ناول گریز کا تنقیدی جائزہ | عزیز احمد | PDF

ناول گریز کا تنقیدی جائزہ: عزیز احمد کے مشہور ناول “گریز” کا یہ تنقیدی جائزہ اردو ادب کے اس اہم شاہکار کو گہرائی سے سمجھنے کی کوشش ہے، جو برطانوی دورِ حکومت کے ہندوستان کی سماجی، ثقافتی، اور سیاسی تبدیلیوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس مضمون میں ناول کے مرکزی کردار نعیم کی زندگی، اس کی مشرقی و مغربی تہذیبوں کے درمیان کشمکش، اور محبت، جنسی رجحانات، اور سماجی حقائق کے مختلف پہلوؤں کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔

مزید برآں، مضمون میں ناول کی فکری و تہذیبی اہمیت، اس کی عصری معنویت، اور ۲۰ ویں صدی کے بدلتے ہوئے ہندوستانی معاشرتی رویوں کی عکاسی پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ تنقیدی جائزہ قارئین کو ناول کے موضوعات، کرداروں، اور سماجی پس منظر کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد کرے گا۔ ناول گریز کا تنقیدی جائزہ مندرجہ ذیل ہیں:

ناول گریز کا تنقیدی جائزہ

ناول گریز کا تنقیدی جائزہ عزیز احمد
ناول گریز کا تنقیدی جائزہ عزیز احمد

عزیز احمد کے ناولوں میں سب سے زیادہ شہرت گریز کو حاصل ہوئی ہے۔ اس ناول میں ایک ایسے نوجوان کی کہانی بیان کی گئی ہے جو اپنی محنت اور لگن کے ذریعے آئی۔ سی۔ ایس کے لیے منتخب ہوتا ہے۔ یہ نوجوان، نعیم، اپنے عہد کے خوابوں اور خواہشات کا نمائندہ ہے، جو انگلستان اور دیگر ممالک کی سیر کرتا ہے۔

ناول گریز کا زمانہ ۱۹۳۲ء سے ۱۹۴۶ء تک کے دورانیے پر محیط ہے، جو برطانوی راج کے زیر سایہ ہندوستان کی سیاسی، سماجی، اور ثقافتی تبدیلیوں کا عکاس ہے۔ اس ناول میں نہ صرف ایک فرد کی ذاتی کہانی ہے بلکہ یہ دو تہذیبوں، مشرق اور مغرب، کے تصادم کو بھی گہرائی سے اجاگر کرتا ہے۔

نعیم کا کردار مشرقی قدروں اور مغربی آزادی کے درمیان جھولتا ہوا نظر آتا ہے۔ یورپ کا ماحول اس پر گہرے اثرات ڈال کر اس کی شخصیت کو بدل دیتا ہے۔ وہ مشرق کی اخلاقی و سماجی پابندیوں سے دور ہو کر مغرب کی عیش پرستی اور آزادی کو اپنانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کا کردار ایک آزاد خیالی کی عکاسی کرتا ہے، جہاں وہ اپنی مرضی کی زندگی گزارنا چاہتا ہے لیکن اس دوران وہ مسلسل کشمکش اور تذبذب کا شکار رہتا ہے۔

ایک دل پھینک نوجوان ہونے کی حیثیت سے نعیم کے لیے عورت صرف کشش جنس کا درجہ رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ خوبصورت عورتوں کے گرد گھومتا رہتا ہے، مگر ان میں سے کسی کو بھی اپنا نہیں پاتا۔ شاید اس کا سبب یہ ہے کہ وہ ایک مکمل اور خاص عورت کی تلاش میں ہے، جو اس کی خواہشات اور جذبات کی تکمیل کر سکے۔

یہی وجہ ہے کہ ناول گریز میں کئی خواتین کے کردار شامل کیے گئے ہیں، جن میں زیادہ تر مغربی ممالک کی خواتین ہیں۔ ان کرداروں کی موجودگی ناول میں رومان اور جنس کی شدت کو نمایاں کرتی ہے، جو نعیم کی شخصیت اور فکر پر غالب نظر آتی ہے۔

ناول کے معاشی اور سیاسی پس منظر میں بھی جنسی حقائق کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ نعیم زندگی کی تلخ حقیقتوں اور یہاں تک کہ محبت اور عشق کی تلخیوں سے بھی دور بھاگنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ ناول ۲۰ ویں صدی کے بدلتے ہوئے اہم رجحانات کا آئینہ دار ہے، جہاں زندگی کسی قسم کی اخلاقی یا مذہبی حدود و قیود سے آزاد نظر آتی ہے۔

نعیم کی شخصیت ایک ایسے نوجوان کی عکاسی کرتی ہے جو مسلسل کشمکش اور تذبذب کا شکار ہے۔ وہ مغرب کی آزاد خیالی اور مشرق کی قدروں کے بیچ پھنسا ہوا ہے، اور اسی کشمکش میں اپنی شناخت اور منزل کی تلاش کرتا رہتا ہے۔

نعیم کی حالت یہ ہے کہ اسے خود معلوم نہیں کہ وہ کس چیز کی تلاش میں ہے۔ وہ سائنسی ایجادات اور جدید علوم و فنون سے بخوبی واقف ہے، لیکن اس کے باوجود زندگی سے مطمئن نہیں ہے۔ یورپ کی چمک دمک اور ترقی اسے بہت متاثر کرتی ہے، مگر اس کے دل میں سکون نہیں۔

ناول گریز میں ہندوستانی معاشرے کی تصویر بھی پیش کی گئی ہے، جہاں لوگ اپنی تہذیب کو چھوڑ کر انگریزی تہذیب کو اپنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے علی عباس حسینی کہتے ہیں:

“اس ناول نے پہلی بار ہماری زبان میں یورپ کو اس کے سیاسی، اقتصادی، اور جنسی انداز کے ساتھ ہندوستانی نقطۂ نظر سے پیش کیا ہے۔”

ناول میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ لوگ اپنی ثقافت اور روایات کو ترک کرتے ہوئے انگریزی طرزِ زندگی کو محض ایک فیشن کے طور پر اپنا رہے ہیں۔ وہ اپنی اصل شناخت کھو کر ایک ایسی غیر مستحکم حالت میں ہیں جہاں وہ نہ مکمل طور پر اپنی تہذیب کے رہ گئے ہیں اور نہ ہی مکمل طور پر انگریزی تہذیب کو اپنا سکے ہیں۔

مزید دیکھیں

اس کے علاوہ نوجوان نسل کے بارے میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ وہ دین سے دور ہو کر بے راہ روی کا شکار ہو رہی ہے۔ گناہ اور ثواب کا فرق ان کی زندگی سے ختم ہو چکا ہے، اور وہ بے جھجک گناہوں میں ملوث ہو رہے ہیں۔

ناول میں یہ حقیقت بھی اجاگر کی گئی ہے کہ غریب انسان کی اس معاشرے میں کوئی اہمیت نہیں۔ مثال کے طور پر، جب نعیم غریب تھا، تو کوئی اس کی پروا نہیں کرتا تھا، مگر جب اس نے آئی۔ سی۔ ایس کا امتحان پاس کر لیا، تو بلقیس کی ماں فوراً اسے اپنا داماد بنانے کی خواہش ظاہر کرنے لگی۔

یہ تمام موضوعات گریز کو نہ صرف ایک ادبی شاہکار بناتے ہیں بلکہ یہ ۲۰ ویں صدی کے ہندوستانی سماج کی عکاسی بھی کرتے ہیں، جہاں تہذیب، مذہب، اور سماجی رویے ایک دوسرے سے متصادم نظر آتے ہیں۔

گریز ناول میں مغربی عیاشی اور طرزِ زندگی کا ذکر کثرت سے کیا گیا ہے، جہاں مغربی روایات میں عیش و عشرت اور بے راہ روی کو کوئی گناہ تصور نہیں کیا جاتا۔ مگر ہمارا مذہب ان اعمال سے نہ صرف منع فرماتا ہے بلکہ ان پر سختی سے عمل پیرا ہونے کی تلقین کرتا ہے۔

اسلام نے بدکاری اور گناہ کو نہایت حقارت کی نظر سے دیکھا ہے اور ان سے دور رہنے کی تعلیم دی ہے، لیکن ناول کے کردار یہ واضح کرتے ہیں کہ مسلمان بھی بعض اوقات اس حقیقت کو نظر انداز کر کے انہی گناہوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

دنیا کو ایک امتحان گاہ قرار دیا گیا ہے، اور یہ امتحان انسان کے لیے بے حد اہمیت رکھتا ہے۔ لیکن ناول کے کردار بار بار ایسی صورتحال میں مبتلا ہوتے ہیں جہاں وہ بدکاری کے قریب چلے جاتے ہیں، جو اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ کس طرح انسانی نفسیات گناہ کی طرف مائل ہو سکتی ہے۔

 

اس ناول میں محبت کے تصور کو بھی بگاڑ کر پیش کیا گیا ہے۔ محبت جو کہ ایک پاکیزہ اور مقدس رشتہ ہے، اسے محض جنسی سکون کا ذریعہ سمجھا گیا ہے۔ یہ اس وقت کے معاشرتی رویے کی ایک تلخ حقیقت ہے اور آج کے دور میں بھی کم و بیش یہی تصور پایا جاتا ہے۔ ناول کے ذریعے عزیز احمد نے اس پہلو کو اجاگر کیا ہے کہ محبت صرف جسمانی کشش یا جنسی تسکین کا نام نہیں بلکہ ایک روحانی اور اخلاقی بندھن ہے، جو انسانی تعلقات کو مضبوط اور پاکیزہ بناتا ہے۔

ناول گریز اس بات کا آئینہ ہے کہ کس طرح بدلتے ہوئے زمانے اور مغربی تہذیب کی یلغار نے اخلاقی قدروں کو متاثر کیا اور معاشرتی رویوں کو بگاڑ دیا۔ ناول کا یہ پہلو قارئین کو اپنی تہذیبی، مذہبی، اور اخلاقی اقدار پر غور و فکر کرنے کی دعوت دیتا ہے۔

Note: The password is hidden within this article. Read the entire article thoroughly, find the password, and enter it in the password field.

Book Cover

ناول گریز کا تنقیدی جائزہ | عزیز احمد

Rating: ★★★★☆
  • Author: ravinotes.com

  • File Size: 496.76 KB

  • Format: PDF

  • Notes: Urdu

  • Price: Free

Leave a Comment