سب رس کے اسلوب کی خصوصیات | PDF

سب رس کے اسلوب کی خصوصیات | PDF: سب رس اردو کی پہلی مستقل نثری تصنیف ہے، جسے ملا وجہی نے 1048 ہجری میں تخلیق کیا۔ یہ کتاب اردو نثر کے ابتدائی نقوش میں شمار ہوتی ہے اور اس کا اسلوب انتہائی منفرد اور دلکش ہے۔ سب رس کی زبان ترقی یافتہ، مسجع و مقفیٰ اور فارسی و عربی اثرات سے مزین ہے، جبکہ اس میں ہندی زبان کی جھلک بھی نمایاں ہے۔ اس کتاب میں تمثیلی کرداروں کے ذریعے معاشرتی عکاسی اور صوفیانہ خیالات پیش کیے گئے ہیں، جو اسے مزید اثر انگیز بناتے ہیں۔

وجہی کی نثر میں سلاست، روانی اور ادبی حسن موجود ہے، جو اردو نثر کے ارتقا میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ ذیل میں داستان سب رس کے اسلوب کی خصوصیات کا تفصیلی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔

سب رس کے اسلوب کی خصوصیات

  • ترقی یافتہ زبان
  • مسجع و مقفیٰ نثر
  • عربی اور فارسی زبان کے اثرات
  • صرفی اور نحوی خصوصیات
  • ہندی زبان
  • تمثیلی کردار
  • معاشرت کی عکاسی
  • صوفیانہ افکار
داستان سب رس کے اسلوب کی خصوصیات
داستان سب رس کے اسلوب کی خصوصیات

ترقی یافتہ زبان

سب رس کی سب سے بڑی خصوصیت اس کی ترقی یافتہ زبان اور منفرد اسلوب ہے۔ اس سے پہلے جتنی بھی نثری تصنیفات موجود تھیں، ان میں ادبیت کا پہلو نہ ہونے کے برابر تھا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ان سے پہلے کی تمام نثری کاوشیں تبلیغی نقطۂ نظر سے لکھی گئی تھیں، جن کے مقاصد ادبی نہیں تھے۔

سب رس نے پہلی مرتبہ اردو نثر میں ادبیت کا عنصر شامل کیا اور اردو کی ادبی نثر کی بنیاد رکھی۔ اس زمانے میں اردو زبان ابھی ارتقائی مراحل میں تھی اور تراش خراش کا عمل جاری تھا۔ ملا وجہی نے اس ارتقائی عمل کو مزید تیز تر کر دیا اور سب رس کے ذریعے اردو نثر کو ایک منفرد اسلوب عطا کیا۔

یہی اسلوبی خصوصیات سب رس کو اردو نثر کا ایک شاہکار بناتی ہیں اور اسے اردو زبان کی ابتدائی اور مستند ترین ادبی نثری کاوشوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

مسجع و مقفیٰ نثر

سب رس کی نثر مسجع و مقفیٰ ہے۔ اس کی عبارت میں دو دو، تین تین جملے عموماً قافیہ دار ہوتے ہیں، جو کہ فارسی نثر کی پیروی کا نتیجہ ہے۔ سب رس کی عبارت پڑھتے ہوئے یہ گمان ہوتا ہے کہ نثر نہیں بلکہ شاعری پڑھی جا رہی ہے۔ مثلاً:

“یو کتاب، سب کتاباں کا سرتاج، سب باتاں کا راج، ہر بات میں سو سو معراج، اس کا سواد سمجھے نا کوئی عاشق باج، اس کتاب کی لذت پانے عالم سب محتاج۔”

یہ جملہ نہ صرف مسجع و مقفیٰ نثر کی عمدہ مثال ہے بلکہ وجہی کی زبان و بیان پر گرفت کا بھی ثبوت فراہم کرتا ہے۔

عربی اور فارسی زبان کے اثرات

سب رس میں عربی اور فارسی زبانوں کے گہرے اثرات پائے جاتے ہیں۔ ملا وجہی چونکہ زبان تراش تھے، اس لیے انہوں نے ان دونوں زبانوں کے ساتھ ساتھ ہندوستانی زبانوں کے الفاظ، محاورات اور ضرب الامثال کو ایسا باہم مدغم کیا کہ یہ بالکل اجنبی محسوس نہیں ہوتے۔

وجہی کی زبان اور اسلوب آج کی اردو زبان کے بہت قریب ہے۔ ان کا یہ لسانی تجربہ بہت کامیاب رہا اور آنے والے وقت میں اردو نے دیگر زبانوں سے ہر قسم کے الفاظ و تراکیب لینے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ سب رس کو اردو نثر کے ارتقا میں ایک اہم سنگِ میل قرار دیا جاتا ہے۔

صرفی اور نحوی خصوصیات

سب رس کے اسلوب کی ایک اور اہم خصوصیت اس کی صرفی اور نحوی ساخت ہے۔ وجہی نے ایک طرف عربی الفاظ کے املا کو سادہ بنایا، تو دوسری طرف فارسی زبان میں “گی” کا لاحقہ استعمال کرتے ہوئے نئے الفاظ وضع کیے، جیسے:

  1. بندہ → بندگی
  2. عاشق → عاشقی

یہ لسانی اختراعات اردو زبان کی تشکیل اور ارتقا میں اہم ثابت ہوئیں۔ اس لحاظ سے سب رس کو اردو زبان کی لسانی ترقی کا ایک بنیادی حوالہ سمجھا جاتا ہے۔

ہندی زبان

وجہی نے سب رس کی زبان کو “ہندی” کہا ہے، حالانکہ اس وقت جنوبی ہند میں جو زبان رائج تھی، اسے دکنی، گوجری یا گجراتی کہا جاتا تھا۔ یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ شمالی ہند کے لسانی اثرات جنوبی ہند کی زبان پر اس حد تک پڑ چکے تھے کہ وجہی کو سب رس کی زبان کو “ہندی” کہنا پڑا۔

وجہی نے اپنے زمانے کی بامحاورہ، رواں اور فصیح ترین زبان تخلیق کی، جس کا خود اسے بھی ادراک تھا۔ وہ اپنی زبان کی لطافت اور دلکشی کا تذکرہ کرتے ہوئے فخریہ انداز میں لکھتے ہیں:

“آج لگن کوئی اس جہاں میں، ہندوستاں میں، ہندی زباں سوں اس لطافت اور اس چھنداں سوں نظم ہور نثر ملا کر گھلا کر نہیں بولیا۔”

یہ وجہی کے لسانی شعور، سب رس کے اسلوبی حسن اور اس کی لسانی اہمیت کو بخوبی واضح کرتا ہے۔

تمثیلی کردار

سب رس میں کل ۲۷ غیر مجسم کردار پیش کیے گئے ہیں، جنہیں انسانی روپ میں ڈھال کر کہانی کا تانا بانا بنا گیا ہے۔ یہ تمثیل کی بہترین مثال ہے، جہاں وجہی نے اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ان کرداروں میں جان ڈال دی ہے۔

ان کرداروں کی برجستگی، ان کے خیالات، مکالموں اور طرزِ بیان سے واضح ہوتا ہے کہ وجہی ایک زبردست تخلیقی صلاحیت کے حامل نثر نگار تھے۔ وہ کرداروں کے مزاج، ان کے رویوں اور مکالمہ نگاری میں ایسا حسن اور فطری انداز اختیار کرتے ہیں کہ قاری کہانی کے ماحول میں خود کو شامل محسوس کرتا ہے۔

معاشرت کی عکاسی

سب رس میں ہمیں اس عہد کی معاشرت، تہذیبی زندگی، ثقافتی تنوع اور تمدنی حیات کی بو قلمونی نظر آتی ہے۔ یہ سب ظاہر کرتا ہے کہ وجہی ایک عمیق مشاہدہ رکھنے والے صاحبِ شعور ادیب تھے۔

یہ تمثیل محض ایک داستان نہیں بلکہ اس میں اپنے عہد کے تمام معاشرتی رنگوں کی جھلک نمایاں ہے۔ اس سے ہمیں اس دور کی سماجی زندگی کے نقوش بڑے واضح انداز میں دکھائی دیتے ہیں۔

 

وجہی چونکہ شاہی دربار سے وابستہ تھے اور ملک الشعرا کے منصب پر فائز تھے، اس لیے سب رس کی تمثیل میں درباری زندگی کے رکھ رکھاؤ، آدابِ شاہی اور حکومتی معاملات کی حکمتِ عملی کی بھی جھلکیاں موجود ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وجہی اپنے وقت کے سیاسی، سماجی اور ثقافتی معاملات سے بخوبی آگاہ تھے۔

صوفیانہ افکار

سب رس کی کہانی میں رنگا رنگی اور دلچسپ پلاٹ کے باوجود وجہی اپنے بنیادی مقصد سے کبھی نہیں ہٹتے۔ وہ بار بار صوفیانہ خیالات، اخلاقی اصولوں، مذہبی روایات اور تہذیبی اقدار کی تبلیغ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

وجہی نے صوفیانہ مضامین کو پیش کرنے کے لیے پیچیدہ اور مشکل اصطلاحات کے بجائے سادہ، سلیس اور عام فہم زبان استعمال کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریر کی تاثیر بڑھ جاتی ہے اور قاری ان کے خیالات کو بغیر کسی الجھن کے سمجھنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔

اسلوب میں مذہبی معاملات اور اصطلاحات کا استعمال بھی بھرپور انداز میں نظر آتا ہے۔ مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ وجہی نے عشقیہ معاملات کو بھی حد درجہ محتاط انداز میں پیش کیا ہے۔ وہ ابتذال، عریانی اور بے راہ روی سے مکمل اجتناب برتتے ہیں، جس کی وجہ سے سب رس کی ادبی عظمت اور اخلاقی وقار برقرار رہتا ہے۔

Book Cover

داستان سب رس کے اسلوب کی خصوصیات

Rating: ★★★★☆
  • Author: ravinotes.com

  • File Size: 729.64 KB

  • Format: PDF

  • Notes: Urdu

  • Price: Free

Leave a Comment