ناول کیا ہے؟ اردو ناول کا آغاز و ارتقاء: 1857ء سے پہلے دستانوں کا دور تھا۔ 1857ء کے بعد زندگی بدل گئی اور ادب میں بھی تبدیلی آگئی۔ اس سلسلے میں بڑی خدمت انجمن پنجاب، سرسید تحریک اور اکبر کے نظریات نے کی۔ جس کی وجہ سے ادب میں تبدیلی کے عمل کے باعث اصناف ادب میں تبدیلی کا مطالبہ کیا گیا جس کے تحت کئی اصناف ادب کی ضرورت پڑی اور یوں بہت سے نثری اصناف ادب وجود میں آئیں جس میں ناول، سوانح ، انشائیہ ، تنقید وغیرہ شامل ہیں۔
اس مضمون مین ناول کیا ہے؟ ناول اور افسانے میں کیا فرق ہے؟ اور ناول اور داستان میں کیا فرق ہے؟ بیان کیا گیا ہے۔ نیز اردو ناول نگاری کا آغاز و ارتقاء کے بارے میں بھی تفصیل سے جائزہ پیش کیا گیا ہے۔
ناول کیا ہے؟
ناول انگریزی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی نئی اور انوکھی چیز کے ہیں۔ یہ لفظ اطالوی زبان کے لفظ “تو ویلا” سے ماخوذ ہے، جو پہلے کہانیوں اور خبروں کے لیے استعمال ہوتا تھا، لیکن بعد میں اسے وسیع معنوں میں اپنایا گیا۔
ناول دراصل ایک نثری قصہ ہے جس میں زندگی کے حقائق اور واقعات کو ایک خاص نقطہ نظر کے تحت پیش کیا جاتا ہے۔ اس میں فلسفۂ زندگی کی جھلک موجود ہوتی ہے، اور ہر ناول ایک نئے فکری اور جذباتی سفر کا آغاز کرتا ہے، جس کے ذریعے انسانی فطرت کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ناول لکھنے کے لیے گہرے شعور اور عمدہ ذوق کی ضرورت ہوتی ہے۔ بقول ایک نقاد، ناول نگاری ایک حکیمانہ اور فلسفیانہ کام ہے۔
ناول اور افسانے میں فرق
ناول اور افسانے میں واضح فرق پایا جاتا ہے، لیکن اکثر لوگ غلطی سے داستان، ناول، اور افسانے کو ایک جیسا سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں داستان کو مختصر کر دینے سے ناول یا افسانہ بن جاتا ہے، جو سراسر غلط ہے۔ ان تینوں کی تکنیک اور خصوصیات میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔
ناول کا دائرہ کار وسیع ہوتا ہے، جبکہ افسانہ محدود موضوعات پر مبنی ہوتا ہے۔ افسانہ صرف ایک پہلو کو پیش کرتا ہے، جب کہ ناول میں کئی پہلوؤں پر بحث کی جاتی ہے۔ افسانہ ایک نقطے پر سمٹ جاتا ہے، جبکہ ناول کا انداز نقطے سے دائرے میں پھیلنے کا ہوتا ہے۔
ناول اور داستان میں فرق
ناول اور داستان دو مختلف اصناف ہیں جن میں بنیادی فرق ان کی نوعیت، مواد، اور تکنیک میں پایا جاتا ہے۔ داستان میں مافوق الفطرت عناصر کا ذکر کیا جاتا ہے، اور اس کی فضا دیومالائی اور جادوئی ہوتی ہے، جبکہ ناول انسانی زندگی، حقیقی حالات، اور انسانی ماحول کی عکاسی کرتا ہے۔ داستان زیادہ تر تخیلاتی اور تصوراتی ہوتی ہے، لیکن ناول حقیقت پر مبنی ہوتا ہے اور زمان و مکان کے دائروں میں مقید رہتا ہے۔
مزید برآں، داستان بغیر پلاٹ کے بھی ہو سکتی ہے، جبکہ ناول ہمیشہ ایک مربوط اور باقاعدہ پلاٹ پر مبنی ہوتا ہے۔ کرداروں کی نوعیت میں بھی فرق ہے؛ داستان میں مافوق الفطرت کردار، جیسے جنات اور دیو شامل ہو سکتے ہیں، لیکن ناول میں صرف انسانی کرداروں کو پیش کیا جاتا ہے۔
اردو ناول کا آغاز و ارتقاء
مغربی ادب میں ناول کی بنیاد اس وقت رکھی گئی جب مختلف مغربی زبانوں جیسے انگریزی، فرانسیسی، روسی اور جرمن میں اعلیٰ درجے کے ناول تخلیق کیے گئے۔ ان ناولوں نے نہ صرف ادب کے دائرے کو وسعت دی بلکہ انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں کی عکاسی کے ذریعے قارئین کے ذہنوں پر گہرا اثر چھوڑا۔
اردو ادب میں، اگرچہ اعلیٰ اور معیاری ناولوں کی تعداد مغربی ادب کے مقابلے میں کم ہے، تاہم یہاں بھی کچھ اہم اور یادگار ناول تخلیق کیے گئے جنہوں نے اردو ناول کے ارتقائی سفر کو نمایاں کیا۔
ابتدائی دور
اردو ادب میں ناول کے ارتقاء کا آغاز سرسید احمد خان کی اصلاحی تحریک سے ہوا، جس نے واقعیت پسندی کے رجحان کو فروغ دیا۔ اس تحریک کے زیرِ اثر ادب میں ارضی ماحول کی عکاسی کا آغاز ہوا، جہاں زندگی کی حقیقی مصوری کو اہمیت دی گئی۔ اس دور میں ناول کے ابتدائی نمونے نذیر احمد کے قصوں کی صورت میں منظر عام پر آئے، جنہوں نے اردو ادب میں ناول کی داغ بیل ڈالی۔
نذیر احمد کی پہلی تصنیف “مراۃ العروس” ۱۸۶۹ء میں شائع ہوئی، جسے اردو کے اولین ناول کے طور پر شمار کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد “بنات النعش”، “توبتہ النصوح”، “رویائے صادقہ”، “ابن الوقت” اور “فسانہ مبتلا” جیسی تخلیقات منظرِ عام پر آئیں۔ ان قصوں نے ناول کے ابتدائی رجحانات کی بنیاد رکھی۔
تاہم، ڈاکٹر احسن فاروقی نے ان قصوں کے تمثیلی پہلو پر زور دیا اور انہیں ناول کے بجائے تمثیلیں قرار دیا۔ ان کے مطابق یہ تصنیفات بنیادی طور پر تمثیلی نوعیت کی ہیں اور ناول کی خصوصیات سے مکمل طور پر ہم آہنگ نہیں۔
- یہ بھی پڑھیں: ناول گریز کا فکری جائزہ | عزیز احمد | PDF
یہ اعتراض اپنی جگہ درست ہو سکتا ہے کہ نذیر احمد کے قصوں میں کردار زیادہ تر اخلاقی مجسموں کی صورت میں نظر آتے ہیں اور ان میں انسانی پیچیدگیوں کا فقدان ہے۔ تاہم، یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ان قصوں نے اردو ادب میں ناول کے بنیادی خد و خال کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ وقار عظیم نے اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے لکھا کہ نذیر احمد کے قصے مغربی طرز کے ناول کی مکمل تعریف پر پورا نہیں اترتے، لیکن یہ ضرور ہے کہ اردو ناول کی بنیاد ان ہی قصوں سے رکھی گئی۔
“مراۃ العروس” اور “بنات النعش” سے لے کر “توبتہ النصوح” اور “ابن الوقت” تک، نذیر احمد کے قصوں میں دہلی کے متوسط طبقے کے مسلم گھرانوں کی زندگی کے مسائل اور ان کے سماجی و معاشرتی نشیب و فراز کی عکاسی نظر آتی ہے۔ یہ وہ پہلو تھے جو اس سے قبل اردو ادب میں غیر موجود تھے۔
نذیر احمد نے اپنے قصوں میں عام زندگی کو حقیقت پسندانہ انداز میں پیش کیا، جو اردو ادب میں ایک اہم پیش رفت تھی۔ اس طرح ان کے قصے اردو ناول کی تاریخ کا سنگِ میل ثابت ہوئے اور آنے والے ناول نگاروں کے لیے بنیاد فراہم کی۔
نذیر احمد کے بعد اردو ناول کے ارتقائی سفر میں پنڈت رتن ناتھ سرشار کا نام نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ ان کا ناول “فسانہ آزاد” اردو ادب کا ایک سنگ میل تصور کیا جاتا ہے۔ یہ ناول ابتدا میں اردو اخبار “اودھ پنچ” میں بالاقساط شائع ہوتا رہا اور اپنے منفرد اندازِ بیان اور دلچسپ واقعات کی بدولت بے حد مقبول ہوا۔
سرشار نے “فسانہ آزاد” کے ذریعے لکھنؤ کی معاشرت، تہذیب، اور روزمرہ زندگی کا حقیقی نقشہ کھینچا۔ ان کی دیگر تصانیف میں “سیر کہسار”، “جام سرشار”، اور “خدائی فوجدار” شامل ہیں، لیکن ان کی اصل شہرت کا سبب “فسانہ آزاد” ہی بنا۔ سرشار کی تحریروں میں مزاح، طنز، اور زندگی کی حقیقتوں کا حسین امتزاج ملتا ہے، جو اردو ناول کے ارتقا میں ایک اہم اضافہ ہے۔
تشکیلی دور کے تیسرے اہم ناول نگار عبدالحلیم شرر ہیں، جنہیں اردو تاریخی ناول کا بانی کہا جا سکتا ہے۔ شرر نے تاریخی موضوعات کو ناول کے قالب میں ڈھال کر ایک نئی جہت دی۔ تاریخ اور تاریخی ناول کے مابین یہ فرق ہے کہ تاریخ حقیقی واقعات اور کرداروں پر مشتمل ہوتی ہے، جب کہ تاریخی ناول میں کردار اور ماحول حقیقی ہو سکتے ہیں، لیکن واقعات اور مناظر زیادہ تر تخلیق کار کی تخیل کی پیداوار ہوتے ہیں۔
شرر نے یورپ کے سفر کے دوران اسکارٹ کے تاریخی ناول “طلسمان” کا مطالعہ کیا، جس میں اسلام کا مذاق اڑانے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس کا اثر لیتے ہوئے، شرر نے اسلام کی عظمت اور سربلندی کو اجاگر کرنے کے لیے اپنے ناول تخلیق کیے۔
ان کا پہلا ناول “ملک العزیز ورجینا” تھا، جب کہ ان کی دیگر مشہور تخلیقات میں “فردوس بریں”، “منصور موہنا”، “عزیز مصر”، “ظہور الورد”، “فتح اندلس”، “زوال بغداد”، اور “ایام عرب” وغیرہ شامل ہیں۔ شرر کے ناولوں کا مقصد اصلاحی تھا اور انہوں نے امتِ مسلمہ کو بیدار کرنے کی کوشش کی۔
تاریخی ناولوں کے علاوہ، شرر نے معاشرتی موضوعات پر بھی لکھا۔ ان کے معاشرتی ناولوں میں “بدر النساء کی مصیبت” اور “آغا صادق کی شادی” قابلِ ذکر ہیں۔ ان اولین ناول نگاروں کے اثرات کی بدولت اردو ناول کا دائرہ وسیع ہوا اور قارئین کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ مزید برآں، منشی سجاد حسین، محمد علی طبیب، قاری سرفراز عربی، اور دیگر کئی ناول نگاروں نے بھی اس صنف کی ترقی کے لیے کوششیں کیں۔
مرزا ہادی رسوا اور اردو ناول
ان ناول نگاروں کے بعد، اردو ناول کے ارتقا میں ایک اہم ترین نام مرزا ہادی رسوا کا ہے۔ ان کے تحریر کردہ ناولوں میں افشائے راز، اختری بیگم، ذات شریف، شریف زادہ، اور سب سے مشہور امراؤ جان ادا شامل ہیں۔ امراؤ جان ادا بظاہر ایک طوائف کی کہانی معلوم ہوتی ہے، لیکن درحقیقت یہ لکھنؤ کی انحطاط پذیر تہذیب اور معاشرت کا عمیق تجزیہ پیش کرتی ہے۔
مرزا ہادی رسوا نے اپنے اس ناول کے ذریعے فن اور اظہار کے امتزاج کو ایک نئی سطح پر پہنچایا اور اردو ناول کے لیے ایسے صنفی معیار قائم کیے جو آج بھی قابلِ تقلید سمجھے جاتے ہیں۔ ان کا یہ ناول اردو ادب کے کلاسیکی سرمایے میں ایک امتیازی حیثیت رکھتا ہے۔
مولانا راشد الخیری اور ان کا اصلاحی کردار
مولانا راشد الخیری نے اردو ادب میں عورتوں کے مسائل کو اپنی تحریروں کا مرکز بنایا۔ ان کے ناولوں میں عورت کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا، جن میں “حیات صالح، بنت الوقت، شام زندگی، شب زندگی، اور آمنہ کا لال “نمایاں ہیں۔ ان کی تحریریں سماجی اصلاح کے لیے ایک اہم ذریعہ بنیں اور انہوں نے اردو ناول نگاری میں عورتوں کے مسائل کو نمایاں مقام دیا۔
مرزا محمد سعید نے بھی ناول نگاری میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کے مشہور ناولوں میں” خواب بستی ،اور یاسمین” شامل ہیں، جو اپنے دور کے قارئین میں مقبول رہے۔ اس دور کے دیگر اہم ناولوں میں محمد علی کا “عبرت”، حسن سرور کا “دیوی”، فیاض علی کا “شمیم اور انور” اور محمد صدیقی کا “برف کی دیوی” وغیرہ شامل ہیں۔
پریم چند اور ان کے عوامی موضوعات
بیسویں صدی کے آغاز میں اردو ناول نگاری نے ایک نئے فکری اور فنی رجحان کو اپنایا۔ اس دور کے سب سے نمایاں ناول نگار پریم چند تھے، جنہوں نے اپنے ناولوں میں ہندوستان کی عوامی اور معاشرتی زندگی کو موضوع بنایا۔ ان کے مشہور ناولوں میں “اسرار معاہدہ، بازار حسن، گئودان، نرملا، اور میدان عمل ” وغیرہ شامل ہیں۔
پریم چند نے اصلاحی شعور کے ساتھ عوامی زندگی کے مسائل پر توجہ دی اور ان کے ناولوں میں طبقاتی کشمکش، پسماندہ طبقات کے مسائل، اور فرسودہ رسم و رواج کی نشاندہی کی گئی۔ ان کے ناولوں میں ایک ایسی سنجیدگی اور تفصیل پائی جاتی ہے جو انہیں دوسرے ناول نگاروں سے ممتاز کرتی ہے۔
تقسیمِ ہند اور اردو ناول کا نیا رجحان
تقسیمِ ہند کے دوران پیش آنے والے فسادات اور ان کے اثرات نے اردو ناول نگاری پر گہرا اثر چھوڑا۔ اس دور میں رشید اختر کا “پندرہ اگست”، نسیم حجازی کا “خاک و خون”، اور قدرت اللہ شہاب کا “یا خدا “جیسے ناول تحریر کیے گئے، جن میں فسادات اور انسانی المیے کی عکاسی کی گئی۔ اگرچہ ان ناولوں میں جذباتیت زیادہ تھی، لیکن ان کی تاریخی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔
آزادی کے بعد اردو ناول کا ارتقاء
آزادی کے بعد اردو ناول کو ایک نئی پہچان دینے والے ناول نگاروں میں قراۃ العین حیدر، عزیز احمد، اور احسن فاروقی کے نام نمایاں ہیں۔ یہ تینوں ادیب اپنے ناولوں میں زندگی کی مجموعی معنویت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور سماجی و تہذیبی تبدیلیوں کا گہرا مطالعہ پیش کرتے ہیں۔ ان کے ناولوں میں ہمیں نہ صرف تہذیب کے زوال کا بھرپور احساس ہوتا ہے بلکہ ان ناولوں کے ذریعے زندگی کی رفتار اور تبدیلیوں کی گہری جھلک بھی ملتی ہے۔
- یہ بھی دیکھیں: داستان کے اجزائے ترکیبی | PDF
اگرچہ ان ناولوں میں تقسیمِ ہند کے نتیجے میں ہونے والے فسادات کا ذکر موجود ہے، لیکن یہ موضوع ان کی تخلیقات میں بنیادی حیثیت نہیں رکھتا۔ بلکہ یہ فسادات زندگی کی مجموعی تبدیلی اور تہذیبی زوال کا ایک حصہ ہیں۔ ان کے ناولوں کی خاص بات یہ ہے کہ جذباتیت کی بجائے فکر انگیزی اور منطقی مطالعہ کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ وہ بدلتے ہوئے سماج کی عکاسی کرتے ہوئے قاری کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ کس طرح ماضی کی تہذیب کو دیکھتے ہوئے ایک نئی سمت کی طرف قدم بڑھایا جا سکتا ہے۔
- قراۃ العین حیدر کے ناولوں میں “میرے بھی صنم خانے”، “سفینہ غم دل”، “آگ کا دریا”، اور “آخری شب کے ہمسفر” شامل ہیں، جو اردو ادب میں بے حد مقبول ہوئے۔
- عزیز احمد کے ناولوں میں “گریز”، “ایسی بلندی ایسی پستی” اور “شبنم” شامل ہیں، جو اردو ناول کے ارتقا میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
- ڈاکٹر احسن فاروقی کے ناولوں میں “شام اودھ”، “رور سم آشنائی” اور “سنگم” قابلِ ذکر ہیں۔
یہ تینوں ادیب اردو ناول کو ایک نئی جہت دیتے ہیں اور ان کی تخلیقات اردو ادب کے لیے ایک بیش قیمت سرمایہ ہیں۔
جدید دور میں اردو ناول کا ارتقاء
ان اہم ناول نگاروں کے علاوہ بھی کچھ ایسے ناول نگار اور ان کی تخلیقات کا ذکر ضروری ہے، جنہوں نے اردو ناول کو مزید وسعت اور پہچان دی۔ ان میں سب سے نمایاں نام شوکت صدیقی کا ہے، جن کا ناول “خدا کی بستی” اردو ناول کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس ناول میں کراچی کی انڈر ورلڈ کی زندگی کو حقیقت پسندی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے، جہاں غربت، استحصال، اور بے بسی کے مناظر قاری کے دل کو جھنجھوڑ دیتے ہیں۔
ممتاز مفتی کا ناول “علی پور کا ایلی” اردو ادب کا ایک منفرد شاہکار ہے۔ اس ناول میں مصنف نے ایلی کے پردے میں اپنی ذاتی زندگی کی داستان بیان کی ہے۔ یہ ناول نفسیاتی پیچیدگیوں، انسانی جذبات، اور معاشرتی حالات کو انتہائی خوبصورتی سے پیش کرتا ہے۔ ناول کی وسعت بے حد متاثر کن ہے، جس میں گاؤں کی سادہ زندگی، شہری چکاچوند، فلمی دنیا کی حقیقت، اور بازار حسن کی پیچیدگیوں کو حقیقت پسندی سے بیان کیا گیا ہے۔
خدیجہ مستور کا ناول “آنگن” بھی اردو ادب کے شاہکاروں میں شمار ہوتا ہے۔ اس ناول نے غیر معمولی مقبولیت حاصل کی اور اسے کئی بار شائع کیا گیا۔ خدیجہ مستور نے اس ناول میں تقسیمِ ہند سے پہلے اور بعد کے مسلمان گھرانوں کی حالتِ زار کو موضوع بنایا ہے، جس میں ان کے سماجی، جذباتی، اور ثقافتی حالات کی عکاسی کی گئی ہے۔
عبداللہ حسین کا ناول “اداس نسلیں” اردو ادب کا ایک اور اہم کارنامہ ہے۔ اس ناول میں پہلی جنگ عظیم سے لے کر تقسیمِ ہند تک کے حالات کو پیش کیا گیا ہے، جس کا احاطہ 1913ء سے 1947ء تک کے دورانیے پر محیط ہے۔ یہ ناول اپنی وسیع موضوعاتی گہرائی، تاریخی تناظر، اور کردار نگاری کی وجہ سے اردو ناول کی تاریخ میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔
یہ تمام ناول اس بات کا ثبوت ہیں کہ آزادی کے بعد اردو ناول نے فن اور موضوع دونوں کے اعتبار سے نئی بلندیوں کو چھوا۔ ان تخلیقات نے اردو ادب کو نہ صرف موضوعاتی وسعت دی بلکہ فن کے نئے معیار بھی قائم کیے۔ یہ سلسلہ ابھی جاری ہے، اور اردو ناول میں تخلیقی اضافے کی رفتار امید افزا ہے۔
مزید دیکھیں
Note: The password is hidden within this article. Read the entire article thoroughly, find the password, and enter it in the password field.