امراؤ جان ادا میں لکھنوی تہذیب کی عکاسی

ناول امراؤ جان ادا میں لکھنوی تہذیب و معاشرت کی عکاسی: امراؤ جان ادا مرزا ہادی رسوا کا ایک مشہور ناول ہے جو لکھنوی تہذیب اور زوال پذیر معاشرت کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ کہانی ایک طوائف امراؤ جان کی سرگزشت بیان کرتی ہے جو نا صرف اس کی ذاتی زندگی بلکہ اس دور کے سماجی اور اخلاقی اقدار کو بھی اجاگر کرتی ہے۔ ناول میں جاگیردارانہ نظام، طوائفوں کی زندگی، رقص و موسیقی، اور اشرافیہ کے زوال کو حقیقت پسندانہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔

مرزا ہادی رسوا نے اسے ایک خودنوشت کی شکل میں تحریر کیا ہے، جو قاری کو براہ راست کرداروں کے احساسات اور جذبات سے جوڑتا ہے۔ یہ اردو ادب کا پہلا حقیقت پسند ناول سمجھا جاتا ہے جو آج بھی اپنی ادبی و تاریخی حیثیت برقرار رکھے ہوئے ہے۔

ناول امراؤ جان ادا میں لکھنوی تہذیب و معاشرت کی عکاسی

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ رسوا نے اپنے ناول امراؤ جان ادا میں لکھنوی معاشرت کی عکاسی کی ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ اس وقت پاور اخلاقی و سیاسی لحاظ سے زوال پذیر معاشرہ تھا۔ خاص کر معاشرے کے اس طبقے کی عکاسی کی گئی جس کا تعلق کسی نہ کسی طریقے سے چکلوں ، طوائفوں، نغمہ خوانوں،زرداروں، نوابوں، ضمیر فروشوں ، ڈاکوؤں ، بد معاشوں اور بد کردار لوگوں سے ہو ان کی عکاسی کی گئی ہے۔

امراؤ جان ادا میں لکھنوی تہذیب و معاشرت کی عکاسی
امراؤ جان ادا میں لکھنوی تہذیب و معاشرت کی عکاسی

پروفیسر عبد السلام کے مطابق انہوں [ رسوا) نے ایک معمولی قصہ کو تخیل کی مدد سے لکھنوی تہذیب کا آئینہ دار بنا دیا ہے۔ اسی مضمون میں وہ ایک اور جگہ لکھتے ہیں:

“اس ناول میں صرف ایک طوائف کی داستان ہی نہیں ملتی طوائف کی زندگی محض ایک وسیلہ ہے جس کے ذریعے واجد علی شاہ کے لکھنو کی ایک جھلک نظر آتی ہے۔”

ڈاکٹر احسن فاروقی کو رسوا کے ہاں تخلیقی عنصر کی کمی محسوس ہوتی ہے مگر اس دور کی معاشرت کیحقیقت نگاری کے بارے میں لکھتے ہیں:

“زمانہ حاضر کی معاشرت کو وہ اس طرح پیش کر رہے ہیں جیسے کہ اخباروں میں روز مرہ تاریخ سامنے لائی جاتی ہے اور اس کا صحیح ہونا اس کے خوبصورت اور دلکش ہونے سے زیادہ اہم ہے۔”

امراؤ جان ادا کے موضوع کے بارے میں اس کے مقدمے میں ڈاکٹر خورشید الاسلام لکھتے ہیں:

” امراؤ جان ادا کا موضوع زوال ہے۔۔۔۔ یہ زوال ایک خاص معاشرت کا ہے اور وہ معاشرت اودھ کے لوگوں کا رہن سہن. چند شہروں تک محدود ہے۔”

فرمان فتح پوری پروفیسر عبد السلام کے نظریے کی حمایت میں لکھتے ہیں:

“اس ناول [ امراؤ جان ادا] کا مقصد خاص امراؤ جان ادا کی سرگزشت بیان کرنا نہیں بلکہ اس کےبہانے اپنے عہد کی معاشرتی اور سماجی زندگی کی عکاسی ہے۔”

ڈاکٹر میمونہ انہاری کھتی ہیں:

“مرزا نے اپنے ناولوں کا مواد لکھنو کی معاشرت و زندگی سے لیا ۔۔۔۔۔ انہوں نے یہاں کے شریف زادوں ، ان کے مصاحبوں جلیسوں ، ذات شریفوں یعنی سفید پوشوں ، لفنگوں ، طوائفوں ، شریف زادوں اور بیگمات کو اپنے ناولوں میں ہیرو اور ہیروئن بنایا۔۔۔ اور سادگی ، صفائی اور سیدھے سادے انداز میں پیش کیا ۔”

ڈاکٹر سلیم اختر لکھتے ہیں:

“رسوا نے طوائف کے کوٹھے کو عیاشی کا اڈا نہیں بتایا بلکہ ایک تہذی علامت کے طور پر پیش کیا ہے۔ لکھنو میں طوائفیت ایک جداگانہ دبستان تھی اور یہ ناول اسی دبستان کے اجڑنے کا قصہ ہے مگر اس انداز میں پیش کیا ہے کہ اس کو ٹھے پر آنے والے مختلف افراد اپنی انفرادی حیثیت سے قطع نظر اپنے مخصوص طبقہ کے نشان اور ترجمان بھی بن جاتے ہیں۔ یوں خانم کا کوٹھا چھوٹے پیانے پر لکھنو بن جاتا ہے۔”

زوال اودھ

امراؤ جان ادا میں لکھنوی تہذیب اور معاشرت کے جس پہلو کو سامنے لایا گیا ہے۔ اس کا تعلق اس شہر کی عیاشی سے متعلق زندگی سے ہے۔ یہ اودھ کی معاشرت کے انحطاط اور زوال کا پہلو ہے۔ طوائف کی زندگی کے بارے میں بہت سے ناول لکھے گئے ہیں ۔ اس کا سلسلہ نشتر سے شروع ہوتا ہے اور زمانہ حال تک طوائف ادیبوں کا دلپسند موضوع رہا ہے۔(5)

پریم چند نے بھی بازار حسن لکھ کر اس میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ قاضی عبد الغفار نے طوائف کی زندگی کو محض ایک فلسفی اور ناول نگار کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ اس کے خیر وشر سے اسے کوئی تعلق نہیں ۔ شام اودھ میں لکھنو کے ایک خاص طبقہ کی زندگی بڑی چابکدستی اور کامیابی سے پیش کی گئی ہے۔ بلکہ واجب علی شاہ نے لکھنو کی تہذیبی جھلک تو اردو کی داستانوں تک میں نظر آتی ہے جو آج کے دور میں آگ کا دریا میں قراۃ العین حیدر نے اودھ کی زوال پذیر تہذیب پیش کی ہے۔

سرشار نے یہی کام طوالت سے کیا۔ اس طرح لکھنوی تہذیب و معاشرت کی یہ پھیلی اور بکھری ہوئی تصویر اپنا مجموعی اور کامیاب تاثر پیدا کرنے میں کامیاب ہوسکی۔ رسوا لکھنو کی کامیاب اور موثر تصویر دکھانا چاہتے تھے ۔ وہ اس تصویر کو مختصر کینوس پر بنانا چاہتے تھے اور اس کے خدو خال میں جزئیات کو اس ہنر مندی سے سمو نا چاہتے تھے کہ دیکھنے والے پیش منظر سے گزر کر پس منظر تک پوری طرح آگاہ ہو سکیں۔ وہ کسی ایسی جگہ کی تلاش میں تھے جہاں سے زندگی کا ہر گوشہ نظر آئے اور اس مقام اور منظر کی بدولت ان سب کا مفہوم واضح ہو جائے۔

چنانچہ زوال پذیر معاشرت کے مطالعہ کے لئے انہوں نے خانم کے نگار خانے کو مناسب مقام سمجھا اور حقیقت یہ ہے کہ اس مقصد کے لئے اور کوئی منظر اور مقام اتنا موزوں نہ ہو سکتا تھا۔ انہوں نے طوائف کی آنکھ کے در یچے سے لکھنو کی تہذیب اور لکھنو والوں کو دیکھا اور دکھایا ۔

جاگیردارانہ نظام

طوائف لکھنو کے جاگیر دارانہ نظام کا ایک اہم ترین حصہ تھی اور ترکہ میں بے شمار دولت اور جاگیر دارا نہ تہذیبی روایات پانے والے نوابوں اور نواب زادوں کے لئے وقت گزاری کا ایک اہم مشغلہ تھی ۔ وقت گزاری تو علماء کی مصاحبت اور داستان گویوں کی رفاقت اور سماجی بھلائی کے کاموں میں منہمک ہو کر بھی کی جا سکتی تھی مگر یہ مشاغل اپنے اندر اتنی کشش اور دلچسپی نہ رکھتے تھے۔

حتی کہ طوائف کی مصاحبت طوائف اس نظام کا اہم ترین حصہ بن چکی تھی۔ شریف زادے ان کو کوٹھوں پر آداب محفل سیکھنے اور تہذیب کی تکمیل کے لئے جاتے تھے۔ اس ناول سے پتا چلتا ہے کہ امراؤ کے نجی معاملات میں بھی ان سے مدد لی جاتی تھی ۔ سوز خوانی کے ذریعے مذہبی تقاریب میں بھی ان کا عمل دخل تھا۔

ان کے کوٹھوں پر نہ صرف فنون لطیفہ، رقص اور موسیقی کا درس دینے والے لوگ آتے بلکہ دینی تعلیم دینے کے لئے علماء دین بھی آتے تھے ۔ غریب طبقے کا تعلق اس طبقے سے اس حد تک کہ وہ میلوں ٹھیلوں میں طوائف کو دلچسپ تماشہ پیش کریں اور امراؤ جان جیسی تعلیم یافتہ اور مہذب طوائف کے چہروں کو دیکھ کر نفسیات بینی کا شوق پورا کریں۔

لکھنو کی اسی طوائف کے یہاں آپ کو ہر قسم کے اور ہر عمر کے لوگ نظر آئیں گے۔ شریف زادے، مولوی مقطع بزرگ، چھٹے ہوئے شہدے ڈا کو ڈومنیوں کے لڑکے، چھڑی مار ، زمانے کے مکر و فریب سے ناواقف نوجوان، جہاں دیدہ بزرگ جن کا سن شریف ستر کو پہنچ چکا ہو۔ یہی نہیں یہاں باپ بیٹوں کی ایک ہی وقت مدھ بھیٹر بھی ہو جاتی ہے۔ اس طرح دریا کوزے میں بند کرنے کے لئے صرف خانم کا کوٹھا ہی موزوں مقام تھا۔

لہولعب سے بھر پور زندگی

امراؤ جان ادا میں وہ لکھنوی تہذیب کے جس پہلو کو پیش کرنا چاہتے ہیں اس تعلق سے اس شہر کو لہو لہب سے بھر پور زندگی ہے۔ یہی زندگی قوموں کے زوال کا باعث ہوتی ہے۔ وہ اس زندگی کی قدروں کوایک خاص فلسفیانہ اور اخلاقی زوایہ نظر سے پیش کرنا چاہتے ہیں۔

طوائفیں ، نامحرم اور نا پسندیدہ ہونے کے با وجود یہاں کی مجلسی زندگی اور خانگی زندگی پر حاوی ہیں ۔ اس معاشرہ کی زندگی کا ہر پہلو ان کے دم قدم سے آباد سے ہے۔ خوشی اور غم اس کے بغیر نامکمل اور بے کش ہے۔۔۔ اور پھر یہ طوائفیں آسمان سے نہیں ٹپکیں بلکہ اسی معاشرے کی پیداوار ہیں۔ اغوا ہو کر یا کسی معاشی اور معاشرتی مجبوریوں کے ہاتھوں طوائف کے مقام تک پہنچیں ۔

لہذا وہ نہ صرف یہ کہ نوابین اور امراء کے درباروں میں آنے جانے ، خلوت کدوں ان کی آغوش گرمانے ، ان کے طرز بود و ماند، ان کے خیالات و افکار، ان کی ذہنیت، ان کی سوچ ، ان کی زندگی کے جلی و خفی اور پہلوؤں سے آگاہ تھیں بلکہ وہ یہ بھی جانتی تھیں کہ نچلے درجے کے یا متوسط طبقے کے لوگ کس طرح رہتے ہیں؟ اور وقت کیا سوچتے ہیں؟ ان کی خوشیاں اور امنگیں کیا ہیں؟

ان کے اعتقادات اور تعصبات کی فہرست میں کیا کچھ آتا ہے۔ اس معاشرت اور اس زندگی کے ان تمام پہلوؤں کا اختصار سے مطالعہ کرنا اور مکمل تصویر بننا تا کہ اس کے ادھورے ہونے کا خیال نہ ہو اور ایسی جگہ کا انتخاب کرتا جہاں سے زندگی کا ہر گوشہ نظر آئے اور اس طرح نظر آئے کہ اس کا مفہوم واضح ہو جائے اور زوال پذیر معاشرت مکمل طور پر ہماری نگاہوں میں چمک اٹھے، اس کے لئے خانم کو کوٹھا ہی موزوں مقام تھا۔(5)

اس نگار خانے کی رہنے والیوں میں سے امراؤ جان کی موزونیت اس لئے ہے کہ وہ خاندانی طوائف نہ ہوتے ہوئے اس پیشے سے دلی نفرت کرتی ہے۔ مگر اس کے باوجود طوائف بھی رہتی ہے۔ وہ ایک ایسا وسیلہ ہے جس کے ذریعے ہم نوابوں کو اور ان کے متوسلین اور متعلقین کو خوب اچھی طرح جان جاتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ عوام سے ملنے اور ان کے افکار و اعمال سے واقفیت ہوتی ہے۔

خانم کے نگار خانے کے حوالے سے ہی ہم اونچے طبقے سے متعارف ہوتے ہیں، عوامی جذبات و احساسات سے باخبر ہوتے ہیں اور اس تمدن کی مکمل تصویر دیکھ پاتے ہیں۔

عوامی زندگی

رسوا نے اپنے ناول میں جہاں خانم کے کوٹھے کے حوالے سے نوابوں ، رئیسوں کی زندگی کی تصویر دکھاتی ہے وہاں اس معاشرے میں پھیلی ہوئی عوامی زندگی کی جھلکیاں بھی دکھاتی ہیں۔ ان جھلکیوں میں لوگوں کے فکر و عمل ، رسم و رواج ، اعتقادات، او ہام، پسند و نا پسند کا عکس دکھائی دیتا ہے۔

 

امراؤ جان ادا میں ہر کردار کی تخلیق کے ایک سے زیادہ پہلو ہیں ۔ یہ کردار امراؤ کے رشتے کے اندر ایک قسم کی مناسبت رکھتے ہیں مگر فطرتاً مکمل تضاد کے حامل ہیں ۔ اس کے علاوہ ان کرداروں کی تخلیق میں انفرادی مقاصد بھی ہیں ۔ یہ خاص ضرورت کے تحت تخلیق کئے گئے ہیں۔ ان میں سے ہر کردار اپنے مخصوص دائرے پر روشنی ڈالتا ہے۔ اس خاص زندگی کو منور کرتا ہے اور غائب ہو جاتا ہے۔ ہر کردار اپنے پورے گروہ کی نمائندگی کرتا ہے۔

بقول ڈاکٹر عبدالسلام:

“ناول کافی مختصر ہے مگر اس میں غدر سے پہلے کے لکھنو کی زوال آمادہ تہذیب، وہاں کی پر تکلف زندگی، معاشرتی قدریں، سیر تماشے، غدر کے ہنگامے، مختلف طبقوں پر اس انقلاب عظیم کے اثرات ،سب کچھ بیان کر دیا ہے۔“

رسوا صرف نوابوں اور طوائفوں کی زندگی ہی کے نباض نہیں بلکہ وہ عوام، ان کے احساسات اور تفریحات سے بھی بخوبی واقف ہیں۔ چنانچہ فیض علی صرف ہمارے سامنے ایک ڈاکو کی حیثیت سے آتا ہے۔ وہ پیشہ ور نہیں ہے بلکہ غدر کے اثرات کی پیداوار ہے۔

وہ بنیادی طور پر شریف النفس ہے مگر ظلم، نا انصافی قتل و غارت اور بے کاری نے اس کو ڈا کو بنا دیا۔ اس کے اندر شیطان کا ساز و اور زلزلہ ہے جو دشمن کو فنا کر دیتا ہے۔ لیکن دوست کی نشانی کو کسی طور پر بھی اپنے سے الگ نہیں کرتا۔ وہ معرکے سر کرنے کا عادی ہے۔اپنی زبان کا پکا اور قول کا دھنی ہے۔

یہ اس زوال آمادہ تہذیب کے نو جوانوں کا نمائندہ ہے جو کچھ کر گزرنے کا ارادہ تو رکھتے ہیں مگر معاشرتی عوامل اور حالات کے خارجی دباؤ سے متاثر ہو کر مناسب رہنمائی کے فقدان کی وجہ سے گمراہ ہو جاتے ہیں۔ ناول کے بارے میں ایک محقق کا بیان کچھ یوں ہے:

“امراؤ جان ادا کے تمام کردار اپنی افعال و کردار سے اپنے معاشرے اور معاشرتی اقدار کی غمازی کرتے ہیں۔ ان کرداروں میں ہر ایک جماعت کا نمائندہ بھی ۔”(4)

بقول رام بابو سکسینہ مصنف تاریخ ادب اردو:

“ہم نے کسی ناول میں اتنی دلچسپی ، اتنی کثرت واقعات اور فطرت انسانی کا اتنی واضح اور صحیح تصویر نہیں دیکھی۔ اس میں زمانے کی طرز معاشرت اور سوسائٹی کے ہو بہو ننقشے کھینچے گئے ہیں جن میں کسی قسم کا مبالغہاور آوردہیں ہے۔”

Book Cover

امراؤ جان ادا میں لکھنوی تہذیب و معاشرت کی عکاسی

Rating: ★★★★☆
  • Author: ravinotes.com

  • File Size: 1.05 MB

  • Format: PDF

  • Notes: Urdu

  • Price: Free

Leave a Comment