علامہ اقبال کی نظم نگاری کی خصوصیات | PDF

علامہ اقبال کی نظم نگاری: علامہ اقبال اردو ادب کے ان چند نامور شعرا میں سے ہیں جنہوں نے شاعری کو محض تفریح یا جذبات نگاری کا ذریعہ نہیں بنایا، بلکہ اسے ملتِ اسلامیہ کی فکری اور روحانی بیداری کا وسیلہ بنایا۔ ان کی نظموں میں حب الوطنی، خودی کا تصور، دینی شعور، اور ایک پختہ فکری پیغام بھرپور انداز میں جلوہ گر ہے۔

اقبال کی شاعری میں جہاں جذبات کی لطافت اور زبان کی شیرینی پائی جاتی ہے، وہیں اس میں فکر کی گہرائی اور معنویت کا وقار بھی موجود ہے۔ ان کے کلام نے اردو نظم کو صرف جمالیاتی پہلوؤں تک محدود نہیں رکھا، بلکہ اسے تعمیرِ ملت، احیائے فکر، اور اسلامی تہذیب کا ترجمان بنا دیا۔

اقبال نے خصوصاً نوجوان نسل کو علم، عمل اور یقین جیسے اوصافِ حمیدہ سے آراستہ ہونے کا پیغام دیا۔ ان کے نزدیک قوم کی نجات محض خوابوں یا نعروں سے نہیں، بلکہ عملی جدوجہد، روحانی خودی، اور فکری بیداری سے ممکن ہے۔

علامہ اقبال کی نظم نگاری کی خصوصیات  | PDF
علامہ اقبال کی نظم نگاری کی خصوصیات | PDF

علامہ اقبال کی نظم نگاری نے اردو شاعری کو ایک نیا فکری، روحانی اور انقلابی رخ عطا کیا۔ ان کا کلام صرف وقت کا ترجمان نہیں، بلکہ آنے والے زمانوں کے لیے بھی رہنما اور چراغِ راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔

علامہ اقبال کی نظم نگاری کی خصوصیات

  • فطرت، وجدان اور شعری وسعت
  • مغربی ادب کے اثرات
  • تصوف کے اثرات
  • فلسفۂ خودی کی ابتدائی جھلک
  • حقیقت کی تلاش
  • وطن پرستی سے قوم پرستی تک
  • رومانویت
  • پیامبری
  • یورپی تہذیب سے بیزاری
  • اسلامی شاعری

فطرت، وجدان اور شعری وسعت

علامہ اقبال نے بہت جلد یہ محسوس کر لیا تھا کہ روایتی غزل گوئی ان کے فکری مزاج اور تخلیقی طبیعت سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ انہیں ایک ایسے شعری اظہار کی جستجو تھی جو ان کے خیالات کی وسعت، ان کے جذبات کی گہرائی، اور ان کے مشاہدے کی گیرائی کا مکمل احاطہ کر سکے۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے غزل سے ہٹ کر نظم کو اپنا ذریعہ اظہار بنایا۔

اقبال کی نظم “ہمالہ” ان کی نظم نگاری کا نقطۂ آغاز تھی اور حیرت انگیز طور پر اس نظم کو فوراً عوامی مقبولیت اور ادبی وقار حاصل ہوا۔ اس کے بعد انہوں نے “نالۂ یتیم”، “ہلالِ عید سے خطاب” اور “ابرِ گہر بار” جیسی معروف نظمیں انجمن حمایتِ اسلام کے سالانہ جلسوں میں پیش کیں، جنہوں نے ان کی شاعری کو بامِ عروج تک پہنچا دیا۔

ہمالہ” اور “ایک آرزو” جیسی نظموں میں فطرت کے مناظر سے ان کی قلبی وابستگی کا گہرا اظہار ملتا ہے۔ ان نظموں سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ قدرت نے انہیں فطرت کی خوبصورتی کو جذب کرنے اور اسے مؤثر شعری انداز میں بیان کرنے کا غیر معمولی ملکہ عطا کیا تھا۔ وہ صرف مناظر کی تصویر کشی نہیں کرتے، بلکہ ان مناظر کے پس منظر میں چھپی روحانی معنویت اور قومی شعور کو بھی بیدار کرتے ہیں۔

اقبال کی نظموں میں جمالیات، وجدانی شعور، اور فطرت سے مکالمے کا جذبہ ایک منفرد شعری آہنگ پیدا کرتا ہے۔ ان کا اسلوب محض لفظوں کا تانا بانا نہیں، بلکہ سوچنے، محسوس کرنے اور بیدار کرنے کا عمل ہے۔ یوں وہ اردو نظم کو صرف فنی نہیں، فکری بلندیوں سے بھی ہمکنار کرتے ہیں۔

مغربی ادب کے اثرات

علامہ اقبال کی شاعری پر جہاں مشرقی تصوف، اسلامی فکر اور قومی شعور کے گہرے اثرات دکھائی دیتے ہیں، وہیں مغربی ادب کا اثر بھی ان کے کلام میں کسی حد تک محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اقبال نے انگریزی شاعری کے بعض خوبصورت نمونوں کے اردو ترجمے بھی کیے، جو ان کی وسعتِ مطالعہ اور جمالیاتی فہم کا ثبوت ہیں۔

ان کے تراجم میں “پیغامِ صبح”، “عشق اور موت”، اور “رخصت اے بزمِ جہاں” جیسی نظمیں شامل ہیں، جو اصل میں انگریزی نظموں کا خوبصورت اردو روپ ہیں۔ ان نظموں کے ترجمے میں اقبال نے نہ صرف مفہوم کی لطافت کو محفوظ رکھا بلکہ اردو شعری روایت میں ایک نیا حسن بھی شامل کیا۔

اسی طرح بچوں کی نظموں میں بھی بعض خیالات اور اسلوب مغربی ادب سے ماخوذ ہیں۔ مثلاً “مکڑا اور مکھی”، “ایک پہاڑ اور گلہری”، “ایک گائے اور بکری”، “بچے کی دعا”، “ماں کا خواب” اور “ہمدردی” جیسی نظمیں مغربی شعرا، خاص طور پر گوئٹے، ٹینی سن اور ایمرسن جیسے معروف مغربی ادیبوں کے کلام سے متاثر دکھائی دیتی ہیں۔ ان نظموں میں اخلاقی تعلیم، سادہ اسلوب، اور نصیحت آمیز انداز وہ پہلو ہیں جو مغربی بچوں کی شاعری سے ہم آہنگ ہیں۔

علاوہ ازیں، اقبال نے اپنی شاعری میں صوت، آہنگ، اور عروضی تجربات بھی کیے، جن پر مغربی نظموں کے اسلوب کی چھاپ محسوس کی جا سکتی ہے۔ تاہم اقبال نے ان اثرات کو محض نقل نہیں کیا، بلکہ اپنے فکری نظام اور مشرقی اقدار کے ساتھ ہم آہنگ کر کے ایک منفرد اسلوب تخلیق کیا۔

گویا اقبال کی شاعری مغرب سے متاثر ضرور ہے، مگر اس میں مشرق کی روح اور اسلامی وجدان پوری توانائی کے ساتھ موجود ہے۔

تصوف کے اثرات

اقبال کی ابتدائی شاعری پر ایرانی صوفیانہ افکار کے اثرات نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔ چونکہ وہ فارسی ادب کے گہرے قاری تھے، اس لیے رومی، حافظ، عطار اور سعدی جیسے عظیم صوفی شعرا کے خیالات ان کی ابتدائی نظموں میں کسی نہ کسی صورت میں جھلکتے نظر آتے ہیں۔ اس دور میں ان کے ہاں تصوف کے خیالات اگرچہ مکمل پختگی کے ساتھ موجود نہیں تھے، تاہم ایک شعوری تاثر ضرور محسوس ہوتا ہے۔

جیسا کہ عبدالسلام ندوی نے بھی لکھا ہے، اقبال کے ابتدائی کلام میں بعض اشعار ایسے بھی ملتے ہیں جو بعد میں اُن کے اپنے ہی فلسفۂ خودی سے متصادم نظر آتے ہیں۔ مثلاً:

کامِ زندگانی جس کو کہتے ہیں فراموشی ہے یہ
خواب ہے، غفلت ہے، سر مستی ہے، بے ہوشی ہے یہ
میری ہستی ہی جو تھی میری نظر کا پردہ
اُٹھ گیا بزم سے، میں پردۂ محفل ہو گیا

فلسفہ خودی کی جھلک

اگرچہ فلسفۂ خودی اقبال کی شاعری میں بعد میں ایک مکمل فکری نظام کی صورت اختیار کرتا ہے، لیکن اس کے ابتدائی اور منتشر عناصر ان کی ابتدائی نظموں میں موجود تھے۔ یہ خیالات رفتہ رفتہ نکھرتے گئے اور اقبال کے نظامِ فکر کا مرکز بنے۔

چند نمایاں ابتدائی مظاہر یہ ہیں:

  1. خود شناسی اور انسان کی فضیلت:نظم “انسان اور بزمِ قدرت” میں انسانی عظمت کا پہلا اشارہ ملتا ہے۔
  2. عشق و عقل کی کشمکش:نظم “عقل و دل” میں یہ تصور ابھرتا ہے کہ دل (عشق) کو عقل پر فوقیت حاصل ہے، جو بعد میں خودی کی اساس بنتا ہے۔
  3. خیر و شر کی کشمکش:نظم “پرندہ اور جگنو” میں خیر و شر کے داخلی اور خارجی مظاہر کو ایک تمثیلی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
  4. بقا کا تصور:نظم “کنارِ راوی” میں بقائے دوام (ہمیشگی) کا مفہوم اقبال کی فکری گہرائی کو ظاہر کرتا ہے۔
  5. جہدِ مسلسل:اقبال کے ابتدائی کلام میں کاہلی، سستی، اور مایوسی کے خلاف ایک مزاحمتی جذبہ پایا جاتا ہے، جو آگے چل کر مسلسل جدوجہد کے فلسفے میں ڈھل جاتا ہے۔

گویا، اقبال کا ابتدائی دور تصوف، خودی، اور انسانی شعور کے درمیان ایک فکری سفر کی بنیاد ہے، جس میں بعض روایتی تصورات بعد میں ایک نئے اور انقلابی شعور میں بدل جاتے ہیں۔

حقیقت کی تلاش

پروفیسر طاہر فاروقی کے بقول، اقبال کی ابتدائی شاعری میں وہ ایک سچے متلاشی کے طور پر سامنے آتے ہیں، جو کائنات کے اسرار و رموز اور حقیقتِ مطلقہ تک رسائی چاہتا ہے۔ ان کی شاعری میں ایک ایسا وجدانی تجسس محسوس ہوتا ہے جو قدرت کے مناظر اور فطرت کے مظاہر کے پیچھے چھپی حکمت کو بے نقاب کرنا چاہتا ہے۔ وہ سوال اٹھاتے ہیں:

تم بتا دو راز جو اس گنبدِ گرداں میں ہے
موت، اک چھبتا ہوا کانٹا دلِ انساں میں ہے

ایسی نظموں میں “پرندے کی فریاد” اور “ایک آرزو” خاص طور پر نمایاں ہیں، جو حقیقت کی تلاش اور فطرت کے اسرار کو بیان کرنے کی کوشش ہیں۔ ان نظموں میں اقبال کے دل میں انجانی حقیقتوں کو پا لینے کی آرزو جا بجا جھلکتی ہے۔

وطن پرستی سے قوم پرستی تک

اقبال کی شاعری کے ابتدائی دور میں وہ ایک پرجوش وطن پرست شاعر کے طور پر سامنے آئے۔ اس زمانے کی نظموں میں “ترانۂ ہندی”, “ہندوستانی بچوں کا گیت”, “نیا شوالہ” اور “صدائے درد” جیسی نظمیں شامل ہیں، جن میں وطن کی محبت، قومی یکجہتی اور ہندوستانی تہذیب کا والہانہ اظہار ملتا ہے۔

تاہم، یورپ کے سفر اور وہاں کی تمدنی و فکری فضا سے آشنائی کے بعد، ان کے افکار میں نمایاں تبدیلی آئی۔ انہوں نے مغربی تہذیب کے ظاہری چمک دمک اور روحانی کھوکھلے پن کو محسوس کیا۔ اقبال نے وطن پرستی کے محدود تصور سے آگے بڑھ کر ملتِ اسلامی اور قومی تشخص کے اعلیٰ تصور کو اپنایا۔

یہی وجہ ہے کہ ان کے فکری سفر کا دوسرا دور اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس میں نہ صرف ان کی شاعری میں پختگی آئی، بلکہ وہ قوم و ملت کی فکری رہنمائی کی طرف بھی متوجہ ہوئے۔ تاہم، اس دور میں ان کی علمی و تدریسی مصروفیات زیادہ رہیں، جس کے باعث شاعری کو نسبتاً کم وقت دیا گیا، مگر جو کچھ لکھا، وہ فکری لحاظ سے نہایت وقیع اور پائیدار ثابت ہوا۔

رومانویت

یورپ میں قیام کے دوران اقبال کے ذہن پر حسن و عشق کی رنگین کیفیات اور محبت کی لطافتوں کا گہرا اثر رہا۔ اس دور میں ان کی بعض نظموں میں رومانوی جذبات کی جھلک نمایاں طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ محبت، حقیقتِ حسن، پیامِ حسن و عشق، وصال، اور جلوۂ حسن جیسی نظمیں اس رومانوی رجحان کی دلکش مثالیں ہیں۔ ان نظموں میں محبوب کے حسن کی پرستش، عشق کی شدت، اور وصال کی تمنا کا شاعرانہ بیان موجود ہے۔

تاہم، اقبال کی فکری اور روحانی ترقی نے جلد ہی ان رومانوی میلانات کو پس پشت ڈال دیا۔ یہ رومانویت ان کے ہاں محض ایک عارضی اور شاعرانہ تجربہ ثابت ہوئی، جو جلد ہی فکر، خودی اور ملت جیسے سنجیدہ موضوعات کے سامنے ماند پڑ گئی۔

پیامبری

یورپ میں قیام کے دوران ہی اقبال کے مشاہدات نے ان کی زندگی اور شاعری کا رخ بدل دیا۔ مغرب کی ترقی کے پیچھے جو علم، محنت، جدوجہد، اور تسلسلِ عمل کارفرما تھا، اس نے اقبال کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ انہوں نے محسوس کیا کہ اگر ان کے اپنے ہم وطن بھی ترقی چاہتے ہیں تو انہیں بھی زندگی کا نیا نظریہ اپنانا ہوگا۔

اسی تبدیلی کے زیر اثر، جیسا کہ مولانا عبدالسلام ندوی نے بھی بیان کیا ہے، اقبال نے محض شاعر کی حیثیت سے نہیں بلکہ پیامبرِ فکر و عمل کے طور پر اظہار خیال شروع کیا۔ اب ان کی شاعری صرف جمالیاتی تجربہ نہیں رہی بلکہ ایک قومی اور روحانی بیداری کا پیغام بن گئی۔

اس نئے انداز کی جھلک ہمیں ان کی نظموں “طلبہ علی گڑھ کالج کے نام”, “چاند اور تارے”، اور “کوششِ ناتمام” میں بخوبی نظر آتی ہے:

اوروں کا ہے پیام اور، میرا پیام اور ہے
عشق کے درد مند کا طرزِ کلام اور ہے
آئی تھی کوہ سے صدا، رازِ حیات ہے سفر
کہتا تھا مورناتواں، لطفِ خرام اور ہے

یورپی تہذیب سے بیزاری

اقبال نے یورپ میں قیام کے دوران وہاں کی ترقی، سائنسی پیش رفت، اور نظام تعلیم سے بہت کچھ سیکھا، مگر ساتھ ہی انہوں نے یورپی تہذیب کے کھوکھلے پن، مادہ پرستی، روحانی زوال، اور اخلاقی گراوٹ کو بھی قریب سے محسوس کیا۔ وہ اس تہذیب کی چمک دمک کے پیچھے چھپی بے روح زندگی سے بیزار نظر آتے ہیں۔

اقبال نے مغرب کی ان خوبیوں کو سراہا جو علم، نظم و ضبط، عمل، اور تحقیق سے متعلق تھیں، مگر وہ اس تہذیب کے اس حصے سے شدید نالاں تھے جو دین سے دور، انسانیت سے بیگانہ، اور اخلاقی اقدار سے عاری تھی۔

اسی بیزاری کا اظہار وہ اپنی شاعری میں جابجا کرتے ہیں۔ ان کے اشعار ایک طرف یورپی مادہ پرستی پر تنقید کرتے ہیں تو دوسری جانب اپنی قوم کو بیداری، خودی، اور روحانیت کی دعوت دیتے ہیں:

دیارِ مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
خرا جسے تم سمجھ رہے ہو، وہ اب زرِ کم عیار ہو گا

اقبال کو یقین تھا کہ وہ تہذیب جو محض مادہ پرستی، طاقت کے نشے، اور خودغرضی پر قائم ہو، وہ زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتی:

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائیدار ہو گا

یہ پیش گوئی وقت کے ساتھ سچ ثابت ہوتی نظر آئی۔ اقبال کی یہ بیزاری کسی تنگ نظری کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک عالمی شعور رکھنے والے مفکر کی روحانی بصیرت تھی، جس نے انسان کو ظاہری ترقی سے آگے بڑھ کر باطنی تکمیل کی طرف بلایا۔

اسلامی شاعری

اقبال کے فکری ارتقاء کا دوسرا دور اس وقت شروع ہوتا ہے جب وہ مغرب کے ظاہری چمک دمک سے آگے بڑھ کر اسلامی فکر و تہذیب کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ یورپ کے قیام نے انہیں جہاں سائنسی اور تعلیمی ترقی سے متاثر کیا، وہیں مغربی معاشرتی زوال، روحانیت سے بیگانگی اور اخلاقی گراوٹ نے ان کے اندر ایک نئے شعور اور بیداری کو جنم دیا۔

اقبال نے جلد ہی محسوس کر لیا کہ مغرب کی اندھی تقلید قوم کو نجات نہیں دلا سکتی۔ انہوں نے یقین کے ساتھ یہ اعلان کیا کہ مسلم قوم کی فلاح صرف اس وقت ممکن ہے جب وہ اسلامی اقدار، روحانیت، اور اتحاد کو اپنائے۔

اسی تبدیلی فکر کا اظہار وہ شیخ عبدالقادر کے نام اپنے ایک نظم میں یوں کرتے ہیں:

اُٹھ کہ ظلمت ہوئی پیدا اُفقِ خاور پر
بزم میں شعلۂ نوائی سے اجالا کر دے

اقبال کے دل میں جوشِ اسلامی قومیت نے وطنیت کے پرانے تصورات کو بدل دیا۔ اب ان کے نزدیک وطن محض ایک جغرافیائی حدود کا نام نہ رہا بلکہ ملتِ اسلامیہ کا اتحاد، نظریاتی رشتہ، اور روحانی یگانگت ہی اصل وطن تھا:

نرالا سارے جہاں سے اُس کو، عرب کے معمار نے بنایا
بنا ہمارے حصارِ ملت، اتحادِ وطن نہیں ہے

اقبال کی اسلامی شاعری ایک طرف مسلمانوں کی فکری رہنمائی کرتی ہے اور دوسری طرف غیر مسلم دنیا کے سامنے اسلام کا پیغام بھی پیش کرتی ہے۔ ان کا کلام امت کے لیے ایک صحیفہ فکر بن جاتا ہے، جس میں خودی، عشق، حریت، قربانی اور روحانی بالیدگی کے پیغامات پوشیدہ ہیں۔

Book Cover

علامہ محمد اقبال کی نظم نگاری کی خصوصیات

Rating: ★★★★☆
  • Author: ravinotes.com

  • File Size: 1.22 MB

  • Format: PDF

  • Notes: Urdu

  • Price: Free

Leave a Comment