مرزا محمود سرحدی کی شاعری کی خصوصیات | PDF

مرزا محمود سرحدی کی شاعری کی خصوصیات | PDF: ہر شاعر اپنے عہد کا ترجمان ہوتا ہے، اور مرزا محمود سرحدی بھی اپنے عہد کی ناہمواریوں اور مسائل کو نہایت باریکی سے محسوس کرنے والے شاعر ہیں۔ انہوں نے ایک مزاح نگار کی طرح اپنے دور کے حالات کا مشاہدہ کیا اور ان سے متاثر ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں ان کے زمانے کی مکمل تصویر نظر آتی ہے۔

مرزا محمود سرحدی کی شاعری کے اہم موضوعات اور خصوصیات درج ذیل ہیں، جو طنز و مزاح کے حوالے سے ان کی ادبی خدمات کی عکاسی کرتے ہیں:

مرزا محمود سرحدی کی شاعری کی خصوصیات | PDF
مرزا محمود سرحدی کا طنز و مزاح

مرزا محمود سرحدی کی شاعری کی خصوصیات

مرزا محمود سرحدی کی شاعری کی خصویات یا موضوعات (طنز و مزاح کے حوالے سے) مندرجہ ذیل ہیں۔

  • انگریزی تہذیب و تمدن
  • انگریزی تعلیم
  • بے پردگی
  • دیسی انگریز
  • سامراجیت کے خلاف بغاوت
  • مزدور کسان طبقہ کی حمایت

انگریزی تہذیب و تمدن

مرزا محمود سرحدی نے انگریزی تہذیب و تمدن پر سخت تنقید کی اور اپنے ہم وطنوں کو اس سے بچنے کی تاکید کی۔ انہوں نے دیکھا کہ انگریزی تہذیب کے اثرات لوگوں کے اذہان پر گہرے نقوش چھوڑ رہے ہیں، لہٰذا اپنے قلم کو اس کے خلاف مؤثر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ انہوں نے لوگوں کو غلامی کے نقصانات سے آگاہ کیا اور انہیں ان کے شاندار ماضی کی یاد دہانی کروائی، تاکہ وہ اپنی خودی کو پہچان سکیں اور اپنی تہذیبی شناخت کو محفوظ رکھ سکیں۔

خدا جانے ہمیں ہندستانی کیوں وہ کہتے ہیں

ہماری ساخت انگریزی ہماری روح سرکاری

غلامی کا سبق دہرانے والا جانتا بھی ہے

تیرے اجداد نے کی ہے جہا نگیری جہانداری

مرزا محمود سرحدی غلامی کے خلاف شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر غلامی کے لیے جتنی بھی آسائشیں دی جائیں انہیں ہر گز قبول نہ کیا جائے تاکہ آزادی کی راہ ہموار ہو سکے۔

جو کچھ بھی ہو غلامی کی لعنت نہ کر قبول

جنت بھی اگر ہو تو یہ جنت نہ کر قبول

الف۔ انگریزی تعلیم

مرزا محمود سرحدی کا خیال ہے کہ انگریزی تعلیم اخلاقی لحاظ سے ہمیں پشت اور اپنی روایات سے دور لے جارہی ہے۔ یہ تعلیم انسانوں کو خانوں میں تقسیم کرتی ہے۔ وہ فرماتے ہیں :

ادھر تعلیم بڑھتی جارہی ہے آئے دن جتنی

ادھر اخلاق میں اتنی ہی پستی ہوتی جاتی ہے

انگریزی پڑھ کر لڑکیاں بے باک ہو گئیں

دھوئی گئیں وہ اتنی کے بس پاک ہو گئیں

ب۔ بے پردگی

مرزا محمود سرحدی کے ہاں بے پردگی کے خلاف بھی شدید احتجاج پایا جاتا ہے۔ ان کے نزدیک بے پردگی نہ صرف اخلاقی انحطاط کا سبب بنتی ہے بلکہ معاشرتی توازن کو بھی بگاڑ دیتی ہے۔ اس سلسلے میں وہ واضح طور پر بیان کرتے ہیں کہ:

ابھی تو عورتوں کے بال کٹوانے کے دن آئے

بہت نزدیک ہے وہ دن کہ ان کے سر بھی منڈوا جائیں

ج۔ دیسی انگریز

مرزا محمود سرحدی کی شاعری میں دیسی انگریز پر بھی لعن طعن موجود ہے۔ ایسے ہندوستانی جو انگریز بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ انگریزی زبان بولتے ہیں اور تہذیب یافتہ کہلانے کے شوقین ہوتے ہیں۔ سرحدی ان کی اس طرح خبر لیتے ہیں۔ (P: 768)

ہم غریبوں سے آپ کیوں صاحب مفت کے جھگڑے مول لیتے ہیں آپ کی طرح سے تو انگریزی خانسامے بھی بول لیتے ہیں

سامراجیت کے خلاف بغاوت

مرزا محمود سرحدی نے معاشرتی ناہمواریوں اور سماجی لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کرنے والے نام نہاد لٹیروں کو آئینہ دکھایا ہے۔ ایسے نام نہاد لیڈر نعروں اور وعدوں کا فریب دے کر عوام کا استحصال کرتے ہیں۔

یوم آزادی ہے اور ہم ہر طرح سے آزاد ہیں

بیٹھ جائیں جس طرح کوئی اٹھا سکتا نہیں

خواہ بھوکے ہیں تو کیا ہم خواہ ننگے ہیں تو کیا

بادشاہی پر ہماری حرف آ سکتا نہیں

آزادی اور جمہوریت کے نام پر جس طرح پاکستان کے مخصوص طبقے کے چند خاندانوں نے اپنی اجارہ داری قائم کر کے ناجائز فائدہ اٹھایا ہے اس کی مثال سارے دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ انہی وزیروں نے ملک کو دونوں ہاتھوں سے خوب لوٹا۔ مرزا محمود سرحدی وزارت کے متعلق یوں کہتے ہیں :

تیری دانست میں وزارت ہے

میری دانست میں یہ دھندا ہے

سب کی گردن میں ٹھیک آتا ہے

یہ ایک ایسا عجیب پھندا ہے

ہمارے اکثر شاعروں کو حکمران، سیاستدان، سرمایہ دار اور جاگیر دار وطن کے دشمن قرار دے کر جیل بھیج دیتے ہیں لیکن دراصل وطن کے دشمن یہی لوگ ہیں اور انہیں پکڑنے اور سزادینے والا کوئی نہیں۔ مرزا محمود سرحدی نے اس تلخ حقیقت کو یوں بیان کیا ہے :

تم جنہیں راہزن سمجھتے ہو

جیل خانوں میں سڑ رہے ہیں آج

یہ بتاؤ کہ کیا کہو گے انہیں

جن کے ہاتھوں سے لٹ رہا ہے آج

مزدور کسان طبقہ کی حمایت

مرزا محمود سرحدی کی شاعری میں مزدور اور کسان طبقے کی بھرپور حمایت نظر آتی ہے۔ ان کے خیال میں جب معاشرے میں ناانصافی اور عدم توازن پیدا ہوتا ہے تو وہ زوال کی جانب بڑھنے لگتا ہے۔ چونکہ مرزا محمود سرحدی خود بھی ذاتی طور پر مشکلات اور مسائل سے دوچار رہے، اس لیے ان کے تجربات نے ان کی تحریروں میں گہری تاثیر پیدا کی۔ انہوں نے ان ذاتی تجربات کو مزدور اور کسان طبقے کی حمایت اور ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے استعمال کیا۔

غریبوں کی قسمت میں مزدوریاں ہیں

عجب تیری قدرت کے ہیں کارخانے

رحم اس مزدور کی حالت پہ اے سرمایہ دار

فکر ہے جس کو سحر ہونے سے پہلے شام کی

الیکشن کے زمانے میں جب غریب اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کی خاطر اپنا ووٹ بیچ دیتے ہیں تو اس کا نقشہ مرزا محمود سر حدی اس طرح کھینچتے ہیں :

نوٹ لے کر جو ووٹ دیتے ہیں

ان فقیروں کو ہم نے دیکھا ہے

ہم نے دیکھا ہے جنس کی صورت

آدمی کس طرح سے بکتا ہے

اکثر بڑے بڑے افسر رشوت لیتے ہیں اور ملک و قوم کی تقدیر کو تاریک کر دیتے ہیں۔ ایسے افسر غریب حق داروں کا حق مار کر بڑی بڑی رقمیں، لمبی لمبی گاڑیاں اور عالیشان کو ٹھیاں بنا دیتے ہیں۔

حقیقت کی تجھ کو خبر ہی نہیں ہے

نہ جا ان کے ظاہر پہ میرے مربی

کمائی یہ رشوت کی اکثر بنے ہیں

وہ گھر جن پر لکھا ہے من فضل ربی

مزید دیکھیں:

نوٹ: فائل ڈاؤنلوڈ کرنے کے لیے سب سے پہلے “ڈاؤنلوڈ” بٹن پر کلک کریں اور چند سیکنڈ انتظار کریں۔ اس کے بعد ایک پاسورڈ فارم ظاہر ہوگا، جس میں آپ کو آرٹیکل کے اندر موجود پاسورڈ تلاش کر کے درج کرنا ہوگا۔ صحیح پاسورڈ درج کرنے کے بعد فائل خودبخود ڈاؤنلوڈ ہونا شروع ہو جائے گی۔ اگر آپ کو کوئی دشواری پیش آئے تو براہ کرم آرٹیکل کو دوبارہ غور سے پڑھیں۔

Book Cover

مرزا محمود سرحدی کی شاعری کی خصوصیات

Rating: ★★★★☆
  • Author: ravinotes.com

  • File Size: 698 KB

  • Format: PDF

  • Notes: Urdu

  • Price: Free

Leave a Comment