داستان فسانۂ عجائب کی کردار نگاری

داستان فسانۂ عجائب کی کردار نگاری: داستان اردو ادب کی ابتدائی اور اہم صنفِ نثر ہے، جس میں کردار نگاری کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ داستان نگار اپنے کرداروں کو اکثر مافوق الفطرت طاقتوں، عجیب و غریب صفات اور غیر معمولی اوصاف سے مزین کرتا ہے، تاکہ کہانی میں رنگینی، حیرت، تجسس اور دلچسپی پیدا ہو۔

داستان میں کردار اکثر نیکی و بدی، وفاداری و غداری، بہادری و بزدلی جیسے متضاد جذبات کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کے ذریعے داستان گو محض تفریح ہی فراہم نہیں کرتا بلکہ اخلاقی، سماجی اور تہذیبی پیغام بھی پہنچاتا ہے۔ کردار نگاری میں مبالغہ آرائی، جادوئی عناصر اور تصوراتی رنگ نمایاں ہوتے ہیں جو داستان کی فضا کو اور زیادہ دل کش اور طلسماتی بنا دیتے ہیں۔

فسانۂ عجائب اردو ادب کی اولین داستانوں میں شمار ہوتی ہے، جسے رجب علی بیگ سرور نے تحریر کیا۔ اس داستان کی سب سے نمایاں خوبی اس کی رنگارنگ، جاذبِ نظر اور ہمہ جہت کردار نگاری ہے۔ سرور نے اپنے کرداروں کو نہایت باریک بینی اور نفاست سے تراشا ہے۔ ان کے مزاج، لب و لہجہ، حرکات و سکنات اور ظاہری و باطنی پہلوؤں کو اس مہارت سے پیش کیا ہے کہ وہ قاری کے ذہن میں نقش ہو کر رہ جاتے ہیں۔

شہزادہ جان عالم، مہر نگار، انجمن آرا، وزیر زادہ، ماہِ طلعت، اور چڑی مار کی بیوی جیسے کردار نہ صرف فسانوی فضا کو حقیقت کا رنگ دیتے ہیں بلکہ اپنی جمالیاتی خوبیوں، انفرادی خصوصیات اور انسانی جذبات کی عکاسی کے سبب کہانی کو دلکش اور پر اثر بنا دیتے ہیں۔

سرور نے ان کرداروں کے ذریعے نہ صرف رومانویت، حسن و عشق، مہم جوئی اور جذباتی کشمکش کو اجاگر کیا بلکہ ایک ایسی خیالی دنیا کی تشکیل بھی کی جو حقیقت سے قریب ہونے کے باوجود جادوئی اور طلسماتی تاثر رکھتی ہے۔

کردار نگاری کیا ہے؟

کردار نگاری سے مراد کسی کہانی، ناول یا داستان میں شامل کرداروں کا ایسا مکمل اور واضح تعارف ہوتا ہے جس میں ان کی عادات، بات چیت کا انداز، سوچنے کا طریقہ، مزاج، جذبات اور کاموں کو اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ قاری کو لگتا ہے جیسے وہ کردار اس کے سامنے زندہ موجود ہے۔

ایک اچھا مصنف کردار نگاری کے ذریعے نہ صرف کہانی کو دلچسپ بناتا ہے بلکہ اپنے خیالات، معاشرتی سوچ اور اخلاقی پیغام بھی کرداروں کے ذریعے قاری تک پہنچاتا ہے۔ اچھی کردار نگاری وہی ہے جو کرداروں کو یادگار بنا دے اور قاری کے ذہن میں دیر تک نقش رہیں۔

فسانۂ عجائب کی کردار نگاری

فسانۂ عجائب کی کردار نگاری اردو داستانی ادب کا شاندار نمونہ ہے، جس میں تخیل، مشاہدہ، جمالیات اور نفسیات کا حسین امتزاج نظر آتا ہے۔ یہی کردار نگاری اس داستان کو دیگر داستانوں سے ممتاز اور ناقابلِ فراموش بناتی ہے۔ سرور کی تخلیقی قوت نے کرداروں کو محض الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ جیتی جاگتی ہستیاں بنا دیا ہے، جو نہ صرف قاری کو متاثر کرتی ہیں بلکہ ادبی و تنقیدی سطح پر بھی اپنی انفرادیت قائم رکھتی ہیں۔

فسانہ عجائب کی کردار نگاری
فسانہ عجائب کی کردار نگاری
  1. شہزادہ جان عالم
  2. شہزادی انجمن آرا
  3. ملکہ مہر نگار کا کردار
  4. ماہِ طلعت کا کردار
  5. وزیر زادہ کا کردار
  6. چڑی مار کی بیوی کا کردار

شہزادہ جان عالم کا کردار

فسانۂ عجائب کا مرکزی کردار شہزادہ جان عالم ہے، جو بادشاہ فیروز بخت کے ہاں ساٹھ برس کی عمر میں پیدا ہوتا ہے۔ رجب علی بیگ سرور نے اسے نہایت حسین، پرکشش اور دل فریب شخصیت کے طور پر پیش کیا ہے۔ اس کا حسن اس قدر دلآویز ہے کہ ملکہ مہر نگار محض ایک نظر ڈال کر اس کے جلوۂ حسن کی تاب نہ لا کر بے ہوش ہو جاتی ہے۔ مہر نگار کی سہیلیاں اور باندیاں بھی اسے چاند، سورج، اور پرستان کے وزیر زادے جیسے تشبیہات سے یاد کرتی ہیں۔ انجمن آراء بھی اس کے حسن سے فوراً متاثر ہو جاتی ہے۔

جان عالم صرف خوبصورت ہی نہیں بلکہ حسن پرست بھی ہے۔ جب وہ طوطے کی زبانی حسن آراء کے حسن کا تذکرہ سنتا ہے تو تصور ہی میں اس پر دل ہار بیٹھتا ہے اور اسی جستجو میں ایک طویل اور پُرمشقت سفر پر روانہ ہو جاتا ہے۔

اس کی چرب زبانی، فقرہ بازی اور حاضر جوابی اسے لکھنوی تہذیب کے نواب زادوں کی نمائندہ شخصیت بناتی ہے۔ بعض نقادوں کے مطابق، سرور نے جان عالم کی صورت میں لکھنوی شہزادوں اور زوال پذیر مغلیہ عہد کے نوابوں کی عیش پرستانہ، دکھاوے سے بھرپور اور نزاکت آمیز زندگی کو مجسم کر دیا ہے۔ بعض دیگر ناقدین کی رائے ہے کہ جان عالم کے کردار میں مردانہ قوت اور جرات کے بجائے نسوانی نزاکت پائی جاتی ہے۔

تاہم، اگر اسے داستان کے مرکزی کردار کی حیثیت سے دیکھا جائے تو وہ ایک مستقل مزاج، پُرعزم اور بہادر شخصیت نظر آتا ہے، جو اپنے عشق کی خاطر مشکلات کا سامنا کرتا ہے، آزمائشوں سے گزرتا ہے، اور کبھی حوصلہ نہیں ہارتا۔

وہ اگرچہ دانشمند بھی ہے، لیکن بعض مواقع پر یہی دانشمندی عیاری، چالاکی بلکہ منافقت کا روپ دھار لیتی ہے۔ جب وہ ساحرہ کے چنگل میں پھنس جاتا ہے تو حالات سے سمجھوتہ کرتے ہوئے نہایت ہوشیاری سے اسے اپنی محبت کا یقین دلاتا ہے اور اسے فریب دے کر نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔

یہ بھی سچ ہے کہ بعض مقامات پر وہ سادہ لوحی یا ناسمجھی کا مظاہرہ کرتا ہے، یہاں تک کہ مہر نگار اسے “احمق” کہنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ یوں جان عالم کا کردار اپنی تمام تر تضادات، نزاکتوں اور خوبیوں کے ساتھ لکھنوی معاشرے کے ایک نمائندہ شہزادے کی حیثیت رکھتا ہے۔

شہزادی انجمن آرا

شہزادی انجمن آرا، ملک زرنگار کی دختر اور شہزادہ جان عالم کی محبوبہ ہے۔ وہ فسانۂ عجائب کی ہیروئن ہے اور سرور نے اس کے کردار کو نہ صرف ظاہری حسن سے مزین کیا ہے بلکہ اس میں اخلاقی بلندی، نیکی، ظرف اور شرافت کو بھی بھرپور انداز میں پیش کیا ہے۔

انجمن آرا محض ایک خوبصورت شہزادی نہیں بلکہ ایک بااخلاق، باحیا اور نیک سیرت خاتون ہے۔ اس کی عالی ظرفی کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب وہ ملکہ مہر نگار سے پہلی بار ملتی ہے۔ عورتوں کی عمومی فطرت کے برخلاف، وہ نہ تو حسد کرتی ہے اور نہ ہی بغض کا مظاہرہ۔ بلکہ وہ مہر نگار سے بے تکلفی اور خلوص سے بات کرتی ہے اور جان عالم کی تعریفیں کرتی ہے، جو اس کے بلند اخلاق اور وسیع ظرف کا غماز ہے۔

سرور نے اسے ایک بھولی بھالی، شرمیلی اور سادہ لوح مشرقی عورت کے طور پر پیش کیا ہے۔ وہ اگرچہ دل میں جان عالم سے محبت رکھتی ہے لیکن اس کا اظہار زبان سے نہیں کرتی۔ جب اس سے نکاح کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو شرما جاتی ہے، جو مشرقی عورت کی روایتی شرم و حیا کی علامت ہے۔

نکاح کے بعد وہ جان عالم کو مجازی خدا تصور کرتی ہے اور اس کے ہر حکم پر خاموشی سے عمل کرتی ہے۔ اب چونکہ وہ بیوی بن چکی ہے اور مہر نگار بے نکاح ہے، اس لیے مہر نگار اس سے تعظیم سے پیش آتی ہے۔ لیکن انجمن آرا اپنی شخصی عظمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اب بھی ملکہ سے خلوص اور احترام سے پیش آتی ہے۔

انجمن آرا کا کردار مشرقی عورت کی شرافت، وقار، وفاداری، قربانی، حلم اور اعلیٰ اخلاقیات کا حسین نمونہ ہے۔ وہ داستان کی وہ ہیروئن ہے جو نہ صرف حسن کی بلکہ کردار کی بلندی کا بھی مظہر ہے۔

ملکہ مہر نگار کا کردار

ملکہ مہر نگار، فسانۂ عجائب کی ایک اہم نسوانی کردار ہے جسے بظاہر سائیڈ ہیروئن کہا جا سکتا ہے، مگر اس کی کردار نگاری اور تحریکی خصوصیات نے اسے ایک متحرک، باوقار اور دلکش کردار کے طور پر نمایاں کر دیا ہے۔ ممتاز نقاد نیر مسعود کے مطابق، وہ داستان کی اصل ہیروئن ہے، جبکہ رفیع الدین ہاشمی کے نزدیک یہ کردار فسانۂ عجائب کا سب سے جاندار، دلنواز اور فطری کردار ہے۔

رجب علی بیگ سرور نے اسے نہ صرف حسن و جمال سے آراستہ دکھایا ہے بلکہ اخلاق، دانشمندی، تمکنت، تدبر، موقع شناسی اور خوش مزاجی جیسی اوصاف سے بھی مزین کیا ہے۔ وہ ایک ایسے بادشاہ کی بیٹی ہے جو دنیا سے کنارہ کش ہو چکا ہے، لیکن خود ایک سرگرم، معاملہ فہم اور باشعور خاتون ہے۔

مہر نگار کی جان عالم سے پہلی ملاقات ایک شکاری منظر میں ہوتی ہے، جہاں وہ سہیلیوں کے ساتھ شکار کھیل رہی ہوتی ہے۔ شہزادہ اسے دیکھتے ہی اس پر فریفتہ ہو جاتا ہے۔ ابتدا میں مہر نگار سنجیدگی اور تمکنت کا مظاہرہ کرتی ہے اور شہزادے کو اپنے حسنِ گفتار سے مرعوب کرتی ہے، مگر بعد ازاں وہ خود بھی شہزادے کی محبت میں گرفتار ہو جاتی ہے اور اس کی راہنمائی کرنے لگتی ہے۔

بیوی کی حیثیت سے وہ ایک مثالی مشرقی عورت ہے، جو شوہر سے وفاداری، احترام اور محبت کو اپنا شعار بناتی ہے۔ نقادوں کے مطابق، مہر نگار لکھنوی معاشرت کی ایک مہذب، شریف اور عزت دار عورت کی نمائندگی کرتی ہے۔ وہ ابتدا سے آخر تک داستان کا ایک متحرک اور بھرپور کردار ہے، جو قاری پر گہرا اثر چھوڑتا ہے۔

ماہِ طلعت کا کردار

ماہ طلعت، شہزادہ جان عالم کی پہلی بیوی ہے۔ اس کا کردار مختصر ہے مگر اس کے مزاج میں نخوت، خود پسندی اور حسد نمایاں ہے۔ وہ دولتِ دنیا اور حسن پر فخر کرتی ہے اور چاہتی ہے کہ اس کی تعریف کی جائے۔ جب طوطا کسی اور حسینہ کے حسن کا ذکر کرتا ہے تو وہ غضبناک ہو جاتی ہے، طوطے کو دھمکیاں دیتی ہے اور اپنی ضد پر آ جاتی ہے۔

ماہ طلعت کا کردار ایک ناراض، خود پسند اور ناقابل برداشت عورت کی جھلک دکھاتا ہے، جو داستان میں کچھ دیر رہ کر منظر سے غائب ہو جاتی ہے۔ اس کا کردار اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ حسن اور دولت کا غرور کس طرح ایک عورت کو غیر متوازن بنا دیتا ہے۔

وزیر زادہ کا کردار

وزیر زادہ، شہزادہ جان عالم کا قریبی دوست ہے جس پر شہزادہ اندھا اعتماد کرتا ہے۔ ابتدا میں وہ وفادار دکھائی دیتا ہے، لیکن جب وہ انجمن آرا کو دیکھ کر اس پر فریفتہ ہو جاتا ہے تو اس کی وفاداری، حرص و ہوس اور غداری میں بدل جاتی ہے۔

جب موقع ملتا ہے تو وہ جان عالم کو بندر کے قالب میں بدل کر خود اس کی شکل اختیار کر لیتا ہے، اور بادشاہی کے مزے لوٹنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ بندروں کی ہلاکت کا حکم بھی جاری کر دیتا ہے تاکہ جان عالم کا خاتمہ یقینی ہو جائے۔

یہ کردار نمک حرامی، بے وفائی، خود غرضی، ظالمانہ فطرت اور منافقت کی علامت ہے۔ سرور نے اس کردار کے ذریعے ایک ایسا انسان دکھایا ہے جو دوستی کا لبادہ اوڑھ کر دشمنی کی انتہا تک پہنچ جاتا ہے۔

چڑی مار کی بیوی کا کردار

چڑی مار کی بیوی ایک ضمنی مگر انتہائی اہم اور اثر انگیز کردار ہے۔ جب وزیر زادہ، جان عالم کو بندر بنا دیتا ہے تو ایک چڑی مار اسے گرفتار کر کے اپنے گھر لے آتا ہے تاکہ اسے مار دے۔ مگر اس کی بیوی رحمدلی، ہمدردی اور شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے بچا لیتی ہے۔

وہ خود غریب اور فاقہ زدہ ہے، لیکن پھر بھی ایک معصوم جان کو مارنے کے خلاف ہے۔ وہ صبر و شکر سے لبریز، رحم دل اور اعلیٰ کردار کی مالک عورت ہے، جو جان عالم کی نجات کا سبب بنتی ہے۔ اس کے اس عمل سے یہ پیغام ملتا ہے کہ انسانی عظمت کا انحصار دولت پر نہیں بلکہ کردار اور نیت پر ہوتا ہے۔

مجموعی تجزیہ

سرور نے فسانۂ عجائب میں نسوانی کرداروں کو غیر معمولی اہمیت دی ہے۔ ہر کردار کو خوبصورتی، نفاست اور انفرادیت سے سنوارا ہے۔ مہر نگار اور انجمن آرا جیسے کردار دانش، وفا، وقار اور محبت کی علامت ہیں، جبکہ ماہ طلعت، وزیر زادہ جیسے کردار غرور، خود غرضی اور فریب کا پیکر بن کر سامنے آتے ہیں۔

ان تمام کرداروں کی فطرتیں اور انفرادی کیفیات داستان کے مرکزی دھارے میں مکمل ربط کے ساتھ پیش کی گئی ہیں، جو کہ سرور کی کردار نگاری پر قدرت کا واضح ثبوت ہیں۔

Book Cover

فسانہ عجائب کی کردار نگاری

Rating: ★★★★☆
  • Author: ravinotes.com

  • File Size: 984.96 KB

  • Format: PDF

  • Notes: Urdu

  • Price: Free

Leave a Comment