کشور ناہید کی شاعری میں تانیثیت | PDF

کشور ناہید کی شاعری میں تانیثیت: تانیثیت عربی زبان کے لفظ “تانیث” سے ماخوذ ہے، جبکہ انگریزی میں اس کے لیے “Feminism” کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے، جو لاطینی زبان کے لفظ “Femina” سے نکلا ہے۔ ان تمام اصطلاحات کا مفہوم عورتوں کے حقوق، آزادی نسواں اور صنفی مساوات کے گرد گھومتا ہے۔

تانیثیت کی تعریف کو مختصراً یوں بیان کیا جا سکتا ہے:

یہ ایک ایسی تحریک ہے جو مرد اور عورت کے درمیان سماجی، سیاسی، اور معاشی برابری قائم کرنے کی جدوجہد کرتی ہے اور ان کے رشتے میں موجود خامیوں کو ختم کرنے کے لیے کام کرتی ہے۔

تانیثیت کے معنی یہ بھی ہیں کہ عورتوں کو گھریلو زندگی، کام کرنے کی جگہوں، اور مجموعی طور پر سماج میں ظلم و جبر اور استحصال سے نجات دلائی جائے۔ یہ تحریک اس بات پر زور دیتی ہے کہ عورتوں اور مردوں کی مشترکہ کوششوں کے ذریعے موجودہ غیر منصفانہ حالات کے خلاف اقدامات کیے جائیں تاکہ ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا جا سکے جہاں صنفی مساوات اور انصاف کو فروغ دیا جا سکے۔

کشور ناہید کی شاعری میں تانیثیت

کشور ناہید کی شاعری میں تانیثیت
کشور ناہید کی شاعری میں تانیثیت

کشور ناہید 3 فروری 1940ء کو ہندوستان کے شہر “بلند شہر” میں ایک قدامت پسند سید گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد نے آٹھویں جماعت میں تعلیم ترک کر دی تھی، جبکہ ان کی والدہ صرف قرآن ناظرہ پڑھ سکتی تھیں۔ ان کے گھرانے کی خواتین پردے کی سخت پابند تھیں، اور کشور کو بھی سات سال کی عمر میں برقع پہننا پڑا۔

کشور ناہید نے اپنی زندگی کے اہم فیصلے روایتی اصولوں سے ہٹ کر کیے۔ نویں جماعت سے ہی انہوں نے اخبار میں لکھنا شروع کر دیا اور میٹرک کے بعد اپنی ضد منوا کر کالج میں داخلہ لیا۔ کالج میں فرسٹ ایئر سے ہی انہوں نے شاعری کا آغاز کیا۔ گھر والوں کی سخت مخالفت کے باوجود انہوں نے اپنے علمی اور ادبی سفر کو جاری رکھا۔

کشور ناہید کی شاعری نسوانی جذبات اور مسائل کا برملا اظہار کرتی ہے۔ ان موضوعات کو انہوں نے اپنی شاعری میں بیان کیا جن پر بات کرنا اس دور میں معیوب سمجھا جاتا تھا۔ وہ خود کو ایک حقیقت پسند خاتون قرار دیتی ہیں جو معاشرتی جبر کا شکار رہی ہیں۔ کشور ناہید نے اپنی شاعری کے ذریعے عورت کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کو بے باک انداز میں پیش کیا اور ان پر احتجاج کیا۔

کشور ناہید نے عورت کے جذبات، مسائل اور حقوق کو اپنے کلام کا موضوع بنایا۔ انہوں نے پوری آگہی اور شعور کے ساتھ ان سماجی رویوں کی مخالفت کی جو عورتوں کے خلاف تھے۔ ان کی شاعری عورت کو شعور دینے اور انہیں ان کے مقام کا احساس دلانے کی کوشش کرتی ہے۔

وہ اپنی تحریروں کے ذریعے عورتوں کو یہ سمجھاتی ہیں کہ وہ بھی معاشرے کا زندہ اور اہم حصہ ہیں، نہ کہ کوئی لکڑی یا پتھر۔ ان کا یہ پیغام ہے کہ عورتوں کو سہارے کی تلاش نے معذور بنا دیا ہے، اور انہیں اپنی شناخت خود بنانی ہوگی۔

کشور ناہید کی نظم “گھاس بھی مجھ جیسی ہے” میں عورتوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے اس جابرانہ رویے کو بیان کیا گیا ہے جس میں مرد نہ صرف عورت کی آزادی کو محدود کر دیتا ہے بلکہ اگر وہ اپنے حقوق کی بات کرے تو اسے کچلنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔

گھاس بھی مجھ جیسی ہے
ذرا سر اٹھانے کے قابل ہو
تو کاٹنے والی مشین
اسے مخمل بنانے کا سودا لیے
ہموار کرتی رہتی ہے
عورت کو بھی ہموار کرنے کے لئے
تم کیسے کیسے جتن کرتے ہو

کشور ناہید کی شاعری میں نسائی شعور اور تانیثیت کا ایک منفرد رنگ دکھائی دیتا ہے۔ ان کی نظم “ہم گنہگار عورتیں” اس حوالے سے ایک اہم مثال ہے۔ ہمارے معاشرے میں عمومی رویہ یہی رہا ہے کہ عورت کو محکوم رکھا جائے اور اس کی تربیت اس طرح کی جائے کہ وہ بغیر سوچے سمجھے مشین کی مانند حکم کی تعمیل کرتی رہے۔ چاہے اس تعمیل میں اس کا وجود ظاہری یا باطنی طور پر مفلوج کیوں نہ ہو جائے، اسے اپنی آواز اٹھانے یا اپنی تکلیف بیان کرنے کا کوئی حق نہیں دیا جاتا۔

کشور ناہید کی شاعری ان دقیانوسی رویوں کے خلاف ایک توانا آواز ہے۔ ان کی نظموں میں عورت کے حقوق، اس کی آزادی، اور اس کے جذبات کو نہایت خوبصورتی اور جرات کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ ان کی شاعری معاشرتی ناہمواریوں اور عورتوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کو بے نقاب کرتی ہے اور ایک بہتر اور مساوی معاشرے کا خواب دکھاتی ہے۔

کشور ناہید کی شاعری میں عورت کے سماجی مرتبے، حقوق، اور ان کے تحفظ کا گہرا احساس ملتا ہے۔ ان کی نظموں میں اخلاقی اور سماجی بے توقیری، سماجی پابندیاں، اور مرد کی حاکمیت کے خلاف شدید احتجاج صاف جھلکتا ہے۔ کشور نے اپنی نظموں میں عورت کی شناخت اور آزادی کو ایک دوسرے سے منسلک کیا ہے۔ ان کے نزدیک عورت کی حقیقی آزادی اس کی اپنی پہچان اور اپنے حقوق کے شعور میں پنہاں ہے۔

عورت، کشور کے مطابق، پہلے اپنے گھر کی تنہائی میں قید رہتی ہے، اور پھر نئی زندگی کے نام پر ایک اور مرد کے حوالے کر دی جاتی ہے۔ غیرت کے نام پر عورت کی زندگی کو مزید سخت بندھنوں میں جکڑ دیا جاتا ہے۔

کشور ناہید کا تعلق ایسے قدامت پسند خاندان سے تھا جہاں عورتیں روایات کے نام پر خاندان کی عزت اور ناموس کی محافظ سمجھی جاتی تھیں۔ عورتوں کی آزادی کا تصور محال تھا۔ تعلیم کے نام پر چند مذہبی کتابیں پڑھنے کی اجازت تھی، اور ان کی زندگی کا محور گھر اور گھر کے افراد کی خدمت تک محدود تھا۔

ان حالات میں کشور ناہید نے اپنے جذبات اور نسوانی مسائل کا اظہار کیا، جو اس وقت کے معاشرے کے لیے غیر معمولی اور جراتمندانہ قدم تھا۔ وہ ایک ایسے معاشرے کا خواب دیکھتی ہیں جہاں عورت کو بحیثیت انسان برابری کی بنیاد پر شناخت ملے، اس کے کردار کو تسلیم کیا جائے، اور اسے برابر کا مقام دیا جائے۔ لیکن ان کی شاعری میں دکھایا گیا ہے کہ ہمارا سماج اس کے برعکس رویہ اپناتا ہے۔

کشور ناہید کی نظم “میری مانو” اس صورتحال کی بھرپور عکاسی کرتی ہے، جہاں وہ لکھتی ہیں:

اگر تم بات ہی کرنا چاہتی ہو
تو تمہاری سزا موت
اگر تم سانس ہی لینا چاہتی ہو
تو تمہاری جگہ قید خانہ ہے

یہ اشعار اس جبر اور گھٹن کی نمائندگی کرتے ہیں جس کا سامنا ہر اس عورت کو کرنا پڑتا ہے جو اپنی آزادی اور حقوق کی بات کرتی ہے۔ کشور ناہید کی شاعری عورت کے حق میں احتجاج کی ایک بلند اور بامعنی آواز ہے، جو ایک آزاد اور مساوی معاشرے کی تشکیل کے لیے کوشاں ہے۔

خواتین کے حقوق کے لیے اٹھنے والی آوازوں اور کی جانے والی جدوجہد کے نتیجے میں بیسویں صدی تک عورتوں کے لیے ملازمتوں کے دروازے بھی کھل گئے۔ وہ عورت جو صدیوں سے گھٹن زدہ ماحول میں زندہ رہنے پر مجبور تھی، اس نے اپنی محنت، عزم اور جدوجہد کے ذریعے نہ صرف اپنی اہمیت کو تسلیم کروایا بلکہ معاشرتی نظام میں اپنی ضرورت کو بھی منوایا۔

کشور ناہید نے اپنی نظم “اکیسویں صدی کا زمانہ” میں اس جدوجہد اور عورت کی امیدوں کو یوں بیان کیا ہے:

یہ صدی جو بیتی ہے
وہ صدی تمہاری تھی
یہ صدی جو آئے گی
وہ صدی ہماری ہے

یہ اشعار نہ صرف ایک نئے عزم کا اعلان ہیں بلکہ یہ اس یقین کی عکاسی بھی کرتے ہیں کہ آنے والا دور خواتین کے لیے روشن، مساوی اور آزاد ہوگا۔ کشور ناہید کی شاعری میں یہ شعور اور عزم نمایاں ہے کہ عورت کو اس کا جائز مقام دلانے کے لیے جدوجہد جاری رہنی چاہیے۔ ان کی شاعری نسائی جذبات اور تحریک کے اظہار کا ایک اہم ذریعہ ہے، جو خواتین کے حقوق کے شعور کو مزید تقویت بخشتی ہے۔

Note: The password is hidden within this article. Read the entire article thoroughly, find the password, and enter it in the password field.

Book Cover

کشور ناہید کی شاعری میں تانیثیت PDF

Rating: ★★★★☆
  • Author: ravinotes.com

  • File Size: 672.5 KB

  • Format: PDF

  • Notes: Urdu

  • Price: Free

Leave a Comment