نظم کا تعارف، اقسام اور جدید نظم: نظم اردو شاعری کی ایک اہم صنف ہے جو خیالات و جذبات کے اظہار کا موثر ذریعہ سمجھی جاتی ہے۔ یہ روایت اور جدت کے امتزاج سے تشکیل پاتی ہے اور مختلف ادوار میں متنوع اسالیب میں لکھی جاتی رہی ہے۔ نظم کو اس کی ہیت، موضوع اور انداز بیان کے اعتبار سے کئی اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے، جن میں پابند نظم، آزاد نظم، معرّی نظم اور نثری نظم شامل ہیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ نظم نے روایتی ڈھانچے سے نکل کر جدید فکری اور فنی رویوں کو بھی اپنا لیا، جس کے نتیجے میں جدید نظم کا تصور ابھرا۔ اس مضمون میں نظم کی تعریف، اس کی اقسام اور جدید اردو نظم کے ارتقا پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔
نظم کا تعارف
نظم کے لغوی معنی پرونے کے ہیں، جیسے موتیوں کو دھاگے میں پرونا، کسی چیز کو ترتیب دینا، یا اسے ایک لڑی میں پرو دینا۔ اصطلاح میں نظم اس تحریر کو کہا جاتا ہے جس میں وزن اور بحر کا اہتمام کیا گیا ہو۔ یعنی نظم وسیع تر مفہوم میں شاعری کو کہا جاتا ہے، جبکہ اس کی ضد نثر ہے، جس میں وزن اور بحر کی پابندی ضروری نہیں ہوتی۔
اگر نظم کو وسیع معنوں میں لیا جائے تو اس میں شاعری کی تمام اصناف شامل ہو جاتی ہیں، جیسے کہ مرثیہ، قصیدہ، غزل، مثنوی، شہر آشوب، رباعی اور قطعہ وغیرہ۔ لیکن نظم کا لفظ بعض اوقات محدود معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے، جس کے تحت نظم ایک مخصوص صنفِ سخن ہے اور اسے “موضوعاتی نظم” بھی کہا جاتا ہے۔
ادب کی رو سے اشعار کے ایسے مجموعے کو نظم کہا جاتا ہے جو کسی ایک خیال یا مرکزی موضوع کے تحت لکھے گئے ہوں۔
پروفیسر احتشام نظم کی تعریف یوں کرتے ہیں:
“اشعار کا ایسا مجموعہ جس میں ایک مرکزی خیال ہو۔ اس کے لیے کسی مخصوص موضوع کی قید نہیں اور نہ ہی اس کی کوئی معین ہیئت ہے۔”
ہیئت اور موضوع کے لحاظ سے نظم کی اقسام
نظم یا شعری اصناف کو ہیئت اور موضوع کے حوالے سے دو بڑی اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
- وہ اصناف جو ایک مخصوص ہیئت کی بنا پر پہچانی جاتی ہیں، جیسے غزل، مثنوی، رباعی وغیرہ۔
- وہ اصناف جو اپنے مخصوص موضوعات کی وجہ سے ممتاز ہوتی ہیں، جیسے مرثیہ، شہر آشوب، قصیدہ وغیرہ۔
یہاں یہ نکتہ بھی واضح رہے کہ بعض اصناف، جیسے مثنوی، ایک مخصوص ہیئت بھی رکھتی ہیں اور ان کے موضوعات بھی مخصوص ہوتے ہیں۔
نظم کی ارتقائی صورتیں
اردو ادب میں موضوعاتی نظم کی چار بڑی صورتیں دیکھنے کو ملتی ہیں، جو اس کے ارتقائی مراحل کو ظاہر کرتی ہیں:
- پابند نظم
- معرّی نظم
- آزاد نظم
- نثری نظم
یہ چاروں اقسام دراصل نظم کے فنی اور موضوعاتی ارتقا کی علامت ہیں، جن سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اردو شاعری میں نظم نے وقت کے ساتھ کس طرح نئی جہات اختیار کیں اور مختلف اسالیب میں ڈھلتی گئی۔
نظم کی اقسام(بلحاظ ہیت)
- نظم مُعٰری
- نثری نظم
- آزاد نظم
- پابند نظم
نظمِ معرّٰی
معرّٰی یا معرا کے لغوی معنی برہنہ یا خالی کے ہیں، لیکن شاعری کی اصطلاح میں نظمِ معرّٰی ایسی نظم کو کہتے ہیں جس کے تمام مصرعوں کے ارکان تو یکساں ہوں، مگر ان میں قافیے کی پابندی نہ ہو۔ اردو میں اسے غیر مقفیٰ نظم بھی کہا جاتا ہے، جبکہ انگریزی میں اسے بلینک ورس (Blank Verse) )کہتے ہیں۔
قدیم شعرا کے ہاں قافیے کی شرط لازمی سمجھی جاتی تھی، مگر جدید شعراء میں بعض نے اسے رفعتِ خیال کی راہ میں رکاوٹ سمجھ کر غیر ضروری قرار دیا۔ مولانا حالی جیسے بلند پایہ شاعر نے بھی اس بات کا اعتراف کیا کہ قافیے کی سخت پابندی، ادائے مطلب میں خلل ڈالتی ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
“یورپ میں آج کل بلینک ورس یعنی غیر مقفی نظم کا بہ نسبت مقفی نظم کے زیادہ رواج ہے۔ اگرچہ قافیہ بھی وزن کی طرح شعر کا حسن بڑھا دیتا ہے، مگر اس کی سخت قید شاعر کو بلاشبہ اس کے فرائض ادا کرنے سے باز رکھتی ہے۔ جس طرح صنائع لفظی کی پابندی معنی کا خون کر دیتی ہے، اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ قافیہ کی قید ادائے مطلب میں خلل انداز ہوتی ہے۔”
یہی احساس اردو شاعری میں نظمِ معرّٰی کے رجحان کا باعث بنا۔ اردو میں اس کا ابتدائی تجربہ مولانا عبدالحلیم شرر اور اسماعیل میرٹھی نے کیا، جبکہ تصدق حسین خالد، مجید امجد، میرا جی اور ن۔م راشد نے اسے مزید وسعت دی۔
نظمِ معرّٰی کی مثالیں
اسماعیل میرٹھی کی نظم “تاروں بھری رات” ملاحظہ کریں:
کہ چمک دمک رہے ہو
تمہیں دیکھ کر نہ ہووے
مجھے کس طرح تحیر
کہ تم اونچے آسماں پر
جو ہے کل جہاں سے اعلیٰ
ہوئے روشن اس روش سے
کہ کسی نے جڑ دیے ہیں
گہر اور لعل گویا
اسی طرح پروین شاکر کی نظم “خوشبو کی زبان”, جو نظمِ معرّٰی کی ایک عمدہ مثال ہے:
بہت عجیب عبادت بڑی ادق تحریر
یہ سارے حرف مری حد فہم سے باہر
میں ایک لفظ بھی محسوس کر نہیں سکتی
مجھے یہ لگتا ہے جیسے میں جانتی ہوں انہیں
ازل سے میری سماعت ہے آشنا ان سے
یہ وہ زباں ہے جسے ترا لمس حاصل ہے
ترے قلم نے بڑے پیار سے لکھا ہے انہیں
زبان کوئی بھی ہو خوشبو کی وہ بھلی ہوگی!
یہ نظم رفعتِ تخیل اور داخلی احساسات کی بہترین مثال ہے، جہاں شاعرہ نے الفاظ کی خوشبو میں لپٹے جذبات کو قافیے کی قید کے بغیر مؤثر انداز میں بیان کیا ہے۔
نظمِ معرّٰی اردو شاعری میں ایک جدید تجربہ ہے، جس نے خیالات کے اظہار کو مزید وسعت دی اور شاعری کو نئی جہت عطا کی۔
نثری نظم
اردو شعری ادب میں نثری نظم ایک نووارد صنف ہے، اور اس کی روایت ابھی مکمل طور پر مستحکم نہیں ہوئی۔ بعض لوگ تو اس کا نام بھی حیرت سے لیتے ہیں اور تعجب کا اظہار کرتے ہیں کہ نظم اور وہ بھی نثر کی صورت میں؟ چنانچہ کچھ لوگوں نے اسے “نظمِ منثور” کہا، جبکہ کچھ نے “نثرِ لطیف” کا نام دے کر اسے اصنافِ نثر میں شمار کیا۔
استادِ گرامی ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کے مطابق “نثرِ لطیف” اس صنف کا زیادہ موزوں نام ہے، اسی لیے وہ نثری نظم کو اصنافِ نثر کے ذیل میں شمار کرتے ہیں۔
اردو میں نثری نظم دراصل انگریزی ادب سے مستعار لی گئی ہے اور اس کی بنیاد Prose Poem پر رکھی گئی ہے۔ یہ صنف تمام عروضی پابندیوں سے آزاد ہے اور کسی بھی شعری آہنگ سے بیگانہ ہے، لیکن پھر بھی اس میں خیالات کی پرواز، گہرائی، علامتی اظہار اور داخلی واردات کو نمایاں کیا جاتا ہے۔
اہم روابط
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کے مطابق اردو میں یہ تجربہ نیا نہیں۔ سب سے پہلے نومبر 1929ء میں حکیم محمد یوسف حسن نے “نیرنگِ خیال” میں “پنکھڑیاں” کے نام سے ایک مجموعہ شائع کیا، جو نثری نظم سے مشابہ تھا۔ اس کے بعد حسن لطیفی نے 1930ء میں اپنی بعض تحریروں کو “افکارِ پریشاں” کے عنوان سے پیش کیا۔ یوں آج کی نثری نظم انہی ابتدائی تجربات کی بازگشت ہے۔
نثری نظم کے نمایاں شعرا
اردو میں نثری نظم کے حوالے سے افتخار جالب، انیس ناگی، مبارک احمد، زاہد ڈار، افتخار امام صدیقی، نصیر احمد ناصر، سارہ شگفتہ، محمد صلاح الدین پرویز، سلیم آغا، اصغر ندیم سید، زہرہ نگاہ، زاہد امروز، خالد ریاض خالد اور علی محمد فرشی کے نام اہم ہیں۔
نثری نظم کی مثالیں
علی محمد فرشی کی نثری نظم “رات کی گود” ملاحظہ کریں:
روشن خیال لیے جاگتے رہتے ہو
اونگھا ہوا زرد چاند
تمہارے کسی سوال کا جواب دے نہیں پاتا
سورج تمہاری آنکھوں سے
خمار چھین لیتا ہے
دن تمہیں گندم کے دانوں کی تلاش میں
سرگرداں رکھتا ہے
باسی شام تمہارے ماتھے پہ
سرد لوریوں کی پٹیاں رکھتی ہے
مگر تم سو نہیں سکتے
تم کیوں جاگتے رہتے ہو؟
یہ نظم داخلی کرب، رات کی تنہائی، اور انسانی اضطراب کی عمدہ تصویر پیش کرتی ہے۔
نثری نظم کی اہمیت
نثری نظم جدید اردو شاعری میں ایک منفرد تجربہ ہے جو خیال کی شدت، علامتی اظہار، اور جذباتی کیفیات کو روایتی شاعری کی پابندیوں سے آزاد ہو کر بیان کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ صنف اب بھی بحث کا موضوع ہے، مگر جدید ادب میں اس کی جگہ بتدریج مستحکم ہو رہی ہے۔
آزاد نظم
جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، آزاد نظم ہر قسم کی عروضی پابندی سے آزاد ہوتی ہے۔ اسے انگریزی میں Free Verse کہا جاتا ہے۔ آزاد نظم فرانس کی پیداوار ہے، اور اردو ادب میں یہ انگریزی کے توسط سے داخل ہوئی۔ انگریزی میں اس کا رواج قدیم زمانے سے موجود تھا، اور بعد ازاں یہ اردو شاعری میں بھی اپنے قدم جما چکی ہے۔
بعض جدید شاعروں نے پہلے نظمِ معرّٰی کو فروغ دینے کی کوشش کی، جس میں قافیے اور ردیف کی قید نہیں ہوتی، لیکن چونکہ نظم معرّٰی بحر کے ارکان کو یکساں رکھنے کی پابند ہوتی ہے، اس لیے اسے زیادہ مقبولیت نہ مل سکی۔ چنانچہ کچھ شاعروں نے آزاد نظم کی طرف رخ کیا، جس میں شاعر کو بحر کے اندر ارکان کی تقسیم کی آزادی ہوتی ہے۔
اس آزادی کے باعث آزاد نظم میں کوئی مصرع چھوٹا اور کوئی بڑا ہو سکتا ہے، اور بعض اوقات قافیے اور ردیف کو بھی صوتی آہنگ کے لیے برتا جاتا ہے۔ تاہم، آزاد نظم میں عروضی آہنگ، تخیل کی بلندی، اور فکری وسعت کو خاص اہمیت دی جاتی ہے۔
آزاد نظم کے بانی شعرا
اردو میں آزاد نظم کے بانی کے حوالے سے مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔ بعض نقاد تصدق حسین خالد کو اس کا بانی سمجھتے ہیں، جبکہ بعض ن م راشد یا میراجی کو اس صنف کا اصل موجد قرار دیتے ہیں۔ ڈاکٹر سید عبداللہ کے نزدیک تصدق حسین خالد آزاد نظم کے اصل بانی ہیں، تاہم یہ بات طے شدہ ہے کہ آزاد نظم کی مضبوط بنیادیں ن م راشد، میراجی، اور خالد کے تجربات کی رہینِ منت ہیں۔
اردو میں آزاد نظم کا پہلا مجموعہ ن م راشد کا “ماورا” تھا، جو 1942ء میں شائع ہوا۔
آزاد نظم کے اہم شعرا
آزاد نظم میں طبع آزمائی کرنے والے شعرا کی ایک طویل فہرست ہے، جن میں شامل ہیں:
علی سردار جعفری، فیض احمد فیض، مصطفی زیدی، مختار صدیقی، یوسف ظفر، قیوم نظر، مجید امجد، اخترالایمان، سلام مچھلی شہری، وزیر آغا، احمد ندیم قاسمی، جیلانی کامران، احمد فراز، منیر نیازی، اختر حسین جعفری، ضیا جالندھری، آفتاب اقبال شمیم، احمد ظفر، افتخار جالب، ستیہ پال آنند، رفیق سندیلوی، بلراج کومل، ریاض مجید، سرمد صہبائی، غلام جیلانی اصغر، توصیف تبسم، خورشید رضوی، امجد اسلام امجد، پروین شاکر، افتخار عارف، ارشد نعیم، جعفر بلوچ، کشور ناہید، فہمیدہ ریاض، عبداللہ علیم، معین نظامی، شاہین عباس، نوشی گیلانی اور حمیدہ۔
یہ فہرست ابھی مکمل نہیں کیونکہ ہر دور میں کئی نئے شاعر آزاد نظم کی صنف میں تجربات کر رہے ہیں۔
آزاد نظم کی سب سے بڑی خوبی رفعتِ تخیل ہے۔ اگر نظم میں فکر و خیال کی بلندی، جذباتی شدت، اور معنوی گہرائی نہ ہو، تو آزاد نظم محض بکھری ہوئی نثر لگتی ہے، جو بے معنی اور بے تاثیر ہو سکتی ہے۔
آزاد نظم کی مثالیں
ن م راشد کی “ماورا” سے نظم “دریچے کے قریب” کا ایک بند ملاحظہ کریں:
محفلِ خواب کی اس فرشِ طرب ناک سے جاگ!
لذتِ شب سے تیرا جسم ابھی چور سہی
آ میری جان، میرے پاس دریچے کے قریب
دیکھا کس پیار سے انوارِ سحر چومتے ہیں
مسجدِ شہر کے میناروں کو
جن کی رفعت سے مجھے
اپنی برسوں کی تمنا کا خیال آتا ہے!
یہ نظم آزاد شاعری کے تخلیقی امکانات اور آہنگی کی خوبصورتی کی بہترین مثال ہے۔
اسی طرح مجید امجد کی مختصر نظم “لوح دل” ملاحظہ کریں:
میں پا بہ گل
نہ رفعتِ مقام ہے، نہ شہرتِ دوام ہے
یہ لوحِ دل، یہ لوحِ دل
اس پہ کوئی نقش ہے، نہ اس پہ کوئی نام ہے
یہ نظم سادگی، احساس کی شدت، اور علامتی اظہار کی ایک اعلیٰ مثال ہے، اور یہ ثابت کرتی ہے کہ آزاد نظم کی خوبصورتی اس کی معنوی گہرائی میں پوشیدہ ہوتی ہے۔
آزاد نظم اردو شاعری میں ایک جدید، منفرد، اور طاقتور صنف ہے، جس میں شاعر کو فکر و اظہار کی زیادہ آزادی حاصل ہوتی ہے۔ اس کی کامیابی رفعتِ تخیل، تخلیقی ندرت، اور فکری وسعت پر منحصر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آزاد نظم آج بھی اردو شاعری کا ایک مقبول اور مؤثر وسیلہ ہے۔
پابند نظم
اردو ادب کے قدیم سرمایے میں پابند نظم ہی نمایاں نظر آتی ہے۔ اس میں وزن، بحر، قافیہ اور ردیف کی پابندی لازمی ہوتی ہے۔ یعنی پابند نظم کا ہر مصرع ایک ہی وزن اور ایک ہی بحر میں ہوتا ہے، اور نظم کی ہیئت کے مطابق قافیے اور ردیف کا التزام ضروری سمجھا جاتا ہے۔
سترھویں اور اٹھارویں صدی میں، جب زندگی نسبتاً آسان تھی اور وقت کی فراوانی تھی، لوگ دل کھول کر پابند نظمیں لکھتے تھے اور ان میں زبان و بیان کے کمالات بھی دکھاتے تھے۔
پابند نظم کو مخمس، مسدس، مثمن اور دیگر ہیئتوں میں لکھا جاتا رہا۔ بعد ازاں نئی ہیئتوں کا بھی اضافہ ہوا، اور آج بھی پابند نظم مختلف ہیئتوں میں لکھی جا رہی ہے۔
پابند نظم کی خوبصورتی اس کی ہم آہنگی، آہنگ، اور تخلیقی اظہار میں پوشیدہ ہوتی ہے، اور یہ اردو شاعری کی سب سے قدیم اور مستحکم صنف سمجھی جاتی ہے۔
جدید اردو نظم
قدیم اردو شاعری میں نظم کا کوئی باقاعدہ تصور موجود نہیں تھا۔ قدیم شعراء نے شاعری کو ہیئت کے لحاظ سے غزل، قصیدہ، مثنوی، قطعہ اور رباعی جیسی اصناف میں تقسیم کر رکھا تھا، اور نظم کو ایک علیحدہ صنف کے طور پر نہیں دیکھا جاتا تھا۔ تاہم، حالی وہ پہلے شاعر تھے جنہوں نے روایتی غزل کے موضوعات سے ہٹ کر نیچرل نظموں پر توجہ دی۔
سر سید احمد خان کی اصلاحی تحریک، مغربی خیالات کی اشاعت، اور انگریزی شعر و ادب کے اثرات نے اردو نظم کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ اس سلسلے میں انجمنِ پنجاب کے مشاعرے ایک سنگِ میل ثابت ہوئے، جن کے روحِ رواں حالی اور محمد حسین آزاد تھے۔ ان دونوں کے ساتھ ساتھ دیگر شعراء نے بھی مختلف موضوعات پر نظمیں لکھ کر اردو میں نظم کے ارتقا کی راہ ہموار کی۔
وقت کے ساتھ نظم کو بطور صنف سب سے زیادہ ترقی ملی۔ غزل کی پختہ روایت اور اس کی عوامی مقبولیت کے ردعمل میں نظم نے فروغ پایا، اور یہی نظمِ جدید کے ارتقا کی بنیاد بنی۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ حالی، آزاد، شبلی، اکبر الہ آبادی، اور اسماعیل میرٹھی نے نظم کے ذخیرے میں جو بیش بہا اضافہ کیا، وہ نظم ایک خارجی صنف شاعری تھی اور اس کا تعلق نظمِ جدید سے ایک الگ چیز کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ جدید نظم داخلی اظہار اور فکری ارتقا کا نتیجہ تھی، جو روایت سے ہٹ کر ایک نئی راہ پر گامزن ہوئی۔
نظمِ جدید تمام قدیم اصنافِ سخن سے یکسر مختلف اور ایک منفرد صنفِ شعر ہے۔ اس میں نہ تو کوئی موضوعاتی قید ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی مخصوص ہیئت۔ تاہم، اس کا علامتی انداز، طرزِ بیان اور زبان اسے دیگر اصنافِ سخن سے ممتاز کرتا ہے۔
نظمِ جدید میں داخلیت نمایاں ہوتی ہے۔ شاعر اپنی باطن کی گہرائیوں میں اتر کر اپنے انفرادی اور ذاتی ردِعمل کا اظہار کرتا ہے۔ اس کا انداز تجزیاتی ہوتا ہے، جس میں وہ اپنے تجربات اور مشاہدات کو گہرائی کے ساتھ بیان کرتا ہے۔
ڈاکٹر وزیر آغا کے الفاظ میں:
“نظمِ جدید فرد اور اس کے باطن کی کہانی ہے۔ بیشتر جدید نظموں میں شاعر نے اپنی زندگی کے کسی ایک تجربے کو اس کی تمام تجزیاتی اور احساساتی کیفیتوں کے ساتھ پیش کیا ہے۔”
جدید نظم کا موضوع انتہائی وسیع ہے کیونکہ دورِ جدید میں فرد کی سوچ اور اس کی ذات پر اثر انداز ہونے والے عوامل کا دائرہ بھی وسیع ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جدید نظم صرف جذباتی اظہار تک محدود نہیں بلکہ یہ انسان کے داخلی اور خارجی تضادات، اس کے مشاہدات، اور زندگی کے پیچیدہ حقائق کا بھرپور احاطہ کرتی ہے۔