یاس یگانہ چنگیزی کی شاعری کی خصوصیات: یاس یگانہ چنگیزی اردو شاعری کے وہ منفرد شاعر ہیں جنہوں نے اپنی انفرادی سوچ اور بے مثال انداز بیان سے اردو غزل کو نئی جہت بخشی۔ ان کے کلام میں ندرتِ ادا، سوز و گداز، فلسفہ و حکمت کی آمیزش اور خودداری جیسے عناصر نمایاں ہیں۔ یگانہ کی شاعری نہ صرف ان کی فکر و مزاج کی عکاس ہے بلکہ اردو ادب میں ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔ ان کا کلام قاری کو گہرائی سے سوچنے اور زندگی کے مختلف پہلوؤں پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔
- یہ بھی پڑھیں: ڈراما انار کلی کا خلاصہ اور موضوع | PDF
اس مضمون میں ہم یاس یگانہ چنگیزی کی شاعرانہ خصوصیات کا جائزہ تفصیل سے پیش کریں گے۔ ان کی شاعری میں ندرت ادا، سوز و گداز، فلسفہ و حکمت، اخلاق کی تعلیم، استعارات و محاورات کا استعمال، رشک، جبر و قدر وغیرہ جیسی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔
یاس یگانہ چنگیزی کی شاعری کی خصوصیات
یاس یگانہ اپنے عہد کے ایک منفرد اور صاحب طرز شاعر تھے۔ جس کا اپنا لب و لہجہ اور انداز بیان ہے۔ اور جس نے اردو غزل کو نیا خون دیا۔ یاس یگانہ کی آواز میں توانائی کے ساتھ ساتھ تازگی بھی ہے۔ جہاں تک جدید غزل کا تعلق ہے ، اس کا آغاز یاس یگانہ ، شاد اور فراق سے ہوتا ہے۔
- ندرت ادا
- سوزو گداز
- فلسفہ و حکمت کی آمیزش
- جھنجلاہٹ
- جبر و قدر
- اخلاق کی تعلیم
- رشک
- خوداری و تنگ مزاجی
- تراکیب کا استعمال
- محاورات کا استعمال
ندرت ادا
ندرتِ ادا شاعری کی وہ خاصیت ہے جو ایک عام خیال کو غیر معمولی انداز میں بیان کرکے اشعار میں حلاوت، لطافت اور دلکشی پیدا کرتی ہے۔ اگر کسی شاعر کے کلام میں ندرتِ ادا نہ ہو تو وہ شاعری بے روح اور بے رنگ معلوم ہوتی ہے۔
یاس یگانہ چنگیزی کے کلام میں ندرتِ ادا کا یہ عنصر کمال کی حد تک موجود ہے۔ وہ ایک سادہ اور عام بات کو اس انداز سے بیان کرتے ہیں کہ اس میں غیر معمولی کشش اور دلکشی پیدا ہو جاتی ہے۔(3)
ان کے اشعار ایک منفرد رنگ اور جدید انداز سے مزین ہوتے ہیں، جو قارئین کو اپنی جانب کھینچ لیتے ہیں۔ یاس یگانہ کے ہاں ندرتِ ادا کے ساتھ ندرتِ خیال بھی پائی جاتی ہے۔ ان کے کلام میں جذبات کی پاکیزگی، بیان کی لطافت، اور شعری لطف کا بھرپور امتزاج موجود ہے۔
- یہ بھی دیکھیں: پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا | تشریح | PDF
وہ جدید انداز میں پرانی بات کو یوں پیش کرتے ہیں کہ شعر میں جدت اور خوبصورتی دونوں جھلکتی ہیں۔ ان کی شاعری قاری کے دل کو چھو لیتی ہے اور ایک نئی کیفیت سے روشناس کراتی ہے۔ مثلاً:
دل کانپتا ہے آپ کی رفتار دیکھ کر
سوز و گداز
سوز و گداز ایک فطری جذبہ ہے جو ہر انسان کے دل کی گہرائیوں میں موجود ہوتا ہے۔ لیکن شاعر، جو کہ حساس طبع ہوتا ہے، اس جذبے کو اپنے کلام میں نہایت خوبصورتی اور گہرائی کے ساتھ پیش کرتا ہے۔
شاعر جب اپنے دل کی تپش اور سوز کو غمگین اور افسردہ تراکیب کے ذریعے بیان کرتا ہے تو اس کے کلام میں نازک خیالی اور تاثیر کا ایک انوکھا امتزاج پیدا ہو جاتا ہے۔ یہی فنی مہارت شاعر کے کلام کو دلکش اور قاری کے جذبات سے ہم آہنگ کرتی ہے، جس سے قاری نہ صرف متاثر ہوتا ہے بلکہ اس کے دل میں بھی ایک خاص کیفیت جنم لیتی ہے۔
یاس یگانہ کی شاعری میں سوز و گداز کا رنگ نہایت نمایاں ہے۔ وہ اپنے جذبات اور احساسات کو ایسی موثر اور دلکش انداز میں پیش کرتے ہیں کہ قاری ان کے اشعار کے سحر میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ ان کے کلام کی مثال ملاحظہ ہو:
دوست کی خبر سن کر کہاں پر نارسائی کی ہے
فلسفہ و حکمت کی آمیزش
انسان ازل سے کائنات کے اسرار و رموز کو جاننے کی جستجو میں مصروف رہا ہے۔ یہ تجسس، جو انسان کی فطرت کا حصہ ہے، اسے کائنات کے نظام اور فطرت کی پوشیدہ حکمت کو سمجھنے کی کوشش میں مصروف رکھتا ہے۔ اس کی یہ جستجو ایک لا متناہی سلسلہ ہے جو ہمیشہ جاری رہے گا۔
یاس یگانہ چنگیزی کے کلام میں بھی اس جستجو کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ ان کے اشعار میں فلسفہ و حکمت کے گہرے رموز پائے جاتے ہیں جو قاری کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں اور کائنات کی گہرائیوں کو سمجھنے کی دعوت دیتے ہیں۔ یگانہ اپنے کلام میں فطرت اور انسان کے رشتے کو نہایت باریک بینی سے بیان کرتے ہیں۔(8)
ان کے اشعار میں ایک طرف کائنات کے اسرار پر غور و فکر کا پہلو نمایاں ہے تو دوسری طرف فلسفہ حیات کے گہرے نکات بھی پوشیدہ ہیں۔
سمجھتا ہوں مگر دنیا کو سمجھانا نہیں آتا
جھنجلاہٹ
یاس یگانہ چنگیزی کی شاعری کی سب سے منفرد اور نمایاں خوبی ان کی جھنجلاہٹ اور کھیسہ پن ہے۔ ان کے اشعار میں شوخی، تلخی، اور مزاج کی جھلکیاں اس انداز میں نمایاں ہیں کہ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی شخص غصے یا بیزاری کے عالم میں اپنے جذبات کو الفاظ کا روپ دے رہا ہو۔ یہ انداز نہایت منفرد اور ان کے کلام کو دیگر شعرا سے جداگانہ حیثیت دیتا ہے۔
- یہ بھی پڑھیں: غزل کیا ہے؟ غزل کی خصوصیات | PDF
یگانہ کے اشعار میں یہ جھنجلاہٹ اور شوخی بعض اوقات غالب کی ظرافت کی طرح ہلکی پھلکی اور بعض اوقات شدت سے بھرپور ہوتی ہے۔ ان کے اشعار قاری کو ایک خاص قسم کی فکری کیفیت میں مبتلا کر دیتے ہیں جہاں تلخی کے ساتھ ایک غیر معمولی لطف کا پہلو بھی موجود ہوتا ہے۔ مثلاً:
لے دعا کر چکے اب ترک دعا کرتے ہیں
جبر وقدر
جبر و قدر کا مسئلہ صدیوں سے فلسفیوں اور شاعروں کے درمیان بحث و مباحثے کا موضوع رہا ہے۔ اردو شاعری میں بھی اس موضوع پر کئی شعرا نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے، کیونکہ اس مسئلے سے خیر و شر، سزا و جزا اور انسانی اعمال کی حیثیت جیسے بنیادی سوالات جڑے ہوئے ہیں۔
جبر و اختیار کی بحث اگرچہ بظاہر بے نتیجہ معلوم ہوتی ہے، لیکن یاس یگانہ چنگیزی کے کلام میں اس کا خاصا اثر نظر آتا ہے۔ یاس یگانہ کے اشعار سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ فرقہ جبریہ کے نظریات سے متاثر تھے۔ ان کے نزدیک انسان فطرت کے ہاتھوں مجبور ہے اور اس کے اعمال پر اس کا مکمل اختیار نہیں۔(2)
وہ انسان کو گناہوں کے بدلے سزا کا مستحق نہیں سمجھتے اور نیکی و بدی کو ازلی اور فطری تصورات قرار دیتے ہیں۔ تاہم یہ خیال اسلامی تعلیمات سے متصادم ہے، جو یہ کہتی ہیں کہ انسان کو اپنے اعمال کے انتخاب میں آزادی حاصل ہے اور وہ حق یا باطل کا راستہ خود چننے کا اختیار رکھتا ہے۔
وار ہے گا کب تلک، توبہ کا در میرے لئے
اخلاق کی تعلیم
یاس یگانہ چنگیزی نے اپنی شاعری میں نہ صرف فنی اور ادبی خوبیاں دکھائیں بلکہ اخلاقیات کا درس بھی دیا ہے۔ وہ اپنے کلام کے ذریعے قاری کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ ایک صالح اور اچھے اخلاق کا انسان بننا نہایت ضروری ہے کیونکہ جب انسان کے اخلاق سنور جائیں تو معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بن جاتا ہے۔
اس لحاظ سے وہ صرف شاعری کے نہیں بلکہ انسانیت کے شاعر بھی کہلائے جا سکتے ہیں۔
پڑا ہے اب گڑھے میں گور کے آلودہ تر ہو کر
رشک
یاس یگانہ چنگیزی غالب کے روشن سخن سے متاثر تھے، حالانکہ ان کی شاعری میں غالب سے مخالفت اور مد مقابل بننے کی خواہش واضح طور پر جھلکتی ہے۔(1)
غالب کی شاعری کی ایک اہم خوبی “رشک” تھی، اور یہی خوبی کہیں کہیں یگانہ کے کلام میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ یہ رشک ان کے کلام میں منفرد انداز سے ظاہر ہوتا ہے، جس میں نہ صرف ان کی فکر بلکہ ان کی خودی اور انفرادیت کا عکس بھی شامل ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر:
عجیب شرط پہ ٹھہرا معاملہ دل کا
خودداری اور تنگ مزاجی
یاس یگانہ کے کلام میں خودداری، نازک مزاجی، اور عالی حوصلگی بدرجہ اتم موجود ہے۔ یہ خصوصیات ان کی شخصیت اور تخلیقات میں نمایاں نظر آتی ہیں۔ لیکن اکثر اوقات ان کی یہ خودداری خود پرستی کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور ان کی تنگ مزاجی حد سے بڑھ کر گستاخی کا روپ دھار لیتی ہے۔ ان کے اشعار میں اس رویے کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے:
سر پھر ادے انسان کا ایسا خبط مذہب کیا
تراکیب کا استعمال
یاس یگانہ کی شاعری میں تراکیب کا استعمال نہایت خوبصورتی سے کیا گیا ہے۔ ان کے ہاں “صدائے بازگشت” اور “معنی بے لفظ” جیسی تراکیب بار بار نظر آتی ہیں۔ یہ تراکیب ان کی زندگی کی کسمپرسی، تنہائی اور اس بات کے احساس کی عکاسی کرتی ہیں کہ اس دنیا میں ان کے خیالات کو سمجھنے والا کوئی نہیں۔ مثلاً:
دہن سے آہ نکلی، مبتلائے بے خبر ہو کر
محاورات کا استعمال
استعمال یگانہ نے محاورات کو اپنی شاعری میں شامل کر کے اسے منفرد اور دلکش بنایا۔ ان کے ہاں محاورات کو شاعرانہ زبان میں ڈھالنے کی بھرپور کوشش نظر آتی ہے۔ مثلاً:
کہاں کے دیر و حرم گھر کا راستہ نہ ملا
مزید دیکھیں
Note: The password is hidden within this article. Read the entire article thoroughly, find the password, and enter it in the password field.