ڈراما انار کلی کا خلاصہ اور موضوع: ڈرامہ “انارکلی” امتیاز علی تاج کی وہ لازوال تخلیق ہے جو محبت، سیاست، اور طبقاتی فرق کی کشمکش کو بہترین انداز میں پیش کرتی ہے۔ مغلیہ سلطنت کے پس منظر میں لکھا گیا یہ ڈرامہ شہزادہ سلیم اور کنیز انارکلی کی محبت کی المیہ داستان کو بیان کرتا ہے، جہاں جاگیردارانہ نظام اور سماجی روایات محبت کے جذبات کو کچل دیتے ہیں۔
اس ڈرامے میں نہ صرف انسانی جذبات کی شدت اور پیچیدگی کو اجاگر کیا گیا ہے بلکہ سماجی اور معاشرتی تضادات کو بھی حقیقت نگاری کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ “انارکلی” آج بھی اپنی مضبوط کہانی، جذباتی گہرائی، اور فنی مہارت کے باعث اردو ادب کا ایک شاہکار ہے۔ ذیل میں ہم انارکلی کا موضوع، بنیادی خیال ، خلاصہ اور پیغام کے بارے میں تفصیل سے بات کرتے ہیں۔
ڈراما انارکلی کا موضوع
انارکلی کا موضوع ایک کنیز اور شہزادے کی محبت کی داستان ہے، جو جاگیردارانہ نظام کی سختیوں اور سماجی تقسیم کے تناظر میں پیش کی گئی ہے۔ اس ڈرامے کا مرکزی خیال محبت کی اس کشمکش کو اجاگر کرتا ہے جس میں سلیم، اپنی جاگیردارانہ حیثیت کے تمام تر دباؤ کے باوجود، انارکلی کی طرف کھنچتا ہے۔ یہ کشمکش دراصل محبت اور سماجی نظام کے درمیان ہے، جہاں سلیم کے ماحول اور انارکلی کی سماجی حیثیت کے درمیان تضاد دکھایا گیا ہے۔
- یہ بھی دیکھیں: ڈراما انار کلی کی کردار نگاری | PDF
امتیاز علی تاج کی تخلیقی کامیابی یہ ہے کہ انہوں نے انسانی جذبات کو ان کے سماجی اور معاشرتی پس منظر سے منقطع نہیں کیا بلکہ حقیقت نگاری کے ایک نئے معیار کے ساتھ پیش کیا۔ اس پہلو نے انارکلی کو اردو ڈراما نگاری میں ایک منفرد مقام عطا کیا ہے۔
ڈراما انارکلی کا بنیادی خیال
ڈرامے کی کہانی اور اس کا بنیادی خیال ہی اس کی جان ہوتے ہیں۔ امتیاز علی تاج نے ایک ایسی کہانی کا انتخاب کیا جو ہر رومانی دل کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ یہ کہانی مغلیہ سلطنت کے عروج کے دور کی عکاسی کرتی ہے، جب اکبر اپنی حکمت عملی اور سیاسی بصیرت کے سبب ایک عظیم حکمران تھا۔ تاہم، یہ کہانی اکبر کی زندگی کے ایک ایسے رخ کو پیش کرتی ہے جہاں مصلحتیں محبت پر غالب آ جاتی ہیں۔
اکبر کو اپنے خوابوں اور ریاستی ذمہ داریوں سے محبت تھی، لیکن سلیم کی محبت اور انارکلی کے ساتھ اس کا تعلق اکبر کی ان مصلحتوں کو چیلنج کرتا ہے۔ یہ ڈرامہ انسانی جذبات، سماجی تقسیم اور جاگیردارانہ نظام کی بے رحمی کو سامنے لاتا ہے۔
ڈراما انار کلی کا خلاصہ
امتیاز علی تاج کا یہ مشہور ڈراما مغل شہنشاہ اکبر اعظم کے بیٹے شہزادہ سلیم اور شاہی محل کی ایک کنیز انارکلی کی داستانِ محبت پر مبنی ہے۔ ڈرامے کے آغاز ہی سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ شہزادہ سلیم محل کی ایک خوبصورت کنیز، نادرہ بیگم، سے دل لگا بیٹھا ہے، جسے اکبر نے “انارکلی” کا خطاب دے رکھا ہے۔ انارکلی کی یہ حیثیت محل میں اسے دیگر کنیزوں سے ممتاز بناتی ہے۔
دوسری طرف، دل آرام، جو اکبر اعظم کی ایک اور مقرب کنیز ہے، شہزادہ سلیم کو دل ہی دل میں چاہتی ہے۔ تاہم، اسے اپنی محبت کا اظہار کرنے کا کبھی موقع نہیں ملتا۔ جب دل آرام دیکھتی ہے کہ انارکلی سلیم کی محبت کا مرکز بن چکی ہے اور اس کی عزت افزائی محل میں عروج پر ہے، تو وہ حسد اور رقابت میں مبتلا ہو جاتی ہے۔(9)
دل آرام انارکلی کو اپنی رقیب تصور کرتی ہے اور اس کے خلاف سازشیں کرنے لگتی ہے۔ ایک موقع پر جب جشنِ نوروز کا اہتمام کیا جا رہا ہوتا ہے، تمام انتظامات کی ذمہ داری دل آرام کو سونپ دی جاتی ہے۔ یہ جشن محل کے لیے نہایت اہمیت رکھتا تھا، اور دل آرام اسے اپنی سازش کے لیے استعمال کرتی ہے۔
جشن کے دوران انارکلی کو اپنے رقص کا مظاہرہ کرنا تھا۔ دل آرام نے بڑی چالاکی سے جشن کے لیے شیشوں اور آئینوں کی ترتیب اس طرح رکھی کہ بادشاہ اکبر شہزادہ سلیم کی حرکات و سکنات کو واضح طور پر دیکھ سکے۔ ۔ جب انارکلی کے گانے کی باری آتی ہے تو دلآرام پانی میں شراب ملا کر اسے پلا دیتی ہے اور اسے فیضی کی ایک ایسی غزل گانے کے لیے کہتی ہے جس میں عاشق کے جذبات کو بے حد والہانہ انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
شراب کے سرور میں انارکلی اپنی موجودگی اور ماحول سے بیگانہ ہو جاتی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ سلیم کے علاوہ کسی اور کے وجود کو خاطر میں نہیں لاتی۔
انارکلی کی اس کیفیت کو سب محسوس کرتے ہیں، حتیٰ کہ شہزادہ سلیم بھی اشاروں میں اسے روکنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن دلآرام کی سازش کامیاب ہو جاتی ہے، اور اکبر آئینوں میں یہ سب دیکھ لیتا ہے۔ اکبر غضب ناک ہو کر انارکلی کو فوراً قید کرنے کا حکم دے دیتا ہے۔
- یہ بھی دیکھین: آغا حشر کاشمیری کی ڈراما نگاری | PDF
اکبر کو یہ گلہ ہوتا ہے کہ سلیم نے ایک کنیز کو چنا، اور وہ اپنی توقعات کے برعکس شہزادے کی اس حرکت پر نالاں ہوتا ہے۔ اس دوران دلآرام بادشاہ کو بتاتی ہے کہ اس نے سلیم اور انارکلی کو اکبر کے خلاف سازش کرتے ہوئے خود سنا ہے، اور یہ بھی دعویٰ کرتی ہے کہ انارکلی نے سلیم کو بغاوت پر آمادہ کیا۔
ادھر قید خانے کا داروغہ اکبر کے حضور پیش ہو کر شکایت کرتا ہے کہ سلیم نے بزورِ شمشیر انارکلی کو قید سے آزاد کرنے کی کوشش کی، لیکن بڑی مشکل سے اسے روک لیا گیا۔
یہ سب سن کر اکبر غصے سے بے قابو ہو جاتا ہے اور اسی وقت انارکلی کو زندہ دیوار میں چنوا دینے کا حکم صادر کر دیتا ہے۔ اگلے دن صبح انارکلی کو زندہ دیوار میں چنوا دیا جاتا ہے۔ جب سلیم کو انارکلی کی موت کی خبر ملتی ہے تو وہ شدید غم و غصے میں چاہتا ہے کہ کچھ کرے، لیکن اسے بتایا جاتا ہے کہ وہ نظر بند ہے اور باہر نہیں جا سکتا۔
اسی دوران سلیم کا سامنا دلآرام سے ہوتا ہے، اور دلآرام خود اقرار کرتی ہے کہ انارکلی کی موت کی اصل ذمہ دار وہی ہے۔ غم و غصے اور جنون کے عالم میں سلیم دلآرام کا گلا دبا دیتا ہے اور اسے مار ڈالتا ہے۔(8)
جب اکبر کو اس واقعے کی اطلاع ملتی ہے، تو وہ فوراً سلیم کے پاس پہنچتا ہے۔ اکبر سلیم سے مخاطب ہو کر اسے گلے لگانے اور باپ کہہ کر پکارنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن سلیم اسے پہچاننے سے انکار کر دیتا ہے۔
اکبر شکست خوردگی اور مایوسی کے عالم میں مسند پر بیٹھ جاتا ہے، اور اس کی ماں اسے تسلی دیتے ہوئے اس کا سر اپنے سینے سے لگا لیتی ہے۔ یہ منظر اکبر کی بے بسی اور سلیم کے دل ٹوٹنے کی شدت کو اجاگر کرتا ہے، اور ڈرامے کی المناک فضا کو مزید گہرا کر دیتا ہے۔
یہ واقعہ محبت، سیاست، سازش، اور خاندانی رشتوں کی کشمکش کا شاہکار منظر پیش کرتا ہے، جو “انارکلی” کو اردو ادب کا ایک لازوال المیہ ڈرامہ بناتا ہے۔
پیغام
ڈرامہ انارکلی کے ذریعے امتیاز علی تاج نے محبت، مادیت، اور طبقاتی فرق جیسے موضوعات کو نہایت مؤثر انداز میں پیش کیا ہے۔ شہزادے اور ایک کنیز کے خیالات اور جذبات کو یکساں کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ڈرامہ نگار نے غریب انسان کی محبت کو سماج کی نظر سے دیکھنے کا حوالہ دیا ہے اور یہ دکھایا ہے کہ کیسے معاشرتی اقدار اور مادیت پرستی محبت کے جذبات کو کچل دیتی ہیں۔(0)
اکبر کے خیالات مادہ پرستی اور اقتدار کی ترجیح پر مبنی ہیں، جو اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ سماجی نظام صدیاں گزرنے کے باوجود انہی پرانی روشوں پر قائم ہے۔ طبقاتی اونچ نیچ اور طاقت و حیثیت کی پاسداری آج بھی اتنی ہی نمایاں ہے جتنی ماضی میں تھی، اور یہی پہلو ڈرامے کو آج کے دور میں بھی معنویت بخشتا ہے۔
مزید دیکھیں
Note: The password is hidden within this article. Read the entire article thoroughly, find the password, and enter it in the password field.