آخر شب کے ہمسفر کی کردار نگاری | PDF

آخر شب کے ہمسفر کی کردار نگاری | PDF: آخر شب کے ہمسفر قرۃ العین حیدر کی تصنیف ہے۔ اس ناول میں انہوں نے کردار نگاری پر خاص توجہ دی ہے۔ قرۃ العین حیدر کے زیادہ تر کردار مختلف تہذیبوں اور سیاسی رجحانات کے نمائندہ ہیں۔ ان کے ہاں عموماً منفرد کردار کم دیکھنے کو ملتے ہیں، تاہم ریحان الدین ابتدا میں ایک منفرد کردار کے طور پر سامنے آتا ہے۔ وہ کیمونسٹ تحریک میں شمولیت اختیار کرتا ہے اور اس میں سرگرمی سے حصہ لیتا ہے، لیکن آخر میں وہ بھی عام کرداروں جیسا نظر آنے لگتا ہے اور حالات سے سمجھوتا کر لیتا ہے۔

بحثیت مجموعی، آخر شب کے ہمسفر کے کردار جاندار، مضبوط اور متحرک ہیں۔ قرۃ العین حیدر نے اپنے اس ناول میں اعلیٰ متوسط اور جاگیردار طبقے کے افراد کو پیش کیا ہے۔ انہوں نے ان کرداروں کو ان کے طبقے کے مطابق ایک مخصوص تہذیبی ماحول میں دکھایا ہے، جو زیادہ تر رومانی نوعیت کا ہے۔ آخر شب کے ہمسفر کی کردار نگاری درج ذیل خصوصیات پر مشتمل ہے۔(3)

ناول آخر شب کے ہمسفر کی کردار نگاری pdf
ناول آخر شب کے ہمسفر کی کردار نگاری

آخر شب کے ہمسفر کی کردار نگاری

  • دیپالی سرکار کا کردار
  • ریحان الدین کا کردار
  • یاسمین کا کردار
  • جہاں آرا کا کردار
  • او مارائے کا کردار
  • للی کا کردار

دیپالی سرکار کا کردار

دیپالی سرکار اس ناول کا مرکزی کردار ہے، جس کا تعلق ایک ایسے خاندان سے ہے جو وطن کی محبت میں ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار ہے۔ وہ اپنے چچا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انقلابی تحریک میں شامل ہو جاتی ہے۔ دیپالی اپنے حالات سے مطمئن نہیں ہے، وہ تبدیلی چاہتی ہے اور اپنی شخصیت کو نکھارنا چاہتی ہے۔ دنیا میں مقام و مرتبہ حاصل کرنے کی  خواہش اسے ایک منفرد کردار بناتی ہے۔ وہ ایک تعلیم یافتہ لڑکی ہے اور متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔

ناول کے اختتام پر دیپالی اپنے والد اور پھوپھو کی راکھ گنگا میں بہانے کے لیے ساتھ لے جاتی ہے اور کہتی ہے:

“لاکھوں برس سے سورج اس طرح طلوع ہوتا ہے اور غروب ہو جاتا ہے، پھر طلوع ہوتا ہے اور پھر غروب ہو جاتا ہے، پھر اسی طرح طلوع ۔۔۔۔”(7)

دیپالی ایک 19 سالہ جذباتی اور پُرجوش لڑکی ہے، جو اپنی انقلابی تحریک کو ہر قیمت پر کامیاب دیکھنا چاہتی ہے۔ وہ اس مقصد کے لیے اپنی ساڑھیاں تک بطور نذرانہ پیش کر دیتی ہے۔ دیپالی ریحان سے بے پناہ محبت کرتی ہے، مگر جب اسے معلوم ہوتا ہے کہ ریحان اس کی سہیلی جہاں آرا کا منگیتر ہے، تو وہ فوراً خود کو پیچھے ہٹا لیتی ہے۔ دیپالی اپنی محبت قربان کر کے یاسمین سے کہتی ہے:

“جب میں نے جہاں آرا کی الماری میں ریحان کی تصویر دیکھی تھی، تب سے مجھے احساس جرم مارے جا رہا تھا۔ اس کے بعد میں نے ان سے بات نہیں کی۔ ان کے اصرار پر جب انہیں وجہ بتائی، تو انہوں نے ساری کہانی سنائی کہ یہ نسبت میری ملاقات سے پہلے ختم ہو چکی تھی، مگر پھر بھی مجھے تسلی نہ ہوئی۔”

او مارائے کی وجہ سے دیپالی کو پورٹ آف اسپین جانا پڑتا ہے، جہاں وہ اپنے چچا کے کہنے پر للت سین سے شادی کر لیتی ہے۔ پاکستان کے قیام کے بعد دیپالی یہیں مقیم ہو جاتی ہے۔ اپنے والد کے انتقال کے بعد وہ ان کی راکھ گنگا میں بہانے کے لیے دوسرے ملک جاتی ہے۔ وہاں ایک بار پھر اپنے ماضی اور ہندی جڑوں سے جڑنے کی کوشش کرتی ہے اور بنگال کے ایک شہر میں گمنامی کی زندگی بسر کرنے لگتی ہے۔

ریحان الدین کا کردار

اس ناول کا دوسرا مرکزی کردار ریحان الدین ہے، جو بنگال کی ترقی پسند تحریک کا ایک اہم رہنما ہے۔ وہ انقلاب اور آزادی کی خاطر بے شمار مصائب اور مشکلات کا سامنا کرتا ہے اور برسوں تک جنگلوں اور نامعلوم مقامات پر بھوکا پیاسا رہ کر جدوجہد کرتا ہے۔ ریحان ایک نظریاتی اور مخلص کردار کے طور پر سامنے آتا ہے، جو اپنے مقصد کے لیے سب کچھ قربان کر دیتا ہے۔ لیکن ہندوستان کی آزادی کے بعد، وہ حالات سے سمجھوتہ کر لیتا ہے اور پیسہ کمانے کی دھن میں لگ جاتا ہے۔

یہ وہی ریحان ہے جو ایک وقت میں دہشت گرد کے روپ میں جنگلوں میں آزادی کے لیے لڑتا نظر آتا ہے اور بھوک و پیاس کے باوجود اپنے عزم پر قائم رہتا ہے۔ لیکن آزادی کے بعد، وہ اسٹیبلشمنٹ کا حصہ بن جاتا ہے، مغربی بنگال میں وزیر بنتا ہے اور عوامی لیگ کی سیاست میں شریک ہوتا ہے۔

ڈاکٹر خالد اشرف کے بقول:

“اس طرح کی موقع پرستی اور بے ضمیری ریحان الدین احمد سے عین متوقع تھی کیونکہ قرۃ العین حیدر کے سبھی اشتراکی کردار قصے کے آخر میں اسی طرح کے سمجھوتے کرتے ہیں۔”

ریحان الدین دیپالی سرکار سے بے پناہ محبت کرتا ہے، اور دیپالی بھی اس سے محبت کرتی ہے۔ لیکن جب دیپالی کو علم ہوتا ہے کہ ریحان اس کی سہیلی جہاں آرا کا منگیتر ہے، تو وہ احساس جرم کا شکار ہو کر خود کو اس سے دور کر لیتی ہے۔ وہ ریحان سے اتنی دور ہو جاتی ہے کہ دوبارہ اس کے قریب آنے کا سوچتی بھی نہیں۔

جہاں آرا کا کردار

یہ کردار ایک فیوڈل مسلم خاندان کی گھریلو لڑکی کا ہے، جو رئیس زادی ہونے کے باوجود انقلابی سرگرمیوں یا کسی قسم کی جھنجھلاہٹ سے لاعلم اور بے نیاز ہے۔ یہ بھی ریحان الدین سے بے پناہ محبت کرتی ہے، مگر والدین کے حکم کے سامنے اپنی محبت کو قربان کر دیتی ہے اور ایک ایسے دلہا کو قبول کر لیتی ہے جو عمر میں اس سے دوگنا بڑا ہے۔

“نواب اجمل حسین آپا سے دوگنا بڑے ہیں، وہ دیناج پور کے بہت بڑے زمیندار ہیں۔ میٹرک پاس ہیں، مگر اس سے کیا ہوتا ہے۔ ایک زمانے میں وہ رنگین مزاج ضرور تھے۔ کلکتہ میں جا کر ریس کھیلنا، پینے پلانے کا شوق اور گانا سننا ان کے مشاغل میں شامل تھا۔ لیکن غریب کیا کرتا، بیوی کا انتقال ہو چکا تھا اور وہ اکیلے رہ گئے تھے۔”

یاسمین کا کردار

جہاں آرا، دیپالی سرکار اور للی تینوں اپنے طبقے کی بھرپور نمائندہ نسوانی کردار ہیں، جبکہ یاسمین ایک ایسا کردار ہے جو ہندوستانی لوگوں کے رویے اور ذہنی رجحانات میں آنے والی تبدیلیوں کی عکاسی کرتا ہے۔

یاسمین اپنے آپ کو نمایاں کرنے اور دولت کمانے کے لیے بیرون ملک چلی جاتی ہے، جہاں وہ ایک ڈانسر کے طور پر شہرت حاصل کرتی ہے اور خوب دولت جمع کرتی ہے۔ تاہم، وہ ایک انگریز سے شادی کر لیتی ہے جو اسے چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس کا کلب بند ہو جاتا ہے اور نوبت فاقہ کشی تک پہنچ جاتی ہے۔ مجبوراً وہ لوگوں کے گھروں میں کام کرنا شروع کر دیتی ہے۔

یہ سب شاید اس کے غرور کا نتیجہ ہوتا ہے، کیونکہ جب وہ دولت مند ہو جاتی ہے تو خود کو دوسروں سے بڑا سمجھنے لگتی ہے اور اس کی عاجزی ختم ہو جاتی ہے۔ دیپالی ایک موقع پر یاسمین سے مخاطب ہو کر کہتی ہے:

“تم بہت خوش ہو، تم دنیا کے ٹاپ پر ہو۔ ورلڈ ٹور پر نکلی ہو، اپنے ملک کی مشہور ڈانسر۔ مگر یاد رکھو، ڈھاکہ اب بھی تمہارا ملک ہے۔”(3)

دیپالی یہ بات ترشی سے کہتی ہے، جو ان کے رویوں کے فرق کو ظاہر کرتی ہے۔

او ما رائے کا کردار

او مارائے ایک رئیس زادی ہے اور بے پناہ دولت کی مالک ہے۔ اس کے والد اس کے لیے بہترین رشتہ تلاش کر سکتے ہیں، مگر وہ سیاست کے معاملات میں الجھی ہوئی ہے۔ یہ ایک گول مٹول چہرے والی لڑکی ہے اور اپنے والدین کے بارے میں کسی کی طرف سے معمولی بات بھی سن لے تو آگ بگولا ہو جاتی ہے۔

او مارائے نے تین برس لندن میں گزارے، جہاں وہ اور ریحان ایک ہی ادارے میں زیر تعلیم تھے۔ البتہ، او مارائے ریحان سے ایک کلاس سینئر تھیں۔ وطن واپسی پر وہ ریحان کے ساتھ انقلابی سرگرمیوں میں شریک رہتی ہیں۔ درحقیقت، او مارائے دل ہی دل میں ریحان پر فریفتہ ہوتی ہیں، لیکن وہ جانتی ہیں کہ دیپالی واقعی ریحان کی محبوبہ ہے۔ دیپالی کی خوبصورتی سے متاثر ہو کر او مارائے دل ہی دل میں یہ سوچتی ہیں:

“یہ لڑکی خوبصورت بھی ہے اور بیوقوف بھی، اس لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔”

او مارائے کسی بھی صورت یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ ریحان دیپالی کی طرف مائل ہو۔ بعد میں، وہ دیپالی کے والد سے شادی کرنے کا منصوبہ بناتی ہیں تاکہ ریحان وہاں آتا رہے، مگر ایسا نہیں ہوتا۔

للی کا کردار

یہ ایک اینگلو انڈین نسوانی کردار ہے جو اپنے معاشی اور معاشرتی احوال سے مطمئن نہیں ۔ وہ انقلابی تحریک میں شامل ہو کر پورے معاشرتی ماحول کو بدلنے کی کوشش کرتی ہے لیکن ناکام رہتی ہے اور ایک مالدار ہندو سے شادی کر لیتی ہے۔

مزید دیکھیں

اضافی سوالات

سوال: آخر شب کے ہم سفر” کا مرکزی خیال کیا ہے؟

جواب: “آخر شب کے ہم سفر” کا مرکزی خیال مشترکہ تہذیب اور تاریخی واقعات کی عکاسی ہے جو ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کے شورش اور انقلابات کو بیان کرتا ہے.

سوال: قرۃ العین حیدر نے “آخر شب کے ہم سفر” کب لکھا؟

جواب: قرۃ العین حیدر نے “آخر شب کے ہم سفر” 1979ء میں لکھا تھا.

سوال: “آخر شب کے ہم سفر” میں پیش کیے گئے تاریخی واقعات کون سے ہیں؟

جواب: اس ناول میں ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کے شورش اور انقلابات کو محور بنایا گیا ہے

سوال: قرۃ العین حیدر کون تھیں؟

جواب: قرۃ العین حیدر ایک معروف اردو ناول نگار اور افسانہ نگار تھیں۔ ان کا ناول “آخر شب کے ہم سفر” اردو ادب میں ایک اہم مقام رکھتا ہے۔

سوال: قرۃ العین حیدر کے مشہور ناول کون سے ہیں؟

جواب: قرۃ العین حیدر کے مشہور ناولوں میں “آگ کا دریا”، “آخر شب کے ہم سفر”، “میرے بھی صنم خانے” اور “چاندنی بیگم” شامل ہیں۔

سوال: قرۃ العین حیدر کو کون سے اعزازات ملے؟

جواب: قرۃ العین حیدر کو ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں کئی اعزازات ملے، جن میں “ساہتیہ اکادمی ایوارڈ”، “گیان پیٹھ ایوارڈ” اور “پدم شری” شامل ہیں۔

سوال: قرۃ العین حیدر کی پیدائش اور وفات کب ہوئی؟

جواب: قرۃ العین حیدر کی پیدائش 20 جنوری 1927 کو علی گڑھ، بھارت میں ہوئی اور ان کا انتقال 21 اگست 2007 کو نوئیڈا، بھارت میں ہوا۔ (ریختہ)

سوال: قرۃ العین حیدر کے ناول “آخر شب کے ہم سفر” کا موضوع کیا ہے؟

جواب: “آخر شب کے ہم سفر” کا موضوع تقسیم ہند کے بعد کے حالات اور مشترکہ تہذیب کی عکاسی ہے۔

Note: The password is hidden within this article. Read the entire article thoroughly, find the password, and enter it in the password field.

Book Cover

آخر شب کے ہمسفر کی کردار نگاری

Rating: ★★★★☆
  • Author: ravinotes.com

  • File Size: 776 KB

  • Format: PDF

  • Notes: Urdu

  • Price: Free

Leave a Comment