فسانۂ عجائب کی خصوصیات اور تعارف: فسانۂ عجائب، رجب علی بیگ سرور کی ایک نہایت مشہور و معروف داستان ہے جو اردو نثر کے ابتدائی سرمائے میں اہم مقام رکھتی ہے۔ یہ داستان نہ صرف فنی اعتبار سے بلکہ فکری لحاظ سے بھی غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے۔ اگرچہ اس کا اسلوب قدرے مشکل اور پلاٹ پیچیدہ ہے، جس پر بعض ناقدین اور قارئین کو اعتراض رہا ہے، تاہم مجموعی طور پر فسانۂ عجائب کی ادبی قدر و قیمت سے انکار ممکن نہیں۔
یہ داستان لکھنوی تہذیب و معاشرت کا جیتا جاگتا عکس ہے، جس میں اس دور کے معاشرتی رنگ، زبان و بیان کی لطافت، اور ادبی نزاکت پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہے۔
فسانۂ عجائب – مختصر تعارف
فسانۂ عجائب اردو نثر کی ابتدائی اور اہم داستانوں میں شمار ہوتی ہے، جسے رجب علی بیگ سرور نے تحریر کیا۔ وہ لکھنؤ کے ایک ممتاز نثر نگار تھے۔ آپ کے والد کا نام مرزا اصغر علی تھا اور آپ 1786ء میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ رجب علی بیگ کو عربی و فارسی پر عبور حاصل تھا اور وہ موسیقی کے بھی دلدادہ تھے۔ آپ کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ آپ مرزا غالب جیسے عظیم شاعر کے دوستوں میں شامل تھے۔

رجب علی بیگ سرور کے مزاج اور قلم میں لکھنؤ کی تہذیب و معاشرت کی جھلک نمایاں طور پر دکھائی دیتی ہے، جو ان کی تحریروں میں جابجا محسوس ہوتی ہے۔ فسانۂ عجائب میں بھی لکھنوی تہذیب کی جھلک، تصنع، سجع بندی، قافیہ پیمائی، اور تشبیہ و استعارہ کے دلکش نمونے جا بجا نظر آتے ہیں۔
اس داستان کی تمہید میں نواب غازی الدین حیدر کے لیے مغفرت و عفو کی دعا اور ان کی واپسی کی اجازت کی درخواست بھی شامل ہے، جو اس وقت کے سیاسی پس منظر کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ کتاب نواب ناصرالدین حیدر کے عہد میں مکمل ہوئی، جبکہ اس کی ابتدا نواب غازی الدین کے زمانے میں ہوئی۔
رجب علی بیگ سرور نے اس کتاب کے دیباچے میں اسے پانچ عنوانات کے تحت ترتیب دیا ہے:
- حمد
- نعت
- مدحِ غازی الدین حیدر
- بیانِ لکھنؤ
- باعثِ تحریر داستانِ مرغوب
تا ابد قائم رہے فرمانبرداۓ لکھنؤ
یہ نصیرالدین حیدر بادشاہِ لکھنؤ
فسانۂ عجائب کی خصوصیات
- انداز بیان
- تصنع
- قافیہ پیمائی
- شعریت اور رنگینی
- منظر کشی
- مافوق الفطرت ماحول
- تشبیہات و استعارات
- لکھنوی معاشرے کی عکاسی
- فسانۂ عجائب کی کردار نگاری
اندازِ بیان
آپ کے اندازِ بیان کو اردو ادب میں ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ آپ کی تحریر ایسی جاذبِ نظر فضا قائم کرتی ہے کہ قاری خود کو اس دور کے حالات و واقعات میں چلتا پھرتا محسوس کرتا ہے۔ آپ نے اس وقت کے روزمرّہ محاورات، تشبیہات اور محاورہ بند انداز کو خوبصورتی سے استعمال کیا ہے، جو آج بھی کہیں کہیں سننے کو ملتے ہیں۔ یہی انداز قاری کے دل میں آپ کی نثر کی زندہ اور متحرک تصویر بٹھا دیتا ہے۔
تصنّع
آپ کی نثر کی ایک نمایاں خصوصیت تصنّع اور بناوٹی طرزِ ادا ہے۔ آپ الفاظ کے چناؤ میں غیر معمولی اہتمام برتتے ہیں، جو بسا اوقات سادگی کو پیچھے چھوڑ کر پیچیدگی کی طرف مائل ہو جاتی ہے۔ اس طرز کو بعض نقادوں نے تنقید کا نشانہ بنایا، لیکن اس میں بھی ایک ادبی جمال پوشیدہ ہے۔
جیسا کہ پروفیسر وقار عظیم نے بجا فرمایا:
“یہ زبان و بیان اور اپنی منفرد خصوصیات کی وجہ سے اردو ادب میں اپنی مثال آپ ہے۔”
یہ طرزِ نگارش اگرچہ ہر قاری کے لیے آسان نہیں، مگر اس کی بلاغت، صنعتِ لفظی، اور فکری باریکی اسلوب کو امتیازی حیثیت عطا کرتی ہے۔
قافیہ پیمائی
قافیہ پیمائی آپ کے کلام کی ایک اہم اور دلکش خصوصیت ہے۔ آپ نے نثر میں شعری رنگ بھرنے کے لیے قوافی کا استعمال اس مہارت سے کیا ہے کہ عبارت کو ایک خوبصورت موسیقیت حاصل ہو گئی ہے۔ اس کی بدولت جملے نہ صرف وزن دار معلوم ہوتے ہیں، بلکہ قاری کے کانوں میں سریلا ساز بن کر گونجتے ہیں۔
مثال کے طور پر جب جانِ عالم انجمن آرا کو دیکھ کر بے ہوش ہو جاتا ہے اور وہ اس کا سر اپنی زانو پر رکھ لیتی ہے، تو آپ اس منظر کو ان الفاظ میں یوں بیان کرتے ہیں:
“سبحان اللہ! سر خاک افتادہ کنار یار، زانوئے دل دار پر پایا، نیاز و ناز سے دماغ عرشِ معلّیٰ پر پہنچایا، اور پاؤں پھیلایا، انجمن آرا نے جھجک کر گھٹنا سرکایا۔”
یہ قافیہ آرائی اور صنعتِ لفظی کا حسین امتزاج نہ صرف نثر کو جاذبِ نظر بناتا ہے بلکہ اسے دل و دماغ پر اثر انداز ہونے والا ادبی تجربہ بھی بنا دیتا ہے۔
شعریت اور رنگینی
فسانۂ عجائب کا تمہیدی حصہ زبان و بیان کے اعتبار سے شعریت، رنگینی، ادبی لطافت اور زورِ تخیّل کا ایسا اعلیٰ نمونہ ہے جو اردو کے افسانوی ادب میں اپنی مثال آپ ہے۔ مصنّف طبعاً شاعر تھے، اور ان کی شاعرانہ طبیعت نثر میں بھی جھلکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی نثر شعری آہنگ اور جمالیاتی حسن سے بھرپور نظر آتی ہے۔ کہیں کہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نثر میں شاعری کا جادو گھل گیا ہو — نثر بھی گویا شعر بن کر رقصاں ہے۔
منظرکشی
مصنّف نے فسانۂ عجائب میں مختلف واقعات کی منفرد اور مؤثر منظرکشی کی ہے، بالخصوص تمہیدی حصہ اس لحاظ سے بے حد اہم ہے۔ اس حصے میں مصنّف کی نثر محض الفاظ کا مجموعہ نہیں رہتی بلکہ ایک نقاشی کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ وہ رنگ، روشنی، احساسات اور جذبات کو اس خوبی سے بیان کرتے ہیں کہ قاری ان مناظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے لگتا ہے۔
مافوق الفطرت ماحول
مصنّف کو مافوق الفطرت عناصر سے خاص دلچسپی ہے۔ انہوں نے قدرتی اور معمولی واقعات کو طلسماتی اور پر اسرار انداز میں اس طرح پیش کیا ہے کہ وہ غیر معمولی محسوس ہونے لگتے ہیں۔ انہوں نے جادو، کرامات، اور غیر مرئی قوتوں کو صرف تخیل کا سہارا نہیں بنایا بلکہ انہیں کہانی کا محرک اور فضا ساز عنصر بھی بنایا ہے۔
اہم روابط
عام انسانی شرارتوں سے کم اور جادو و سحر کے اثرات سے زیادہ مسائل پیدا کیے گئے ہیں۔ جہاں کہیں عقائد و رسومات کا ذکر آیا ہے، وہاں ان کے باطنی معانی اور مذہبی مضمرات کو بھی اجاگر کیا ہے۔ حضرت امام جعفر صادق کی نیاز اور کونڈے کا ذکر کر کے مصنّف نے اپنے عقائد، رجحانات اور مذہبی وابستگی کا خوبصورت اظہار بھی کیا ہے۔
تشبیہات و استعارات
مصنّف نے اس داستان (فسانۂ عجائب) کو دلچسپ، جاندار اور رنگین بنانے کے لیے تشبیہات و استعارات کا خوبصورت استعمال کیا ہے۔ ان کی نثر میں تشبیہیں صرف کسی چیز کی وضاحت نہیں کرتیں بلکہ احساس اور فضا پیدا کرتی ہیں۔ ان کے استعمال سے زبان میں لطافت، شوکت اور دلکشی آ جاتی ہے۔ ذیل کے اقتباسات اس اسلوب کا عمدہ نمونہ ہیں:
’’وہ رنڈیاں پری شمایل، زہرہ پیکر، مشتری خصائل، اس ناز و انداز اور سحر کرافات، غمزہ و شَوہ و وِگات کی بانگی، کہ ہاروت و ماروت تو کیا، معاذ اللہ اگر فرشتے عرش سے فرش پر آئیں، تو ان کی چاہ میں لکھنؤ کے کنویں میں گر جائیں۔‘‘
’’دشت پتھر تپنے سے انگارا تھا، جانور ایک پیاس کا مارا تھا، وہ تابشِ شمس کہ ہرن کالا ہو، مَذکورے سے زبان میں چھالا ہو۔‘‘
ان اقتباسات میں جو تشبیہاتی حسن اور استعارہ کاری ہے، وہ اردو نثر کو شعری اسلوب سے قریب تر کر دیتی ہے۔
لکھنوی معاشرے کی عکاسی
یہ داستان (فسانۂ عجائب) لکھنوی معاشرت اور تہذیب کا نہایت خوبصورت آئینہ ہے۔ وہی تصنع، نزاکت، بناوٹ، نفاست، اور نازک خیالی جو لکھنؤ کی تہذیب کا خاصہ تھی، اس کتاب کے ہر صفحے سے جھلکتی ہے۔ مصنّف نے اپنے کرداروں، زبان، ماحول، حتیٰ کہ روزمرہ کے مکالمات میں بھی لکھنوی ذوقِ سخن، وضع داری، اور تہذیبی لطافت کو برتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ فسانۂ عجائب کو نہ صرف ادبی اعتبار سے بلکہ سماجی و ثقافتی تاریخ کے ایک اہم ماخذ کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے۔ یہ داستان ہمیں نہ صرف زبان و بیان کا مزہ دیتی ہے بلکہ ایک گزرے ہوئے مہذب معاشرے کے طور طریقے، لباس، رہن سہن، اور رسوم و رواج کی جھلک بھی پیش کرتی ہے۔
فسانۂ عجائب کی کردار نگاری
فسانۂ عجائب کی کامیابی میں جہاں اس کے اسلوب، منظرنگاری، اور زبان کا عمل دخل ہے، وہیں کردار نگاری کو بھی بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اس داستان میں مرکزی اور ضمنی کرداروں کی ایک پوری دنیا آباد ہے، جو داستان کو دلکشی، وسعت اور زندگی بخشتی ہے۔
- شہزادہ جانِ عالم
- ملکہ مہر نگار
- انجمن آرا
شہزادہ جانِ عالم
جانِ عالم اس داستان کا مرکزی کردار ہے۔ وہ بادشاہ فیروز بخت کے ہاں ساٹھ برس کی عمر میں پیدا ہوتا ہے اور پیدائش ہی سے غیر معمولی حسن و جمال کا حامل ہوتا ہے۔ اس کی خوبصورتی کا عالم یہ ہے کہ ہر کوئی اس پر فریفتہ ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ پورے شہر میں اسی کا چرچا ہوتا ہے۔ جانِ عالم کا کردار مثالی، خوابناک اور رومانوی ہے، جو داستان کو طلسماتی فضا عطا کرتا ہے۔
ملکہ مہر نگار
ملکہ مہر نگار، جانِ عالم کی محبوبہ، ایک متحرک، جاندار اور فطری کردار ہے۔ وہ صرف خوبصورت نہیں بلکہ داخلی کشمکش، جذباتی نزاکت اور نسوانی وقار کا مرقع بھی ہے۔ اپنی محبت کے اظہار میں وہ دھڑکنوں کی اسیر، جذبات کی ماری، اور سماجی اقدار کی پابند دکھائی دیتی ہے۔ محبت کا اظہار کرتے ہوئے اس کے دل میں باپ کا خوف، ماں کی خجالت، اور معاشرتی رسوائی کا اندیشہ حائل رہتا ہے:
“ڈرتی ہوں کہ اگر باپ کو علم ہوا تو کیا ہوگا، ماں نے سن لیا تو شرمندگی ہو گی، بدنامی کے ڈر سے جی کر بھی نہ جی سکوں گی۔”
یہ کردار اس داستان کا سب سے حقیقی اور انسانی چہرہ رکھتا ہے۔
انجمن آرا
انجمن آرا جانِ عالم کی دوسری بیوی ہے اور داستان کی دوسری ہیروئن بھی۔ یہ کردار شوخی، رعنائی اور جمالیاتی کشش کا مظہر ہے۔ طوطا اس کے حسن کو یوں بیان کرتا ہے:
“وہاں کی شہزادی ہے، انجمن آرا۔ اس کا کیا کہنا! کہاں میری زبان میں وہ طاقت کہ میں اس زہرہ جبیں، فخرِ لعبتانِ لندن و چین کے شمائل و خصائل بیان کر سکوں۔”
انجمن آرا کا کردار بھی داستان میں حسن، رعب، اور دلفریبی کی علامت ہے۔
دیگر کردار
فسانۂ عجائب میں کئی ضمنی کردار بھی موجود ہیں جو داستان کی فضا کو مزید متنوع اور رنگین بناتے ہیں۔ ان میں نمایاں ہیں:
- ماہِ طلعت – جانِ عالم کی تیسری بیوی
- طوطا – داستان گو، دانا اور حاضر دماغ
- چڑی مار اور اس کی بیوی – ابتدائی داستانی فضا قائم کرنے والے کردار
- وزیر زادہ – اہم معاون کردار
- کوہِ مطلب کا جوگی – طلسماتی اور اسرار بھرا کردار
- توام برادران، بنی اسرائیل کے مفتی، یمنی بادشاہ وغیرہ
