پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا حال ہمارا جانے ہے | تشریح: میر تقی میر اردو غزل کے عظیم شعرا میں شمار ہوتے ہیں، جنہیں “خدائے سخن” کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ ان کی شاعری جذبات کی گہرائی، الفاظ کے چناؤ اور فطرت کی خوبصورتی کو بیان کرنے کے حوالے سے بے مثال ہے۔ زیرِ نظر غزل میر کی شعری عظمت کی ایک جھلک پیش کرتی ہے، جس میں عشق، فطرت، انسانی رویوں اور زندگی کی تلخیوں کو نہایت سادہ مگر دلنشین انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
میر تقی میر کی غزل “پتا پتا بوٹا بوٹا حال” کی تشریح

میر کی یہ غزل نہ صرف اردو ادب کے قارئین بلکہ شاعری کے شائقین کے دلوں پر بھی ہمیشہ کے لیے نقش ہو جاتی ہے۔ اس غزل کی تشریح سے ہمیں نہ صرف میر کی شعری فکر کو سمجھنے میں مدد ملے گی بلکہ اردو ادب کی گہرائیوں تک رسائی کا موقع بھی ملے گا۔
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
مفہوم: اس شعر میں شاعر نے اپنی کیفیت اور جذبات کو بیان کیا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ قدرت کی ہر شے، چاہے وہ پتے ہوں یا درخت، میری حالت سے واقف ہے۔ لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ گلاب، جو باغ کا سب سے نمایاں پھول ہے، میری حالت نہیں سمجھتا۔ یہاں شاعر نے گلاب کو اپنی محبوب کے طور پر تشبیہ دی ہے، جو اس کے دل کی کیفیت سے بے خبر ہے، جبکہ ساری دنیا اس کے دکھ کو جانتی ہے۔
تشریح: میر تقی میر کا یہ شعر ان کی جذباتی گہرائی اور کرب کو ظاہر کرتا ہے۔ شاعر نے قدرت کے ہر ذرے کو اپنی کیفیت کا شاہد قرار دیا ہے۔ “پتا پتا” اور “بوٹا بوٹا” شاعر کی اس حالت کی طرف اشارہ ہیں کہ ہر معمولی شے تک ان کے دکھ سے واقف ہے۔ لیکن ان کا محبوب، جسے یہاں “گل” کہا گیا ہے، ان کی حالت سے بے خبر ہے۔
یہاں “گل” صرف ایک پھول نہیں بلکہ محبت کے استعارے کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ شاعر کا شکوہ ہے کہ وہ شخص، جو ان کے لیے سب کچھ ہے، ان کے جذبات اور دکھ کو نہیں سمجھتا۔ باغ کے دوسرے عناصر، یعنی “پتا” اور “بوٹا”، شاعر کے درد کو محسوس کرتے ہیں لیکن “گل”، جو باغ کی زینت ہے، بے پرواہ ہے۔
شاعر نے اس شعر میں فطرت کے عناصر اور انسانی جذبات کو نہایت خوبصورتی سے ہم آہنگ کیا ہے۔ یہ شعر عاشق کے دکھ اور معصومیت کو اجاگر کرتا ہے اور محبوب کی بے حسی کو نمایاں کرتا ہے۔ میر کا انداز بیان سادگی اور گہرائی کا حسین امتزاج پیش کرتا ہے، جو قاری کے دل کو چھو لیتا ہے۔
اس کو فلک چشم مہ و خور کی پتلی کا تارا جانے ہے
مفہوم: شاعر کہتا ہے کہ اگر بس چلے تو وہ محبوب کے کان کی لو تک کسی زیور یا جھمکے کو بھی نہ پہنچنے دے۔ محبوب اس قدر حسین ہے کہ آسمان تک اس کی تعریف کرتا ہے، اور اسے چاند اور سورج کی آنکھ کی پتلی کا ستارہ مانتا ہے، یعنی وہ اس کائنات کی سب سے خوبصورت شے ہے۔
تشریح: میر تقی میر کے اس شعر میں محبوب کی بےمثال حسن و جمال کی تعریف کی گئی ہے۔ شاعر محبوب کی پاکیزگی اور خوبصورتی کو اس انداز سے بیان کرتا ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ کوئی زیور یا جھمکا بھی اس کے حسن کو چھونے کی جرأت نہ کرے۔ یہاں “گوہر گوش” اور “بالا” جیسے الفاظ محبوب کے کان کی خوبصورتی اور اس پر زیور کے اضافے کی غیر ضروری ہونے کو ظاہر کرتے ہیں۔
دوسری مصرعے میں شاعر محبوب کی خوبصورتی کو آسمانی عظمت سے جوڑتا ہے۔ شاعر کے نزدیک محبوب کا حسن چاند اور سورج جیسے فلکی اجسام کی آنکھوں کا تارہ ہے، یعنی وہ کائنات کی سب سے روشن اور حسین چیز ہے۔ یہ تشبیہ اور استعارہ شاعر کے تخیل کی بلندی کو ظاہر کرتی ہے۔
میر نے محبوب کے حسن کو اس طرح بیان کیا ہے کہ یہ دنیاوی سطح سے ماورا ہو کر آسمانی سطح تک پہنچ جاتا ہے۔ یہ شعر نہ صرف محبوب کی تعریف ہے بلکہ اس کی جمالیات کو کائناتی تناظر میں پیش کرتا ہے، جو میر کے اسلوب کی گہرائی اور شاعرانہ عظمت کا ثبوت ہے۔
کب موجود خدا کو وہ مغرور خود آرا جانے ہے
مفہوم: شاعر کہتا ہے کہ ہم اس متکبر محبوب کے سامنے عاجزی اور التجا کرتے رہتے ہیں، لیکن وہ اپنے غرور اور خود پسندی میں مبتلا ہے۔ وہ اس حقیقت سے بے خبر ہے کہ خدا ہر جگہ موجود ہے اور سب کچھ دیکھ رہا ہے۔
تشریح: میر تقی میر کے اس شعر میں محبوب کی خود پسندی اور عاشق کی عاجزی کو گہرے انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ پہلے مصرعے میں شاعر محبوب کے غرور کو اجاگر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ کس قدر متکبر ہے کہ عاشق اس کے سامنے مسلسل دعا اور منتیں کرتے ہیں، گویا وہ محبوب کو خدا کی مانند سمجھتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ خدا تو ہر جگہ موجود ہے، اور حقیقی عبادت کا حق صرف خدا کو حاصل ہے۔
دوسری مصرعے میں شاعر محبوب کی اس غفلت کو بیان کرتا ہے کہ وہ اپنی خوبصورتی اور تکبر میں اتنا گم ہے کہ اسے خدا کی موجودگی کا شعور تک نہیں۔ “مغرور خود آرا” کا استعمال محبوب کے اس رویے کو نمایاں کرتا ہے جو اپنی ذات میں محصور ہے اور دوسروں کے جذبات یا حقیقت سے بے خبر ہے۔
یہ شعر انسان کی روحانی اور جذباتی کشمکش کو بیان کرتا ہے۔ شاعر عاشق کی بے بسی، محبوب کی بے نیازی، اور خدا کی موجودگی جیسے اہم موضوعات کو نہایت خوبصورتی سے یکجا کرتا ہے۔ میر کی شاعری کا یہی کمال ہے کہ وہ ایک عام انسانی تجربے کو فلسفیانہ گہرائی کے ساتھ بیان کرتے ہیں، جو قاری کو سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔
جی کے زیاں کو عشق میں اس کے اپنا وارا جانے ہے
مفہوم: شاعر کہتا ہے کہ دنیا میں عاشق جیسا سیدھا اور بھولا بھالا کوئی نہیں ہوگا۔ وہ اپنی زندگی کے نقصان کو بھی محبت میں ایک فائدہ سمجھتا ہے اور اپنے نقصان کو اپنا مقدر اور کامیابی جان کر قبول کر لیتا ہے۔
تشریح: میر تقی میر کے اس شعر میں عاشق کی معصومیت اور اس کی قربانیوں کو نہایت دلنشین انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ پہلے مصرعے میں شاعر عاشق کی سادگی کو دنیا کے دیگر لوگوں سے منفرد قرار دیتا ہے۔ عاشق اپنی محبت میں اس قدر مگن اور خلوص سے سرشار ہے کہ اسے اپنے نقصان یا دکھ کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ اس کی دنیا محبت کے گرد گھومتی ہے اور وہ اس میں اپنی خوشی تلاش کرتا ہے۔
دوسرے مصرعے میں شاعر عاشق کی اسی کیفیت کو مزید واضح کرتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی کے نقصان، خواہ وہ وقت کا ہو، جذبات کا ہو، یا کسی اور پہلو کا، اسے بھی محبت کا حصہ سمجھتا ہے۔ اس کے نزدیک محبت میں ہر قربانی فائدے کے مترادف ہے، کیونکہ اس کا مقصد صرف محبوب کی رضا اور قربت ہے۔
یہ شعر عشق کے فلسفے کی گہرائی کو پیش کرتا ہے، جہاں محبت کرنے والا اپنی ہر تکلیف کو بھی خوشی سمجھتا ہے۔ میر کے اسلوب میں موجود سادگی اور گہرائی قاری کو محبت کے ایک اعلیٰ درجے کی طرف لے جاتی ہے، جو اپنے اندر فنا ہو کر محبوب کی رضا میں سکون پانے کا نام ہے۔
ورنہ دلبر ناداں بھی اس درد کا چارہ جانے ہے
مفہوم: شاعر کہتا ہے کہ محبوب کے شہر میں دل کی بیماری کا علاج کوئی معمول یا روایت نہیں ہے، ورنہ میرا نادان محبوب بھی اس درد کا علاج جانتا ہے۔ یہاں دل کی بیماری سے مراد عشق کی تکلیف اور جدائی کا غم ہے۔
تشریح: میر تقی میر کے اس شعر میں عاشق کے درد اور محبوب کی بے حسی کو نہایت خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے۔ پہلے مصرعے میں شاعر کہتا ہے کہ محبوب کے شہر، جو حسن کا مرکز ہے، وہاں دل کے درد کا علاج کرنا کوئی عام بات یا روایت نہیں۔ عشق کی تکلیف کو وہاں سمجھا نہیں جاتا، کیونکہ حسن اور خودپسندی کے ماحول میں کسی کی تکلیف کو اہمیت دینا عام نہیں ہوتا۔
دوسرے مصرعے میں شاعر اس حقیقت کو مزید اجاگر کرتے ہیں کہ محبوب چاہے کتنا ہی نادان ہو، وہ بھی اس درد کا علاج کر سکتا ہے اگر وہ چاہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہ چاہتا ہی نہیں۔ یہ مصرع عاشق کی بے بسی اور محبوب کی بے نیازی کو نمایاں کرتا ہے۔ محبوب کا نادان ہونا عاشق کے لیے ایک اور دکھ کی بات ہے، کیونکہ وہ اپنے جذبات کو سمجھانے میں ناکام رہتا ہے۔
یہ شعر محبت میں ہونے والے درد، محبوب کی بے خبری، اور عاشق کی بے بسی کا عکاس ہے۔ میر نے اس شعر میں انسانی جذبات کو نہایت گہرائی اور فصاحت کے ساتھ پیش کیا ہے، جو قاری کو عشق کے تلخ مگر حسین پہلوؤں پر غور کرنے پر مجبور کرتا ہے۔
طائر اڑتے ہوا میں سارے اپنے اساریٰ جانے ہے
مفہوم: شاعر کہتا ہے کہ وہ کم عمر شکاری اپنے شکار کی فریب کاری پر اس قدر مغرور ہے کہ ہوا میں اڑتے پرندے بھی اس کے دام میں گرفتار ہونے کا یقین رکھتے ہیں۔ یہ شعر شکاری کے غرور اور شکار کی بے بسی کو بیان کرتا ہے۔
تشریح: میر تقی میر کے اس شعر میں محبوب کو ایک شکاری کے طور پر پیش کیا گیا ہے، جو نہایت فریب کار اور چالاک ہے، اور عاشق کو شکار کے طور پر دکھایا گیا ہے، جو اس کے دام میں پھنسنے کے لیے مجبور ہے۔ پہلے مصرعے میں شاعر محبوب کی فریب کاری اور غرور کو نمایاں کرتے ہیں۔ “صیاد بچہ” کا استعمال یہ ظاہر کرتا ہے کہ محبوب اپنی جوانی اور معصومیت کے باوجود اتنا چالاک ہے کہ شکار کرنے کے فن میں ماہر ہے۔ اس کا مغرور ہونا اس کے حسن اور فریب کی طاقت کو مزید اجاگر کرتا ہے۔(7)
دوسرے مصرعے میں شاعر پرندوں کو استعارہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں، جو عاشقوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ہوا میں اڑتے ہوئے پرندے، جو آزادی کی علامت ہیں، وہ بھی اس شکاری کے جال میں پھنسنے کا یقین رکھتے ہیں۔ یہ بیان محبوب کی غیر معمولی کشش اور عاشقوں کی بے بسی کو ظاہر کرتا ہے۔
یہ شعر عشق کی نفسیات کو گہرائی سے بیان کرتا ہے، جہاں محبوب کی کشش اور عاشق کی مجبوری کے درمیان ایک دلچسپ مگر دردناک رشتہ قائم ہوتا ہے۔ میر کے الفاظ کی چابکدستی اور منظر کشی قاری کو عشق کے پیچیدہ جذبات کی تصویر دکھاتی ہے، جو ان کے منفرد انداز بیان کا خاصہ ہے۔
اور تو سب کچھ طنز و کنایہ رمز و اشارہ جانے ہے
مفہوم: شاعر کہتا ہے کہ محبوب مہر، وفا، لطف اور عنایت جیسے جذبات سے بالکل ناآشنا ہے، لیکن طنز، کنایہ، رمز اور اشارہ کرنے میں اسے مکمل مہارت حاصل ہے۔
تشریح: میر تقی میر کے اس شعر میں محبوب کی بے حسی اور عاشق کے جذبات کی ناپسندیدگی کو واضح کیا گیا ہے۔ پہلے مصرعے میں شاعر محبوب کی شخصیت کا تجزیہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ مہر و وفا، یعنی محبت اور وفاداری جیسے خالص جذبات سے بالکل بے بہرہ ہے۔ اس کے علاوہ لطف و عنایت، یعنی ہمدردی اور مہربانی کا بھی اس کے رویے میں کوئی شائبہ نہیں۔ اس سے شاعر کی مایوسی اور دل گرفتگی عیاں ہوتی ہے، کیونکہ محبوب کی بے حسی عاشق کے لیے کرب کا باعث ہے۔
دوسرے مصرعے میں شاعر محبوب کی دوسری صفات کو بیان کرتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ محبوب طنز و کنایہ اور رمز و اشارے میں ماہر ہے۔ اس کے لب و لہجے میں نرمی یا محبت کے بجائے تلخی اور غیر مستقیم حملے نمایاں ہوتے ہیں۔ یہاں شاعر یہ اشارہ دیتا ہے کہ محبوب کے پاس عشق اور خلوص کے جذبات کے لیے کوئی جگہ نہیں، بلکہ اس کا انداز ہمیشہ غیر مخلصانہ اور فریب دہ ہے۔(0)
یہ شعر محبوب کی شخصیت اور عاشق کی حالت کو ایک ایسے انداز میں پیش کرتا ہے، جو قاری کو محبت کی تلخ حقیقتوں اور انسانی رویوں پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ میر کا یہ کمال ہے کہ وہ سادہ الفاظ میں گہری معنویت اور جذباتی شدت کو بیان کرتے ہیں، جو ان کی شاعری کو ابدی بنا دیتا ہے۔
جس بے دل بے تاب و تواں کو عشق کا مارا جانے ہے
مفہوم: شاعر کہتا ہے کہ محبوب اپنے عاشق پر طرح طرح کے فتنے اور آزمائشیں لاتا رہتا ہے۔ عاشق جو پہلے ہی دل شکستہ، بے تاب اور کمزور ہے، محبت کے درد نے اسے مزید بے بس کر دیا ہے۔
تشریح: میر تقی میر کے اس شعر میں عاشق کی بے بسی اور محبوب کی بے نیازی کو نہایت گہرائی سے بیان کیا گیا ہے۔ پہلے مصرعے میں شاعر محبوب کے روئیے کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے۔ محبوب اپنی بے حسی اور خودغرضی کے باعث عاشق پر مسلسل فتنے، تکالیف اور مشکلات مسلط کرتا رہتا ہے۔ یہاں “سر پر لاتا ہے” کا فقرہ ان مصیبتوں اور آزمایشوں کی شدت کو ظاہر کرتا ہے جن کا عاشق کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔
دوسرے مصرعے میں عاشق کی حالت کو بیان کیا گیا ہے۔ عاشق پہلے ہی محبت کی شدت اور درد کے باعث دل شکستہ، بے تاب اور کمزور ہو چکا ہے۔ اس کی زندگی عشق کے غموں اور محبوب کی بے وفائی کے بوجھ تلے دب چکی ہے۔ “عشق کا مارا” کا فقرہ یہ واضح کرتا ہے کہ عاشق کی تمام حالت عشق کی دین ہے، جو اس کی روحانی اور جسمانی کمزوری کا باعث بنی ہے۔
یہ شعر عشق کی تلخ حقیقتوں کو سامنے لاتا ہے، جہاں محبت ایک طرف عاشق کو بے خودی اور قربانی کے جذبات سے بھر دیتی ہے، تو دوسری طرف اس کی زندگی کو مشکلات اور کرب کا میدان بنا دیتی ہے۔ میر کا یہ انداز بیان قاری کو جذبات کی گہرائی اور محبت کے پیچیدہ پہلوؤں پر غور کرنے پر مجبور کرتا ہے۔
ان سوراخوں کے ٹک رہنے کو سو کا نظارہ جانے ہے
مفہوم: شاعر کہتا ہے کہ باغ کی دیوار کے سوراخوں نے باغ کے حسن کو چھپا رکھا ہے۔ یہ سوراخ گویا دیوار کے اندر سے جھانکتے ہوئے منظر کے نظارے کو روک رہے ہیں، اور یہی سوراخ باغ کے حسن کو مکمل دیکھنے کے لیے ایک اہم ذریعہ بن گئے ہیں۔
تشریح: میر تقی میر کے اس شعر میں شاعر نے باغ اور اس کی دیوار کو استعارے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے ایک گہرا فلسفیانہ مفہوم بیان کیا ہے۔ پہلے مصرعے میں شاعر کہتا ہے کہ باغ کی دیوار پر موجود سوراخ اس طرح نظر آتے ہیں جیسے وہ باغ کے حسن کو اپنے اندر چھپائے ہوئے ہوں۔ دیوار کی یہ خامیاں، یعنی سوراخ، باغ کے جمال کو مکمل طور پر ظاہر ہونے سے روکتی ہیں۔
دوسرے مصرعے میں شاعر دیوار کے ان سوراخوں کو مثبت انداز میں دیکھتے ہیں۔ ان سوراخوں سے جھانک کر باغ کے مناظر کا ایک محدود مگر حسین نظارہ ممکن ہے۔ شاعر یہ کہنا چاہتا ہے کہ یہ خامیاں بھی کسی نہ کسی پہلو سے خوبصورتی کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔(3)
یہ شعر انسانی زندگی اور محبت کی حقیقتوں کو بیان کرتا ہے، جہاں خامیوں کو اکثر منفی سمجھا جاتا ہے، لیکن یہی خامیاں کائنات کی حسن کی گواہی دینے کا ذریعہ بھی بن سکتی ہیں۔ میر کا یہ کمال ہے کہ وہ سادہ الفاظ میں گہرے فلسفیانہ خیالات پیش کرتے ہیں، جو قاری کو انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر سوچنے کی دعوت دیتا ہے۔
دم دار آب تیغ کو اس کے آب گوارا جانے ہے
مفہوم: شاعر کہتا ہے کہ میر بھی کتنا نادان اور تلخی سہنے والا ہے کہ اپنے قاتل کی خون بہانے والی تلوار کو بھی تسکین اور لطف کا باعث سمجھتا ہے۔
تشریح: میر تقی میر کے اس شعر میں عشق کی شدت، عاشق کی بے بسی، اور خود کو فنا کر دینے کے جذبات کی عکاسی کی گئی ہے۔ پہلے مصرعے میں شاعر اپنی کیفیت بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ اپنی محبت اور عشق میں اس قدر دیوانہ ہے کہ اپنی جان لینے والے قاتل، یعنی محبوب، کی تلخی اور بے رحمی کو بھی برداشت کر رہا ہے۔ “تشنۂ خوں” کا استعمال اس کیفیت کو واضح کرتا ہے کہ عاشق اپنے خون کے بہانے کو بھی محبت کا ایک حصہ سمجھتا ہے۔
دوسرے مصرعے میں شاعر اس جذباتی کیفیت کو مزید گہرائی سے بیان کرتا ہے۔ “دم دار آب تیغ” محبوب کی خون بہانے والی تلوار کی جانب اشارہ ہے، جو عاشق کے لیے موت کا پیغام لاتی ہے۔ لیکن عاشق اس تلوار کو بھی “آب گوارا” یعنی ایک تسکین دہ اور خوشگوار چیز کے طور پر دیکھتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عاشق محبت میں اس قدر فنا ہو چکا ہے کہ اسے اپنی جان کی پرواہ نہیں، بلکہ وہ محبوب کے ہر عمل کو اپنی محبت کا ثبوت سمجھتا ہے۔
یہ شعر عشق کی انتہا، عاشق کی معصومیت، اور محبت میں فنا ہونے کے جذبات کو بیان کرتا ہے۔ میر کی شاعری کا یہ وصف ہے کہ وہ انسانی جذبات کی گہرائیوں کو سادگی اور فصاحت کے ساتھ بیان کرتے ہیں، جس سے قاری کو عشق کے دردناک مگر حسین پہلوؤں کی جھلک ملتی ہے۔
مزید دیکھیں
Note: The password is hidden within this article. Read the entire article thoroughly, find the password, and enter it in the password field.
