار ہے، جو فنِ داستان گوئی اور تمثیلی طرزِ بیان کا بہترین نمونہ پیش کرتا ہے۔ ۱۹۳۴ء میں مولوی عبدالحق نے اس کتاب کو دریافت کیا اور ایک جامع مقدمے کے ساتھ انجمن ترقی اردو، اورنگ آباد سے شائع کیا۔
یہ ایک صوفیانہ تمثیل ہے، جس میں عقل و عشق کی روایتی کشمکش کو نہایت خوبصورتی اور فنکارانہ مہارت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں کل ۷۶ غیر مجسم کردار شامل ہیں، جنہیں وجہی نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے نہایت دلچسپ اور بامعنی انداز میں پیش کیا ہے۔
سب رس کی سب سے بڑی خوبی اس کا اسلوب، الفاظ کا چناؤ، نثر کی روانی اور معنوی تہہ داری ہے، جو اسے اردو نثر کے اولین اور منفرد کلاسیکی شہ پاروں میں شامل کرتی ہے۔
سب رس کا اسلوب
ملا وجہی کا اسلوب اردو نثر میں ایک منفرد اور انوکھا مقام رکھتا ہے۔ انھوں نے زبان و بیان میں ندرت، تخلیقی حسن، اور ادبی چاشنی کو شامل کرکے اسے محض اظہار کا ذریعہ نہیں رہنے دیا، بلکہ نثر میں شعری لطافت پیدا کی۔
وجہی کے اسلوب کی سب سے نمایاں خصوصیت نظم و نثر کا امتزاج ہے، جس نے ان کی تحریر کو ایک مخصوص رنگ عطا کیا۔ ان کے جملے مختصر، چست، اور صوتی آہنگ سے مزین ہوتے ہیں، جس سے ان کی نثر میں موسیقیت پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ اپنی نثری صناعی پر فخر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
“میں تو یو بات نیں کیا ہوں، عیسٰی ہو کر بات کو جیو دیا ہوں”
وجہی کے اسلوب کی دوسری اہم خصوصیت تمثیلی انداز ہے، جس میں وہ مجرد خیالات کو انسانی کرداروں اور کہانیوں کے ذریعے پیش کرتے ہیں۔ سب رس میں یہی رنگ نمایاں نظر آتا ہے، جہاں عقل، دل، نظر، عشق، حسن، اور ہمت جیسے کردار حقیقت سے زیادہ رمزیہ معنویت کے حامل ہیں۔
طارق سعید کے مطابق:
“سب رس اسلوب کی ترقی کی ایک اہم منزل ہے۔ اس سے پہلے کی زبان محض اظہار و مطالب کا کام کرتی تھی، مگر وجہی نے ادبی چاشنی پیدا کی اور نظم و نثر کو ملا کر ایک نیا اسلوب اختیار کیا، جس کی ایجاد کا اس نے دعویٰ بھی کیا ہے۔”
یہی وجہ ہے کہ سب رس اردو نثر میں اولین ادبی شہ پارہ قرار دی جاتی ہے، جس کی مثال نہ اس سے پہلے ملتی ہے اور نہ اس کے بعد کسی نے اسی نوع کے اسلوب کی کامیاب پیروی کی۔
ملا وجہی کا لسانی شعور انتہائی گہرا اور وسیع تھا۔ انھوں نے عربی، فارسی، ہندی، گوالیاری اور دکنی زبانوں کے الفاظ کو اردو میں اس مہارت سے سمو دیا کہ ان کی نثر ایک ایسی ہمہ گیر اور عام فہم زبان میں ڈھل گئی، جو ہر طبقے کے لیے قابلِ فہم اور پرکشش تھی۔
اہم روابط
ان کے اسلوب کی مرصع و مسجع ساخت ایک الگ پہچان رکھتی ہے۔ تاہم، ان کی نثر فسانۂ عجائب کی مانند ثقیل اور بوجھل نہیں، بلکہ رواں، خوش آہنگ اور دل نشین ہے۔ انھوں نے قافیے اور مسجع فقروں کے ذریعے ایک خوبصورت شیش محل تعمیر کیا، لیکن اس میں کہیں بھی فکر پر ابہام کے پردے نہیں پڑتے۔
وجہی کی فارسی نثر سے وابستگی بھی نمایاں ہے۔ وہ ظہوری کی نثر سے متاثر دکھائی دیتے ہیں، اور ان کی عبارت آرائی میں اسی اثر کی جھلک نمایاں ہے۔ اس میں فارسی محاورات، ضرب الامثال اور عربی کے پُرشکوہ الفاظ شامل ہیں، جو ان کی نثر کے اسلوبی حسن کو مزید نکھار دیتے ہیں۔
وجہی کے تخیل میں وضاحت اور شفافیت ہے، جو متواتر قافیوں اور مسلسل فقروں کے باوجود کسی قسم کی پیچیدگی یا ابهام پیدا نہیں ہونے دیتی۔ یہی خصوصیات انھیں اردو نثر کے اولین اور اہم ترین نثر نگاروں میں ممتاز کرتی ہیں۔
وجہی کا اسلوبی کمال ان کی قافیہ پیمائی میں نمایاں ہے۔ وہ محض دو چار قافیوں پر قناعت نہیں کرتے، بلکہ تسلسل اور تواتر کے ساتھ قافیہ آرائی کو برقرار رکھتے ہیں۔ اگر سب رس کی عبارت پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پہلے جملے سے لے کر آخری جملے تک وہ قافیے کے حسن و رچاؤ کو برقرار رکھتے ہیں۔
انھوں نے اپنی نثر کو محض سلیس اور عام فہم بنانے پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ اسے خوش آہنگی اور نغمگی سے بھی آراستہ کیا ہے۔ وہ آیات، احادیث، مصرعوں، مقولوں اور کہاوتوں کے ساتھ بھی قافیے باندھتے چلے جاتے ہیں، مثلاً:
“جس میں سلوک وہی سالک، نہیں تو مذبذبین بین ذالک، یا خدا دیا امان، جس کو خدا دیا دھیان، جس کو خدا کی بچھان، جس کا روشن ایمان، جس کا بڑا گیان۔”
وجہی کا ایک نمایاں کارنامہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے نظم اور نثر کو یکجا کرکے لطیف زبان تخلیق کی۔ ان کی یہ تخلیقی کاوش محض ایک تمثیلی داستان نہیں بلکہ انشائیوں کا ایک مجموعہ بھی معلوم ہوتی ہے، جس میں خیال آرائی کے ساتھ ساتھ انسانی حیات کے تجربات کا نچوڑ بھی پیش کیا گیا ہے۔
وجہی نے اپنے عہد کی مکمل آگہی کو تمثیلی پیرائے میں سمونے کی کوشش کی، اور یہی خصوصیت انھیں اردو نثر کے اولین اور ممتاز ادیبوں میں منفرد مقام عطا کرتی ہے۔
سب رس کا خلاصہ
سیستان کے بادشاہ کا نام “عقل” تھا۔ جس کا ایک بیٹا “دل” انتہائی ذہین اور فطین تھا۔ عقل بادشاہ نے اپنے بیٹے دل کو تن کی مملکت دی ہوئی تھی۔ بادشاہ ایک دن اپنے دربار میں محفل سجائے بیٹھا تھا کہ کسی نے آبِ حیات کا تذکرہ کر دیا کہ اس کو پینے سے عمر خضر حاصل کی جاسکتی ہے۔ یہ سن کر اس نے آبِ حیات کے حصول کیلئے اپنے ایک جاسوس “نظر” کو اس کام پر مامور کر دیا کہ وہ اس کا پتا لگائے۔
نظر اس کام کے لیے مختلف ممالک کے سفر کرتا ہوا “ناموس” بادشاہ کے پاس پہنچا، مگر ماموس بھی اس کی مدد نہ کر سکا۔ یہاں سے آگے سفر پر روانہ ہوا تو “زہد” نامی پہاڑ پر نظر جاسوس کی ملاقات ایک بوڑھے “رزق” سے ہوئی۔ استفسار پر رزق نے بتایا کہ آبِ حیات جنت میں موجود ہے، البتہ اس کے آثار عشاق کے آنسوؤں میں پائے جاتے ہیں۔
قلعۂ ہدایت پر نظر جاسوس کی ملاقات “ہمت” بادشاہ سے ہوئی۔ جس نے نظر کو سمجھایا کہ آبِ حیات کے حصول کا ارادہ ترک کر دے، مگر نظر کے مصمم ارادے کو دیکھتے ہوئے اسے بتایا کہ مشرق میں ایک ملک ہے، جس کے بادشاہ کا نام “عشق” ہے۔ اس کی ایک بیٹی “حسن” ہے، جو حسن و جمال میں اپنی مثال آپ ہے۔ ناز، عشوہ، غمزہ، ادا دلربائی، خوشنمائی اور لطافت اس کی سہیلیاں ہیں، جو ہر وقت اس کے ارد گرد موجود موجود رہتی ہیں۔
یہ شہزادی دیدار شہر میں متمکن ہے، جہاں “رخسار” نام کا ایک باغ ہے۔ اس باغ میں ایک چشمہ ہے۔ جس کا نام “دھن” ہے۔ اس چشمے میں آبِ حیات ہے۔ یہاں روز شہزادی آتی ہے۔ اس کے راستے میں “سبکسار” نام کا ایک شہر آتا ہے، جہاں “رقیب” نام کا ایک محافظ رہتا ہے، جو کسی کو اس شہر میں داخل نہیں ہونے دیتا۔ اس شہر کو عبور کرنے کے بعد آگے آسانی ہے۔
ہمت نظر کو ایک خط دیتا ہے کہ وہ سبکسار نامی شہر کو پار کرکے قامت نامی شخص کو یہ خط دے، جو ہمت کا بھائی ہے۔ وہ نظر کی مدد کرے گا۔ ان ساری مشکلات کو عبور کرنے کے بعد نظر کی حسن سے ملاقات ہو جاتی ہے اور حسن ایک ہیرے میں ایک تصویر دکھاتی ہے اور پوچھتی ہے کہ یہ کون ہے؟
تو نظر اسے بتاتا ہے کہ یہ دل بادشاہ ہے۔ حسن دل پر عاشق ہو جاتی ہے اور اسے کہتی ہے کہ اس سے ملاقات کی کوئی صورت نکالو۔ نظر اسے بتاتا ہے کہ عقل بادشاہ نے اسے تن کے قعلے میں قید کر رکھا ہے، جہاں سے رہائی ممکن نہیں، لیکن دل کو آبِ حیات کی تلاش ہے۔ اگر اس کو اس کا پتا بتا دیا جائے تو ملاقات ممکن ہے۔
آخر کار حسن دل کی ملاقات ہوتی ہے اور ان دونوں کی شادی ہوجاتی ہے۔ ایک دن نظر، ہمت اور دن شراب کے نشے میں مستی کے عالم میں باغ کی سیر کے لیے جاتے ہیں تو ان کی نظر آب حیات کے چشمے پر پڑتی ہے، جہاں ایک بزرگ خضر علیہ السلام کھڑے تھے۔ دل نے حضرت خضر علیہ السلام کی قدم بوی کی اور انھوں نے تطر التفات سے نوازا، جس سے دل کو اطمینان قلب حاصل ہوا۔ کچھ عرصے بعد ان کی اولاد بھی ہو گئی اور ان کی زندگی ہنسی خوشی گزرنے لگی۔