امراؤ جان ادا کی کردار نگاری: “امراؤ جان ادا” کی کہانی اُس دور سے منسوب ہے جہاں نسائیت اور خواتین کا غلبہ نمایاں تھا، اسی لیے ناول میں نسوانی کردار نہایت جاندار اور بھرپور ہیں، اور پوری کہانی اُن کی گرفت میں ہے۔ ناول میں صرف چند مرکزی کردار ہی نہیں بلکہ درجنوں کردار موجود ہیں جن میں مرد اور عورت دونوں شامل ہیں۔
“امراؤ جان ادا” کے کردار نگاری میں تمام کردار اپنی اپنی جگہ پر ضروری اور معروضی حیثیت رکھتے ہیں۔ مردانہ کرداروں میں کچھ نمایاں اور چند ضمنی کردار شامل ہیں، لیکن کہانی کی روح ان چند مرکزی کرداروں مثلاً امراؤ جان ادا خود، خانم جان، بوا حسینی، فیض علی اور گوہر مرزا کی موجودگی سے روشن ہوتی ہے۔ یہ کردار نہ صرف داستان کو معنی خیز بناتے ہیں بلکہ قارئین کو ایک مکمل اور منظم ادبی تجربہ فراہم کرتے ہیں۔
ناول امراؤ جان ادا کی کردار نگاری
- امراؤ جان ادا کا کردار
- خانم کا کردار
- گوہر مرزا کا کردار
- بسم اللہ جان کا کردار
- خورشید بیگم کا کردار
- نواب سلطان کا کردار
- بوا حسینی کا کردار
- فیض علی کا کردار
امراؤ جان ادا کا کردار
جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، “امراؤ جان ادا” ناول کا مرکزی کردار ہے اور بقول مختلف نقاد اسے نہ صرف اس ناول بلکہ اردو ادب کا ایک اہم ترین کردار بھی قرار دیتے ہیں۔ پوری کہانی اسی کردار کے گرد گھومتی ہے۔ تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ امراؤ جان ایک فرضی کردار ہے جسے رسوا نے اپنی فنکاری کے ذریعے اتنا حقیقت کا رنگ دے دیا ہے کہ قاری کو یہ تصور ہونے لگتا ہے کہ وہ واقعی وجود رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امراؤ جان آج بھی دنیا کے بہترین ناولوں میں شمار ہوتا ہے۔
ناول میں امراؤ جان کا سفر بچپن سے جوانی تک کے مختلف مراحل سے گزرتا ہے، جو کہ فطرت اور بلاغت کا بہترین نمونہ پیش کرتے ہیں۔ وہ اغوا ہونے سے لے کر خانم کے کوٹھے پر پہنچنے، پھر جوانی میں طوائف بننے اور بعد میں رنڈی کے روپ میں بدل جانے تک کے مراحل سے گزرتا ہے۔ امراؤ جان پیدائشی طور پر رنڈی نہیں تھی؛ بلکہ قسمت کی ستم ظریفی اور حالات کی مجبوری کی بنا پر وہ گھر کی قید سے باہر نکل آئی اور امیرن کا روپ دھار کر “امراؤ جان” بن گئی۔
خانم کے کوٹھے پر پہنچنے کے بعد اسے مکتب کی تعلیم بھی دلوائی گئی اور اس نے کتب اور رسائل کا مطالعہ کیا جس سے اس کا ذوق اور علمی سطح بہتر ہوتی گئی۔ امراؤ جان شاعری اور موسیقی سے گہری دلچسپی رکھتی تھی اور خود غزل کہنے کی اہل بھی تھی۔
اس کی محبت کی شدت اور اس کے جذبات کی گہرائی نے اسے ایک حقیقی کردار کی شکل دے دی، جو بچپن کی معصومیت، جوانی کا جوش، اور طوائف کے روپ میں اس کی نفاست، گفتگو کے انداز اور جذباتی پیچیدگیوں کا مکمل آئینہ دار ہے۔
ناول میں امراؤ جان کے مختلف مراحل میں، خانم کے کوٹھے پر بسم اللہ جان اور خورشید کے ناچتے گاتے سنگھار کرتے مناظر دیکھ کر اس کے جذبات میں اُتراؤ پیدا ہونے لگتا ہے۔ اس کے لیے ایک طرف گوہر مرزا صرف حالات کے پیدا کردہ جذبات کی تسکین کا ذریعہ بن جاتا ہے، جبکہ دوسری جانب وہ اپنے محبوبوں سے اپنی بے لوث محبت کا اظہار کرتی ہے۔
امراؤ جان کا کردار صرف ایک فرضی کردار نہیں بلکہ ایک ایسی شخصیت ہے جس نے اپنی پوری زندگی میں اپنے پیشے سے ذہنی طور پر نفرت تو کی، مگر اپنی محبت کے جذبات اور انسانی وقار کو برقرار رکھتے ہوئے ایک حقیقی کردار کی تمام خوبیاں بخشی ہیں۔
آخر میں، امراؤ جان کا سفر اپنی کربلائے معلی کی زیارت کے بعد پاک صاف زندگی بسر کرنے کے عمل سے اختتام پذیر ہوتا ہے، جو اس کے کردار کی گہرائی اور ارتقاء کو ظاہر کرتا ہے۔ مختصر یہ کہ “امراؤ جان ادا” میں ایک اچھے کردار کی تمام خوبیاں موجود ہیں، جو نہ صرف اپنی زندگی کے المیے اور تکالیف کا عکاس ہے بلکہ اس کی محبت، خودداری، اور انسانی وقار کو بھی نمایاں کرتی ہے۔
خانم کا کردار
“خانم” ناول کا ایک اہم اور نمایاں کردار ہے، جو کوٹھے کی مالکن کے طور پر سامنے آتی ہیں۔ ان کا کردار ایک تجربہ کار اور جہاندیدہ طوائف کی تمام خصوصیات کا مجموعہ ہے۔ وہ کوٹھے کے آداب و رسوم سے بخوبی واقف ہیں اور کوٹھے پر رہنے والی لڑکیوں کے ناز و نخرے برداشت کرنے کے ساتھ ساتھ ناچنے والوں اور دیگر ملازمین کو خوش رکھنے کا بھی فن جانتی ہیں۔ ان کی گفتگو کا انداز نہایت سلیقہ مند اور محفل کی ترتیب سے مطابقت رکھتا ہے، اور وہ موسیقی کے اتار چڑھاؤ سے بھی اچھی طرح واقف ہیں۔
ناول میں خانم کو ایک ایسی مشرقی عورت کے طور پر پیش کیا گیا ہے جو پچاس سالہ تجربے اور زندگی کی پیچیدگیوں کے باوجود نہایت ذہین، خود مختار اور نرم دل ہے۔ وہ نہ صرف اپنے کاروباری کام کو بخوبی نبھاتی ہیں بلکہ اپنی مہارت سے امیرن جیسی معصوم لڑکی کو “امراؤ جان” بنانے میں بھی کامیاب ہو جاتی ہیں۔ خانم اپنے کام کے دوران ہر آنے والے کو ادب و احترام سے پیش آتی ہیں اور ان کے پاس ایک خاص بصیرت ہے جس سے وہ اپنے کوٹھے کی کامیابی کو یقینی بناتی ہیں۔
مزید یہ کہ خانم کے کردار میں محبت اور شفقت کے جذبات بھی واضح طور پر جھلکتے ہیں۔ وہ اپنے نوچیاں (نوچیاں اور نوچیوں) سے دلی محبت رکھتی ہیں اور ان کے لیے ایک سرپرست کی مانند ہیں۔ وہ اپنی پرانی محبت کو نبھاتی ہیں اور 70 سالہ مرزا صاحب کی ضروریات کا بھی خیال رکھتی ہیں، جس سے ان کی انسانی پہلو اور نرم مزاجی نمایاں ہوتی ہے۔
مختصر یہ کہ، خانم کا کردار ناول میں نہ صرف کوٹھے کی تنظیم و انتظام کی مثال ہے بلکہ وہ ایک ایسی عورت کی تصویر پیش کرتی ہیں جو اپنے پیشہ ورانہ تجربے، اخلاقی اقدار اور انسانی محبت کے جذبوں کی بدولت اپنی شناخت کو برقرار رکھتی ہیں۔ ان کا کردار ادب میں ایک مضبوط اور مثالی شخصیت کے طور پر سراہا جاتا ہے، جو اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھاتے ہوئے قاری کے دل میں ایک گہرا اثر چھوڑتا ہے۔
گوہر مرزا کاکردار
گوہر مرزا ناول امراؤ جان ادا کا ایک دلچسپ اور جاندار کردار ہے، جو اپنی فطری شرارتوں اور بے باکی کی وجہ سے نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ وہ بنو ڈومنی کا بیٹا اور نواب سلطان علی خان کی ناجائز اولاد ہے۔ نواب سلطان علی خان اس کے اخراجات کے لیے ماہوار دس روپے بھیجا کرتے تھے اور بعض اوقات اپنی بیوی سے چھپ کر گوہر مرزا سے ملنے بھی آتے تھے۔
گوہر مرزا کی طبیعت فطری طور پر شوخ اور شریر تھی، جس کی وجہ سے محلے کے لوگ اس سے تنگ آ چکے تھے۔ والدہ نے بھی اس کی شرارتوں سے عاجز آ کر اسے مولوی صاحب کے مدرسے میں بھیجا، مگر وہاں بھی اس نے اپنی حرکتیں نہ چھوڑیں۔ ایک دن اس نے مولوی صاحب کا نیا جوتا حوض میں ڈال دیا، جس پر مولوی صاحب نے اسے پڑھانے سے انکار کر دیا۔
بعد ازاں، گوہر مرزا کو بوا حسینی نے اپنے مولوی صاحب کے مکتب میں داخل کرایا، جہاں پہلے سے تین لڑکیاں زیر تعلیم تھیں، جن میں ایک امراؤ جان بھی شامل تھی۔ یہاں بھی گوہر مرزا کی شرارتیں ویسی ہی رہیں۔ وہ لڑکیوں کو چھیڑتا، انہیں تنگ کرتا اور سب سے زیادہ امراؤ کو ستانے میں لطف محسوس کرتا تھا۔ امراؤ کئی بار مولوی صاحب سے اس کی شکایت کرتی اور وہ اسے سزا بھی دیتے، مگر گوہر مرزا اپنی عادتوں سے باز نہ آیا۔
رفتہ رفتہ، امراؤ اور گوہر مرزا کے درمیان ایک انوکھی قربت پیدا ہونے لگی۔ امراؤ خود اعتراف کرتی ہے:
“گوہر مرزا کو ستانے میں اب مجھے مزا آنے لگا تھا۔ اس کی آواز بہت اچھی تھی۔ قدرتی لے دار بوٹی بوٹی بھڑکتی تھی، لیے اور سر سے آگاہ تھا۔ جب مولوی صاحب مکتب میں نہ ہوتے تھے، خوب جلسہ ہوتا تھا۔”
گوہر مرزا کا کردار ناول میں ایک ایسے شوخ، شرارتی اور بے فکرا نوجوان کی حیثیت سے ابھرتا ہے، جو اپنی شوخیوں اور بے باکی کے باعث امراؤ کے ساتھ ایک خاص تعلق بنا لیتا ہے۔ وہ ایک فطری گلوکار اور موسیقی سے آشنا فرد تھا، جو امراؤ جان کے ساتھ اپنی ایک الگ پہچان رکھتا ہے۔ اس کی شخصیت میں جہاں شرارت اور مستی پائی جاتی ہے، وہیں وہ امراؤ کے دل میں ایک نرم گوشہ بنانے میں بھی کامیاب ہو جاتا ہے۔
اہم روابط
گوہر مرزا کی شخصیت ناول امراؤ جان ادا میں محض ایک شریر اور شوخ لڑکے تک محدود نہیں رہتی، بلکہ وہ وقت کے ساتھ امراؤ جان کے قریب آ جاتا ہے اور اس کی زندگی میں ایک خاص مقام حاصل کر لیتا ہے۔ بچپن میں امراؤ کو چھیڑنے اور ستانے والا گوہر مرزا جوانی میں اس کا رازدار اور تنہائیوں کا ساتھی بن جاتا ہے۔
جب امراؤ جان نے ایک طوائف کے روپ میں زندگی اختیار کر لی، تو گوہر مرزا اس کا خیال رکھنے لگا، اس کے چھوٹے موٹے کام کرنے لگا، بازار سے چیزیں لا کر دینے لگا اور ہر طرح سے اس کی خدمت میں لگا رہا۔ اس کے بدلے میں امراؤ بھی اسے مختلف آسائشیں فراہم کرتی تھی، جو اس کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی تھیں۔
گوہر مرزا، جو ایک ڈومنی کا بیٹا تھا، بچپن ہی سے کوٹھے کے ماحول میں پلا بڑھا۔ وہ طوائفوں کے درمیان رہتے ہوئے ان کی چالاکیوں اور ہنر سے بخوبی واقف ہو چکا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ ایک ایسے نوجوان میں ڈھل گیا جو طوائفوں کے لیے گاہک لانے اور ان کے معاملات سنوارنے میں مہارت رکھتا تھا۔ وہ مردوں میں عورت اور عورتوں میں مرد کا روپ دھارنے میں ماہر تھا، یعنی کوٹھے کی دنیا کا ایک مکمل کردار بن چکا تھا۔
گوہر مرزا کی شخصیت میں چستی، چالاکی، خوش گفتاری اور خوبصورتی جیسی خصوصیات موجود تھیں، جو اسے کوٹھے کے ماحول میں مقبول بناتی تھیں۔ وہ نہ صرف امراؤ جان کا رازدار بن گیا، بلکہ اس کی طوائفانہ زندگی کا پہلا مرحلہ بھی اسی کے ساتھ شروع ہوا۔ امراؤ جان خود کہتی ہے:
“گوہر مرزا بچپن سے ہی رنڈیوں کا کھلونا تھا۔ ہر ایک اس پردم دیتی تھی۔ شکل و صورت بھی پیار کرنے کے قابل تھی۔”
یہ بیان گوہر مرزا کی حیثیت کو واضح کرتا ہے کہ وہ کوٹھے کے لیے ایک لازمی عنصر بن چکا تھا، جہاں اس کی خوبصورتی، بانکا پن اور چالاکی اسے ایک کامیاب دلال کے طور پر نمایاں کرتی تھی۔ وہ ایک ایسا نوجوان تھا جس نے کوٹھے کے اصولوں کو سمجھا اور اسی ماحول میں اپنی جگہ بنا لی۔ اس کا کردار ہمیں اس تلخ حقیقت سے روشناس کراتا ہے کہ کوٹھے کے ماحول میں صرف عورتیں ہی قید نہیں ہوتیں، بلکہ مرد بھی اس دلدل میں پھنس جاتے ہیں اور ایک مخصوص کردار میں ڈھل کر اپنی پہچان بنا لیتے ہیں۔
مختصر یہ کہ گوہر مرزا کا کردار ناول میں ایک پیچیدہ مگر حقیقت پسندانہ روپ میں سامنے آتا ہے۔ وہ محض ایک شریر نوجوان نہیں، بلکہ کوٹھے کی دنیا میں جینے والا ایک ایسا کردار ہے جو اس ماحول کا نمائندہ بن جاتا ہے۔ اس کا انجام بھی اسی دنیا کے اصولوں کے مطابق ہوتا ہے، جہاں وہ کوٹھے کی چکاچوند میں گم ہو کر رہ جاتا ہے۔
بسم اللہ جان کا کردار
بسم اللہ جان ناول امراؤ جان ادا میں خانم کی اکلوتی بیٹی کے طور پر سامنے آتی ہے۔ وہ امراؤ کی ہم عمر تھی اور اس کی زندگی کا ایک اہم حصہ رہی۔ موسیقی اور رقص میں مہارت حاصل کرنے کے علاوہ، وہ امراؤ کے ساتھ تعلیم بھی حاصل کرتی رہی، مگر زیادہ ذہین نہ ہونے کی وجہ سے تعلیمی میدان میں نمایاں کامیابی حاصل نہ کر سکی۔ شکل و صورت کے لحاظ سے بھی وہ عام سی تھی، لیکن ریشمی لباس اور زیورات میں وہ ایک پرکشش طوائف کی مکمل تصویر پیش کرتی تھی۔
خانم نے بسم اللہ کی “ستی کی رسم” بڑی دھوم دھام سے منائی، جو کوٹھے کی دنیا میں ایک اہم روایت سمجھی جاتی تھی۔ اس تقریب میں باہر سے نامور فنکار اور گوئیے بلائے گئے، اور سات دن تک چراغاں کیا گیا۔ یہ تقریب درحقیقت بسم اللہ کے طوائف بننے کا اعلان تھا، جو اس پیشے میں اس کی باقاعدہ شمولیت کی علامت تھی۔
بسم اللہ خانم کی بیٹی تھی، اور اسی ماحول میں پلی بڑھی تھی، اس لیے وہ طوائفوں کے فن سے پوری طرح آگاہ تھی۔ اسے مردوں کی کمزوریوں کا بخوبی علم تھا، اور وہ مختلف طریقوں سے اپنے شکار کو پھانسنے میں مہارت رکھتی تھی۔ اس کا انداز کبھی حسین اداؤں سے لبریز ہوتا، تو کبھی جوانی کے جوش اور بناؤ سنگھار سے مردوں کو دیوانہ کر دیتا۔ اس کی شخصیت میں ایک خاص چالاکی اور عیاری تھی، جس کی وجہ سے ہر عمر کے افراد اس کے دام میں آ جاتے تھے۔
خود امراؤ کہتی ہے:
“انسان تو انسان، فرشتہ بھی بسم اللہ کے کردار سے نہیں نکل سکتا۔ ہزاروں ان کے عاشق تھے اور وہ ہزاروں پر عاشق تھی!”
بسم اللہ کے حسن کا جادو اتنا شدید تھا کہ ایک نورانی چہرے والے 70 سالہ مولوی صاحب بھی اس کے عشق میں گرفتار ہو گئے۔ ایک بار، بسم اللہ نے محض مذاق میں مولوی صاحب کی محبت کو آزمانے کے لیے ان سے نیم کے درخت پر چڑھنے کا کہا، اور وہ واقعی ایسا کر گزرے۔ یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ بسم اللہ اپنی چالاکیوں سے کس طرح لوگوں کے جذبات سے کھیلتی تھی۔
بسم اللہ کی شخصیت میں ضد، شوخی اور غرور بہت زیادہ تھا۔ وہ مزاج کی سخت تھی اور اپنی مرضی کے خلاف کسی کی بات نہیں مانتی تھی۔ اس کے غرور کا عالم یہ تھا کہ نواب چھین جیسے بااثر افراد، جنہوں نے اس کی “ستی کی رسم” پر 30 ہزار روپے خرچ کیے تھے، وہ بھی بسم اللہ کی بے رخی کا شکار ہو گئے۔
بسم اللہ جان کو طوائف کے طبقے کی نمائندہ کہا جا سکتا ہے۔ اس کے کردار میں طوائفوں کے تمام نمایاں اوصاف موجود تھے، جو اسے ایک روایتی طوائف کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ وہ نہ صرف جسم فروشی کے پیشے میں ماہر تھی، بلکہ اس کی ذہانت، چالاکی اور مکاری نے اسے اس پیشے میں اور بھی کامیاب بنا دیا تھا۔
مختصر یہ کہ بسم اللہ جان امراؤ جان ادا کے ان اہم ترین کرداروں میں شامل ہے جو ناول کے حقیقی ماحول کی عکاسی کرتے ہیں۔ وہ ایک ایسی عورت ہے جو کوٹھے کے اصولوں کو بخوبی سمجھتی ہے اور ان پر عمل کر کے اپنی دنیا میں راج کرتی ہے۔
خورشید بیگم کا کردار
خورشید بیگم امراؤ جان ادا کا ایک ایسا دلکش اور منفرد کردار ہے جو اپنی مختصر موجودگی کے باوجود قاری کے دل پر گہرے نقوش چھوڑ جاتا ہے۔ امراؤ خود خورشید کی تعریف میں کہتی ہے کہ وہ پریوں جیسی من موہنی اور موم کی صورت کی مالک تھی۔ خورشید واقعی حسن کا مجسمہ تھی—سر تا پا جمال کا پیکر، ایسی کہ پچاس عورتوں میں بھی الگ سے نمایاں ہو جائے۔
خورشید کی بدقسمتی یہ تھی کہ وہ اپنے حسن کے باوجود گانے اور رقص میں مہارت نہیں رکھتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ مجروں کی محفلوں میں وہ کامیابی حاصل نہیں کر پاتی تھی اور اس کے گاہکوں کی تعداد بھی کم ہوتی گئی۔ اس کا پیشہ اس کے دل کے قریب نہیں تھا، اور وہ اپنی قسمت کو کوستی رہتی تھی۔ جیسا کہ امراؤ کہتی ہے:
“خورشید نے اپنی قسمت خود ہی خراب کی۔”
خورشید کی اصل زندگی بھی ایک المیہ کہانی ہے۔ وہ کسی زمیندار کی لاڈلی بیٹی تھی جو تقدیر کے ہاتھوں اس پیشے سے منسلک ہو گئی۔ دل کی گہرائیوں میں وہ بھی امراؤ کی طرح کسی ایک کی ہو کر رہنے کی تمنا رکھتی تھی، اور ہر مرد کے سامنے پیش ہونا اس کے لیے ذلت کا باعث تھا۔
خورشید کی زندگی میں پیارے صاحب نامی ایک شخص آیا، جس کی محبت میں وہ اس قدر گرفتار ہو گئی کہ اس کے نخرے اور غرور بھی برداشت کرتی رہی۔ پیارے صاحب کا اسے ٹھکرا دینا خورشید کے دل پر بہت گہرا اثر چھوڑ گیا۔
خورشید کا بھولا پن اس کی شخصیت کا اہم حصہ تھا—تعویذ گنڈوں پر یقین رکھتی تھی اور پیروں فقیروں کی بہت عقیدت مند تھی۔ ایک مرتبہ خورشید امراؤ اور دیگر رنڈیوں کے ہمراہ عیش میلے میں گئی، جہاں راجہ دھیان سنگھ کے لوگوں نے اسے اغوا کر لیا۔ اس کے بعد خورشید کی بقیہ زندگی راجہ صاحب کی زوجیت میں بسر ہوئی، جو اس کے نزدیک کوٹھے کی زندگی سے کہیں بہتر تھی۔
خورشید کے کردار میں نسوانیت، حسن و ادا، ناز و نخرے، اور معصومیت کی خوبصورت آمیزش ہے۔ وہ ایک ایسی عورت ہے جو اپنی تقدیر کی ماری ہوئی، محبت میں ناکام، اور اپنی سادگی کے ہاتھوں مجبور ہو کر ایک نئی زندگی کا آغاز کرتی ہے۔ اس کے کردار سے رسوا نے ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ بظاہر دلکش اور خوشنما زندگی کے پیچھے کتنا دکھ اور اذیت چھپی ہو سکتی ہے۔
نواب سلطان کا کردار
نواب سلطان ناول کا ایک نہایت اہم اور نمایاں کردار ہے، اور بعض مواقع پر تو نواب صاحب کا کردار ہیرو کی مانند سامنے آتا ہے۔ وہ لکھنؤ کے باوقار، باعزت اور جاذبِ نظر افراد میں سے ایک تھے۔ ان کی جسمانی ساخت اور شخصیت کی تفصیلات یوں بیان کی گئی ہیں:
“گوری رنگت جیسے گلاب کا پھول، پیلے ہونٹ، گھنگریالے بال، کتابی چہرہ، اونچا تھا۔ بڑی بڑی آنکھیں، بھرے بازو، مچھلیاں بھری ہوئی ہڈی، کلائیاں بلند بالا، کسرتی بدن۔ خدا نے سر سے لے کر پاؤں تک تمام بدن نور کے سانچے میں ڈالا تھا۔”
نواب سلطان ایک وضعدار اور با اصول انسان تھے۔ ان کی شخصیت سیدھی سادھی، شریف النفس اور مادہ پرست تھی، مگر وہ ذہنی طور پر عیار یا چالاک نہیں تھے۔ امراؤ جان سے ان کی دلی محبت تھی اور وہ اس کی ادا کو سراہتے تھے اور اس پر جان وار دیتے تھے، مگر ان کا عزت نفس بھی بلند تھا کہ کوٹھے میں کسی شخص کی بد تمیزی کی وجہ سے وہ وہاں آنے جانا ترک کر دیتے تھے۔
نواب سلطان اپنے خاندانی وقار اور نوابانہ شان و شوکت کو کسی بھی چیز کے آگے حاوی نہیں ہونے دیتے تھے۔ وہ زندگی کی حقیقتوں سے بخوبی واقف تھے اور اپنی محبت کو قربان کر دینے کی ہمت رکھتے تھے، خاص طور پر جب اس محبت میں ان کی ذات کی شان و شوکت کو مقدم رکھا جاتا تھا۔
رام دلی کے ساتھ شادی کے بعد، نواب سلطان نے اپنی زندگی کی ساری خوشیاں اپنی زوجہ کے قدموں پر نچھاور کر دیں۔ وہ جھوٹی تعریف اور شان و شوکت پسند نہ کرتے تھے؛ ان کے لیے دلیری، حیا اور اصول پرستی سب سے اہم صفات تھیں۔ یہی ان کے کردار کی خوبصورتی اور مضبوطی کو ظاہر کرتی ہے۔
نواب سلطان کا کردار قاری کے ذہن پر گہرے نقوش چھوڑ جاتا ہے، کیونکہ وہ نہ صرف ایک باوقار شخصیت کے حامل تھے بلکہ اپنی اخلاقی اقدار اور اصول پرستی کی بدولت ایک مثالی انسان کی تصویر بھی پیش کرتے ہیں۔
بوا حسینی کا کردار
بوا حسینی، خانم کی پرانی دوست اور کوٹھے کی ایک اہم رکن ہیں۔ وہ ادھیڑ عمر کی ایک عورت ہیں جو خانم کے لیے نہایت قریبی، باوفا اور قابلِ اعتماد ملازمہ کے طور پر اپنی خدمات پیش کرتی ہیں۔
بوا حسینی کا ماضی بھی دلچسپ ہے؛ جوانی کے ایام میں انہوں نے ایک مولوی صاحب سے محبت کی تھی۔ اسی محبت کی یادگار کے طور پر، وہ مولوی صاحب کے ساتھ رہ کر خانم کے کوٹھے کے مکتب میں مستقل موجود رہیں اور وہاں لڑکیوں کو دینی و دنیاوی تعلیم فراہم کرنے کا انتظام کیا گیا۔
مزید برآں، بوا حسینی خانم کی نوچیوں کو رقص، موسیقی اور آداب و اکرام کی تعلیم دیتی ہیں۔ جب امراؤ جان کو خانم کے کوٹھے پر بیچنے کے لیے لایا جاتا تھا، تب بوا حسینی اور خانم کے درمیان ہونے والے مکالمے سے یہ واضح ہوتا تھا کہ بوا حسینی نہایت نرم دل اور جزا و سزا پر یقین رکھنے والی خاتون ہیں۔
خانم کے کوٹھے کی نگہداشت اور انتظام میں بوا حسینی کا اہم کردار تھا۔ وہ نہ صرف نوچیوں کے لیے گاہکوں کا اہتمام، انتخاب اور مہمان خانوں کا انتظام کرتی تھیں بلکہ کوٹھے کی سجاوٹ اور کھانے پینے کے انتظامات میں بھی اپنا بھرپور حصہ ڈالتی تھیں۔ بوا حسینی کی خدمات اور ان کی وفاداری کی بدولت ہی امراؤ جان کی کامیابی میں نمایاں حصہ رہا ہے۔
فیض علی کا کردار
فیض علی ناول کے چند اہم کرداروں میں سے ایک ہے اور کوٹھے پر آنے والے خانم کے خاص گاہکوں میں شامل ہے۔ وہ امراؤ جان کو دل و جان سے پسند کرتا ہے اور لوگوں سے لوٹی ہوئی رقم امراؤ جان پر خوب لٹاتا ہے۔ اس کی نگاہ میں سماجی درجہ بندی کی کوئی اہمیت نہیں رکھی جاتی، مگر وہ اتنا با اصول آدمی ہے کہ نشانی میں دیا ہوا دوست کا دوشالہ دینے سے نہ صرف کوٹھے کی استانی کو انکار کر دیتا ہے بلکہ امراؤ جان سے بھی معذرت کر لیتا ہے۔ یہ واقعہ اس کی اصول پسندی کی واضح علامت ہے۔
فیض علی نے امراؤ جان پر ہیرے، جواہرات اور گہنوں کی بارش کر دی، جس سے وقت کے ساتھ ساتھ امراؤ جان کے دل میں اس کے لیے لگاؤ پیدا ہوا۔ جب امراؤ جان کو معلوم ہوا کہ فیض علی ایک ڈاکو ہے، تب بھی اس نے اس سے کنارہ کشی اختیار نہیں کی۔
ایک موقع پر فیض علی نے امراؤ جان کو فرخ آباد لے جانے کا ارادہ ظاہر کیا، مگر خانم کے انکار کے باوجود امراؤ جان چپکے سے فیض علی کے ساتھ چل پڑی۔ راستے میں دھیان سنگھ کے آدمیوں سے لڑائی کے سلسلے میں امراؤ جان اور فیض علی کا ایک ساتھ ہونا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ فیض علی کا خلوص جذبہ اور سچا پیار اس کردار کو بے حد اہم بناتا ہے۔
Note: The password is hidden within this article. Read the entire article thoroughly, find the password, and enter it in the password field.