ڈراما انار کلی کا فنی جائزہ: سید امتیاز علی تاج نے اردو ادب میں کئی شعبوں میں گرانقدر خدمات انجام دی ہیں، لیکن ان کی سب سے نمایاں پہچان ڈرامہ نگاری ہے۔ ان کے مشہور ڈرامے انارکلی، خاطرہ فراط، اور قرطبہ کا قاضی اردو ادب کے تاریخی اور وقیع شاہکاروں میں شامل ہیں۔
تاریخی ڈراموں میں سید امتیاز علی تاج کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ تاریخ کے گمشدہ واقعات اور کرداروں کو اس انداز سے پیش کرتے ہیں کہ وہ ایک بار پھر زندہ محسوس ہوتے ہیں۔ ان کی تحریر میں نہ صرف تاریخی حقائق کی پابندی ہے بلکہ فنکارانہ مہارت اور جذبات کی گہرائی بھی نمایاں نظر آتی ہے۔
- یہ بھی پڑھیں: آغا حشر کاشمیری کی ڈراما نگاری | PDF
ذیل میں ہم ان کے مشہور ڈرامے انارکلی کے حوالے سے امتیاز علی تاج کی ڈرامہ نگاری پر تفصیلی بحث کرتے ہیں تاکہ ان کی فنی خوبیوں اور ادبی عظمت کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے۔
ڈراما انار کلی کا فنی جائزہ
- پلاٹ
- داخلی تصادم
- علامت نگاری
- ڈرامائی فضا
- کردار نگاری
- مکالمہ نگاری
- منظر نگاری
- تین وحدتیں
پلاٹ
امتیاز علی تاج کے مشہور ڈرامہ انارکلی کا پلاٹ اردو ڈراما نگاری کی ایک شاندار مثال ہے۔ اس ڈرامے میں تمام واقعات کو اس قدر خوبصورتی سے ایک لڑی میں پرویا گیا ہے کہ کہانی اپنی مکمل روانی اور مربوطیت کے ساتھ قاری یا ناظر کو متاثر کرتی ہے۔
انارکلی سے قبل اردو ڈراموں میں دوہرے پلاٹ کا تصور ملتا تھا، مگر ان کے ضمنی پلاٹ مرکزی پلاٹ کے ساتھ پوری طرح ہم آہنگ نہیں ہوتے تھے۔ ان کو الگ کر دیا جائے تو مرکزی کہانی پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا تھا۔ لیکن انارکلی میں زعفران اور ستارہ کی کہانی کو مرکزی کہانی کے ساتھ اس طرح جوڑ دیا گیا ہے کہ ان کو علیحدہ کرنا ممکن نہیں۔
امتیاز علی تاج نے انارکلی کو روایتی طویل ڈراموں کے برعکس صرف تین ایکٹس میں تقسیم کیا ہے۔ یہ تقسیم نہایت فطری اور موثر ہے۔ پہلے ایکٹ میں تعارف ہوتا ہے، دوسرے میں کہانی عروج پر پہنچتی ہے، اور تیسرے ایکٹ میں انجام سامنے آتا ہے۔ تین ایکٹس کی یہ ترتیب ڈرامے کو غیر ضروری طوالت اور پیچیدگی سے بچاتی ہے اور پلاٹ کو منظم اور دلچسپ بناتی ہے۔
پروفیسر عبدالسلام کے مطابق:
“انارکلی کا پلاٹ سادہ اور مربوط ہے، اور کہانی ایک موزوں رفتار سے ارتقاء کی طرف بڑھتی ہے۔”(0)
ڈرامہ نگاری میں یہ ضروری ہے کہ آغاز مختصر اور مؤثر ہو تاکہ ناظرین یا قارئین فوری طور پر کہانی کی طرف متوجہ ہو جائیں۔ تاج نے ڈرامے کا آغاز ایک ایسے مناسب مقام سے کیا ہے جو نہ صرف دلچسپی پیدا کرتا ہے بلکہ کہانی کی کامیابی میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔
داخلی تصادم
انارکلی میں داخلی تصادم کی کئی مثالیں موجود ہیں، جو کہانی کی شدت اور ڈرامائی کشمکش کو بڑھا دیتی ہیں۔ شہزادہ سلیم کے اندرونی جذبات اور اس کی ذمہ داریوں کے درمیان شدید تصادم دکھایا گیا ہے۔ محبت اسے اپنی طرف کھینچتی ہے، لیکن اس کا والد اکبر اسے امور سلطنت کی طرف راغب کرنا چاہتا ہے۔
اس تصادم کے ذریعے محبت اور طاقت کے درمیان ایک ایسی کشمکش پیش کی گئی ہے جہاں دونوں میں مفاہمت کی کوئی گنجائش نہیں۔ اکبر کی قوت اور سلیم کی ضد ایک دوسرے سے ٹکرا جاتی ہیں، جس کے نتیجے میں شدت پسند اور جذباتی تصادم ناگزیر ہو جاتا ہے۔
علامت نگاری
علامت نگاری ادب کی ایک اہم تکنیک ہے، جو معنی اور تاثر میں گہرائی پیدا کرتی ہے۔ امتیاز علی تاج نے انارکلی میں علامتوں کا نہایت خوبصورتی سے استعمال کیا ہے تاکہ کرداروں کی ذہنی کیفیت اور جذبات کو اجاگر کیا جا سکے۔
مثال کے طور پر، شطرنج اکبر اور سلیم کے درمیان ایک کھیل کے طور پر پیش کی گئی ہے، جو صرف شاہی محل میں جشن کے ایک عام منظر کی عکاسی نہیں کرتی بلکہ محبت اور طاقت کے درمیان جاری کشمکش کی علامت ہے۔ شطرنج کے پردے میں ڈراما نگار نے عشق و محبت کے اس پیچیدہ کھیل کی طرف اشارہ کیا ہے جو شاہی قلعے میں جاری ہے۔ اس قسم کی علامت نگاری نے انارکلی کے تاثر میں مزید گہرائی اور معنویت پیدا کر دی ہے۔
ڈرامائی فضا
انارکلی کی سب سے نمایاں خوبی اس کی ڈرامائی فضا ہے، جو اپنے تحیر اور اثر انگیزی کی بدولت قاری یا ناظر کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ امتیاز علی تاج نے منظر نگاری اور مکالمہ نگاری دونوں کے ذریعے ایسی فضا قائم کی ہے جس میں جذبات اور ماحول کی گہرائی پوری شدت کے ساتھ محسوس کی جا سکتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مصنف نے انارکلی کی تخلیق میں شاعرانہ جِبلّت کی بلندیوں کو چھو لیا ہے۔ ڈرامے کی فضا قاری کے احساسات کو جھنجھوڑتی ہے اور اس کی جذباتی کیفیت کو بیدار کرتی ہے، جو کہ اس کی بڑی فنی کامیابی ہے۔
کردار نگاری
انارکلی کے کردار اپنے منفرد اوصاف اور حقیقت پسندی کی بنا پر ڈرامے کو کامیاب اور دلچسپ بناتے ہیں۔ اکبر، سلیم، اور انارکلی اس ڈرامے کے کلیدی کردار ہیں، جب کہ دل آرام، انارکلی کی ماں، بختیار اور دیگر ضمنی کردار کہانی کے تسلسل اور کشمکش کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
- یہ بھی پڑھیں: ڈراما انار کلی کی کردار نگاری | PDF
مصنف نے اپنے کرداروں کی شخصیت اور صورت کو اس طرح پیش کیا ہے کہ وہ حقیقی معلوم ہوتے ہیں۔ انارکلی کا تعارف نہایت شاعرانہ انداز میں کرایا گیا ہے:
“چپکی رنگ میں اگر سرخی کی ہلکی یا خفیف سی جھلک نہ ہو تو شاید بیمار کبھی جائے۔ خدو خال شاعروں کے معیار حسن سے بہت مختلف، اس کا چہرہ دیکھ کر ہر ایک کو پھولوں کا خیال ضرور آتا ہے۔”
ڈراما نگار نے ہر کردار کے قول و فعل میں ہم آہنگی رکھی ہے، اور کوئی تضاد محسوس نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ انارکلی میں کردار نگاری اپنے کمال پر نظر آتی ہے۔
مکالمہ نگاری
انارکلی کے مکالمے جاندار، پراثر اور موقع محل کے عین مطابق ہیں۔ ہر کردار اپنی حیثیت اور ماحول کے مطابق گفتگو کرتا ہے، جس سے کہانی کی فنی گہرائی اور شدت میں اضافہ ہوتا ہے۔ مکالمے نہ صرف دلکش اور مؤثر ہیں بلکہ ڈرامے کی تجسس انگیز کیفیت کو بڑھاتے ہیں۔
پروفیسر محمد سعید کے بقول:
“الفاظ میں شاعری ہے مگر یک رنگی نہیں، حرکات میں زندگی ہے مگر حقیقت میں۔ غرض جو لفظ ہے دلنشین ہے اور جو حرکت ہے دلکش ہے۔”(2)
مصنف نے مکالموں کی تخلیق میں کرداروں کی نفسیات اور ان کی ذہنی سطح کا خاص خیال رکھا ہے، جس کے باعث انارکلی کے مکالمے ادب اور فن کا بہترین نمونہ ہیں۔ مکالمہ نگاری کے حسن نے انارکلی کو ایک شاہکار ڈراما بنا دیا ہے۔
منظر نگاری
امتیاز علی تاج منظر نگاری میں کمال کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ان کے قلم کی تصویر کشی نے ڈرامہ انارکلی کو فن اور خیال کا ایک زندہ مرقع بنا دیا ہے۔ وہ جس منظر کو پیش کرتے ہیں، اس کی تفصیل قاری کی آنکھوں کے سامنے حقیقی صورت میں اُبھر آتی ہے۔ مثال کے طور پر، سلیم کے محل کا منظر یوں بیان کرتے ہیں:
“گھنے پیڑوں کے طویل سلسلے میں کھجور سے کم بلند اور ساکت درخت کالے کالے نظر آرہے تھے۔”(3)
یہ منظر اپنی مثال آپ ہے اور قارئین کو ماحول کی گہرائی کا احساس دلاتا ہے۔ تاہم، ڈرامے کی تکنیک کے لحاظ سے بعض ناقدین کے نزدیک یہ منظر کچھ طویل ہو کر کہانی کی روانی پر اثر انداز ہوتا ہے، جسے ایک فنی نقص سمجھا جا سکتا ہے۔
تین وحدتیں
ڈرامے کی فنی خصوصیات میں تین وحدتوں (وحدتِ زبان، وحدتِ مکان، اور وحدتِ تاثر) کا خاص خیال رکھا گیا ہے، جو پلاٹ کو مستحکم اور مربوط بنانے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔
- وحدتِ مکان: ڈرامے کے تمام مناظر شاہی قلعے کے اندر پیش کیے گئے ہیں، جس میں کل تیرہ مناظر شامل ہیں: چار مناظر سلیم کے ایوان کے، ایک دیوان خاص کے اندر، دو دیوان عام کے باہر، اور سات قلعے کے دیگر حصوں کے ہیں۔ اس طرح پورا ڈراما ایک ہی مقام پر مرکوز رہتا ہے، جس سے وحدت مکان کی شرط مکمل ہو جاتی ہے۔
- وحدتِ زمان: ڈرامے کے واقعات کا دورانیہ چوبیس گھنٹے سے تجاوز نہیں کرتا۔ کہانی میں مناسب وقفے شامل کیے گئے ہیں تاکہ تمام واقعات کو فطری انداز میں پیش کیا جا سکے۔ یہ ڈراما وحدت زمانی کی شرط بھی پورا کرتا ہے، جو اسے زیادہ منظم اور فنی طور پر مضبوط بناتا ہے۔
- وحدتِ تاثر: ڈرامے میں واقعات کی بھرمار نہیں بلکہ کشمکش کو نمایاں طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اس سے کہانی میں وحدتِ تاثر پیدا ہوتا ہے، جو کہ ارسطو کے مطابق کسی بھی کامیاب ڈرامے کی ایک لازمی خصوصیت ہے۔ ان تین وحدتوں کی پابندی نے انارکلی کو ایک مربوط اور کامیاب ڈراما بنا دیا ہے۔
مجموعی جائزہ
ڈرامہ انارکلی سید امتیاز علی تاج کی فنی مہارت اور تخلیقی صلاحیتوں کا ایک خوبصورت امتزاج ہے۔ اس ڈرامے میں تمام فنی اجزاء مثلاً دلچسپ بنیادی خیال، مؤثر نقطۂ آغاز، کشمکش اور تصادم کا جاندار مواد، پلاٹ کی متوازن اور مربوط تقسیم، کردار نگاری، اور منظر کشی کے عناصر کو انتہائی خوبصورتی اور مہارت کے ساتھ یکجا کیا گیا ہے۔
انارکلی اردو ادب کا ایک شاہکار ہے جو اپنی فنی خوبیوں اور زندگی کی عکاسی کے باعث ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
مزید دیکھیں
Note: The password is hidden within this article. Read the entire article thoroughly, find the password, and enter it in the password field.