تحقیق کیا ہے؟ تحقیق کے مدارج: تحقیق ایک مشکل اور گہرا لفظ ہے، جو جتنا مختصر ہے، اتنا ہی معنی خیز اور وسیع ہے۔ اس کی وضاحت کو اصطلاحی، اسلامی، تاریخی، سائنسی، اور ادبی پہلوؤں سے بہتر طور پر بیان کیا جا سکتا ہے۔ مختلف شعبوں میں اس کی بے شمار مثالیں اور تشریحات سامنے آتی ہیں۔ لغوی اعتبار سے تحقیق کا مطلب ہے کسی شے یا واقعہ کا کھوج لگانا، اس کی جانچ پڑتال کرنا، تصدیق کرنا، اور اس کے ثبوت فراہم کرنا وغیرہ۔
اصطلاحی معنوں میں تحقیق کا مطلب حقیقت کی تلاش، اس کی بازیافت، اور اسے اصلی شکل میں پیش کرنا ہے۔ تحقیق کے اپنے اصول و ضوابط ہوتے ہیں، جن کے ذریعے کسی واقعے یا مسئلے کو منطقی انداز میں پرکھ کر اس کے صحیح یا غلط ہونے کا تعین کیا جاتا ہے اور نتائج اخذ کیے جاتے ہیں۔
تحقیق کے صحیح نتائج تک پہنچنے کے لیے محققین کو ایک طویل اور محنت طلب عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہ عمل کئی تیاریوں پر مشتمل ہوتا ہے، جو تحقیق کے مختلف مدارج کہلاتے ہیں۔ ڈاکٹر عندلیب شادانی نے ان مدارج کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے:
- ابتدائی حصہ
- ثانوی حصہ
یہ دونوں حصے تحقیق کے سفر میں محققین کی رہنمائی کرتے ہیں اور ان کے لیے ایک منظم اور مؤثر طریقہ فراہم کرتے ہیں تاکہ وہ اپنے تحقیقی کام کو نتیجہ خیز بنا سکیں۔
ڈاکٹر عندلیب شادانی کے مضمون “تحقیق اور اس کا طریقہ کار” (صفحہ 91) میں ادبی اور لسانی تحقیق کے پانچ مراحل بیان کیے گئے ہیں، جنہیں تحقیق کے مراحل یا مدارج بھی کہا جاتا ہے۔ یہ مدارج درج ذیل ہیں:

تحقیق کے مدارج یا مراحل
- موضوع کا انتخاب
- خاکہ تیار کرنا
- ماخذوں کی فہرست بنانا
- ماخذوں کا مطالعہ اور مفید مواد کا انتخاب
- مقالہ نگاری
تحقیق کے لیے ان مراحل یا مدارج کو پیش نظر رکھنا نہایت ضروری ہے۔ کسی بھی تحقیقی موضوع پر کام کرنے سے پہلے ان اصولوں پر عمل کیا جائے تو نہ صرف تحقیق کی بنیاد مضبوط ہوگی بلکہ اس کے نتائج بھی درست اور معیاری ہوں گے۔
اس حوالے سے ڈاکٹر ایم سلطانہ بخش نے اپنی کتاب “اصول تحقیق” میں بنیادی ضروریات کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے:
“ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ اصول و ضوابط وضع کیے جائیں جن سے رہنمائی بھی آسان ہو جائے اور کام بھی سہل ہو جائے۔” (صفحہ 21)
ڈاکٹر عندلیب شادانی نے اپنے مضمون “تحقیق اور اس کا طریقہ کار” میں تحقیق کے عمل کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے:
- ابتدائی تحقیق: اس میں پہلے تین مراحل شامل ہیں یعنی موضوع کا انتخاب، ماخذوں کی فہرست تیار کرنا، اور مقالے کا خاکہ بنانا۔
- ثانوی تحقیق: اس میں آخری دو مراحل شامل ہیں یعنی ماخذوں کا مطالعہ، مفید مواد کا انتخاب، اور مقالہ نگاری۔
یہ تقسیم تحقیق کے عمل کو منظم کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے اور ایک محقق کو یہ سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے کہ تحقیق کے کس مرحلے میں کون سا کام انجام دینا ضروری ہے۔ ان اصولوں پر عمل کرنے سے تحقیقی کام کی سمت واضح ہوتی ہے اور اس کے معیار میں اضافہ ہوتا ہے۔
موضوع کا انتخاب
ابتدائی تحقیق کا سب سے پہلا اور اہم مرحلہ موضوع کا انتخاب ہے، جو تحقیق کی کامیابی کی بنیاد بنتا ہے۔ ڈاکٹر گیان چند اپنی کتاب “تحقیق کا فن” میں لکھتے ہیں:
“تحقیق میں سب سے اہم اور مرکزی نقطہ موضوع کا انتخاب ہے۔” (تحقیق کا فن، ص 71)
موضوع کے درست انتخاب سے ہی محقق میں دلچسپی، جوش، عمل اور کام کرنے کی تحریک پیدا ہوتی ہے۔ اسی لیے موضوع کا انتخاب کرتے وقت محقق کو اپنی ذاتی دلچسپی، رجحانات اور موضوع کی وسعت کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ آیا اس موضوع پر پہلے سے کام ہو چکا ہے یا نہیں، اور اگر ہوا ہے تو اس پر موجود مواد کی نوعیت اور مقدار کیا ہے۔
ڈاکٹر ایم سلطانہ بخش کے مطابق، موضوع ہمیشہ ایسا ہونا چاہیے جس پر وافر مقدار میں مواد میسر ہو اور وہ موجودہ معلومات میں اضافے کا باعث بنے۔ کسی موضوع کے پرانے یا کلاسیکی ہونے کے باوجود، وہ نئے پہلوؤں کو دریافت کرنے کی بے شمار وسعت رکھ سکتا ہے۔ قدیم داستانیں، اساطیری قصے اور کلاسیکی کہانیاں محض خیالی کہہ کر نظر انداز نہیں کی جا سکتیں، کیونکہ ان میں تہذیب، ثقافت اور تاریخ کے بیشمار اشارے اور علامات پوشیدہ ہوتی ہیں۔
اسی طرح عوامی شاعری، لوک گیت، اور دیگر عوامی ادب آج بھی تحقیق کے لیے دلچسپ موضوعات ہو سکتے ہیں۔ ڈاکٹر گیان چند نے اردو تحقیق کے موضوعات کو چند بڑے زمروں میں تقسیم کیا ہے، جو درج ذیل ہیں:
- کسی ایک ادیب یا شاعر پر تحقیق
- کسی صنفِ ادب کا مطالعہ
- کسی رجحان، تحریک یا دبستان کا جائزہ
- علاقائی یا گروہی ادب کا مطالعہ
- کسی انجمن یا ادارے پر تحقیق
- کسی ایک کتاب کا جائزہ، جیسے تذکرہ، تاریخِ ادب، داستان وغیرہ
- تدوینِ متن
- ادبی حوالہ جاتی کتب
- بین العلومی تحقیق
- ادبی لسانیات
ان زمروں میں سے کوئی ایک موضوع محقق اپنی دلچسپی، علم اور بصیرت کے مطابق منتخب کر سکتا ہے۔
ڈاکٹر ش. اختر اپنے مضمون “موضوع کا انتخاب” میں لکھتے ہیں:
“تحقیق کے مدارج میں سب سے اہم منزل موضوع کے انتخاب کی ہے۔ اگر اسکالر نے اپنی صلاحیت، ذوق، اور پسند کی روشنی میں موضوع کا انتخاب نہیں کیا تو اس کی تحقیق کبھی مکمل نہیں ہوگی، اور اگر مکمل ہو بھی گئی تو اس کے مفید نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔” (ص 139)
لہٰذا، تحقیق کے لیے موضوع کا انتخاب ایک ایسا مرحلہ ہے جس پر پوری تحقیق کی کامیابی یا ناکامی کا انحصار ہوتا ہے۔ اس کے لیے محقق کو نہایت دانشمندی اور بصیرت سے کام لینا چاہیے تاکہ وہ ایک ایسا موضوع چنے جو نہ صرف دلچسپ ہو بلکہ تحقیق کے نئے دروازے بھی کھولے۔
خاکہ
موضوع کے انتخاب کے بعد ابتدائی تحقیق کا دوسرا مرحلہ تحقیقی مقالے کے لیے ایک خاکہ، یعنی Synopsis ترتیب دینا ہے۔ کسی بھی کام کو منظم اور مؤثر انداز میں انجام دینے کے لیے اس کا خاکہ بنانا نہایت ضروری ہے۔ ڈاکٹر عندلیب شادانی اپنے مضمون “تحقیق اور اس کا طریقہ کار” میں لکھتے ہیں:
“خاکہ بنائے بغیر مقالہ لکھنا ایسا ہی ہے جیسے نقشے کے بغیر مکان کی تعمیر کرنا۔ خاکہ بنانے کے بعد ذہنی طور پر مقالے کی ایک ہیئت متعین ہو جاتی ہے اور اس نقشے پر عمارت بنانا آسان ہے۔ خاکے میں جو عنوانات قائم کیے جائیں، ان میں ترتیبِ زمانی کا لحاظ مفید بلکہ ضروری ہے۔ مطالعے کے دوران خاکے کے جس عنوان کے متعلق مواد ہاتھ آئے، اسے اس عنوان کے تحت درج کرنا چاہیے۔” (اردو میں اصول تحقیق، مرتبہ ایم سلطانہ، ص 55)
اہم روابط
خاکہ کی تیاری کے بغیر مقالہ تحریر کرنے کا عمل مزید دشوار اور پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ خیالات کی ترتیب اور تنظیم تحقیق کے عمل کو سہل بناتی ہے۔ اگر مواد کو بغیر کسی ترتیب کے جمع کر کے پیش کر دیا جائے تو تحقیق کی معیاری حیثیت متاثر ہوتی ہے۔ خاکہ تحقیقی مواد کی ترتیب کو عمدگی اور سلیقے سے پیش کرنے کا ایک مؤثر طریقہ ہے، جس سے تحقیق کے آئندہ مراحل آسان اور منظم ہو جاتے ہیں۔
خاکہ کن خطوط پر تشکیل دیا جائے
خاکہ بنانے کے لیے کوئی مخصوص ضوابط نہیں ہیں؛ مختلف موضوعات کے لیے مختلف خاکے ترتیب دیے جا سکتے ہیں۔ ڈاکٹر گیان چند نے اپنی کتاب “تحقیق کا فن” میں چند نمونے پیش کیے ہیں۔ ان میں سے ایک مثال درج ذیل ہے:
- سوانح اور شخصیت
- ما قبل اور معاصر ادبی ماحول
- عصمت کے افسانوں میں سماجی اور معاشی شعور
- عصمت کے افسانوں میں جنسی اور نفسیاتی حقیقت نگاری
- عصمت کے ناول
- عصمت کے ڈرامے
- عصمت کے سوانحی ناول
- زبان اور اسلوب
- خاتمہ
- عصمت کے بارے میں دوسروں کی مخالف و موافق آراء
- عصمت کے افسانوں کی تاریخی فہرست
(تحقیق کا فن، ڈاکٹر گیان چند، ص 11)
خاکہ تحقیق کے عمل میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر تحقیقی خاکہ تمام ممکنہ مسائل اور ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے ترتیب نہ دیا جائے، تو آگے کا کام پیچیدہ اور غیرمنظم ہو سکتا ہے۔ خاکہ تحقیق کے لیے نہ صرف ایک رہنما کا کام کرتا ہے بلکہ مقالے کی ترتیب اور موضوع کی گہرائی کو بہتر انداز میں پیش کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے۔
ماخذوں کی فہرست یا مواد کی فراہمی
تحقیق کا تیسرا اہم مرحلہ ماخذوں کی فہرست یا مواد کی فراہمی ہے، جو تحقیقی عمل کی بنیاد تصور کی جاتی ہے۔ جیسا کہ ڈاکٹر عندلیب شادانی لکھتے ہیں:
“چونکہ ریسرچ کا سارا دار و مدار ماخذوں پر ہی ہوتا ہے، اس لیے ہر نوع کے ماخذوں کی ایک مفصل اور مکمل فہرست تیار کر لینی چاہیے۔” (تحقیق اور اس کا طریقہ کار، ص 52)
یہ مرحلہ تحقیق کے لیے نہایت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ محقق کو مواد کی فراہمی کے لیے تمام ممکنہ ذرائع سے مواد اکٹھا کرنا ہوتا ہے۔ مواد کی فراہمی کے ذرائع بنیادی طور پر دو اقسام میں تقسیم کیے جا سکتے ہیں:
- لائبریری
- عوام
لائبریری
سب سے پہلے مواد کی تلاش کے لیے مختلف لائبریریوں، ذاتی کتب خانوں، عجائب گھروں، اور نادر دستاویزات کی فہرست تیار کی جاتی ہے۔ لائبریری تحقیق کے لیے ایک بنیادی اور قابلِ اعتماد ذریعہ ہے۔ لائبریری سے محقق نایاب اسناد، قلمی نسخے، تحقیقی مقالات، اور حوالہ جاتی کتابیں حاصل کر سکتا ہے۔ عبدالستار دلوی نے لائبریری کی اہمیت کو یوں بیان کیا ہے:
“مواد کی فراہمی کا اہم ترین ذریعہ لائبریری ہے۔ لائبریری جتنی بڑی اور مکمل ہو گی، تحقیقی کام بھی اتنا ہی مکمل ہو گا۔ مواد کی فراہمی کے سلسلے میں لائبریری ایک مرکزی کردار ادا کرتی ہے۔” (اصول تحقیق، مرتبہ ایم سلطانہ بخش، ص 105)
عوام
مواد کی فراہمی کا دوسرا اہم ذریعہ عوام ہے۔ بعض واقعات اور معلومات کی تصدیق عوامی ذرائع سے ہی ممکن ہوتی ہے۔ اس ضمن میں سوالنامے، انٹرویوز، اور سروے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ عوامی ذرائع سے حاصل کردہ مواد تحقیق کو مزید مستند اور قابلِ اعتبار بناتا ہے۔
بنیادی اور ثانوی ذرائع
تحقیقی مواد کو بنیادی اور ثانوی ذرائع میں بھی تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
- بنیادی ذرائع: ان سے حاصل کردہ معلومات مستند اور بہترین سمجھی جاتی ہیں۔ یہ ذرائع تحقیق میں اولیت رکھتے ہیں، جیسے تجربات، ذاتی مشاہدات، انٹرویوز، سوالنامے، تحقیقی مضامین، خطوط، ڈائریاں، سوانح عمریاں، حکومتی رپورٹس، مخطوطات، اور فرامین۔
- ثانوی ذرائع: یہ وہ ذرائع ہیں جو بنیادی مواد کی تشریح یا وضاحت پر مبنی ہوتے ہیں، جیسے تحقیقاتی مضامین اور کتب۔
ایک کامیاب محقق کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے موضوع سے متعلق مواد کے حصول کے ذرائع کا بخوبی علم رکھے۔ ڈاکٹر عندلیب شادانی اور دیگر محققین کی آراء سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مواد کی فراہمی کا مضبوط نظام تحقیق کے معیار کو بلند کرتا ہے اور تحقیق کے نتائج کو قابلِ اعتماد بناتا ہے۔
ماخذ کا مطالعہ اور مفید مواد کا انتخاب
ثانوی تحقیق کا پہلا مرحلہ ماخذوں کا مطالعہ اور ان سے مفید مواد کا انتخاب و ترتیب ہے۔ یہ مرحلہ تحقیقی عمل میں محقق کے لیے غور و فکر کی بنیاد فراہم کرتا ہے اور تحقیق کے معیار کا تعین کرتا ہے۔ ڈاکٹر عبدالستار دلوی کے مطابق:
“محقق کے لیے مواد کے انتخاب کی مہارت بھی ضروری ہے تاکہ وہ غیر ضروری مواد کو نظر انداز کرکے اپنے لیے مفید اور ضروری مواد ہی جمع کرسکے۔” (اصول تحقیق، مرتبہ ایم سلطانہ بخش، ص 92)
مواد کی درجہ بندی میں بنیادی اور ثانوی ذرائع کا فرق واضح ہونا نہایت ضروری ہے۔
- بنیادی ذرائع وہ ہیں جو براہ راست واقعہ سے متعلق ہوتے ہیں، جیسے کسی کتاب، مضمون یا مخطوطے کا براہ راست مطالعہ۔
- ثانوی ذرائع وہ ہیں جو کسی اور مصنف یا محقق کے ذریعے مرتب یا تشریح شدہ مواد پر مشتمل ہوں۔
عبدالستار دلوی ثانوی ذرائع کے متعلق لکھتے ہیں:
“کسی وسیلے کے براہ راست استعمال کو بنیادی وسیلہ کہا جاتا ہے، جبکہ کسی دیگر محقق کے ذریعے مواد کو حاصل کرنا ثانوی وسیلہ کہلاتا ہے۔ حاصل کردہ متن مشکوک یا غلط بھی ہو سکتا ہے۔”
مواد کے مطالعہ میں احتیاط
تحقیق کے دوران ماخذ کا مطالعہ کرتے وقت غیر ضروری مواد کو نظر انداز کرنا اور صرف مستند و مفید مواد کو شامل کرنا محقق کی مہارت کو ظاہر کرتا ہے۔
ڈاکٹر جمیل جالبی نے اس سلسلے میں ایک مثال پیش کی ہے، جہاں احتشام حسین صاحب نے غالب کی کتاب “مہر نیم روز” کو ان کے تفکر اور تاریخ سے گہری واقفیت کی بنیاد قرار دیا، مگر یہ ثابت ہوا کہ یہ کتاب غالب کی اصل تصنیف نہیں بلکہ ایک ترجمہ ہے۔ اس طرح کی مثالیں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ تحقیق قیاسات یا ناقابل تصدیق مواد پر مبنی نہیں ہونی چاہیے، بلکہ ہر ماخذ کی صداقت کا بغور جائزہ لیا جانا چاہیے۔
مواد کی ترتیب اور تجزیہ
مطالعہ کے دوران حاصل کردہ مواد کو ترتیب دینے اور منظم کرنے کی مہارت تحقیق کا بنیادی جز ہے۔ یہ عمل توجہ اور محنت کا متقاضی ہوتا ہے۔ محقق کو چاہیے کہ:
- ماخذ کو غور سے اور آہستگی سے پڑھے۔
- مواد پر تبصرہ جاری رکھے اور اس کی اہمیت کا تعین کرے۔
- جہاں سے مواد حاصل ہوا ہو، اس کا حوالہ ضرور درج کرے۔
- مواد کے مفید اور غیر مفید پہلوؤں کا تجزیہ کرے۔
تحقیق کے عمل میں ماخذوں کی درستی اور ان کی قابلِ اعتماد ترتیب تحقیق کے معیار کو بلند کرتی ہے۔ اس سے محقق کے مقالے کو علمی اہمیت اور نمایاں مقام حاصل ہوتا ہے، جبکہ غیر ضروری یا غلط مواد تحقیق کو کمزور بنا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ محقق کو ماخذ کے انتخاب میں نہایت محتاط اور دور اندیش ہونا چاہیے۔
مقالہ نگاری
ڈاکٹر عندلیب شادانی کے مطابق تحقیق کے مراحل میں ثانوی درجہ مقالہ نگاری کا ہے، یعنی مواد کو ترتیب دینے کے بعد اسے ضبطِ تحریر میں لانا۔ مقالہ لکھتے وقت چند اہم امور کو مدنظر رکھنا ضروری ہے تاکہ مقالہ علمی و تحقیقی معیار پر پورا اتر سکے اور قاری کے لیے دلکش و مؤثر ہو۔
مؤثر طرزِ تحریر
تحقیقی مقالے میں مؤثر طرزِ تحریر اختیار کرنا نہایت اہم ہے۔ اس میں تصنع، بناوٹ اور آرائشی زبان سے پرہیز کرنا چاہیے۔ عبدالرزاق قریشی اپنے مضمون “مقالہ کی تسوید” میں لکھتے ہیں:
“تحقیقی مقالہ چونکہ واقعات و حقائق پر مبنی ہوتا ہے، اس لیے اس میں لفاظی، افسانہ طرازی، خطابت یا شاعرانہ رنگین بیانی سے کام نہیں لینا چاہیے۔ یہ باتیں مقالہ کی عظمت کو کم کرتی ہیں۔” (اصول تحقیق، مرتبہ ایم سلطانہ بخش، ص 266)
لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مقالہ کی زبان خشک اور بے جان ہو جائے۔ مقالہ کا اسلوب سادہ اور شگفتہ ہونا چاہیے، جیسا کہ شبلی نعمانی اور مولوی عبدالحق کی تحریریں، جو اپنی سادگی کے باوجود دلکش اور مؤثر ہیں۔ اسلوبِ بیان کو شگفتہ اور پرکشش بنانے کے لیے محنت اور توجہ کی ضرورت ہے۔
اختصار اور جامعیت
مقالے کی غیر ضروری طوالت سے گریز کرنا بھی ایک اہم اصول ہے۔ غیر ضروری الفاظ اور بے جا تفصیلات تحقیق کے معیار کو متاثر کرتی ہیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے شعبہ انگریزی نے اپنے پی ایچ ڈی طلباء کے لیے شائع کردہ رسالے میں لکھا ہے:
“اعجاز مقالہ کا اہم ترین وصف ہے۔”
اختصار کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی اہم بات رہ جائے، بلکہ ضروری نکات کو جامع انداز میں پیش کیا جائے۔
تسلسل اور روانی
مقالہ لکھتے وقت تسلسل اور روانی کا خیال رکھنا چاہیے۔ ایک نشست کا کام ختم کرنے سے پہلے اگلی نشست کے لیے چند خیالات قلم بند کر لینے چاہئیں، تاکہ دوبارہ لکھنے کا عمل آسان ہو اور زیادہ غور و فکر نہ کرنا پڑے۔
ماخذوں کی فہرست
مقالے کے آخر میں ان تمام ماخذوں کی فہرست شامل کرنا ضروری ہے جن سے استفادہ کیا گیا ہو۔ اس فہرست سے قاری کو نہ صرف مواد کے ماخذ معلوم ہوں گے بلکہ مقالہ کی علمی بنیاد اور افادیت کا بھی اندازہ ہوگا۔
مختصراً، تحقیقی مقالے کی تدوین دو بنیادی مدارج پر مشتمل ہوتی ہے:
- ثانوی مرحلہ: موضوع کا انتخاب، خاکہ کی تیاری، اور ماخذوں کی فہرست۔
- بنیادی مرحلہ: مواد کی ترتیب، مطالعہ، اور مقالے کو ضبطِ تحریر میں لانا۔
تحقیق کے ان تمام مراحل میں محقق کی مہارت، ذہنی صلاحیت اور تحقیقی اصولوں کی پابندی ایک معیاری مقالہ کی بنیاد فراہم کرتی ہے۔