حسرت موہانی کی شاعری: حسرت موہانی نے اردو غزل کی اس وقت خدمت کی جب وہ ایک مشکل دور سے گزر رہی تھی۔ عام طور پر یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ اردو غزل کا دائرہ محدود ہے، جس کے باعث اس سے بیزاری برتی جانے لگی۔ ایسے میں حسرت موہانی نے اردو غزل کو سنبھالا اور اسے ایک نئی جہت عطا کی۔
انہوں نے نہ صرف غزل کی کلاسیکی روایت کو برقرار رکھا بلکہ اس میں فکری وسعت اور جذباتی گہرائی بھی پیدا کی۔ ان کی شاعری میں سادگی اور روانی کے ساتھ ساتھ ایک دلنشین موسیقیت بھی پائی جاتی ہے، جو قاری کو مسحور کر دیتی ہے۔
- یہ بھی دیکھیں: فراق گورکھپوری کی شاعری کی خصوصیات | PDF
حسرت موہانی نے اپنی غزلوں میں عشق، حسن، تصوف، آزادی اور انقلاب کے مضامین پیش کیے، جس نے اردو غزل کو نئی توانائی بخشی۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں “رئیس المتغزلین” کا خطاب ملا اور وہ اردو غزل کے ایک اہم ستون کی حیثیت اختیار کر گئے۔

حسرت موہانی کی شاعری کی خصوصیات
- حسرت کا تصور حسن و عشق
- زبان کی شیرینی اور سلاست
- جذبے کی صداقت اور خلوص
- حسرت کا محبوب اور اس سے حسرت کی مفاہمت
- رجائیت اور شگفتگی
- قومی اور ملکی مسائل
حسرت کا تصور حسن و عشق
حسرت موہانی کا تصورِ حسن و عشق روایتی تصورات سے بالکل مختلف ہے۔ ان سے پہلے کے شعراء زیادہ تر خیالی محبوب اور خیالی حسن کی بات کرتے تھے، اور ان کے عشق کا اظہار بھی ایک مخصوص صوفیانہ رنگ لیے ہوتا تھا۔ مگر حسرت نے حسن و عشق کو محض خیالی دنیا تک محدود نہیں رکھا بلکہ اسے حقیقی زندگی کے قریب تر کر دیا۔
ان کے ہاں حسن کی پرستش محض ایک تخیلاتی تصور نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے، جسے انہوں نے انتہائی قریب سے محسوس کیا اور اپنی شاعری میں سمو دیا۔ وہ صنفِ لطیف کے حسن کے شیدائی ہیں اور اس کے شباب، نزاکت اور رعنائیوں کو بے نقاب دیکھنے کے خواہشمند ہیں۔ یہی حقیقت پسندی ان کی غزل کو ایک منفرد کیفیت عطا کرتی ہے، جس میں بے ساختگی، والہانہ پن، اور جذبات کی گہرائی نمایاں ہوتی ہے۔
اگرچہ علامہ اقبال کو یہ شکوہ تھا کہ ہندوستانی شعراء کے فن پر عورت کے حسن کا غلبہ ہے، مگر حسرت موہانی کو اس پر فخر ہے۔ ان کے نزدیک یہی حسن وہ عنصر ہے، جس نے ان کی غزل میں ایک دلکش لوچ اور واقعیت پیدا کی۔ تاہم، ان کے ہاں حسن و عشق کے بیان میں کہیں بھی تصنع یا مبالغہ نظر نہیں آتا، بلکہ ان کی شاعری میں وقار اور شائستگی نمایاں ہے۔
یہی خوبی حسرت کی غزل کو انفرادیت بخشتی ہے، جو نہ صرف حسن کی ستائش کرتی ہے بلکہ اس میں ایک لطیف تہذیبی رنگ بھی موجود رہتا ہے۔ ان کے اشعار میں حسن و عشق کی حقیقت نگاری، جذبات کی سچائی اور زبان کی نزاکت ایک ساتھ جلوہ گر ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے ان کی غزل گوئی اردو شاعری میں ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔
ہزار کام لیا ہم نے خوش بیانی سے
جامہ زیبی نہ پوچھیے ان کی
جو بگڑنے میں بھی سنور جائیں
زبان کی شیرینی اور سلاست
حسرت موہانی نے جس طرح غزل کے معنوی رنگ کو نکھار بخشا، اسی طرح انہوں نے غزل کی زبان کو بھی پاکیزگی، شیرینی، شگفتگی، سلاست، برجستگی، بے ساختگی اور لطافت عطا کی۔ ان کی شاعری میں ایک فطری روانی ہے جو الفاظ کی نزاکت اور زبان کی لطافت کے امتزاج سے پیدا ہوتی ہے۔ انہوں نے غزل میں سینکڑوں حسین اور دلکش نئی تراکیب نہایت فنکارانہ حسن کے ساتھ استعمال کیں، جس نے ان کے کلام کو ایک منفرد پہچان بخشی۔
اہم روابط
فارسی کی پرانی اور فرسودہ تلمیحات کو ترک کرکے انہوں نے شاعری کو ایک نیا جمہوری لب و لہجہ دیا، جو غالب اور اقبال کی فکری بلندی کے برعکس عوام کے دلوں میں براہ راست اترنے والا تھا۔ انہوں نے لکھنوی طرزِ سخن کی بناوٹی نرمی اور پیچیدہ انداز کو چھوڑ کر اردو غزل میں سادگی اور بے تکلفی کو فروغ دیا، جس سے ان کے اشعار میں دلکشی اور اثر پذیری مزید بڑھ گئی۔
حسرت خود کہتے ہیں:
نغز گوئی میرا شعار نہیں
حسرت کے کلام کی دلپذیری کی ایک اہم وجہ ان کی زبان کی شیرینی اور گھلاوٹ ہے۔ ان کے اشعار میں الفاظ کا انتخاب انتہائی باریک بینی سے کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے ان کی شاعری میں ایک خاص تاثیر پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ خود کہتے ہیں:
“شاعری اور استادی کا صرف یہی کمال نہیں کہ مضمون بلند ہو اور زبان صحیح، یا ردیف کھلی ہوئی ہو اور قافیہ تازہ، بلکہ ان سب باتوں کے علاوہ سب سے بڑی خوبی، جو سب سے بڑھ کر مشکل ہے لیکن سب سے زیادہ قابلِ لحاظ ہے، وہ انتخابِ الفاظ سے متعلق ہے۔”(4)
یہی وجہ ہے کہ حسرت کی شاعری سادہ اور دلنشین ہے، جو پڑھنے والے کے دل میں فوری اتر جاتی ہے۔ ان کے اشعار کی مثالیں دیکھیے:
تیرا جور بھی ہے نشانِ محبت
انہیں شوقِ خود آرائی نہ ہوتا
تو اتنا دل بھی سودائی نہ ہوتا
حسرت موہانی کی شاعری کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ انہوں نے زبان کی سادگی اور فصاحت کو قائم رکھتے ہوئے بھی غزل کو ایک منفرد ادبی جمال عطا کیا، جو ان کے بعد آنے والے شعرا کے لیے ایک روشن مثال بن گیا۔
جذبے کی صداقت اور خلوص
حسرت موہانی کی شاعری میں جذبات کی صداقت اور احساسات کی اصلیت نمایاں طور پر موجود ہے۔ یہی خصوصیت ان کی غزل گوئی کو محبوبیت اور دلکشی عطا کرتی ہے۔ ان کے اشعار میں جو سچائی، خلوص اور والہانہ جذبہ پایا جاتا ہے، وہ قاری کو فوراً اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔
مرزا جعفر علی خان کے بقول:
“حسرت کی غزل میں جو چیز سب سے پہلے دامنِ دل کو کھینچتی ہے، وہ شدتِ احساس کے ساتھ صداقت و خلوص کا اظہار ہے۔”
یہی وجہ ہے کہ حسرت کی شاعری جرأت اور داغ کی طرح محض ہوسناکی پر مبنی نہیں بلکہ سچائی، خلوص اور پاکیزہ جذبات سے عبارت ہے۔ ان کی محبت مجازی ہونے کے باوجود حقیقی محسوس ہوتی ہے، جس میں ایک والہانہ سچائی ہے۔
شیوۂ عشق نہیں حسن کو رسوا کرنا
جو دور سے بھی نظر تجھ پہ یار ہم کرتے
ہزار جانِ گرامی نثارِ ہم کرتے
حسرت کی شاعری میں عشق ایک پاکیزہ جذبہ ہے، جو دل کی گہرائیوں سے نکلتا ہے اور صداقت و خلوص کی روشنی میں نکھر کر سامنے آتا ہے۔ ان کے اشعار میں محبت کی شدت کے ساتھ ساتھ اس کی پاکیزگی بھی نمایاں ہے، جو انہیں دیگر شعرا سے ممتاز کرتی ہے۔
حسرت کا محبوب اور اس سے حسرت کی مفاہمت
حسرت موہانی کی شاعری میں محبوب ایک واضح اور جیتا جاگتا کردار ہے، جس کے خد و خال، عادات و اطوار، انداز و ادا سب کچھ نمایاں ہے۔ وہ کوئی خیالی ہستی نہیں بلکہ گوشت پوست کا ایسا انسان ہے جو چلتا پھرتا، ہنستا بولتا، ناز و ادا دکھاتا اور محبوب پر ظلم بھی ڈھاتا ہے۔ اس کا ہر انداز دلربا ہے، اس کے لبوں سے پھول جھڑتے ہیں، وہ غیروں سے بھی ملتا ہے مگر بے وفا نہیں، بلکہ معصوم، سادہ اور بے باک ہے۔ یہی وہ خصوصیات ہیں جو حسرت کے محبوب کو ایک حقیقی اور دلکش شخصیت عطا کرتی ہیں، جسے محسوس کیا جا سکتا ہے۔(3)
رنگینیوں میں ڈوب گیا پیرہن تمام
چونکہ حسرت کے محبوب کی حیثیت گھریلو ہے، اس لیے اس کے اور حسرت کے درمیان ایک خوشگوار مفاہمت نظر آتی ہے۔ وہ صرف یک طرفہ عشق نہیں کرتے بلکہ ان کے محبوب کی نگاہیں بھی ان پر پڑتی ہیں، وہ التفات بھی کرتا ہے، چوری چھپے ملنے آتا ہے اور ان کی محبت کا جواب بھی دیتا ہے۔
بسترِ ناز پہ سونے سے جگا رکھا ہے
مانا کہ رسائیں تیرے نال مگر اے دل
اتنا بھی نہیں کرتے مجبور کسی کو
یہ اشعار اس بات کی دلیل ہیں کہ حسرت کا محبوب محض خیالی یا بے وفا معشوق نہیں بلکہ وہ ایک حساس، باوفا اور دل کو چھو لینے والی حقیقی شخصیت ہے۔ حسرت کی غزل میں محبوب اور عاشق کے درمیان مفاہمت، کشش، محبت اور جذباتی ہم آہنگی نمایاں ہے، جو اردو غزل کو ایک نئی جہت عطا کرتی ہے۔
رجائیت اور شگفتگی
حسرت موہانی کی شاعری کی سب سے نمایاں خوبی ان کی رجائیت اور شگفتگی ہے۔ انہوں نے اردو غزل کو روایتی سوگواریت اور یاسیت سے نکال کر امید، شادمانی اور خوشگوار مسکراہٹوں کی دنیا عطا کی۔ جہاں بیشتر شعراء غم و اندوہ، ہجر و فراق، اور گریہ و زاری میں غزل کو محدود رکھتے تھے، وہیں حسرت نے اسے تازگی، خوش مزاجی، اور رجائیت کا رنگ دیا۔
حسرت کے دل میں عشق و محبت کے جذبات کے ساتھ ساتھ حوصلہ، امید اور بلند نظری بھی پائی جاتی ہے۔ وہ زندگی کے اندھیروں میں روشنی کی کرن دیکھنے کے قائل تھے اور یہاں تک کہ وطن کی سیاست میں بھی کبھی مایوس نہیں ہوئے۔
وہ ایک برس میں ہو کہ دس بیس برس میں
ڈاکٹر سلام سندیلوی حسرت کی غزل کی خوبصورتی کو یوں بیان کرتے ہیں:
“حسرت کی غزل ایک حسین جھیل ہے جس میں خوشی کے کنول کھلتے ہیں۔”
حسرت کی شاعری میں ایک دلکش سرشاری اور امید کا عنصر ملتا ہے جو قاری کو مایوسی کی تاریکی سے نکال کر روشنی کی طرف لے جاتا ہے۔
انتظارِ یار بھی راحت فزا ہونے لگا
پوچھے کوئی اربابِ تمنا کے دلوں سے
حسنِ رخِ جاناں کی حکایت کے لذائذ
حسرت کی شاعری کی یہ خوشگوار کیفیت اردو غزل کو ایک نیا رنگ، ایک نئی تازگی، اور ایک نیا اسلوب عطا کرتی ہے، جس میں محبت کی چاشنی، امید کی کرن، اور شگفتگی کی مہک بسی ہوئی ہے۔
قومی اور ملکی مسائل
اگرچہ حسرت موہانی کی شاعری پر عشق و محبت کا رنگ غالب ہے، لیکن وہ عملی سیاست کے میدان کے بھی مرد مجاہد تھے۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی آزادی کی جدوجہد اور سیاسی سرگرمیوں میں گزاری، جس کی پاداش میں کئی بار قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔
اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی
خوشی سے ختم کر لے سختیاں قیدِ فرنگ اپنی
کہ ہم آزاد ہیں بیگانۂ رنج و دل آزاری
مجنوں گورکھپوری نے حسرت کی اس کیفیت کو یوں بیان کیا:
“قیدِ فرنگ ان کے تغزل کی تربیت اور تہذیب میں ترکیبی عناصر کی طرح داخل ہے۔”(6)
چونکہ حسرت موہانی ہندوستان کی سیاست میں عملی طور پر سرگرم تھے، اس لیے ان کی شاعری میں قومی اور ملکی مسائل بھی نمایاں نظر آتے ہیں۔ انہوں نے آزادی، خود داری، اور جدوجہد جیسے موضوعات کو اپنی شاعری میں نہایت خوبصورتی سے سمویا ہے۔ ان کے اشعار میں محض پیغام نہیں بلکہ عملی رہنمائی بھی موجود ہے۔ ان کے کلام میں جو خود داری اور بلند ہمتی کی تلقین ہے، وہ بعض طویل قومی نظموں میں بھی نظر نہیں آتی۔
ہمتِ سربلند سے یاس کا انسداد کر
غیر کی جدوجہد پر تکیہ نہ کر کہ ہے گناہ
کوششِ ذاتِ خاص پر ناز کر، اعتماد کر
الغرض، حسرت موہانی اردو زبان و ادب کے محسن تھے۔ ان کی غزل صرف حسن و عشق کی داستان نہیں بلکہ قومی و ملی جذبات کا اظہار بھی ہے۔ ان کے اشعار نہ صرف ذوق و شوق کو تسکین بخشتے ہیں بلکہ فکر و عمل کی راہیں بھی متعین کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا کلام ہمیشہ اردو ادب کے قارئین کے لیے سامانِ نشاط اور تربیت و رہنمائی کا ذریعہ بنا رہے گا۔
