ساختیات کی تعریف، مفہوم و ارتقاء | PDF

ساختیات کی تعریف، مفہوم و ارتقاء: ساختیات بنیادی طور پر لسانی فلسفہ کی ایک اہم اصطلاح ہے، جسے ایک نظریہ، اصول اور طریقہ کار کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا فکری رجحان ہے جو زندگی، زبان، ادب اور فہم و ادراک کے تمام پہلوؤں پر اثر انداز ہوتا ہے۔

ساختیات کو بعض مفکرین ذہن انسانی کی کارکردگی کی بنیادی رمز سمجھتے ہیں، جبکہ کچھ اسے فکری انتشار میں ربط پیدا کرنے والی ایک ذہنی تحریک قرار دیتے ہیں۔ درحقیقت، ساختیات کا مقصد مختلف حوالوں، واسطوں اور رابطوں کے بارے میں ایک خاص انداز میں غور و فکر کرنا اور ان پر عمل پیرا ہونا ہے۔

یہ نہ صرف زندگی کے معاملات کو سمجھنے کا سلیقہ سکھاتی ہے بلکہ ایک مخصوص طرزِ فکر اور تجربات کو ترتیب دینے کا طریقہ بھی فراہم کرتی ہے۔

ساختیات کی تعریف، مفہوم و ارتقاء PDF
ساختیات کی تعریف، مفہوم و ارتقاء PDF

ساختیات کا مفہوم اور ماخذ

لفظ “ساختیات” کا ماخذ “ساخت” ہے، جو انگریزی لفظ Structure سے ماخوذ ہے۔ یہ اصطلاح لاطینی لفظ Structura اور فرانسیسی لفظ Structus سے نکلی ہے، جن کے لغوی معانی “ایک دوسرے پر رکھنا” یا “تعمیر کرنا” کے ہیں۔ اردو میں اس کا متبادل “وضع” یا “ساخت” لیا جاتا ہے، جبکہ “ساختیات” کی اصطلاح علمی و ادبی مباحث میں زیادہ مستعمل ہے۔

ساختیات کا نظریاتی پس منظر

ساختیات کی تعریف بیان کرتے ہوئے معروف محقق ڈاکٹر گوپی چند نارنگ رقم طراز ہیں:

“ساختیات بنیادی طور پر حقیقت کے ایک اصول سے جڑی ہوئی ہے، یعنی حقیقت یا کائنات ہمارے شعور کا حصہ کیسے بنتی ہے؟ ہم اشیاء کی حقیقت کو کیسے قبول کرتے ہیں؟ معنی کی تخلیق کن بنیادوں پر ہوتی ہے، اور یہ عمل کیوں کر ممکن اور مسلسل جاری رہتا ہے؟”(3)

اس نظریے کا بنیادی تعلق اس امر سے ہے کہ زبان اور انسانی فکر کس طرح کسی بھی تصور، شے یا حقیقت کو معنی عطا کرتے ہیں۔ ساختیات ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ اشیاء اور خیالات کو ایک مربوط نظام کے تحت کیسے سمجھا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ساختیات نے نہ صرف ادبی تنقید بلکہ سماجیات، بشریات، نفسیات اور فلسفہ جیسے علوم پر بھی گہرا اثر ڈالا ہے۔

ساختیات کی تعریف

ساختیات کی جامع اور حتمی تعریف پیش کرنا ایک مشکل امر ہے، کیونکہ کسی بھی علمی و فنی نظریے کی واضح اور محدود تعریف کرنا آسان نہیں ہوتا۔ ساختیات محض ایک مخصوص شعبۂ علم (Discipline) نہیں، جیسے طبیعیات یا نفسیات، بلکہ یہ علم و ادراک کا ایک منفرد طریقۂ کار ہے جو مختلف علوم و فنون میں یکساں طور پر کارفرما ہو سکتا ہے۔

ڈوروتھی بی. سیز (Dorothy B. Selz) کے مطابق:

“ساختیات فطرت اور انسان کی تخلیق کے ترکیبی عمل کے قوانین کے مطالعے کا نام ہے۔”

اسی طرح معروف ماہرِ نفسیات اور فلسفی ژاں پیاجے (Jean Piaget) نے ساختیات کی تعریف یوں کی ہے:

“Structure is a system of transformations” یعنی ساختیات درحقیقت ایک ایسا نظام ہے جو مسلسل تغیرات سے گزرتا رہتا ہے۔(2)

ساختیات نہ صرف زبان کی ساخت اور اس کے بنیادی ڈھانچے کے مطالعے سے تعلق رکھتی ہے بلکہ یہ متن میں الفاظ اور معانی کے باہمی ربط کے نظام کو بھی سمجھنے کا ایک منظم طریقہ فراہم کرتی ہے۔ اس نظریے کے مطابق، کوئی بھی متن یا اظہار اپنی داخلی ترتیب اور روابط کے ذریعے معنی خیز بنتا ہے، اور اس کا مفہوم صرف اس کے مخصوص ڈھانچے کے اندر ہی متعین کیا جا سکتا ہے۔

ساختیات بطور ذہنی تحریک

کئی مفکرین نے ساختیات کو ایک ذہنی تحریک (Movement of Mind) قرار دیا ہے، جو فکری انتشار میں ارتباط پیدا کرنے کا کام کرتی ہے۔ ان کے مطابق، ساختیات ایک ایسے فکری خلا کو پُر کرنے کے لیے وجود میں آئی، جو انسانی فلسفوں کے درمیان ربط قائم کر سکے۔ اس کا بنیادی مقصد علم و فکر کے مختلف شعبوں میں یکسانیت پیدا کرنا اور متن کی داخلی ساخت کو ایک مربوط نظام کے طور پر دیکھنا تھا۔

ساختیات کا ارتقاء و تاریخی پس منظر

ساختیات کا ارتقاء pdf
ساختیات کا ارتقاء pdf

ساختیات اصل میں لسانیات کی ایک شاخ اور ادبی نظریہ ہے، جسے فرڈینینڈ ڈی سوسئیر (Ferdinand de Saussure, 1857-1912ء) سے منسوب کیا جاتا ہے۔ سوسئیر نے زبان کے مطالعے کے لیے ہم زمانی (Synchronic) اور تاریخی (Diachronic) تجزیے کی بنیاد رکھی، جس سے ساختیاتی لسانیات کی راہ ہموار ہوئی۔(5)

ساختیات کو بیسویں صدی میں روس کے مکتبِ فکر پراگ میں رومن جیکب سن (Roman Jakobson) نے فروغ دیا۔ جیکب سن ہیئت پسندی (Formalism) سے بھی وابستہ رہا، جس کے سبب اس کے نظریات ساختیات اور ہیئت پسندی کے مابین ایک پل کا کردار ادا کرتے ہیں۔

جب رولاں بارتھ (Roland Barthes) نے اس نظریے کو اپنایا تو اس نے ساختیات اور نشانیات (Semiotics) کے فلسفیانہ مباحث کو بھی اٹھایا۔ بارتھ نے ساختیاتی مطالعے کا اطلاق ادب اور ثقافت پر کیا اور ثقافتی ترسیل کے تجربے کو بھی اپنے مطالعے میں شامل کیا۔ اس کے نزدیک، زبان، ادب اور ثقافت سب ایک مربوط ساخت کے اندر کام کرتے ہیں، جہاں معنی ہمیشہ کسی نہ کسی نظام کے تحت بنتے ہیں۔

 

ساٹھ کی دہائی میں ساختیات کو بہت اہمیت حاصل رہی، لیکن اکیسویں صدی تک اس نظریے پر پسِ ساختیات (Post-Structuralism) کے مباحث غالب آ گئے، جس سے اس کی مرکزیت کمزور پڑ گئی۔(1)

اردو ادب میں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ، ڈاکٹر وزیر آغا اور فہیم اعظمی جیسے ناقدین نے ساختیاتی نظریے کو ادبی تنقید میں استعمال کیا اور اس کے اصولوں کو اردو تنقید میں رائج کرنے کی کوشش کی۔ تاہم، اردو ادب میں بھی بعد میں پسِ ساختیات اور دیگر جدید ادبی نظریات کو زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی۔

Note: The password is hidden within this article. Read the entire article thoroughly, find the password, and enter it in the password field.

Book Cover

ساختیات کیا ہے؟ ساختیات کی تعریف، مفہوم، پس منظر و ارتقاء

Rating: ★★★★☆
  • Author: ravinotes.com

  • File Size: 585.48 KB

  • Format: PDF

  • Notes: Urdu

  • Price: Free

Leave a Comment