تہمت چند اپنے ذمے دھر چلے | تشریح: اردو ادب میں غزل کو ایک منفرد مقام حاصل ہے، جو جذبات و احساسات کے حسین اظہار کا بہترین ذریعہ ہے۔ یہ غزل خواجہ میر دردؔ کی ہے اور ان کے مخصوص اندازِ بیان اور فکر کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔ غزل کے اشعار میں زندگی کی ناپائیداری، دنیا کی بے ثباتی، اور انسانی جذبات کے پیچیدہ پہلوؤں کو گہرے فلسفیانہ اور شعری انداز میں پیش کیا گیا ہے۔

تہمت چند اپنے ذمے دھر چلے : خواجہ میر درد | تشریح
خواجہ میر دردؔ کی یہ غزل ایک ایسی زندگی کا احوال ہے جہاں طوفان، جدوجہد، اور تنہائی کے ساتھ انسان کو موت اور فنا کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اشعار میں محبوب، دنیا کی حقیقت، اور انسان کے سفرِ حیات کو موضوع بنایا گیا ہے۔ کچھ اشعار میں دنیا کی بے وفائی اور زندگی کے دکھوں کا ذکر ہے، تو کچھ میں رخصت اور فنا کے فلسفے کو بیان کیا گیا ہے۔
جس لیے آئے تھے سو ہم کر چلے
مفہوم: شاعر کہتا ہے کہ ہم نے کچھ تہمتیں اور الزام اپنے سر لے لیے اور جس مقصد کے لیے دنیا میں آئے تھے، وہ مقصد پورا کر کے رخصت ہو گئے۔
تشریح: دردؔ اس شعر میں انسانی زندگی کی ذمہ داریوں اور اس کی ناپائیداری کو بیان کر رہے ہیں۔ پہلے مصرعے میں شاعر اپنی زندگی کے تجربات کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ دنیاوی معاملات میں رہتے ہوئے ہم پر کچھ تہمتیں اور الزام لگائے گئے، جو شاید حقیقی نہ ہوں، لیکن ہم نے ان کا سامنا کیا اور انہیں قبول کر لیا۔ یہاں “تہمت” دنیاوی مصائب اور مشکلات کا استعارہ بھی ہو سکتی ہے، جو ہر انسان کو برداشت کرنی پڑتی ہیں۔
دوسرے مصرعے میں شاعر اپنی زندگی کے مقصد کا ذکر کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم دنیا میں جس کام کے لیے آئے تھے، وہ کام مکمل کر لیا اور پھر اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ یہ ایک طرح سے فنا اور آخرت کے فلسفے کی طرف اشارہ ہے، جہاں انسان دنیا کی مختصر زندگی گزار کر اپنے حقیقی سفر کی طرف روانہ ہو جاتا ہے۔
یہ شعر انسانی زندگی کی عارضی حیثیت، دنیاوی ذمہ داریوں، اور انسان کی آخری منزل کے بارے میں گہری سوچ کو بیان کرتا ہے۔ دردؔ کا یہ انداز فکر قاری کو اپنی زندگی کے مقصد اور انجام پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
مفہوم: شاعر کہتا ہے کہ زندگی اتنی پرآشوب اور مشکلات سے بھری ہوئی ہے کہ یہ کسی طوفان کی مانند لگتی ہے۔ ہم نے اس زندگی کے بوجھ اور مشکلات کے سبب اپنی روحانی اور جذباتی موت قبول کر لی۔
تشریح: دردؔ اس شعر میں زندگی کی سختیوں اور مصائب کو ایک طوفان سے تشبیہ دیتے ہیں۔ پہلے مصرعے میں شاعر زندگی کے بے رحم اور پرآشوب حالات کا ذکر کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ زندگی کا سفر اتنا دشوار ہے کہ یہ کسی طوفان جیسی شدت اور بے رحم کیفیت اختیار کر چکا ہے، جہاں انسان ہر لمحہ اپنی بقا کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔
دوسرے مصرعے میں شاعر اپنی حالت کو بیان کرتے ہیں کہ ہم نے اس زندگی کی مشکلات اور آزمائشوں کے آگے ہتھیار ڈال دیے اور انہی حالات کے ہاتھوں اپنی جذباتی اور روحانی موت مر چکے ہیں۔ “جینے کے ہاتھوں مر چلے” ایک انتہائی گہری اور دلکش ترکیب ہے، جو اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ زندگی کی جدوجہد نے انسان کو اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے۔
یہ شعر انسانی زندگی کے تلخ تجربات، ناگزیریت، اور وجودی بحران کا ایک گہرا بیان ہے۔ دردؔ نے اس شعر کے ذریعے زندگی کی حقیقت کو نہایت خوبصورتی اور اثر انگیزی کے ساتھ پیش کیا ہے، جو قاری کو زندگی کے اصل معنی اور اس کی مشکلات پر غور کرنے پر مجبور کرتا ہے۔
ایک دم آئے ادھر اودھر چلے
مفہوم: شاعر کہتا ہے کہ اے ہوا! ہمیں ان پھولوں سے کیا سروکار جو محض ایک لمحے کے لیے کھلتے ہیں اور پھر مرجھا کر فنا ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی کی بے ثباتی ہمیں کسی کام کی نہیں۔
تشریح: دردؔ اس شعر میں دنیاوی خوشیوں، عیش و عشرت، اور زندگی کی بے ثباتی کو علامتی انداز میں بیان کرتے ہیں۔ پہلے مصرعے میں شاعر ہوا (صبا) کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمیں ان عارضی اور فانی چیزوں سے کوئی غرض نہیں، جو زیادہ دیر قائم نہیں رہتیں۔ یہاں “گل” ایک علامت ہے جو دنیاوی خوشیوں، عارضی خوبصورتی، اور لمحاتی لذتوں کو ظاہر کرتی ہے۔
دوسرے مصرعے میں شاعر اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ یہ چیزیں محض ایک لمحے کے لیے آتی ہیں اور پھر ختم ہو جاتی ہیں، جیسے ایک ہوا کا جھونکا کسی سمت سے آ کر فوراً دوسری سمت کو چل دیتا ہے۔ دنیا کی یہ عارضی اور ناپائیدار چیزیں ہمیں کسی حقیقی سکون یا دائمی خوشی سے محروم رکھتی ہیں۔
یہ شعر دردؔ کی گہری فکری اور صوفیانہ سوچ کی عکاسی کرتا ہے، جہاں وہ دنیا کی بے ثباتی اور عارضی دلکشی کو نظر انداز کرتے ہوئے انسان کو حقیقی اور ابدی حقیقت پر غور کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ دنیاوی چیزوں کی ظاہری چمک دمک کے پیچھے بھاگنے کے بجائے اُن چیزوں کی طرف توجہ دینی چاہیے جو دائمی اور حقیقی سکون کا باعث بنتی ہیں۔
تم رہو خوش ہم تو اپنے گھر چلے
مفہوم: شاعر کہتا ہے کہ اے دوستو! ہم نے اس دنیا کا تماشا دیکھ لیا اور اس کی حقیقت کو سمجھ لیا۔ اب ہم رخصت ہو رہے ہیں، تم یہاں خوش رہو۔
تشریح: اس شعر میں دردؔ دنیا کی حقیقت اور انسانی زندگی کی عارضی حیثیت پر روشنی ڈال رہے ہیں۔ پہلے مصرعے میں وہ اپنے دوستوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم نے اس دنیا کا تماشا دیکھ لیا۔ یہاں “تماشا” دنیا کے معاملات، اس کے دکھاوے، فریب، اور عارضی خوشیوں کا استعارہ ہے۔ شاعر اس بات کو واضح کر رہے ہیں کہ دنیا کی حقیقت محض ایک عارضی کھیل اور ایک دھوکہ ہے۔
دوسرے مصرعے میں شاعر اپنے دوستوں کے لیے خوش رہنے کی دعا کرتے ہیں اور خود کو دنیا سے الگ کر لیتے ہیں۔ “اپنے گھر چلے” کا مطلب دنیاوی زندگی سے رخصت اور آخرت کی طرف روانگی ہے۔ یہ ایک فلسفیانہ اشارہ ہے کہ دنیا میں ہر انسان کے لیے ایک محدود وقت مقرر ہے، اور ایک دن سب کو اپنے اصلی گھر یعنی آخرت کی طرف جانا ہوتا ہے۔
یہ شعر دردؔ کی صوفیانہ سوچ اور دنیا کی بے ثباتی کے گہرے شعور کی عکاسی کرتا ہے۔ وہ دنیا کی حقیقت کو بے نقاب کرتے ہوئے انسان کو یاد دلاتے ہیں کہ یہاں کی خوشیاں اور دکھ سب عارضی ہیں، اور اصل منزل آخرت ہے۔ یہ قاری کو اپنی زندگی اور اس کے مقصد پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔
جب کوئی افسوں ترا اس پر چلے
مفہوم: شاعر کہتا ہے کہ آہ بھرنا اور غم میں مبتلا ہونا چھوڑ دو۔ اگر تمہارا جادو یا محبت کسی پر اثر کر سکے، تب ہی اس غم کو جواز سمجھا جا سکتا ہے۔
تشریح: دردؔ اس شعر میں عاشق کے جذبات اور محبت کی بے اثری کا ذکر کرتے ہیں۔ پہلے مصرعے میں شاعر عاشق کو نصیحت کرتے ہیں کہ اپنے دل کو غم میں جلا دینا اور آہیں بھرنا بے فائدہ ہے، جب تک کہ ان جذبات کا کوئی اثر محبوب پر نہ ہو۔ یہاں “آہ” عاشق کے درد اور دل کی کیفیت کا استعارہ ہے، جو محبوب کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی ایک کوشش ہوتی ہے۔
دوسرے مصرعے میں شاعر اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ تمہارا عشق، جادو، یا افسوں (محبت کی طاقت) اگر محبوب کے دل پر اثر انداز نہ ہو، تو یہ سب آہیں بھرنا اور غم سہنا بے سود ہے۔ محبوب کی بے حسی اور عاشق کی بے بسی کو اس شعر میں گہرے انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ شعر عشق کی ناکامی، جذبات کی بے اثری، اور انسانی تعلقات کی پیچیدگیوں کی عکاسی کرتا ہے۔
دردؔ نے اس شعر کے ذریعے یہ بات واضح کی ہے کہ جب تک محبت کا اثر متقابل نہ ہو، عاشق کی قربانیاں اور دکھ بیکار رہتے ہیں۔ یہ شعر قاری کو محبت کی حقیقت اور اس کی حدوں پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔
زخم کتنوں کے سنا ہے بھر چلے
مفہوم: شاعر کہتا ہے کہ میں خود ایک زخمی دل رکھنے والا ہوں اور میرا دوست بھی میری ہی طرح دل شکستہ ہے۔ لیکن سننے میں آتا ہے کہ وہ بہت سے لوگوں کے زخم بھر چکا ہے۔
تشریح: دردؔ اس شعر میں محبت، ہمدردی، اور دل کی کیفیات کو نہایت خوبصورت انداز میں بیان کرتے ہیں۔ پہلے مصرعے میں شاعر اپنے دل کی کیفیت کا ذکر کرتے ہیں کہ میرا دل غموں اور دکھوں سے بھرا ہوا ہے، یعنی میں ایک دل شکستہ اور رنجیدہ شخص ہوں۔ وہ اپنے دوست کی بھی یہی کیفیت بیان کرتے ہیں، جو کہ ان کے ساتھ جذباتی ہم آہنگی رکھتا ہے۔ یہاں “دل ریش” کا مطلب زخمی دل یا غمگین دل ہے، جو شاعر کے جذباتی کرب کی عکاسی کرتا ہے۔
دوسرے مصرعے میں شاعر حیرت کا اظہار کرتے ہیں کہ اس دل شکستہ دوست کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دوسروں کے زخموں پر مرہم رکھتا رہا ہے اور کئی لوگوں کو سکون پہنچا چکا ہے۔ یہ شعر محبت کی قربانی، ہمدردی، اور انسان کی اس صلاحیت کو ظاہر کرتا ہے کہ باوجود اپنی تکالیف کے، وہ دوسروں کے زخموں کو بھرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔(7)
یہ شعر ایک گہری معنویت رکھتا ہے، جو ہمیں انسان کی ہمدردی، محبت کی طاقت، اور اس حقیقت پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے کہ دل کا زخمی ہونا دوسروں کے زخم بھرنے کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتا۔ دردؔ نے اس شعر میں نہایت سادگی سے انسانی جذبات کی پیچیدگی کو پیش کیا ہے۔
چشم تر آئے تھے دامن تر چلے
مفہوم: شاعر کہتا ہے کہ ہم اس محفل میں شمع کی طرح جلتے اور روتے ہوئے آئے تھے اور اسی حالت میں دامن بھیگے ہوئے رخصت ہو گئے۔
تشریح: اس شعر میں دردؔ نے شمع کو استعارہ بنا کر انسانی زندگی کے درد و الم کو بیان کیا ہے۔ پہلے مصرعے میں شاعر کہتا ہے کہ ہم اس دنیا یا محفل میں شمع کی مانند آئے تھے۔ شمع، جو اپنے اردگرد روشنی پھیلاتی ہے لیکن خود کو جلا کر فنا کر دیتی ہے، یہاں انسان کی قربانی اور جدوجہد کی علامت ہے۔ “چشم تر” کا مطلب ہے آنکھوں کا نم ہونا، جو شاعر کے غم اور دکھ کی کیفیت کو ظاہر کرتا ہے۔
دوسرے مصرعے میں شاعر بیان کرتے ہیں کہ ہم اسی دکھ اور قربانی کی حالت میں، دل اور دامن کو غم سے بھیگے ہوئے چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ یہ “دامن تر” شاعر کے جذباتی کرب اور غم کی شدت کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ شعر انسانی زندگی کی مختصر مدت، قربانی، اور جذباتی المیے کو نمایاں کرتا ہے۔
دردؔ نے نہایت سادگی اور گہرائی سے یہ پیغام دیا ہے کہ انسان دنیا میں دکھ سہتے اور قربانیاں دیتے ہوئے آتا ہے اور اپنی زندگی کی اسی کیفیت میں رخصت ہو جاتا ہے۔ یہ شعر قاری کو زندگی کے مقصد اور انسانی جذبات پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔
شیخ صاحب چھوڑ گھر، باہر چلے
مفہوم: شاعر کہتا ہے کہ شیخ صاحب خدا کو گھر کے اندر چھوڑ کر کہیں باہر ڈھونڈنے نکل گئے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ خدا دل کے اندر موجود ہے۔
تشریح: اس شعر میں میرؔ نے صوفیانہ طرز فکر اور مذہبی منافقت پر روشنی ڈالی ہے۔ پہلے مصرعے میں شاعر بیان کرتے ہیں کہ شیخ، جو بظاہر دیندار اور خدا کے راستے پر چلنے والا شخص ہے، خدا کو کہیں باہر تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہاں “آپ سے اس کو پرے” کا مطلب ہے کہ خدا کو اپنی ذات یا اپنے دل سے دور سمجھنا اور اسے کہیں دور کسی خاص جگہ پر تلاش کرنا۔
دوسرے مصرعے میں شاعر تنقید کرتے ہیں کہ شیخ نے اپنے گھر یعنی اپنی ذات، دل، اور اندرونی روحانی کیفیت کو چھوڑ دیا اور خدا کو بیرونی دنیا میں ڈھونڈنے نکل گیا۔ شاعر اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ خدا کو تلاش کرنے کے لیے کہیں باہر جانے کی ضرورت نہیں، بلکہ اسے اپنے دل اور باطن میں محسوس کرنا چاہیے۔ یہ شعر مذہبی ریاکاری، خدا کے تصور کی حقیقت، اور انسان کی روحانی الجھنوں کی عکاسی کرتا ہے۔
میرؔ کے اسلوب میں صوفیانہ گہرائی ہے، جو قاری کو اپنے اندر جھانکنے اور خدا کی قربت کو اپنی ذات میں محسوس کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ یہ شعر حقیقتاً انسان کی روحانی منزل کو سمجھنے کے لیے ایک اہم پیغام فراہم کرتا ہے۔
وہ ہی آڑے آ گیا جیدھر چلے
مفہوم: شاعر کہتا ہے کہ ہم آپ (محبوب) سے دور جانے کی کوشش کرتے رہے، مگر جہاں بھی گئے، آپ ہی ہمارے راستے میں آ گئے اور ہمیں آگے بڑھنے نہ دیا۔
تشریح: میرؔ اس شعر میں عاشق کی بے بسی اور محبت کی شدت کو بیان کرتے ہیں۔ پہلے مصرعے میں شاعر کہتا ہے کہ ہم نے کئی بار یہ چاہا کہ محبوب کی قربت سے دور ہو جائیں، کیونکہ اس محبت نے ہمیں بے چین اور بے سکون کر دیا ہے۔ مگر یہ کوشش ناکام رہی، کیونکہ محبوب کی یاد اور اس کی محبت ہمارے دل سے کبھی جدا نہ ہو سکی۔
دوسرے مصرعے میں شاعر مزید وضاحت کرتے ہیں کہ جہاں بھی ہم گئے اور جس طرف بھی چلنے کی کوشش کی، محبوب کی یاد یا اس کی محبت آڑے آ گئی۔ یہاں “آڑے آ گیا” محبوب کی محبت کی گرفت کو ظاہر کرتا ہے، جو عاشق کو کہیں اور سکون سے جینے نہیں دیتی۔(5)
یہ شعر اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ سچی محبت انسان کو ہر حال میں اپنے دائرے میں رکھتی ہے اور اسے کہیں دور جانے نہیں دیتی۔ یہ شعر میرؔ کے مخصوص طرزِ بیان کی ایک خوبصورت مثال ہے، جہاں وہ محبت کی گہرائی اور عاشق کے جذبات کی شدت کو نہایت خوبصورتی سے بیان کرتے ہیں۔ یہ شعر محبت کی قوت اور عاشق کی حالتِ زار کو سمجھنے کے لیے قاری کو غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔
ساتھ اپنے اب اسے لے کر چلے
مفہوم: شاعر کہتا ہے کہ ہم اس دنیا میں تنہا آئے تھے، مگر اب واپسی کے وقت اپنے ساتھ اس محبت اور اس کے دکھ کو لے کر جا رہے ہیں۔
تشریح: میرؔ اس شعر میں انسانی زندگی کے آغاز اور اختتام کی حقیقت کو محبت کے تناظر میں بیان کرتے ہیں۔ پہلے مصرعے میں شاعر یاد دلاتے ہیں کہ ہر انسان اس دنیا میں اکیلا آتا ہے، یعنی زندگی کا آغاز تنہائی سے ہوتا ہے۔ یہ اشارہ انسانی فطرت اور اس کے دنیا میں تنہا ورود پر ہے۔
دوسرے مصرعے میں شاعر بیان کرتے ہیں کہ ہم اس دنیا سے رخصت ہو رہے ہیں، مگر اب ہم خالی ہاتھ نہیں جا رہے۔ یہاں “اسے” کا اشارہ محبوب یا محبت کے دکھ اور یادوں کی طرف ہے، جو زندگی کے سفر میں ہمارا ساتھ رہی اور اب یہ ہمارا حصہ بن چکی ہے۔ یہ محبت یا درد، جسے ہم نے اپنے دل میں جگہ دی، ہماری زندگی کا ایک لازمی حصہ بن چکا ہے۔
اس شعر میں یہ پیغام پوشیدہ ہے کہ انسان تنہا آتا ہے، لیکن دنیا میں اپنے تجربات، محبت، اور یادوں کے ساتھ اپنی ذات کو مکمل کر کے رخصت ہوتا ہے۔ یہ شعر قاری کو زندگی کی حقیقت اور محبت کی گہرائی پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔
بارے ہم بھی اپنی باری بھر چلے
مفہوم: شاعر کہتا ہے کہ اس دنیا میں ہماری ہستی ایک چنگاری کی مانند تھی، جو لمحہ بھر کو چمکتی ہے اور پھر ختم ہو جاتی ہے۔ آخرکار ہم نے بھی اپنی زندگی کی مختصر مدت پوری کر لی اور یہاں سے رخصت ہو گئے۔
تشریح: میرؔ اس شعر میں انسانی وجود کی عارضی نوعیت اور زندگی کی بے ثباتی کو نہایت گہرے فلسفیانہ انداز میں بیان کرتے ہیں۔ پہلے مصرعے میں “شرر” (چنگاری) کو انسانی ہستی کی علامت بنایا گیا ہے۔ چنگاری، جو مختصر وقت کے لیے روشن ہوتی ہے اور فوراً بجھ جاتی ہے، زندگی کی ناپائیداری کی بہترین عکاسی ہے۔ “ہستیٔ بے بود” کا مطلب ہے ایسا وجود جو حقیقی معنوں میں قائم نہ رہ سکے، یعنی یہ دنیاوی زندگی۔
دوسرے مصرعے میں شاعر بیان کرتے ہیں کہ ہم نے بھی اپنی زندگی کی باری یا وقت پورا کر لیا اور اس فانی دنیا سے کوچ کر گئے۔ یہاں “اپنی باری بھر چلے” اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ زندگی ایک ذمہ داری یا فریضہ ہے، جسے ہر شخص اپنی اپنی مدت کے مطابق پورا کر کے رخصت ہو جاتا ہے۔
یہ شعر قاری کو اپنی فانی حیثیت پر غور کرنے اور زندگی کی قدر کرنے کا پیغام دیتا ہے، ساتھ ہی یہ یاد دلاتا ہے کہ ہر انسان کو اپنے وقت کے مطابق اپنا سفر مکمل کرنا ہوتا ہے۔
جب تلک بس چل سکے ساغر چلے
مفہوم: شاعر کہتا ہے کہ اے ساقی، یہاں محفل کا اختتام قریب محسوس ہو رہا ہے۔ جب تک وقت ہے اور ممکن ہے، جام گردش میں رہے تاکہ خوشی کا یہ لمحہ قائم رہے۔(4)
تشریح: میرؔ اس شعر میں زندگی اور دنیاوی محفل کی ناپائیداری کو بیان کرتے ہیں۔ پہلے مصرعے میں “ساقیا” کا خطاب شراب پیش کرنے والے کو کیا گیا ہے، جو یہاں زندگی کی خوشیوں یا وقت کے گزرنے کی علامت ہے۔ “چل چلاؤ” کا مطلب ہے کہ یہ محفل یا زندگی اب اپنے اختتام کی جانب گامزن ہے۔ شاعر یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وقت تیزی سے گزر رہا ہے اور اختتام قریب ہے۔
دوسرے مصرعے میں شاعر خواہش ظاہر کرتے ہیں کہ جب تک ممکن ہو، خوشیوں اور لذتوں کا سلسلہ جاری رہے۔ “ساغر چلے” کا مطلب ہے کہ شراب کا جام گردش میں رہے، جو خوشیوں، خوشگوار لمحوں، یا زندگی کی رونق کی علامت ہے۔ شاعر وقت کی قدر کرنے کی تلقین کر رہے ہیں کہ جب تک زندگی باقی ہے، اسے بھرپور طریقے سے گزارنا چاہیے۔
میرؔ زندگی کی مختصر مدت، وقت کی تیزی، اور خوشیوں کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ قاری کو یہ پیغام ملتا ہے کہ زندگی کے محدود وقت میں خوشی اور سکون کے لمحات کو ضائع نہیں کرنا چاہیے اور ہر لمحے کو قدر کے ساتھ گزارنا چاہیے۔
کس طرف سے آئے تھے کیدھر چلے
مفہوم: شاعر کہتا ہے کہ اے دردؔ، کیا تمہیں یہ معلوم ہے کہ یہ لوگ کہاں سے آئے تھے اور کس طرف جا رہے ہیں؟ ان کے وجود اور منزل کا کوئی پتہ نہیں۔
تشریح: میر دردؔ نے اس شعر میں انسانی زندگی کے اسرار و رموز اور اس کے ماخذ و منزل کی غیر یقینی کیفیت کو بیان کیا ہے۔ پہلے مصرعے میں شاعر سوال کرتے ہیں کہ یہ لوگ، یعنی انسان، اس دنیا میں کہاں سے آئے ہیں۔ یہ سوال انسانی وجود کے آغاز اور اس کی حقیقت پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔
دوسرے مصرعے میں شاعر مزید گہرائی میں جا کر کہتے ہیں کہ یہ لوگ جو اس دنیا میں آئے ہیں، آخر جا کہاں رہے ہیں؟ یہاں “کیدھر چلے” سے مراد انسان کا آخری مقام یا انجام ہے، جو ایک معمہ ہے۔ شاعر اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ انسان دنیاوی زندگی میں الجھا ہوا ہے اور اپنی اصلی منزل سے بے خبر ہے۔ یہ شعر زندگی کی گہرائی، اس کے مقصد، اور انسانی وجود کے فلسفے پر روشنی ڈالتا ہے
۔ میر دردؔ کا یہ کلام قاری کو غور و فکر پر مجبور کرتا ہے کہ دنیاوی زندگی کی حقیقت کیا ہے اور انسان کے وجود کی اصل منزل کہاں ہے۔ یہ شعر زندگی کی عارضی نوعیت اور اس کی معنویت کے بارے میں ایک گہری سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔
مزید دیکھیں:
Note: The password is hidden within this article. Read the entire article thoroughly, find the password, and enter it in the password field.
