اردو ادب میں تانیثیت | PDF

اردو ادب میں تانیثیت | PDF: تانیثیت ایک اہم ادبی نظریہ ہے جو خواتین کے حقوق، ان کی عزت اور معاشرتی مساوات کو فروغ دینے پر زور دیتا ہے۔ یہ نظریہ صنفی تفریق کے خلاف آواز اٹھاتا ہے اور خواتین کے مسائل کو ادب، سماج اور سیاست میں نمایاں کرتا ہے۔ تانیثیت نے خواتین کو اپنی شناخت اور صلاحیتوں کو منوانے کا شعور دیا اور مرد اساس معاشرے کے رویوں کو چیلنج کیا۔

تانیثیت کی تعریف، عالمی ادب میں تانیثیت pdf
تانیثیت کا تعارف

تانیثیت کا تعارف

عالمی ادب میں تانیثیت ایک اہم ادبی نظریہ کے طور پر سامنے آیا ہے، جس کا تعلق خواتین کے تشخص، ان کے حقوق، اور مختلف معاشرتی مسائل سے ہے۔ تانیثیت درحقیقت ان افکار اور نظریات کا مجموعہ ہے جو خواتین کی عزت، وقار اور مساوی حقوق کو یقینی بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ نظریہ ادب، سماج، اور سیاست سمیت مختلف شعبوں میں خواتین کے مقام اور ان کے ساتھ روا رکھے جانے والے رویوں کا جائزہ لیتا ہے۔

تانیثیت کا مقصد صرف خواتین کے حقوق کا دفاع نہیں، بلکہ ایک ایسے نظام کی تشکیل بھی ہے جہاں جنس کی بنیاد پر کسی قسم کی تفریق نہ ہو۔ یہ نظریہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ عورتیں اپنی شناخت اور صلاحیتوں کے ساتھ سماج میں مردوں کے شانہ بشانہ ترقی کر سکیں۔

عالمی ادب میں تانیثیت

عالمی ادب میں تانیثیت ایک اہم ادبی نظریے کے طور پر اپنی پہچان رکھتا ہے، جس کے بنیادی موضوعات خواتین کے تشخص، ان کے حقوق، اور ان سے جڑے مسائل ہیں۔ یہ نظریہ مرد اساس معاشرتی نظام کے خلاف ایک ردعمل اور احتجاج کے طور پر ابھرا، جو اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کے لیے ہر ممکن ہتھکنڈے استعمال کرتا رہا ہے۔

فرانس، انگلینڈ، اور امریکہ کے ساتھ ساتھ ایشیا اور افریقہ میں بھی تانیثیت کا آغاز اسی عدم مساوات اور ناانصافی کے خلاف جدوجہد کا حصہ رہا ہے۔ تقریباً دو سو سال قبل مغرب میں جنم لینے والے اس نظریے نے وقت کے ساتھ ایک باقاعدہ تحریک کی شکل اختیار کر لی۔ اس تحریک نے مراعات کے بجائے بنیادی حقوق پر زور دیا اور مردوں کی بالادستی کو سختی سے چیلنج کیا۔

اردو ادب میں تانیثیت
اردو ادب میں تانیثیت

اردو ادب میں تانیثیت

بیسویں صدی کے دوران یہ نظریہ اردو ادب پر بھی اثر انداز ہوا اور خواتین قلم کاروں کے ذریعے نہ صرف نظم و نثر بلکہ ادب کے ہر گوشے میں اپنی جگہ بنا لی۔ یہ دور سائنس اور ٹیکنالوجی کا تھا، جس میں تفریق کی سیاست کے خاتمے کا شعور بڑھا اور یہ ادراک پختہ ہوا کہ نسائی ادب کے بغیر ادبی تاریخ ادھوری رہ جاتی ہے۔

اردو ادب میں تانیثیت نے نہ صرف اپنی منفرد شناخت قائم کی بلکہ اس نے ادب کو وسعت دی اور معاشرتی شعور کو بیدار کیا۔ آج نسائی ادب ایک لازمی حصہ بن چکا ہے، اور خواتین قلم کار اپنی تخلیقات کے ذریعے معاشرتی ناانصافیوں، صنفی تفریق، اور خواتین کے حقوق کے مسائل کو نہایت مؤثر انداز میں پیش کر رہی ہیں۔ نثر اور نظم دونوں ہی میں تانیثیت ایک مستحکم رجحان کے طور پر اپنی جڑیں مضبوط کر چکا ہے، جس کی موجودگی کے بغیر ادب کی کوئی بھی تاریخ مکمل نہیں سمجھی جا سکتی۔

شاعری میں ادا جعفری سے پروین شاکر تک اور نثر میں عصمت چغتائی سے شائستہ فاخری تک خواتین قلم کاروں نے تانیثیت کے حوالے سے ایک مضبوط اور مؤثر مکالمہ قائم کیا ہے۔ ان کی تخلیقات نے خواتین کے حقوق، ان کی عزت و وقار، اور معاشرتی مسائل کو نہایت حساسیت اور فنی مہارت کے ساتھ پیش کیا۔

درحقیقت، تانیثیت ان نظریات اور افکار کا مجموعہ ہے جو خواتین کو برابری اور وقار کے ساتھ ان کے حقوق دینے کی حمایت کرتا ہے۔ مساوات کی تائید اور تعصب کی مخالفت کی بدولت آج یہ دنیا کا سب سے طاقتور نظریۂ فکر و عمل بن چکا ہے۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ عورت نے اپنی صلاحیتوں کو پہچان لیا ہے اور اب وہ خود اپنے وجود کو ایک منفرد شناخت دینا چاہتی ہے۔

جیسا کہ یاسمین حمید نے کہا:

آئی جب اس کے مقابل تو نیا بھید کھلا

مجھ کو اندازہ نہ تھا اپنی توانائی کا

یہ توانائی اب عورت کو نئی حدوں کو عبور کرنے پر آمادہ کر رہی ہے۔ وہ مزید لکھتی ہیں:

حدوں کو بھول جانا چاہتی ہوں

خلاؤں میں ٹھکانہ چاہتی ہوں (اردونوٹس)

یہی احساس پروین شاکر کے کلام میں بھی جھلکتا ہے:

اس کی مٹھی میں بہت روز رہا میرا وجود

میرے ساحر سے کہو اب مجھے آزاد کرے (ریختہ)

مرد اساس معاشرے کی فطرت سے واقف عورت اکثر سوچنے پر مجبور ہوتی ہے کہ اگر سماج کے دکھاوے کے لیے اسے آزادی دی بھی گئی تو کہیں یہ عارضی آزادی نہ ہو۔ ایسے میں عورت اپنے حقوق کے لیے مزید شعوری اور فکری مزاحمت کرتی ہے، جیسا کہ وہ یہ کہتی ہے:

میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی

وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کر دے گا (ریختہ)

سماجی سطح پر عورت کا اصل تنازع مرد سے نہیں بلکہ ان معاشرتی رویوں، اقدار اور نظریات سے ہے جنہوں نے عورت کو محکوم اور مجبور بنا دیا ہے۔ تاہم، یہ بات بھی اہم ہے کہ تانیثی مفکرین اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ روشن خیال مرد قلم کاروں نے خواتین کے مسائل اور ان پر ہونے والے ظلم و جبر کو خلوص نیت کے ساتھ شدت سے اجاگر کیا ہے۔

یہی مکالمہ اور فکری جدوجہد تانیثیت کو ادب کا ایک اہم حصہ اور ایک مضبوط تحریک بناتی ہے، جو معاشرے کو مزید بیدار اور حساس بنانے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔

1857ء کے بعد معاشرتی اور سماجی سطح پر عورت کی اہمیت کو نئے زاویے سے پرکھا گیا اور یہ احساس شدت سے اجاگر ہوا کہ ایک مستحکم اور ترقی یافتہ معاشرے کی تعمیر کے لیے عورت کی تعلیم اور تربیت ناگزیر ہیں۔ اس دور کے اہم مسائل میں تعلیم نسواں اور تربیت نسواں سرِفہرست تھے۔ حالی اور اکبر جیسے شعرا نے عورتوں کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دی اور ان کی کئی نظمیں اس موضوع پر لکھی گئیں۔ اقبال نے بھی عورت کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے کہا:

“وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ”

پاکستان کے قیام کے بعد شاعری کے میدان میں خواتین قلم کاروں کا ایک منفرد رجحان ابھرا۔ ادا جعفری، زہرہ نگاہ، کشور ناہید، فہمیدہ ریاض، پروین شاکر، شبنم شکیل، پروین فنا سید، عرفانہ عزیز، شاہدہ حسن، فاطمہ حسن، یاسمین حمید، منصورہ احمد، نوشی گیلانی، ماہ طلعت زیدی، اور حمیرہ رحمان جیسی شاعرات نے عورت کے مسائل، جذبات اور تجربات کو ایک مؤثر اور دلکش انداز میں پیش کیا۔ ان شاعرات نے استحصالی معاشرے میں جراتِ اظہار کی بنیاد رکھی اور خواتین کی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھرنے کا موقع فراہم کیا۔

سرسید کی تحریک نے عورت کو اس کا صحیح مقام دلانے میں ایک اہم کردار ادا کیا، لیکن ترقی پسند تحریک نے اس شعور کو مزید وسعت دی اور خواتین قلم کاروں کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے ذریعے اپنی شناخت قائم کرنے کا حوصلہ دیا۔ اس تحریک کی بدولت شاعرات نے کھل کر عورت کے مسائل پر بات کی اور معاشرے کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی۔

زہرہ نگاہ نے اپنی نظم “سمجھوتہ” میں عورت کے اس کرب اور مجبوری کو بیان کیا ہے، جو اسے نہ چاہتے ہوئے بھی قبول کرنا پڑتی ہیں:

ملائم گرم سمجھوتے کی چادر

یہ چادر میں نے برسوں میں بنی ہے

کہیں بھی سچ کے گل بوٹے نہیں ہیں

کسی بھی جھوٹ کا ٹانکا نہیں ہے

اسی سے میں بھی تن ڈھانپ لوں گی اپنا

اسی سے تم بھی آسودہ رہو گے (ریختہ)

فہمیدہ ریاض ایک بے باک اور جرات مند شاعرہ ہیں، جن کی شاعری میں بیسویں صدی کی عورت کی الجھنیں، محرومیاں اور کامیابیاں نمایاں ہیں۔ وہ اپنی بے باکی کو شائستگی کے دائرے میں رکھتے ہوئے فنکارانہ انداز میں پیش کرتی ہیں۔ ان کے کلام میں عورت کی خود آگاہی اور جہاں آگاہی دونوں جھلکتی ہیں:

بلند سر بے کسوں کی حرمت

یہی تو تھی جسم و جاں کی قیمت

متاع انمول ہاتھ آئی

لپیٹ کے دامن سے ساتھ آئی

وہی گھٹی آہ چیخ بن کر

ضمیر عالم ٹٹولتی ہے

یہ شاعرات نہ صرف خواتین کے مسائل پر بات کرتی ہیں بلکہ ان کے تجربات اور جذبات کو بھی ادب کا حصہ بناتی ہیں۔ ان کی تخلیقات عورت کے لیے ایک نیا شعور اور ایک نیا ادبی افق فراہم کرتی ہیں۔

کشور ناہید اردو شاعرات کی صف میں ایک معتبر اور منفرد آواز کے طور پر پہچانی جاتی ہیں۔ انہوں نے اردو شاعری میں نہ صرف نسائی تشخص کا تعین کیا بلکہ عورت کے سماجی شعور کی مؤثر نمائندگی بھی کی۔ کشور ناہید نے اپنی شاعری میں پہلی بار معاشرتی جبر اور عورتوں پر مردوں کے تشدد کو موضوع بنایا اور نہایت پُرجوش انداز میں عورتوں کے حقوق کی ترجمانی کی۔ ان کی مشہور نظم “نیلام گھر“مظلوم عورت کے جذبات اور احساسات کی بہترین عکاسی کرتی ہے:

میرے منہ پر طمانچہ مار کر

تمہاری ہاتھوں کے انگلیوں کے نشاں

پھولی ہوئی روٹی کی طرح

میرے منہ پر صد رنگ غبارے چھوڑ جاتے ہیں (ریختہ صفحہ ۴۷۲)

کشور ناہید کی شاعری ان سماجی رویوں پر گہری تنقید ہے، جو عورت کو دبانے اور محکوم بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے اشعار عورت کے وجود، اس کے درد اور اس کی جدوجہد کو زبان دیتے ہیں۔

شاہدہ حسن کی شاعری میں عورت کے وجود کا گہرا شعور جھلکتا ہے۔ ان کی شاعری عہدِ جدید کی عورت کے اس کردار کو پیش کرتی ہے، جو عملی زندگی کے مسائل کا سامنا کرتے ہوئے ایک بہتر مستقبل کا خواب دیکھتی ہے۔ شاہدہ حسن ایک خود اعتماد اور روشن خیال عورت کے روپ میں ابھرتی ہیں، جو زندگی کے ہر محاذ پر مرد کے برابر کھڑی ہے۔ ان کے اشعار عورت کی خواہشات، خوابوں اور جدوجہد کو منفرد انداز میں بیان کرتے ہیں:

ڈھونڈتی تھیں شام کا پہلا ستارہ لڑکیاں

کھیل کیا تھا بس یہ اک خواہش کہیں جانے کی تھی (ریختہ)

شاہدہ حسن کی شاعری میں عورت کی شخصیت کا وہ روشن پہلو نمایاں ہے، جو اس کے ارادوں کی پختگی اور اس کی امنگوں کی وسعت کو ظاہر کرتا ہے۔ ان کے کلام میں جدید عورت کا تصور اپنے پورے وقار اور توانائی کے ساتھ ابھرتا ہے۔

غدرا عباس اردو نثری نظم کی ایک منفرد شاعرہ ہیں، جنہوں نے اپنے مخصوص اسلوب کے ذریعے شاعری کو ایک نیا انداز بخشا۔ ان کے لہجے میں ایک خاص تلخی اور حقیقت پسندی کا رنگ نمایاں ہے، جو ان کے کلام کو منفرد اور اثر انگیز بناتا ہے۔ وہ عورت کے جذبات اور احساسات کو نہایت حقیقت پسندانہ انداز میں پیش کرتی ہیں، جو ان کی نظموں میں واضح نظر آتا ہے۔ ان کی مشہور نظم “سدا بہار” بھی ایسی ہی حقیقت پسندی کا مظہر ہے:

سدا بہار کچھ بھی نہیں ہے

بس ہیں تو ہماری مجبوریاں

ان پر بہار رہتی ہے

یہ ہر موسم میں

ہماری زندگی کی کناریوں میں کھلتی رہتی ہیں (فیس بک)

شمس الرحمن فاروقی نے بھی ادب میں تانیثی نقطہ نظر کی عدم موجودگی اور تاریخی طور پر مردانہ غلبے کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا ہے کہ ادب اور تاریخ کے میدانوں میں خواتین کے کردار کو شعوری یا غیر شعوری طور پر نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔

ادب کے شعبے میں خواتین نے اپنی تخلیقات کے ذریعے نہ صرف اپنے مسائل اور حقوق کو اجاگر کیا بلکہ معاشرے کے ان رویوں کو بھی ہدف تنقید بنایا، جو عورتوں کے استحصال کا سبب بنتے رہے ہیں۔ خواتین نے اپنی تحریروں کے ذریعے اس تصور کو رد کیا کہ عورت کمزور اور بے بس ہے۔ انہوں نے ثابت کیا کہ عورت ایک مضبوط اور خود مختار ہستی ہے، جو قلم کے ذریعے اپنی آواز بلند کر سکتی ہے۔

خواتین کے قلم کی طاقت نے یہ واضح کیا کہ عورت اب رحم طلب مخلوق نہیں بلکہ ایک باشعور اور بااختیار فرد ہے۔ قانونی اور سماجی سطح پر عورت مخالف رویے اب ناقابل قبول ہو چکے ہیں۔ خواتین کی مؤثر آواز نے نہ صرف ان کو خوداعتمادی عطا کی بلکہ مردوں کو بھی یہ باور کروایا کہ عورت اور مرد کا اشتراک ہی ایک متوازن اور صحت مند معاشرے کی بنیاد ہے۔

مزید دیکھیں

اضافی سوالات

سوال: تانیثیت کی اقسام کیا ہیں؟

جواب: تانیثیت کی کئی اقسام ہیں، جن میں درج ذیل شامل ہیں:

  • لبرل تانیثیت: اس کا مقصد قانونی اور سماجی مساوات کو فروغ دینا ہے۔
  • مارکسی تانیثیت: یہ صنفی مسائل کو معاشی نظام سے جوڑتی ہے۔
  • ریڈیکل تانیثیت: اس کا مقصد پدرشاہی نظام کو ختم کرنا ہے۔
  • ثقافتی تانیثیت: یہ خواتین کی ثقافتی شناخت اور کردار پر زور دیتی ہے۔

سوال: تانیثیت کی تعریف کیا ہے؟

جواب: تانیثیت ایک نظریہ اور تحریک ہے جو خواتین کی سماجی، سیاسی، اور ادبی اہمیت کو تسلیم کرنے اور صنفی مساوات کے فروغ پر زور دیتی ہے۔یہ نظریہ اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ خواتین کو وہی حقوق اور مواقع ملنے چاہییں جو مردوں کو حاصل ہیں۔ اس تحریک کا مقصد صنفی تعصبات کو ختم کرنا ہے۔

سوال: تانیثی ادب سے کیا مراد ہے؟

جواب: تانیثی ادب وہ ادبی تخلیقات ہیں جو خواتین کے تجربات، جذبات، اور مسائل کو پیش کرتی ہیں۔ یہ ادب خواتین کے حقوق، ان کے سماجی مقام، اور صنفی امتیاز کے خلاف آواز اٹھاتا ہے۔ تانیثی ادب نہ صرف کہانیوں اور شاعری پر مشتمل ہوتا ہے بلکہ اس میں خودنوشت، خطوط، اور مضامین بھی شامل ہیں جو خواتین کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہیں۔

سوال: عالمی ادب میں تانیثیت کا آغاز کب ہوا؟

جواب: عالمی ادب میں تانیثیت کا آغاز انیسویں صدی میں ہوا، جب خواتین لکھاریوں نے صنفی مسائل پر قلم اٹھایا۔ مشہور خواتین ادیبوں جیسے جین آسٹن، شارلٹ برونٹے، اور ورجینیا وولف نے اپنے ناولوں میں خواتین کے مسائل اور حقوق کو اجاگر کیا۔ ان ادیبوں کی تحریریں تانیثیت کی بنیاد رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

Note: The password is hidden within this article. Read the entire article thoroughly, find the password, and enter it in the password field.

Book Cover

تانیثیت کا تعارف اور اردو ادب میں تانیثیت

Rating: ★★★★☆
  • Author: ravinotes.com

  • File Size: 948 KB

  • Format: PDF

  • Notes: Urdu

  • Price: Free

Leave a Comment