ناول خدا کی بستی کی کردار نگاری: شوکت صدیقی نے اپنے شاہکار ناول “خدا کی بستی” میں تقسیم ہند کے بعد پاکستان میں وجود میں آنے والے نیم سرمایہ دارانہ اور نیم جاگیردارانہ معاشرے کی اندرونی حقیقتوں کو نہایت دلیری اور بے باکی سے پیش کیا ہے۔
اس ناول میں انہوں نے ایک ایسے سماج کی تصویر کشی کی ہے جہاں مذہب اور جمہوریت کو محض ایک ڈھال کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے اور ہوس، دھوکہ دہی، اور مفاد پرستی کے نعروں نے اخلاقی اقدار کو دھندلا دیا ہے۔ شوکت صدیقی نے اس فریب زدہ معاشرے کو آئینہ دکھانے کی بھرپور کوشش کی ہے اور ان تلخ حقائق کو بے نقاب کیا ہے جنہیں اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
اس ناول کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ شوکت صدیقی نے افسانوی طرز پر پیش کیے گئے معاشرتی حالات کو انسانی نفسیات اور سماجی سچائیوں کے تناظر میں اس قدر مہارت سے بیان کیا ہے کہ کہانی حقیقی زندگی کے قریب محسوس ہوتی ہے۔
- یہ بھی دیکھیں: ناول خدا کی بستی کا تعارف اور موضوع | PDF
اس مقصد کے حصول کے لیے مصنف نے کردار نگاری پر خصوصی توجہ دی ہے، اور ان کے کردار نہ صرف حقیقت کے قریب ہیں بلکہ ان کی نفسیاتی گہرائی اور جذباتی کیفیات قاری کو متاثر کرتی ہیں۔(1)
یہ ناول معاشرتی اور انسانی رویوں کا ایک عمیق تجزیہ پیش کرتا ہے، اور شوکت صدیقی کی فنکارانہ مہارت کہانی کے ہر پہلو میں جھلکتی ہے۔
خدا کی بستی حقیقت اور فسانے کا ایسا امتزاج ہے جو قاری کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے اور اسے ایک نئی بصیرت فراہم کرتا ہے۔ناول خدا کی بستی کی کردار نگاری مندرجہ ذیل ہیں۔

ناول خدا کی بستی کی کردار نگاری
- نوشا کا کردار
- راجہ کا کردار
- رضیہ کا کردار
- نیاز نیاز کا کردار
- خان بہادر
- فلک پیما
- سلمان کا کردار
نوشا کا کردار
ناول “خدا کی بستی” کا کردار نوشا انسانی نفسیات اور معاشرتی ظلم و ستم کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔ نوشا ایک نو عمر لڑکا ہے جس کے دل میں خواب اور خواہشات ہیں، تعلیم حاصل کرنے کی امنگ ہے، تفریح کے لمحات کا اشتیاق ہے، اور انسانی حقوق کا حق دار بھی ہے۔ مگر ان سب کے لیے اسے نہ صرف محرومیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ مار پیٹ اور ذلت کی تلخیاں بھی جھیلنی پڑتی ہیں۔
استاد عبد اللہ کی بے رحمانہ مار، ماں کی سختی، اور نیاز کباڑیے کی شاطر چالیں، یہ سب مل کر نوشا کی زندگی کو ایک مسلسل کرب بنا دیتے ہیں۔ ایسے حالات میں وہ آزادی، عزت، یا خوشحالی کا خواب کیسے دیکھ سکتا ہے؟ بھوک، بے روزگاری، اور ذلت سے چھٹکارا پانے کی جستجو میں، نوشا کا سامنا غلامی کے مزید اندھیروں سے ہوتا ہے۔
وہ شاہ جی جیسے چوروں کے سرغنہ کا غلام بن جاتا ہے، وہاں سے بھاگ کر جیل کی چار دیواری میں قید ہو جاتا ہے، اور پھر معاشرتی نظام کے دھتکارے ہوئے پیشہ ور جیب کتروں کی صف میں شامل ہو جاتا ہے۔
نوشا کی زندگی میں ایک لمحہ ایسا بھی آتا ہے جب پروفیسر کے گھر اسے آزادی کی ایک جھلک نظر آتی ہے۔ وہ اس مختصر عرصے میں سکون اور محبت کی تلاش کرتا ہے، لیکن جلد ہی یہ خواب بھی بکھر جاتا ہے۔ پروفیسر کے گھر سے بے آبرو ہو کر نکلنے کے بعد اس کی زندگی مکمل طور پر بے سمت ہو جاتی ہے۔ اس کا گھر نہیں، ماں مر چکی ہے، بھائی فرار ہو چکا ہے، اور اس کی بہن نیاز کباڑیے کی ہوس کا شکار ہے۔
جاگیردارانہ نظام نوشا کے لیے ایک آخری وار ثابت ہوتا ہے۔ اپنی بہن کی عزت کی خاطر غیرت کے تحت وہ نیاز کباڑیے کو قتل کر دیتا ہے اور یوں اس کی زندگی کا اختتام دار و رسن کے راستے پر ہوتا ہے۔ نوشا کا کردار ایک ایسے فرد کی کہانی ہے جو ایک ظالم اور بے حس نظام کے ہاتھوں مسلسل پِستا رہتا ہے اور آخر کار اپنی تقدیر کے خلاف لڑتے ہوئے ہار جاتا ہے۔
راجہ کا کردار
راجہ کا کردار ناول “خدا کی بستی” میں انسانی المیے اور معاشرتی زوال کی ایک اور تلخ مثال ہے۔ راجہ کی زندگی نوشا سے بھی زیادہ دردناک اور غم انگیز ہے۔ بچپن ہی میں والدین کی شفقت اور گھر کی چھت سے محروم ہو کر وہ ایک کوڑھی کے ساتھ رہنے پر مجبور ہو جاتا ہے، اور بالآخر اسی کوڑھ کا مرض اس کی زندگی کا انجام بن جاتا ہے۔
راجہ کا ماضی بہت تلخ اور اذیت ناک ہے۔ ماں کے حوالے سے اس کی یادیں نہ صرف دھندلی ہیں بلکہ ان میں ایک راز بھی پوشیدہ ہے جو وہ صرف نوشا سے بانٹتا ہے۔ وہ غصے اور نفرت سے کہتا ہے:
“سالی ہیرا منڈی میں پیشہ کرتی ہے۔ کبھی مل گئی تو قتل کر دوں گا۔ بشیرے کو بھی نہیں چھوڑوں گا۔ اسی سالے نے تو اسے اس دھندے سے لگایا ہے۔”(0)
راجہ کے اس غم کی جڑ دہلی ہجرت کے دوران پیش آنے والے دل دہلا دینے والے واقعات ہیں۔ فسادیوں نے راستے میں اس کے دونوں بھائیوں کو قتل کر دیا، اور بشیرے جیسے دھوکہ باز نے راجہ کی ماں کو دھندے پر لگا دیا۔ راجہ اپنی ماں اور خاندان کے دکھ کو دل میں لیے جیتا ہے اور ماں سے نفرت و محبت کا عجیب سا رشتہ محسوس کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
- ناول خدا کی بستی کا فنی جائزہ | PDF
- ناول امراؤ جان ادا کا فنی جائزہ | PDF
- کردار کیا ہے؟ کرداروں کی اقسام | PDF
- ڈراما انار کلی کی کردار نگاری | PDF
کوڑھی کے ساتھ رہنے والا راجہ اس کی مدد پر زندگی گزار رہا تھا، لیکن جب انسداد گداگری مہم کے دوران کوڑھی کو گرفتار کر لیا گیا تو راجہ بالکل بے سہارا ہو گیا۔ بھوک اور ناامیدی کے عالم میں اس نے خودکشی کرنے کا ارادہ کیا، لیکن نوشا نے اسے دلاسہ دیا اور مشورہ دیا کہ کراچی میں نہ صرف روزگار مل سکتا ہے بلکہ آزادی بھی۔
کراچی پہنچنے کے بعد راجہ کے حالات مزید خراب ہو گئے۔ جیسے ہی وہ اسٹیشن پر ٹرین سے اترا، وہ شکاریوں کے ہاتھ چڑھ گیا۔ ایک بردہ فروش نے اسے نوکری کا جھانسہ دے کر سرغنہ شاہ جی کے ہاتھ بیچ دیا۔ راجہ کا کردار اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ ایک ظالم اور غیر منصفانہ نظام میں غریب اور بے سہارا افراد کی زندگی نہ صرف مشکلات سے بھرپور ہوتی ہے بلکہ ان کے لیے حالات بدتر سے بدترین ہو جاتے ہیں۔
رضیہ کا کردار
رضیہ ایک ادھیڑ عمر، بیوہ اور مفلس خاتون ہے، جو اپنی زندگی کی مشکلات کے باوجود دلکشی اور جاذبیت کا مظہر ہے۔ نوشا کے غائب ہونے کے بعد اچانک نیاز کی نظریں رضیہ کی جانب مائل ہو گئیں۔ مالک مکان ہونے کے باوجود نیاز نے رضیہ کی مجبوریوں اور تنہائی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے محبت اور سہارا دینے کے جھوٹے خواب دکھائے۔(0)
نیاز کے جھانسے میں آ کر رضیہ نے اس سے نکاح کر لیا، لیکن یہ رشتہ رضیہ کے لیے سکھ کا باعث بننے کے بجائے اس کی زندگی کا سب سے بڑا المیہ بن گیا۔ نیاز نے اپنی خود غرضی اور حرص کی تکمیل کے لیے رضیہ کو استعمال کیا۔
شادی کے بعد اس نے رضیہ کا پچاس ہزار روپے کا بیمہ کروایا اور پھر انتہائی بے رحمی سے مہلک ٹیکے لگا کر اسے آہستہ آہستہ موت کے گھاٹ اتار دیا۔ رضیہ کا کردار ان تمام خواتین کی نمائندگی کرتا ہے جو اپنی بے بسی، تنہائی، اور سماجی ناہمواری کا شکار ہو کر ظالم معاشرے کے ہاتھوں برباد ہو جاتی ہیں۔
نیاز کا کردار
نیاز ایک ایسا خودغرض اور مکار شخص ہے جو ہجرت کے بعد کے انتشار زدہ معاشرے میں لوٹ مار اور دھوکہ دہی سے اپنی زندگی بناتا ہے۔ اس کا کردار ان لوگوں کی نمائندگی کرتا ہے جو اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ وہ نہ صرف رضیہ کو دھوکہ دے کر قتل کرتا ہے بلکہ اس کی بیٹی سلطانہ پر بھی اپنی بری نظر رکھتا ہے۔
نیاز کا کردار ان لوگوں کا استعارہ ہے جو سماج میں کمزوروں کو لوٹ کر اور ان کی زندگیوں کو برباد کر کے خود کو مضبوط اور طاقتور بناتے ہیں۔ وہ نوشا کو چوری کی راہ پر ڈال دیتا ہے، رضیہ کو دھوکے سے ہلاک کر دیتا ہے، انو کو دھمکیاں دے کر بھگا دیتا ہے، اور آخرکار سلطانہ کو اپنی داشتہ بنا لیتا ہے۔ نیاز کے ظلم اور حرص کی کوئی حد نہیں، اور اس کا کردار معاشرے کے گھناؤنے چہروں کو بے نقاب کرتا ہے۔
خان بہادر کا کردار
خان بہادر فرزند علی، جو سرکار کی جانب سے جاگیر اور خطاب یافتہ ہیں، ایک ایسا کردار ہے جو آزادی کے بعد بھی استعماری باقیات کا تسلسل بن کر سامنے آتا ہے۔ وہ اپنے انگریز محسنوں کے احسانوں کو یاد رکھتے ہوئے اپنی حکمرانی اور طاقت کو برقرار رکھنے کے لیے ہر قسم کی بدعنوانی اور ناانصافی کو روا رکھتا ہے۔
عوام کے لیے تعمیراتی منصوبے محض دکھاوا ہیں، جن کا بڑا حصہ کمیشن اور رشوت کی نذر ہو جاتا ہے۔ تعمیرات کے نام پر کیے گئے یہ منصوبے محض چند دنوں میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں عوام مزید مشکلات اور نقصان کا سامنا کرتے ہیں۔
خان بہادر عوام کی ہمدردی اور ووٹ حاصل کرنے کے لیے مذہب کا سہارا لیتے ہیں۔ اسپتال کے لیے مختص زمین پر راتوں رات مسجد تعمیر کروا کر عوام کو یہ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ دین کے خادم ہیں، جبکہ حقیقت میں یہ سب ان کی سیاست اور استحصالی ایجنڈے کا حصہ ہوتا ہے۔ ان کی ایسی تمام حرکات عوام کے حقوق کو غصب کرنے کا سبب بنتی ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ قانون اور عوام کی نظروں میں خود کو اعلیٰ اور معزز ثابت کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔
ڈاکٹر قمر رائیس خان بہادر کے کردار اور ناول کے مجموعی سماجی پیغام کو یوں بیان کرتے ہیں:
“پاکستان کے سرمایہ دارانہ طبقاتی معاشرے میں مذہب کے نام پر انسان کی آواز اور اس کے حقوق کو جس طرح پامال کرنے کی سازشیں ہوتی ہیں، شوکت صدیقی نے بڑی جسارت اور وضاحت سے ناول کے پیچیدہ پلاٹ میں انھیں سمونے کی کوشش کی ہے۔”(2)
خان بہادر کا کردار ناول میں ان تمام استحصالی عناصر کا استعارہ ہے جو عوام کے حق پر ڈاکہ ڈال کر خود کو معزز اور دیندار ظاہر کرتے ہیں۔ یہ کردار اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ کس طرح جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام عوام کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کر کے ان کے مسائل میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ شوکت صدیقی نے خان بہادر کے کردار کے ذریعے نہ صرف اس نظام کی مذمت کی بلکہ انفرادی اور اجتماعی سطح پر معاشرتی استحصال کے خلاف آواز اٹھائی۔
فلک پیما کا کردار
فلک پیما “خدا کی بستی” میں ایک انقلابی اور مصلح کردار کے طور پر سامنے آتا ہے، جو معاشرے کی اصلاح کے لیے ایک فلاحی تنظیم قائم کرتا ہے۔ اس تنظیم کا بنیادی مقصد ان لوگوں کی تعلیم و تربیت کرنا ہے جو تعلیم سے محروم ہیں، اور بے روزگاروں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہے۔ فلک پیما ایک باشعور، خدمتِ خلق کا جذبہ رکھنے والا اور معاشرتی تبدیلی کا خواہاں شخص ہے جو اپنے عزم کے ذریعے سماجی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
تاہم، فلک پیما کو اپنی تنظیمی سرگرمیوں میں خان بہادر جیسے طاقتور اور استحصالی کرداروں کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خان بہادر کے غنڈے بار بار فلک پیما کے فلاحی کاموں میں رکاوٹ ڈال کر اس کے دفتر پر حملہ کرتے ہیں اور اس کے کام کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ اس کے باوجود، فلک پیما اپنی جدوجہد جاری رکھتا ہے اور سماجی انصاف کی تلاش میں سکائی لارک کے ارکان کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے۔
سلمان کا کردار
سلمان ایک جذباتی، لاپرواہ اور آوارہ مزاج نوجوان کے طور پر پیش کیا گیا ہے، جو اپنی زندگی کی مشکلات اور مایوسیوں کا شکار ہے۔ اس کے کردار میں ایک منفرد جذباتی پہلو ہے، جو اسے دوسروں سے مختلف بناتا ہے۔ سلمان سلطانہ کو بے حد پسند کرتا ہے اور اس سے شادی کرنے کا خواہش مند بھی ہوتا ہے، لیکن اپنی معاشی کمزوریوں اور ذمہ داریوں کے بوجھ کے باعث یہ خواہش پوری نہیں ہو پاتی۔
اس کے علاوہ، سلمان فلک پیما کی فلاحی تنظیم کا ایک اہم رکن ہے اور تنظیم کے مختلف کاموں میں سرگرمی سے حصہ لیتا ہے۔ وہ سماجی ناانصافی کے خلاف جدوجہد میں فلک پیما کا حامی اور مددگار ہوتا ہے، لیکن اس کی ذاتی زندگی کی مایوسیاں اور ناکامیاں اس کے کردار کو ایک المیہ بنا دیتی ہیں۔
Note: The password is hidden within this article. Read the entire article thoroughly, find the password, and enter it in the password field.
