ڈراما انار کلی کی کردار نگاری | PDF

ڈراما انار کلی کی کردار نگاری: ڈرامہ ایسی صنفِ ادب ہے جس میں کردار بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر کردار کمزور ہوں اور حقیقی زندگی کی ترجمانی نہ کر سکیں تو ڈرامہ اپنی تاثیر کھو دیتا ہے۔ ڈرامہ انارکلی کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس کے تمام کردار جاندار، حقیقت پسند اور زندگی سے بھرپور ہیں۔ ہر کردار اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے اور حقیقی رنگ پیش کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امتیاز علی تاج نے اپنے فن کے ذریعے اس ڈرامے کو بامِ عروج تک پہنچایا۔ انہوں نے ضرورت اور ماحول کے مطابق کرداروں میں روح ڈال دی ہے۔ ڈراما انار کلی کی کردار نگاری مندرجہ ذیل ہیں:

انار کلی کی کردار نگاری pdf
انار کلی کی کردار نگاری

انار کلی کی کردار نگاری

  • اکبر کا کردار
  • دلارام کا کردار
  • شہزادہ سلیم کا کردار
  • انار کلی کا کردار

اکبر کا کردار

شہنشاہ اکبر کا کردار اس ڈرامے کے چند اہم ترین کرداروں میں شامل ہے۔ یہ ایک تاریخی حیثیت رکھنے والا کردار ہے، جس کی تخلیق آسان نہ تھی۔ امتیاز علی تاج نے حقیقت پسندی کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے اکبر کے کردار کو تخلیق کیا، اس میں کہیں بھی تصنع یا بناوٹ نظر نہیں آتی۔

اکبر کے کردار میں ہمیں رعب و دبدبہ، شان و شوکت، غصہ اور جلال جیسے شاہانہ اوصاف بھرپور انداز میں دکھائی دیتے ہیں۔ وہ ہر منظر میں ایک بادشاہ کی حیثیت سے ابھرتا ہے۔ جب اکبر سلیم کو ڈانٹتا ہے اور سلیم کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں، تو اکبر کے الفاظ اس کی بادشاہت اور سختی کی عکاسی کرتے ہیں:

“آنسو! بادشاہ تمہیں معاف نہیں کر سکتا۔ سلیم، وہ مغل شہزادے کو یونہی ملک گیری میں گرفتار دیکھ سکتا ہے، سیاست کو الجھنوں میں بخود ہنستے دیکھ سکتا ہے، مگر آنسو! جا، اپنی ماں کے پاس جا، ان آنسوؤں کو تو اس کے ہاتھ بیچ سکتا ہے۔”(4)

تاہم، اسی کردار میں ہمیں ایک شفیق باپ کی جھلک بھی نظر آتی ہے، جب اکبر سلیم کا دل بہلانے کے لیے اسے ایک خوبصورت ہیرے کی انگوٹھی دیتا ہے۔ کردار کی یہ کشمکش، جہاں ایک طرف بادشاہ کا رعب اور دوسری طرف باپ کی شفقت نمایاں ہوتی ہے، اکبر کے کردار کو امر بنا دیتی ہے۔

اکبر ایک بادشاہ اور ایک باپ کی حیثیت سے پورے ڈرامے میں کشمکش کا شکار رہتا ہے۔ وہ اپنے بیٹے کی محبت کے سامنے جھکنا چاہتا ہے، مگر ہندوستان کی عظیم سلطنت، تخت و تاج، اور اپنی بادشاہی کا وقار اسے ایسا کرنے سے روکتا ہے۔ اکبر اپنے بیٹے کو سلطنت کا وارث بنانا چاہتا ہے، مگر جب وہ سلیم کو ایک کنیز کے عشق میں گرفتار دیکھتا ہے تو اس کا بادشاہی وقار مجروح ہوتا ہے۔ اس کے خواب چکنا چور ہو جاتے ہیں، اور وہ ایک مضبوط بادشاہ کے روپ میں سامنے آتا ہے۔

تاہم، جب انارکلی کے خلاف سازش کے الزامات سامنے آتے ہیں اور دل آرام اسے اکبر کے خلاف بھڑکاتی ہے، تو اکبر صرف انارکلی کو سزا دینے کا حکم دیتا ہے۔ یہاں پدری شفقت ایک بار پھر ابھر کر سامنے آتی ہے، اور اکبر عدل سے محروم نظر آتا ہے۔ یہ ایک بادشاہ کی شکست کا لمحہ ہے، اور ڈرامے کے آخری حصے میں وہ ایک شفیق باپ کے طور پر اپنے بیٹے سے محبت کی بھیک مانگتا ہے۔(3)

امتیاز علی تاج نے اکبر کے کردار میں تنازعات اور تضادات کو بڑی مہارت سے پیش کیا ہے۔ کہیں اکبر ایک مضبوط اور شاہانہ کردار کے طور پر نظر آتا ہے، تو کہیں وہ اپنی انسانی کمزوریوں کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ یہی تضاد اس کردار کو مزید حقیقت پسند اور ڈرامے کو امر بناتا ہے۔

آخر میں، اکبر کا کردار نہ صرف ڈرامے کا مرکزی نقطہ ہے بلکہ یہ ڈرامے کی فکری گہرائی اور مصنف کی مہارت کی بہترین مثال بھی ہے۔

دل آرام کا کردار

دل آرام اکبرِ اعظم کی منظورِ نظر کنیز ہے۔ وہ اپنی خوبصورتی، چاک و چوبند طبیعت، اور رقص و موسیقی کے فن میں مہارت کی بدولت بادشاہ کی خاص محفلوں کی زینت ہے۔ دل آرام نہ صرف بادشاہ کی پسندیدہ رقاصہ ہے بلکہ محل کی تقریبات کے اہتمام میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اپنی ذہانت اور کمالِ فن کے باعث وہ دربار کی تمام کنیزوں میں منفرد مقام رکھتی ہے۔

دل آرام کا کردار اس وقت ایک نیا موڑ لیتا ہے جب اس کی عدم موجودگی میں نادرہ نامی کنیز بادشاہ کے سامنے رقص کر کے انار کلی کا خطاب حاصل کر لیتی ہے۔ اس واقعے سے دل آرام کی حسد کی آگ بھڑک اٹھتی ہے، اور وہ انار کلی کے خلاف سازشوں کا جال بُننا شروع کر دیتی ہے۔ وہ اپنی ذہانت اور چالاکی سے شہنشاہ اکبر کو انار کلی کے قریب جانے سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے اور اپنی ہوشیاری سے انار کلی کو قابو میں رکھنے کی تدبیریں کرتی ہے۔

دل آرام کو اس بات کا خطرہ لاحق رہتا ہے کہ انار کلی اس کی جگہ نہ لے لے، اور اسی حسد کے تحت وہ سلیم اور انار کلی کی محبت کے خلاف سازشیں کرتی ہے۔ دل آرام کا کردار بے باکی، نڈر پن، اور فیصلہ سازی کی خوبیوں سے مزین ہے۔ وہ موقع کی مناسبت سے حالات کو اپنے حق میں موڑنے کا فن جانتی ہے اور اپنی ذہانت کی بدولت ہر موقع پر کامیاب رہتی ہے۔

دل آرام کا کردار ایک چالاک کنیز کے روپ میں ہمیں اپنی طاقت اور اثر و رسوخ کا مظاہرہ کرتا نظر آتا ہے۔ وہ سلیم سے اظہارِ محبت کرنے کی جرات بھی کرتی ہے اور انکار کے باوجود اپنے مقاصد کے لیے دوسروں کو قابو میں رکھنے میں کامیاب رہتی ہے۔ وہ انار کلی کو ڈرا دھمکا کر خاموش کروانے میں کامیاب ہو جاتی ہے، یہاں تک کہ انار کلی کو اس حد تک خوفزدہ کر دیتی ہے کہ وہ دل آرام کی بات ماننے پر مجبور ہو جاتی ہے۔

دل آرام اپنی چالاکی اور ذہانت کی بدولت نہ صرف انار کلی اور سلیم کی محبت کو ختم کرنے میں کامیاب ہوتی ہے بلکہ اپنی سازشوں کے ذریعے دونوں بادشاہوں، یعنی شہنشاہ اکبر اور شہزادہ سلیم، کو اپنی مرضی کے مطابق فیصلے کروانے پر بھی مجبور کر دیتی ہے۔

دل آرام کا کردار زندگی کی رعنائیوں سے بھرپور، ایک مکمل اور جامع کردار ہے جو وقت اور حالات کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالتا ہے۔ وہ اپنی ذہانت اور موقع شناسی کے باعث ڈرامے کا سب سے مضبوط اور اہم کردار نظر آتی ہے۔ یہی خصوصیات اسے “انار کلی” کے نمایاں ترین کرداروں میں شمار کرتی ہیں۔

شہزادہ سلیم کا کردار

سلیم اکبرِ اعظم کا اکلوتا بیٹا اور ہندوستان کی عظیم سلطنت کا وارث ہے۔ ولی عہد ہونے کے ساتھ ساتھ وہ اپنی والدہ کا لاڈلا، والد کی امیدوں کا مرکز اور ایک ایسی منتوں مرادوں کی اولاد ہے جسے ہمیشہ محبت اور توجہ ملی۔ یہی بے پناہ لاڈ پیار سلیم کی شخصیت پر گہرے اثرات چھوڑتا ہے۔ اس کی طبیعت میں لاپروائی، بے غرضی اور ایک قسم کا غرور شامل ہو جاتا ہے۔

سلیم کی پرورش محل کے شاہانہ ماحول میں ہوتی ہے، جہاں اسے ہمیشہ اپنی خواہشات پوری ہونے کی عادت رہی۔ انکار کا لفظ اس کے لئے اجنبی ہے، اور اسی ماحول نے اسے جذباتی، ناسمجھ، اور قدرے خودغرض بنا دیا۔ وہ جلد بازی میں فیصلے کرتا ہے اور ہر فیصلہ اپنے حق میں چاہتا ہے۔ محل کی چکاچوند اور مصنوعی زندگی نے اسے پابند بنا دیا ہے، جس سے وہ خود کو آزاد دیکھنا چاہتا ہے۔

سلیم کے والد، شہنشاہ اکبر، اس سے بے شمار امیدیں رکھتے ہیں۔ اکبر چاہتا ہے کہ سلیم میں وہ تمام خوبیاں موجود ہوں جو ایک مغل شہزادے اور ہندوستان کی عظیم سلطنت کے وارث کے لئے ضروری ہیں، مگر سلیم اپنے والد کی توقعات پر پورا اترنے میں ناکام رہتا ہے۔ وہ محل کے رسمی ماحول اور شاہانہ زندگی سے بیزار ہو کر ایک آزاد فضا کی تمنا کرتا ہے۔ خود سلیم کا یہ جملہ اس کے دل کی کیفیت کو خوب بیان کرتا ہے:

“جا شفق زار لہروں پر گاتا ہوا چلا جا اور خوش ہو کہ تو شہزادہ نہیں، ورنہ سنگ مر مر کی چھتوں کے نیچے اور بھاری بھر کم پردوں کے اندر تیرے گیت بھی دبی ہوئی آہیں ہوتے۔”

سلیم کی معصومیت اور ناسمجھی کا اظہار اس کی محبت میں نظر آتا ہے۔ وہ انار کلی سے محبت کرتا ہے، مگر اس محبت کو نبھانے کی صلاحیت سے محروم ہے۔ وہ بلند و بانگ دعوے تو کرتا ہے، مگر عملی اقدام اٹھانے سے قاصر رہتا ہے۔ انار کلی کی زندگی کے لئے اپنے والد کے حکم کو روکنے میں ناکام رہتا ہے اور اپنی محبوبہ کو موت کے گھاٹ اترتے دیکھ کر بھی بے عمل رہتا ہے۔(6)

سلیم کی یہ بے عملی، جذباتی کمزوری، اور فیصلہ سازی کی صلاحیت کا فقدان اسے ایک کمزور کردار بناتا ہے۔ وہ نہ تو ایک مغل شہزادے کی شان رکھتا ہے، نہ اپنے مقام اور حیثیت کا دفاع کر پاتا ہے۔ انار کلی کو سلیم سے بے پناہ امیدیں تھیں، مگر وہ ان تمام امیدوں پر پانی پھیر دیتا ہے۔ انار کلی کی موت کے وقت بھی سلیم کی بے بسی اور بے عملی اسے ایک ناکام عاشق کے طور پر پیش کرتی ہے۔

یوں، سلیم کا کردار نہ صرف ڈرامے کا سب سے کمزور کردار ہے بلکہ اس کی شخصیت میں تضادات اور کمزوریاں اسے ایک ناقابلِ فراموش، مگر ناکام کردار کے طور پر سامنے لاتی ہیں۔

انار کلی کا کردار

جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، انار کلی ڈرامے کا اہم ترین اور مرکزی کردار ہے۔ ڈرامے کا نام ہی اس کردار کے گرد گھومنے والی کہانی کی عکاسی کرتا ہے۔ انار کلی اکبر اعظم کی کنیزوں میں سے ایک ہے، جو اپنی خوبصورتی، معصومیت، اور شائستگی کے باعث ممتاز حیثیت رکھتی ہے۔ وہ ناچنے گانے کے فن میں ماہر ہے، اور یہی اس کی شخصیت کا ایک اہم پہلو ہے، جو دل آرام جیسے کرداروں میں حسد کے جذبات پیدا کرتا ہے۔

محل سرا میں ایک تقریب کے دوران انار کلی اپنے رقص کے ذریعے سب کو حیران کر دیتی ہے اور یوں وہ تمام دربار کی توجہ کا مرکز بن جاتی ہے۔ شہزادہ سلیم کی نگاہیں اس کی معصومیت اور دلکشی کی اسیر ہو جاتی ہیں، اور یہ التفات رفتہ رفتہ محبت میں بدل جاتا ہے۔

انار کلی پورے ڈرامے میں موجود رہتی ہے، مگر اس کا کردار مظلومیت اور سہمی ہوئی شخصیت کا آئینہ دار ہے۔ جب دل آرام انار کلی اور سلیم کی محبت کا راز اکبر اعظم پر فاش کرتی ہے، تو انار کلی کو شہنشاہ کی خفگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جو اس کے لیے ایک بڑی آزمائش ہے۔ شہزادے کی محبت ملنے کے باوجود انار کلی کے نصیب میں شہزادی کا مقام کبھی نہیں آتا، اور یہی اس کے کردار کا ایک بڑا المیہ ہے۔

انار کلی کی مظلومیت اور خاموشی اس کے کردار کی سب سے بڑی کمزوریاں ہیں۔ وہ شہزادے کی محبت حاصل کرنے میں نہ کھل کر اظہار کر پاتی ہے اور نہ ہی کسی عملی کوشش کا مظاہرہ کرتی ہے۔ وہ ایک کنیز ہونے کے باوجود، سلیم کے ساتھ تعلق کے باعث، اپنے اندر وہ جرات پیدا نہیں کر پاتی کہ اپنی محبت کے حق کے لیے آواز بلند کرے۔ یہی کمزوری اس کے کردار کو کہیں کہیں زندگی کی حقیقی قدروں سے دور دکھاتی ہے۔

تاہم، انار کلی کا ادب، احترام، شرم و حیا اور نسوانی وقار اسے مشرقی عورت کے ایک مثالی روپ میں پیش کرتے ہیں۔ انار کلی کی یہ خصوصیات شاید وہی ہیں، جو اسے سلیم کے دل کے قریب لے جاتی ہیں۔ اس کی معصومیت اور دل کی گہرائیوں میں چھپا دکھ اسے ایک ایسا کردار بناتے ہیں جو ناظرین کے دلوں کو چھو لیتا ہے۔

انار کلی کی مظلومیت کا اظہار اس کے الفاظ سے بخوبی ہوتا ہے:

“میری ماں! میں خوش ہونے والا دل کہاں سے لاؤں۔ تمہیں کیسے سمجھاؤں کہ میں کیوں غمگیں ہوں۔ اے کاش! میں اپنا دل کسی طرح تمہارے سینے میں رکھ دیتی۔ پھر دیکھتی تم کیسے کہتی ہو، انار کلی! تم خوش کیوں نہیں رہتی ہو۔”

یہ مظلومیت اور معصومیت ہی دل آرام جیسے کرداروں کے لیے آسانی پیدا کرتی ہیں، جو اپنی سازشوں کے جال میں انار کلی کو پھانس لیتی ہیں۔ انار کلی کا کردار اس کی تمام کمزوریوں کے باوجود اس قدر دلکش اور متاثر کن ہے کہ یہ ڈرامے کا سب سے یادگار پہلو بن جاتا ہے۔

مصنف امتیاز علی تاج نے اس کردار پر اپنی تمام تخلیقی توانائیاں صرف کی ہیں اور انار کلی کو ایک ایسا لازوال کردار بنایا ہے جو قارئین اور ناظرین کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ انار کلی کی معصومیت اور محبت کی گہرائی نے نہ صرف اسے بلکہ مصنف کو بھی ادب کی دنیا میں امر کر دیا۔

مزید دیکھیں

اضافی معلومات

سوال: شہزادہ سلیم کے والد کا اصل نام کیا تھا؟
جواب: شہزادہ سلیم کے والد کا اصل نام جلال الدین محمد اکبر تھا، جو مغلیہ سلطنت کے تیسرے بادشاہ تھے۔ اکبر اعظم کے لقب سے مشہور، انہوں نے اپنی حکمرانی کے دوران سیاسی، ثقافتی اور مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دیا۔ اکبر کی حکمت عملی اور تدبر نے مغلیہ سلطنت کو مضبوطی اور وسعت دی۔

سوال: انار کلی کی صنف کیا ہے؟
جواب: انارکلی ڈرامہ اردو ادب کی صنف “المیہ” سے تعلق رکھتا ہے۔ اس صنف کے ڈرامے عام طور پر غم و اندوہ اور جذباتی کشمکش پر مبنی ہوتے ہیں۔ انارکلی میں کرداروں کی محبت، تضاد، اور قربانی کے موضوعات کو المیہ انداز میں پیش کیا گیا ہے، جو قارئین اور ناظرین کے دلوں پر گہرا اثر چھوڑتا ہے۔

سوال: ڈرامہ سے کیا مراد ہے؟
جواب: ڈرامہ ایک ادبی صنف ہے جس میں کسی کہانی کو مکالموں اور کرداروں کے ذریعے پیش کیا جاتا ہے۔ یہ صنف ناظرین کے لیے تفریح کے ساتھ ساتھ اہم سماجی، اخلاقی یا جذباتی پیغام پہنچانے کا ذریعہ بھی ہوتی ہے۔ ڈرامے کے مکالمے اور مناظر اس کی کہانی کو زندہ اور پرکشش بناتے ہیں۔

سوال: انار کلی ڈرامہ کی اہمیت کیا ہے؟
جواب: انارکلی ڈرامہ اردو ادب کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ نہ صرف ایک ادبی شاہکار ہے بلکہ مغلیہ دور کی تاریخی اور ثقافتی جھلک بھی پیش کرتا ہے۔ اس ڈرامے نے اردو ادب میں ڈرامہ نگاری کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا اور محبت کی لازوال داستان کو ایک منفرد انداز میں بیان کیا۔

Note: The password is hidden within this article. Read the entire article thoroughly, find the password, and enter it in the password field.

Book Cover

ڈراما انار کلی کی کردار نگاری

Rating: ★★★★☆
  • Author: ravinotes.com

  • File Size: 977 KB

  • Format: PDF

  • Notes: Urdu

  • Price: Free

Leave a Comment